ایم کیو ایم اپنی تباہی کی طرف گامزن

گیارہ مئی 2013 کے الیکشن سے قبل ایم کیو ایم گذشتہ پانچ سال تک ایک ایسی حکومت کا حصہ رہی ہے جس سے زیادہ کرپٹ حکومت کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہے، اسکے علاوہ ایم کیو ایم پر یہ عام الزامات تھے کہ بھتہ خوری اور ٹارگیٹ کلنگ میں یہ جماعت ملوث ہے اور اسکے سب سے زیادہ لوگ ان جرائم میں پکڑئے بھی گےہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ دوسری طرف ایم کیو ایم کو پیپلز پارٹی اور اے این پی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا نشانہ بھی بنایا جارہا تھا۔ اسی ماحول میں گیارہ مئی کے الیکشن ہوئے، عوام کافی تعدادمیں باہر آئے اور ووٹ ڈالے مگراُسی شام الیکشن کمیشن نے کراچی میں ہونے والے الیکشن میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا اور اس سے پہلے ہی جماعت اسلامی اور کچھ اور جماعتوں نے الیکشن کے بایکاٹ کا اعلان کردیا۔ یہ درد سر الیکشن کمیشن کا تھا کہ کہاں کہاں دھاندلی ہوئی اور اسکو کیسے ٹھیک کرئے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کوتاہیاں اور ناکامیاں ایک داستان کی صورت میں ہم سب جان چکے ہیں ۔ کراچی سے لیکر فاٹا تک ہر کوئی الیکشن کمیشن کو رو رہا ہے۔ مگر یہ رونا تو ابھی کا ہے اور جلدہی ختم ہوجائے گا لیکن کراچی کے عوام تو ایک عرصہ دراز سے رو رہے ہیں، ایک دن بھی سکون کا نہیں گذرتا ہر سال مرنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو جہاں یہ صورتحال ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جو شہر روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا ، جسے منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے امن وامان کا گہوارا ہوا کرتا تھا ، اب یہ شہر جرائم پیشہ افراد، دہشت گردوں، بھتہ خوروں، لٹیروں اور سفاک قاتلوں کے مکمل قبضہ میں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے اور پورا شہر بغیرکسی قانون کے چل رہا ہے۔ 2012 میں کراچی میں ناگہانی اموات کی تعداد 2300 سے زیادہ ہے۔

ہر شعبے کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے مثلا ایک ڈاکٹر جب اپنے شعبے کے بارئے میں بات کرتا ہے تو وہ میڈیکل کی زبان کہلائے گی، ٹھیک اسطرح سیاست کی بھی ایک زبان ہوتی ہےاور ایک سیاست دان جب کوئی بیان دیتا ہے یا بات کرتا ہے تو وہ ایک سیاسی زبان استمال کرتا ہےوہ اپنے مخالفوں کو جب مخاطب کرتا ہے تو انکی تمام برایئوں کا ذکر کرتا ہے لیکن اپنی زبان سے ناشاستہ بات نہیں کرتا لیکن بدقسمتی سے الطاف حسین کو اپنی زبان پر بلکل قابو نہیں ہے، جنوری 2013 کی بات ہے کہ وہ اپنی اور علامہ طاہرالقادری کی دہری شہریت کی وکالت کرتے ہوئے قائداعظم پر حملہ کربیٹھےالطاف حسین نے کہا تھاکہ " قائد اعظم محمد علی جناح سلطنت برطانیہ کے وفادار تھے"، الطاف حسین نے دعویٰ کرتے ہو ئے کہا کہ وہ ثابت کردیں گے کہ قائد اعظم کے پاس برطانوی پاسپورٹ تھا۔یہ بات نہ قابل سمجھ ہے کہ الطاف حسین کو قائد اعظم محمد علی جناع سے کیا تکلیف ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں کہ الطاف حسین نے قائد اعظم کے متعلق بیان دیا ہو۔اب سےکچھ عرصے پہلے بھی وہ قائد اعظم کو سیکولر بناچکے ہیں ۔ اس سے قبل ہندوستانی دورئے میں الطاف حسین پاکستان کی نفی کرچکے ہیں، چند سال قبل دہلی میں الطاف حسین نے کھلے عام لفظوں میں ہندوستان کی بیورو کریسی سے التجا کی تھی کہ کراچی میں ’’مہاجروں‘‘ کیلئے بارڈر کھول دیا جائے تاکہ وہ سب اپنے گھروں میں واپس لوٹ آئیں۔ الطاف حسین کے متنازعہ بیانات سے نہ صرف ایک محبِ وطن پاکستانی کو دکھ ہوتا ہے بلکہ انکی اپنی سیاسی جماعت کو بھی نقصان ہوتاہے اور سب سے بڑھ کر ان لوگوں کو دکھ ہوتا ہےجن کے بزرگوں نے قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہا اورپاکستان ہجرت کی۔الطاف حسین کہتے ہیں کہ 99فیصدعوام کوتاریخ سے آگا ہی نہیں جبکہ وہ خود تاریخ سے نابلد نظر آتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو اسکی کامیابی پر مبارکباد سبکو دینی چاہیے تھی مگر ہمارئے ملک میں یہ رواج قائم ہونے میں ابھی کچھ عرصہ لگے گا۔ نواز شریف کو سب سے پہلے الطاف حسین نے ہی مبارک باد دی لیکن اسکے ساتھ ساتھ حسب دستور اپنی زبان پرقابو نہ رکھ سکے اور ان پر پنجابی مینڈیٹ کی پھبتی کسی اور اسے جاگ پنجابی جاگ کے نعرے کا نتیجہ قرار دئے ڈالا، ان کے اس بیان کو عام طور پر ناپسند کیا گیا۔ دوسرے روز انہوں نے پاکستان کے حکمرانوں اور ارباب اختیار کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ" اگرآپ کو کراچی اور کراچی کے عوام کا مینڈیٹ پسند نہیں ہے تو صبح شام کراچی والوں کو مغلظات بکنے کی بجائے کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کیوں نہیں کردیتے"، اس بیان پر پورئے پاکستان میں احتجاج کیا گیا۔ اگلا بیان پی ٹی آئی کی حمایت میں دھرنا دینے والوں کو دھمکی تھا۔ پھر پاکستانی میڈیا کے لیے فرمادیا کہ"کارواں چلتے ہیں، کتے بھونکتے ہیں"، اسکے علاوہ وہ مسلسل اپنی تقریروں میں گندی زبان استمال کرتے رہے ہیں۔ ایک سیاسی لیڈر کے طور پر یہ زبان جو گذشتہ چند دنوں میں انہوں نے استمال کی ہے اسکو کبھی بھی پسند نہیں کیا جاسکتا۔ لگتا ہے الطاف حسین اپنے خلاف بات نہ سننے کے اسقدر عادی ہوگے ہیں کہ وہ تھوڑی سی مخالفت ہونے پر ہی گھبراگے ہیں۔

پاکستانی عوام نے سابقہ حکومتی اتحاد کی چار پارٹیوں میں سے اے این پی اور مسلم لیگ ق کو تومکمل طور پر رد کردیا جبکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اپنے اپنے علاقوں سے ہی کامیاب ہوپائے، چار کے ٹولے نے گذشتہ پانچ سال میں عام لوگوں کو جو کچھ دیا اسکا بدلہ عوام نے لے لیا۔ کراچی میں کافی عرصے سے عام لوگ خوف اور دہشت کے ماحول میں ہیں اور لوگ اس کو بدلنا چاہتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ ایم کیو ایم کے خلاف کراچی سے آواز اٹھی ہے اور اگر ایم کیو ایم اور اسکے لیڈراپنی سیاسی بقا چاہتے ہیں تو انکو اپنے طور طریقے بدلنے ہونگے اور خاصکر الطاف حسین کو اپنی زبان پر قابو کرنا ہوگا۔ ورنہ کہا جاسکتا ہے کہ ایم کیو ایم اپنی تباہی کی طرف گامزن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: برائے مہربانی اس مضمون پر تبصرہ ضرور کریں مگر اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485318 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More