مریم ثمر
28 مئی کو پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے یہ دن
پاکستان میں یومِ تکبیر کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے ،آج سے ٹھیک 15سال
قبل پاکستان ایک عالمی ایٹمی قوت بن کر اُبھرا ساتھ ہی ایٹم بم بنانے والے
ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا۔دنیا میں اس وقت 9ممالک کے پاس ایٹمی قوت و
صلاحیت موجود ہے ۔ اسلامی ممالک کی فہرست میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کے
پاس ایٹم بم جیسی زبردست طاقت موجود ہے۔
پاکستان کے عوام کے تحفظ اور ملک کی سلامتی کے لئے یہ قدم اُٹھانا کس قدر
ضروری تھا ،اس بات کا موازنہ بھارت کی بڑھتی ہوئی جارحیت سے کیا جاتا ہے ۔بھارت
کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک بھی ایٹم بم کی دوڑ میں شامل ہو چکے تھے ،یہی وجہ
ہے کہ خاص طور سے بھارت کی طرف سے دھمکی آمیز رویے اور ماضی کے جارحانہ
عزائم کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو ایک طرح سے مجبورا یہ قدم اٹھانا پڑا جس
پر پوری قوم فخر کرنے میں بجا طور پر حق بجانب ہے،اکثریت اس عظیم کارنامے
کو ستائش اور فخر کا باعث سمجھتی ہے ،ان کے خیال میں اس اقدام سے بھارت کا
منہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے ، اسرائیل نے دم سادھ لی ہے ،اور دیگر دشمن
ملک پاکستان سے خوف اور دہشت کی وجہ سے منہ میں گُھگیاں ڈال کے بیٹھ گئے
ہیں ،اور پاکستان سے تھر تھر کانپ رہے ہیں۔حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ،یہ
محض تصویر کا ایک رُخ ہے ۔تصویر کے دوسرے رُخ سے پردہ اُٹھا کے دیکھیں تو
بہت بھیانک اور خوفناک تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد پاکستان کے عوام کی فلاح
و بہبود کی طرف توجہ دی جاتی ،یہاں امن و امان کا دوردورہ ہوتا۔مگر وقت
گزرنے کے ساتھ ہی احساس ہوا کہ بیرونی دشمنوں سے زیادہ تو ہماری اپنی ہی
صفوں میں دشمن موجود ہیں جو ہمارے ملک کو کھوکھلا کر رہے ہیں،پاکستانی عوام
کی گردنیں جو ایٹم بم بنانے کے بعد فخر سے کھڑی ہوئیں تھیں ،آہستہ آہستہ
کٹنی شروع ہو گئیں ہیں ،ہوتے ہوتے یہ تعداد40ہزار تک جا پہنچی۔مگر یہ تو
محتاط اندازہ ہے ، تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔بلکہ لاکھوں تک پہنچ چکی ہے
۔ وہ افراد جو ہمیشہ کے لئے معذور ہو گئے، جو عورتیں بیوہ ہو گئیں،جو بچے
یتیم ہو گئے،جن کے سہاگ اُجڑ گئے،بہن بھائی جدا ہوئے،پورا خاندان بکھر گیا
۔۔کیا یہ سب زندوں میں ہیں ۔ان سب کو جیتے جی زندہ درگور کر دیا گیا ہے ،
اور یہ سلسلہ تھما نہیں ہے۔
آج پاکستان کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جو بلواسطہ یا بلا واسطہ پے در پے
ہونے والے حادثات سے متاثر نہ ہوا ہو۔یہ کیسی قیامتِ صغریٰ ہے ۔۔جو رکتی ہی
نہیں ۔۔یہ کیسا ایٹم بم ہے جو بیرونی حملوں سے تو محفوظ بنا گیا ۔۔مگر
اندرونی خلفشار ،اور بم حملوں کے آگے بے بس ہے۔پورا پاکستان تاریکی میں
ڈوبا ہوا ہے ،مگر ہمیں فخر ہے کہ ہم عالمی ایٹمی قوت ہیں ۔مہنگائی کے بم
روز چلتے ہیں مگر ہمیں فخر ہے ۔۔۔خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں مگر ہمیں
فخر ہے ۔۔کرپشن کی فہرست میں ہمارانام بھی ہے مگر ہمیں فخر ہے ۔۔حکمران
اللے تللوں میں پڑے ہیں ،عوام نفسیاتی مریض بنتی جا رہی ہے مگر ہمیں فخر ہے
،قوم روز جیتی ہے روز مرتی ہے ،مگر ہمیں پھر بھی فخر ہے ۔۔۔آج ملک کو
بیرونی حملوں سے تو بچا لیا ۔۔مگر یہ کیسی زندگی ہے کہ پوری پاکستانی قوم
اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں یرغمال ہے خوف کے سائے ہیں کہ چہار سو منڈلا رہے
ہیں -
ہر گھر ماتم کدہ ہے ،آہیں ہیں سسکیاں ہیں۔۔ایوانوں میں چراغاں ہے ،غریب
عوام اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے ایوانِ صدر ،پارلیمنٹ ہاؤس،گورنر ہاوس
،وزیراعظم ہاوس کی بجلی کیوں بند نہیں ہوتی ،۔کیا انصاف اور برابری کا یہاں
کوئی قانون نہیں؟؟۔اوہو!اچھا اس لئے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوامی فلاح و
بہبود کے منصوبے جو تشکیل دینے ہوتے ہیں ۔۔ ایسے منصوبے جن پر کم ہی عمل
ہوتا ہے اور پھر دن رات جاگ کر بھرپور روشنی میں غریبوں کو اندھیرں سے
نکالنے کے بارے میں محض سوچنا جو ہوتا ہے ۔ارے بھئی یہ ایٹم بم ملک کی
سلامتی کے لئے بنا ہے غریب عوام کا اس سے کیا تعلق کیا واسطہ۔۔ملک نہیں ہو
گا تو ہم نہیں ہوں گے ،غریب عوام نہیں ہوتے نہ سہی ،ملک کی بھاگ دوڑ
سنبھالنے کے لئے امراء اور نام نہاد حکمران جو موجود ہیں ۔اس لیئے ملک کا
ہونا اہم ہے ۔
28مئی کے اس تاریخی دن لاہور میں ہونے والے اس سانحہ کو بھی یاد رکھنا
ضروری ہے جب سرخ آندھی کے بیچ میں خوفناک اور دردناک خون کی ہولی کھیلی
گئی، اس دن جب90 سے زیادہ انسانی جانوں کا خون بہا کر انسانیت کی تذلیل کی
ایک ناقابلِ بیان تاریخ رقم کی گئی، جس دن نہتے انسانوں پر بے دریخ گولیاں
برسائیں گئیں،گڑھی شاہو اور ماڈل ٹاؤن کی عبادت گاہوں میں ان معصوم انسانوں
کا خون جس طرح بہایا گیا وہ انتہائی قابلِ مذمت اور افسوس ناک تھا۔
الغرض قتل وغارت ، دہشت گردی،بم دھماکوں، خود کشیوں،المناک حادثات و
واقعات، دلخراش داستانوں اور انسانی لاشوں کے ماتم کے بیچ میں اگر ایٹم بم
بنانے کے اس کارنامے پر پھر بھی خوشی کا اظہار اور فخر کرنا ہے تو شوق سے
کریں ،مگر کچھ دیر کے لئے یہ بھی ضرور سوچیں کہ عالمی ایٹمی طاقت ہونے کے
باوجودہم اندر سے کتنا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں،نفرتوں کی دیواریں کتنی
بلند ہو چکی ہیں،اخلاقی گراوٹ کا دن بدن شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
ہم اس بات کو سمجھ ہی نہیں پا رہے یا سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ بیرونی خطرات
سے زیادہ ہمیں اندرونی خطرات کا سامنا ہے ،کاش! ہم نے صوبائی ،لسانی ،فرقہ
وارانہ نفرتوں کو ہی کم کیا ہوتا تب ہم بھی بجا طور پر ایٹم بم بنانے پر
فخر محسوس کرتے ۔آج اندرونی معملات سدھر گئے ہوتے تو عوام بھی سکھ کا سانس
لیتی،ان کے چہرے پر بھی ایک کھلتی ہوئی مسکراہٹ ہوتی اور پاکستانی قوم
نفسیاتی الجھن کا شکار نہ ہوتی ۔ جس طرح یومِ تکبیر منایا جا رہا ہے اسی
طرح پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے انسانیت کا دن نہیں بلکہ ایک سال
منانے کی ضرورت ہے ۔ |