آپ نے ”سٹیٹس“ کو ووٹ دیئے ہیں تبدیلی کو نہیں

آنکھ مچولی کبھی بچوں کا کھیل تھا اور گلی محلوں تک محدود تھا۔ مگر اب یہ قومی کھیل ہے۔ بجلی کے محکمے نے اس کو اپنا لیا ہے اور ملکی سطح پر کھیلا جا رہا ہے۔ اس کھیل کی وجہ سے بظاہر حکومت بھی پریشان ہے اور عوام بھی۔ حکومت جمہوری ہے اور جمہوری حکومتوں میں سیاستدان کوئی پریشانی محسوس کریں یا نہ کریں مگر پریشا ن نظر آنا اور خود کو پریشان ظاہر کرنا اُ نکی مجبوری ہے۔ وہ عوامی نمائندے ہیں اور عوام کا درد محسوس ہوتا ظاہر کرنا سیاست میں زندہ رہنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ویسے سیاستدانوں کو بجلی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُن کے گھروں میں UPSہیں، جنریٹر ہیں اور بہت سے ایسے ہیں کہ جنہیں لوڈ شیڈنگ سے استثنیٰ حاصل ہے پریشانی انہیں عوامی نمائندگی کے حوالے سے دکھانی پڑتی ہے۔ اصل پریشانی عوام کو ہے جن کو کوئی استثنیٰ نہیں۔ جن کے پاس جنریٹر نہیں۔ UPS نہیں اور اگر چند لوگوں کے پاس ہیں بھی تو بجلی کے اس بحران کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ۔

پہلے بجلی سارے دن میں دو تین گھنٹے جاتی تھی کچھ دن پہلے گھنٹہ گھنٹہ کھیل شروع ہوا۔ اب سارے دن میں بمشکل دو تین گھنٹے آتی ہے۔ جس دن گھنٹہ گھنٹہ کھیل ہو جائے لوگ سکھ کا سانس لیتے ہیں لیکن یہ کسی کسی دن ہوتا ہے۔ جب موسم بھی خوشگوار ہوتا ہے۔ روزانہ کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ بجلی کب آئے گی اور کب جائے گی۔ بجلی والوں کو فون کرو کہ کیا شیڈول ہے۔ کیا بتائیں۔ اُن کے پاس شیڈول تو ہوتا ہے مگر اُس پر کوئی عمل ہی نہیں ہوتا۔ بیچارے سہمے سہمے اپنی بے چارگی کا اظہار کرتے ہیں۔ کوئی گالیاں بھی نکال دے تو خوشدلی سے برداشت کر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔ سرکاری نوکری خصوصاً بجلی کے محکمے کی نوکری اب ایک لاچاری بن کر رہ گئی ہے۔

راجہ پرویز اشرف وزیر تھے تو ان کی طرف سے ایک مستقل نوید تھی کہ 31دسمبر تک بجلی کا بحران ختم ہو جائے گا۔ کونسا 31دسمبر ، سال انہوں نے نہیں بتایا تھا۔ کیونکہ یہی انداز پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوریت کا حسن تھا۔ اُن کی حکومت ختم ہو گئی ۔ بحران ختم نہیں ہوا۔ 31دسمبر والا وہ سال اُن کے دور میں نہیں آیا اورا ب کبھی نہیں آئے گا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) بجلی کے بحران سے اُن کی زبردست ناقد تھی۔ خصوصاً میاں شہباز شریف اپنی تقریروں میں اُن پر زبردست تنقید کرتے تھے کہ پیپلز پارٹی کے نا اہل لوگوں میں یہ بحران ختم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ انہوں نے بہت سے دعوے کیے تھے کہ اگر اُن کی حکومت آئی تو وہ یہ بحران دو ماہ میں ختم کر دیں گے۔ چار ماہ میں ختم کر دیں گے۔ چھ ماہ میں ختم کر دیں گے۔ ایک سال میں ختم کر دیں ۔ دو سال میں بحران ختم نہ ہوا تو وہ نام بدل لیں گے۔ اگر یہ ساری مدتیں اکٹھی شمار کر لی جائیں تو بھی اس بحران کو چار سال سے کم عرصہ لگنا چاہیے۔

رب العزت نے میاں برادران پر احسان کیا کہ اس بحران سے نپٹنے کے لیے اقتدار انہیں سونپ دیا ہے۔ لوگوں کو اُن سے بہت اُمیدیں ہیں مگر یہ کیا کہ میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ یہ توقع نہ کریں کہ آج حکومت آئی تو کل بجلی آجائے گی۔ اس کے لیے صبر کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ حالات کٹھن ضرور ہیں اور مسائل کے پہاڑ ورثے میں ملے ہیں۔ لیکن مجھے اُمید ہے کہ انشاءاللہ تبدیلی آئی گی۔ ہر گھر میں روشنیوں کے چراغ جلیں گے(ویسے چراغ جلیں گے کب یہ تو پتہ نہیں۔ لالٹین ہر گھر میں جلنا شروع ہو گئی ہے ) نواز شریف نے مزید کہا کہ اُن کے پاس اس مسئلے کا کوئی فوری حل موجود نہیں۔ لوگ برائے مہربانی یہ مت سوچیں کہ ہم چند دن میں بجلی کا بحران حل کر دیں گے۔

چند دن پہلے میاں شہباز شریف کے دعوؤں کے حوالے سے میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ شہباز شریف جذباتی آدمی ہیں۔ یہ بحران کب ختم ہو گا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ شہباز شریف وعدے کر سکتے ہیں ، میں نہیں۔ یعنی الیکشن کے وعدوں کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ روایتی سیاست شاید اسی کا نام ہے۔ الیکشن کے بعد بجلی کا جو شدید ترین بحران ہے لوگ کہتے ہیں کہ شاید یہ بھی باقاعدہ پلاننگ کے تحت ہو رہا ہے۔ نواز شریف کے حلف اٹھانے سے پہلے صورتحال اس قدر بگاڑ دی جائے کہ حلف کے بعد لوگ گھنٹہ گھنٹہ کھیل ہی غنیمت جان کر خوش ہو جائیں۔ لوگ حیران ہیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ لیکن حیران ہونے والوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ میاں برادران تبدیلی کی نہیں ”سٹیٹس کو “ کی علامت تھے تبدیلی کی نہیں۔ اور جب لوگوں نے انہیں منتخب کیا ہے تو حالات میں قدرے بہتری کا سوچیں۔ تبدیلی کا نہیں ۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 452544 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More