بجلی بنانا اور بچانا

اگرروشن خیال پرویزی آمریت میں شروع ہونیوالے توانائی بحران اوراندھیروں کے طوفان کو کئی بحرانوں کی روٹ کاز قراردیا جائے توبیجانہ ہوگا۔بجلی کی بندش سے صرف کارخانوں اورفیکٹریوں کی چمنیوں سے دھواں اٹھنابندنہیں ہوا بلکہ کروڑوں ہنرمندمزدوروں اورمحنت کشوں کے گھروں میں چولہے بھی بجھ گئے ہیں۔ہمارے کسان بھی براہ راست اس مصیبت سے بیحدمتاثرہوئے ہیں انہیں فصلوں کی بروقت کاشت کیلئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذاء وہ بیچارے باامرمجبوری مہنگاڈیزل استعمال کرتے ہیں اورظاہراس کابوجھ بھی معاشرے کے عام آدمی پرپڑتا ہے ۔میں سمجھتاہوں ہمارے ہاں ابھی تک توانائی بحران کے اسباب ومحرکات اوراثرات کادرست اندازسے جائزہ لیااورروڈمیپ تیار نہیں کیا گیا۔ جس وقت تک مرض کی درست تشخیص نہیں ہوگی اس وقت کوئی دوااوردعاکام نہیں کرے گی ۔ایٹمی پاکستان کودرپیش بحرانوں سمیت ہماری زندگیوں میں بہت سے پریشانیاں اورالجھنیں ہماری اپنی پیداکردہ ہیں۔ہمارے ہاں جب تک پانی سرکے اوپر سے نہ گزرجائے ہمارے ارباب اقتدارکوہوش نہیں آتا۔ہم دن بدن فطرت اورزمینی حقیقت سے دورہوتے چلے جارہے ہیں ۔ ضرورت سے زیادہ نازک مزاجی ہماری صحت اورزندگی کیلئے زہرقاتل ہے مگرہم یہ ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔اشرافیہ واک توروزانہ کرتے ہیں مگرچندقدم چل کراپنے ہاتھوں سے ایک گلاس پانی تک نہیں پیتے ۔ہم میں سے زیادہ ترافراد نے تو پیدل چلنااورمعمولی محنت مشقت کرناچھوڑدیاہے ۔پسینہ آناایک نعمت ہے کیونکہ یہ انسان کوکئی مضراثرات اوربیماریوں سے بچاتا ہے مگرہم نے اسے زحمت اورباعث ندامت سمجھ لیا ہے۔بجلی چلے جانے پر ہماری حالت زار پانی سے محروم مچھلی سے زیادہ قابل رحم ہوجاتی ہے ۔ہماری سہل پسندی کے نتیجہ میں ہمارے وجود میں بیماریوں کیخلاف قوت مدافعت نہ ہونے کے برابررہ گئی ہے اورنتیجتاً ہمارے ہاں سرکاری اورنجی ہسپتال اورکلینک بیماروں سے بھرے پڑے ہیں جبکہ میڈیسن مافیا شعبہ صحت کوہائی جیک کئے ہوئے ہے۔پاکستان میں صرف جعلی ڈگریاں نہیں جعلی ادویات بھی سرعام تیاراور فروخت کی جاتی ہیں۔دولت کی ہوس کے مارے انسان نماشیطان زندگی بچانے والی ادویات کی آڑمیں موت کاکاروبارکرر ہے ہیں ۔

ہرسال کہا جاتا ہے کہ گرمی کا گذشتہ کئی برس پراناریکارڈٹوٹ گیا لیکن اس کی وجوہات پرغورنہیں کیاجاتا ،نہ توزمین سورج کے زیادہ نزدیک چلی گئی ہے اورنہ ابھی سورج سوانیزے پرآیا ہے بلکہ ہم انسانوں کی پیداکردہ آلودگی نے ہماری آسودگی کوہڑپ کر لیا ہے مگرہمارے نزدیک یہ کوئی ہاٹ ایشویاخطرے کی بات نہیں ہے۔ہم اپنے چندبڑے شہروں میں آبادی کابوجھ بڑھاتے چلے جارہے ہیں اورہماری یہ مجرمانہ روش یازمینی حقائق سے دانستہ چشم پوشی متعدد پیچیدہ مسائل کاسبب بن رہی ہے۔زیادہ آبادی کے نتیجہ میں ہرشہری سہولت اورہرنعمت کااستعمال زیادہ ہوجاتا ہے،یہ سلسلہ روکناہوگا۔بڑے شہروں میں آبادی کی زیادتی کے نتیجہ میں پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی ہے جبکہ گاڑیوں کی زیادتی کے نتیجہ میں فضائی آلودگی خطرناک حدتک بڑھ گئی ہے ۔ہمارے ہاں گھریاسڑک بناتے وقت جو درخت کاٹ دیے جاتے ہیں ان کے متبادل کے طورپردرخت نہیں لگائے جارہے ۔شجرکاری مہم کاغذات تک محدودہوتی ہے اگرکسی سڑک کے کنارے یاکسی پبلک مقام پرکچھ درخت لگائے بھی جاتے ہیں توکوئی ان کی دیکھ بھال نہیں کرتااورنتیجتاً ان میں سے زیادہ تر سوکھ جاتے ہیں۔درخت کاٹنے کارجحان کسی بھی معاشرے کیلئے مفیدنہیں بلکہ انتہائی مضرہوتا ہے۔شجرکاری کے دوران پھل داراورسایہ داردرخت لگائے جائیں اورہربرس ان درختوں کا پھل ٹھیکے پردے کر ریاست کیلئے ریونیوبھی اکٹھاکیا جاسکتاہے۔درختوں کی کمی سے گرمی اورفضائی آلودگی اورشرح اموات بڑھ رہی ہے ۔بھارت کی آبی جارحیت نے ہمارے دریاؤں کوپانی سے محروم کردیاہے مگر پرویز مشرف سے صدرزرداری تک کسی نے احتجاج تک نہیں کیا اورکسی کوعالمی عدالت انصاف کادروازہ کھٹکھٹانے کی توفیق ہوئی ۔ہمارے ہاں دریاؤں اورنہروں میں پانی نہ ہونے اوربارشوں کاپانی استعمال یامحفوظ نہ کرنے سے بھی زیرزمین پینے کے پانی کی سطح خطرناک حدتک نیچے چلی گئی ہے اوراگرفوری طورپرٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تویہ سطح دن بدن نیچے جاتی چلی جائے گی ۔شاہراؤں کے ساتھ ملحقہ زمین پرپختہ فرش بنانے ،گلیوں میں سولنگ کی بجائے پی سی سی سسٹم شروع کرنے سے بارش کاصاف اورمیٹھاپانی گندے جوہڑوں اورنالوں میں مل جاتا ہے جبکہ اس پانی کوقدرتی طورپرزیرزمین پینے کے صاف پانی میں ملناہوتا ہے۔اگرگلی میں سولنگ ہوتووہ زیادہ مناسب ہے کیونکہ اینٹیں کئی دہائیوں بلکہ صدیوں تک قابل استعمال رہتی ہیں جبکہ پی سی سی سسٹم محض ایک ملبہ ہے جواکھاڑکردوبارہ استعمال نہیں کیا جاسکتا لیکن سولنگ کی صورت میں اینٹیں اکھاڑ کردوبارہ استعمال کی جاسکتی ہیں اورسولنگ والی گلیاں بارش کاپانی اپنے اندرجذب کرلیتی ہیں مگرپی سی سی والی گلی میں بارش کاپانی سیوریج میں جاتاہے۔پانی ایک نعمت اوراس وقت ہماری اہم ضرورت ہے لہٰذاء بارش کے پانی کوگندے جوہڑوں اورسیوریج میں جانے سے بچایا اوراس کادرست استعمال یقینی بنایا جائے۔

بجلی بنانا ریاست جبکہ بجلی بچانا شہریوں کافرض ہے ۔ میں سمجھتا ہوں جس طرح ایٹمی دھماکے والے تاریخی دن28مئی1998ء کے شایان شان اس کانام تجویز کرنے کیلئے ملک بھر سے شہریوں سے ان کی رائے طلب کی گئی تھی اوراس پرانعام بھی مقررکیا گیا تھا بالکل اس طرح مختلف ذرائع سے سستی بجلی بنانے اوربجلی کی بچت کرنے کیلئے شہریوں سے ان کی رائے یاتجویز لی جائے یقینا اس مشق سے حکومت کو اچھی آراء اورتجاویز ملیں گی اورارباب اقتدار کواس قومی بحران پرقابوپانے کیلئے مناسب راستہ ملے گا۔ ہمارے ہم وطن ذہانت،دانش اورٹیلنٹ میں کسی قوم سے پیچھے نہیں ہیں۔میں سمجھتا ہوں اگرپوش آبادیوں کی طرح پسماندہ آبادیوں میں بھی پینے کے پانی کی فراہمی کیلئے ٹینکی سسٹم بنادیا جائے تواس سے بہت بجلی بچائی جاسکتی ہے اوراس اقدام سے براہ راست شہریوں کوبھی ریلیف ملے گا،ان کابجلی کاماہانہ بل کافی حدتک کم ہوجائیگاکیونکہ ٹینکی سسٹم بننے کی صورت میں انہیں پانی کے حصول کیلئے اپنے اپنے گھرکی موٹر استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اوربجلی آنے پرجوکروڑوں موٹریں ایک ساتھ چلتی ہیں وہ سلسلہ بندہوجائے گااورشہریوں کوسرکاری ٹینکی سے دن رات مسلسل پانی ملے گاجو بعض اوقات کئی کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی صورت میں نہیں ملتا اورپانی کی عدم دستیابی سے لوڈشیڈنگ کاعذاب دوگناہوجاتا ہے۔ہرمخصوص آبادی کیلئے الگ الگ ٹینکی تعمیر کی جائے اورہرواٹر پمپ کیلئے جنریٹر کابندوبست کیا جائے تاکہ لوڈشیڈنگ کی صورت میں بھی وہ کام کرتارہے ۔ سرکاری واٹرپمپ توہرصورت چلناہی ہے کروڑوں گھروں کی موٹرزکااستعمال غیرضروری ہے اسے روکاجائے ۔ سرکاری ٹینکی تعمیر ہونے سے شہریوں کوہزاروں روپے مالیت کے واٹرٹینک خریدنے یااپنے گھرکی چھت پرٹینکی تعمیرکرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ہرواٹرکی چھت پرایک ہزارگیلن پانی کاٹینک رکھنے کی تجویز سے مجھے اتفاق نہیں کیو نکہ مردحضرات اپنے اپنے روزگار کے سلسلہ میں عموماً شا م تک گھروں میں نہیں ہوتے اورہماری گھریلوخواتین اپنے گھروں سے کافی فاصلے پرپڑے واٹرٹینک سے پانی اٹھاکراپنے گھروں تک نہیں لے جاسکتیں اوراگرکوئی خاتون لے بھی جائے گی توزیادہ سے زیادہ پانچ دس لیٹر لے جائے گی تو ا تنی تھوڑی مقدارسے ان کی ضروریارت پوری نہیں ہوں گی۔

ضروری نہیں کوئی میری تجاویزسے اتفاق کرے لیکن میں سمجھتا ہوں بجلی بچانے کی ایک اورتجویز یہ بھی ہے کہ شہری اپنے گھر تعمیر کرتے وقت ماہرتعمیرات سے ایسا نقشہ بنوائیں جس سے وہ قدرتی روشنی اورقدرتی ہو ا سے زیادہ مستفیدہوسکیں۔بجلی کی ایجادسے پہلے ہونیوالی شاندار تعمیرات اس بات کازندہ ثبوت ہیں ۔اب توکمروں کی چھت پربھی موٹااور مضبوط شیشہ لگایا جارہاہے جس سے آرپارکچھ نظرنہیں آتالیکن کمرہ دن بھرروشن رہتا ہے اوررات کے سوابلب آن کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔گھروں کے اندر قدرتی روشنی اورقدرتی ہوا میسرآناانسان کی اچھی صحت کیلئے بیش قیمت نعمت ہے ۔اگرسنجیدگی کے ساتھ کوشش کی جائے تواس قسم کے اقدامات سے ہم اپنی زندگی کوآسان بناسکتے ہیں اورہماراگھریلوبجٹ بھی بہترہوسکتا ہے۔توانائی بحران ہمارااجتماعی ایشوہے لہٰذا ء اس سے نجات کیلئے پائیدارحل تلاش کرنا اجتماعی دانش کی ذمہ داری ہے۔
MUHAMMAD Nasir Iqbal Khan
About the Author: MUHAMMAD Nasir Iqbal Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.