کچھ عرصہ سے رینجرز،افواج
پاکستان کی کارروائی کے نتیجے میں کراچی کے حالات کچھ قدرے بہتری کی طرف
گامزن ہوئے ہیں۔کیا کراچی کی قسمت میں ہمیشہ سے ایسا ہی رہے گا کہ کوئی بھی
اپنی مرضی کو مسلط کرنے کے لئے وہاں کی عوام سے خون کی ہولی کھیلے گا۔اور
بعد میں قرآن پاک کے سامنے بے ہودہ قسم کے گانے گا کر قرآن پاک کی بے حرمتی
کریگا اور عوام اس بے حرمتی کو پونے چار گھنٹے تک دیکھیں گے۔اور ذرا سی بھی
ہلچل نہیں ہوگی۔اگر ایسا ہی مداریوں جیسا کھیل کھیلنا مقصود ہے تو خدارا
قرآن پاک کو تو درمیان میں نہ لاؤ آپ کی نظر میں عوام تو گاجر مولی کی طرح
ہیں ہی جسے آپ اپنی مرضی سے کاٹ رہے ہو مگر اتنا تو خیال رہے کہ قرآن پاک
کوئی مذاق نہیں جس کو پاس رکھ کر ہاتھ میں اٹھا کر آپ مزے میں جھوم جھوم کر
گاؤ،،پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاؤ ،،ہمیں شرم آنی چاہئے یہ سب کچھ ہمارے
سامنے ہوا اور ہم بے بسی کی تصویر بنے یہ سب کچھ دیکھتے رہے۔اور تو اور جس
نے پونے چار گھنٹے عوام کے ضائع کئے اور ساتھ میں قرآن پاک کی بے ْحرمتی کا
مرتکب ہوا ۔اسے ہمارے ٹی وی مالکان بڑے تحمل سے دیکھتے رہے اور کسی کمرشل
کو بھی درمیان میں آنے کی جرات نہ ہوئی ۔ ہمارے میڈیا والے اور ہماری حکومت
کے کرتا دھرتا جو صرف ایم کیو ایم سے ڈرتے ہیں بلکہ ان کا کہا تسلیم سر خم
کرتے ہیں۔اب کچھ تزکرہ ہو جائے پچھلے64سال میں پاکستان کا سب سے بڑا شہر
اور اس کی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز کراچی کیا سے کیا ہوگیا۔ جاگتی جگمگاتی
سڑکوں والا شہر جس کی راتیں بھی بڑی حسین ہوتی تھیں اب اندھیرے کی چادر
لپیٹ کر مایوسیوں کی تصویر بناہوا ہے۔ نسلی، مسلکی اور گروہی لڑائی جھگڑوں
اور بنیادی شہری ضروریات کے فقدان کے باعث اس شہر کی تصویر بدل چکی ہے۔ ہر
طرح کے مافیا اور عادی مجرموں نے اسے اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کی آماجگاہ
بنارکھا ہے اور حکومت وقت مفلوج نظرآتی ہے۔اس مضمون کے لکھے جانے کے وقت
کراچی میں ایک بے چین قسم کاامن بحال ہوا ہے۔ اس سے قبل نسلی فساد اور
’’ٹارگیٹ شوٹنگ‘‘ میں 100سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس قتل وغارت گری
کو یہاں کے دل گرفتہ شہریوں نے خانہ جنگی کانام دیا۔ پچھلے کئی برسوں سے
سیاسی اور مذہبی رہنماؤں ، ایک دوسرے کے حریف غنڈہ گروپوں اور بزنس مین کی
’’ٹارگیٹ کلنگ‘‘ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس طرح کی ’’ٹارگیٹ کلنگ‘‘ روزمرہ کی
بات ہوکر رہ گئی ہے۔ کوئی بھی سویلین انتظامیہ، حتیٰ کہ فوجی حکومت بھی
پاکستان کی اقتصادی لائف لائن کہے جانے والے اس شہر کو نجات نہ دلاسکی،
کیونکہ اس کی وجوہات بڑی پیچیدہ اور الجھی ہوئی ہیں۔ اس سیاق میں تین نسلی
سیاسی گروپ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔یعنی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)
جو بنیادی طور پر سندھیوں کی پارٹی ہے، دوسری ہے متحدہ قومی موومنٹ (ایم
کیو ایم) جو اْن مہاجروں کی نمائندگی کرتی ہے جو اردو بولتے ہیں اور جو
1947میں ہندوستان سے ترک وطن کرکے آئے تھے اور تیسرا گروپ ہے پشتون بولنے
والوں کا۔ کراچی میں اس کی آمد کا سلسلہ 1980 کی دہائی میں ہونے والی افغان
جنگ کے دوران شروع ہوا۔ لیکن اس وقت بڑی تعداد میں انہوں نے کراچی کارخ کیا
جب 9/11کے واقعہ کے بعد امریکہ کی قیادت میں عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ
شروع ہوئی اور پاکستان کے قبائلی علاقے اور صوبہ خیبر پختونخوا فوجی آپریشن
کی زد میں آئے۔ پختون اور مہاجرین کے درمیان پہلی بار نسلی ٹکراؤ 1985میں
ہوا۔ اس لڑائی میں مہاجر نے اپنی طاقت کے سہارے پختون نسل کے لوگوں کو
پچھاڑ دیا۔ اس وقت پشتون بولنے والوں کو کسی طرح کی سیاسی حمایت حاصل نہ
تھی۔ اس وقت وہ احساس کمتری میں مبتلا تھے کیونکہ وہ اپنے آپ کو کراچی میں
مہمان یا کرایہ دار سمجھ رہے تھے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے کے
بعد انہوں نے ایک سیاسی شناخت کے ساتھ کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ وہ شناخت
تھی عوامی نیشنل پارٹی کی۔ انہوں نے کراچی کو پختونوں کا شہر کہنے پر بھی
اصرار کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ 1947 میں مہاجر ہندوستان سے یہاں آئے اور
سندھیوں کو بے دخل کردیا اور اب ان کی باری ہے کہ مہاجروں کو بے دخل کرکے
کراچی پر اپنا دبدبہ قائم کریں۔ کم از کم اس حد تک سندھی اور پاکستان پیپلز
پارٹی پختونوں کے ساتھ کھڑی ہوسکتی ہے۔ مہاجر کراچی پر اپنا دبدبہ قائم
رکھنے کے لیے پورے زور وشور کے ساتھ اپنی لڑائی جاری رکھیں گے کیونکہ
پاکستان میں ان کے لیے دوسری اور کوئی جگہ نہیں ہے۔ایک چوتھا نسلی گروپ
بلوچیوں کا بھی ہے۔ وہ کراچی اس لیے وارد ہوئے کہ بلوچستان میں لوگوں
کاجینا دوبھر کردیا ہے۔ ان میں زیادہ تر لوگ غریب ہیں اور لیاری کی کچی
آباد ی میں بڑی زبوں حالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی
کے ووٹ بینک ہیں۔ ایم کیو ایم کے لوگ انہیں مجرم اور دہشت گرد سمجھتے ہیں۔
جب بھی کراچی میں ’’گینگ وار‘‘ ہوئی ہے تو لیاری کا ذکر خبروں میں ضرور آتا
ہے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے کراچی کودارالحکومت بنانے کافیصلہ کیا
تھا۔ اردو بولنے والے مہاجر، جو پاکستان پر حکومت کررہے تھے، اس وقت شدید
صدمہ سے دوچار ہوئے جب جنرل ایوب خان نے دارالحکومت کو نوتعمیر شدہ شہر
اسلام آباد منتقل کردیا۔ مہاجروں کے ہاتھ سے سیاسی طاقت نکلی جارہی تھی۔
لیکن دارالحکومت کی حیثیت ختم ہونے کے باوجود کراچی، روشنی اور روشن دماغی،
تہذیب ،آزادی اور گہوارہ علم کی علامت کے شہر کے طور پر جانا جاتا رہا۔
لیکن کراچی کو دوسرا دھچکا اپریل 1977میں اس وقت لگا جب وزیراعظم ذوالفقار
علی بھٹو نے جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا مودودی کو خوش کرنے کے لیے ہفتہ
وار چھٹی کا دن اتوار کی بجائے جمعہ کو قرار دیا اور شراب بندی نافذ کرکے
نائٹ کلب بند کرادیے۔ اس سے کراچی کی سیاحت کی صنعت تباہ ہوکر رہ گئی۔ وہ
شہر جو زندگی کی ہماہمی سے لبریز تھا اچانک بنجر زمین جیسا بن گیا۔ تہذیبی
قدریں دم توڑنے کا شکار ہوئیں اور زنانوں کے کلچر کو فروغ حاصل ہوا،
جونیپئر اسٹریٹ کی طوائفوں کامقابلہ کرنے لگے، نیپئر اسٹریٹ بھی سیاحوں کی
کشش کاایک مرکز ہوا کرتا تھا۔اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا دورآیا۔ 1980 کی
دہائی میں جب وہ امریکہ کے محبوب نظر بنے تو اپنے اس اقتدار کو جس پر انہوں
نے غاصبانہ قبضہ کیا تھا، مضبوط بنانے کے لیے وہ اسلام کے نام پر پاکستانی
عوام کے ساتھ کھیل،کھیلنے لگے۔ انہوں نے پاکستان کو کئی تحفے دیے۔ ان میں
سے خاص تحفے یہ تھے:- سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے
انہو ں نے ایک نئی سیاسی پارٹی ایم کیو ایم بنوائی، سپاہ صحابہ قائم کرائی
جس کا مقصد شیعہ مسلمانوں کو ختم کرنا تھا ۔ان تمام اقدامات کا کراچی پر سب
سے زیادہ ناخوشگوار اثر پڑا۔ سندھیوں اور مہاجروں کے درمیان کشیدہ ہوتے
ہوئے تعلقات کے باعث نسلی بنیاد پر خون خرابہ ہونے لگا۔ مہاجر نئی پارٹی
مہاجر قومی موومنٹ کے پرچم تلے اکٹھا ہوئے جس کی قیادت سابق اسٹوڈنٹ لیڈر
الطاف حسین نے کی، مبینہ طور پر اسے خفیہ اداروں نے مسلح کیا تھا۔ان ہی کی
بدولت ہی اس نے اپنے آپ کو اتنا طاقتور سمجھنا شروع کردیا کہ بالاآخر1988
میں جنرل ضیاء کی موت کے بعد یہ خودان کے لیے سبکی کا باعث بنی۔ جب سندھ
میں امن وقانون کی صورتحال بگڑنے لگی تو فوج نے آپریشن کلین اپ شروع کیا
،جس سے ایم کیو ایم میں پھوٹ پڑگئی۔ نئی پارٹی کا نام ایم کیو ایم (حقیقی)
پڑا۔ اسے خفیہ ادروں نے مسلح کیا اور اس طرح خود مہاجروں میں آپس میں
خونریز جھڑپیں ہونے لگیں۔ 1992 میں ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین لندن چلے
گئے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ انہیں مار ڈالا جائیگا۔ تب سے اب تک وہ پاکستان
واپس نہیں آئے۔ 1995 میں آپسی جھگڑوں میں 2000 مہاجر ہلاک ہوئے۔ فوج کا
دعویٰ ہے کہ اس نے ایسی دستاویز برآمد کی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ایم کیو
ایم (الطاف) نے جناح آباد کے نام سے پاکستان کو توڑ کر ایک نیا ملک بنانے
کی سازش کی تھی۔کراچی کے تاجروں کو اپنا کاروبار چلانے میں بھی دشواری پیش
آرہی ہے، خاص طور سے اس صورت میں جب کہ حکومت حالات پر قابو پانے میں ناکام
ثابت ہورہی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کار کراچی میں سرمایہ کاری کرنے میں پس وپیش
کرتے ہیں۔ یہ بھی خبر ہے کہ پاکستانی صنعت کار اپنا سرمایہ نکال کر خلیجی
ممالک اور ملیشیامیں سرمایہ کاری کرنے کا پلان بنارہے ہیں۔ اس رجحان سے
یقینی طور پر بیروزگاری ، غریبی اور جرائم میں اضافہ ہوگا۔اگر سیاسی طاقتیں
قدرے ذمہ داری سے کام کریں تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ کراچی کی
صورتحال بہتر ہوسکتی ہے لیکن موجودہ صورتحال میں تو دور تک ایسی کوئی امید
نظر نہیں آتی۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور اے این پی نے کراچی میں ایم کیو ایم
کے پرکتر نے کے لیے گویا ایک دوسرے سے ہاتھ ملالیا ہے۔ اے این پی سے وابستہ
پختونوں کی تعداد اور طاقت بڑھ رہی ہے۔ پاکستانی ہونے کی حیثیت سے وہ بھی
کراچی پر اپنا حق جتا رہے ہیں۔ |