!خدا کرے کہ میرے ارض پاک پر اترے --وہ فصل گل جسے اندیشہ
زوال نہ ہو
پاکستان کا خوبصورت دارالحکومت اسلام آباد
اسوقت تو اسلام آباد اور پاکستان میں نئی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتون
کی گرما گرمیاں ہیں - دھرنوں اور دھاندلیوں کا شورمچانے والے ایک آدھ سیٹ
حاصل کر کے خاموش بیٹھ کرحکومت سازی میں مصروف ہوگئے ابھی ابھی خبر آئی ہے
کہ ہنگو سے تحریک انصاف کے ایک عوامی ممبر صوبائی اسمبلی فرید خان کو قتل
کر دیا گیا -اس درویش صفت کو کس ظالم نے قتل کیا خدا کی پناہ ٰہ ظلم اور
زیادتی کب تھمے گی-
صوبائی حکومتیں کافی خوش آئیند اور تبدیلی کی غماز نظر آتی ہیں -
پرسوں انور مقصود کا ڈرامہ آنگن ٹیڑھا میں یہ دلچسپ فقرہ ،" آج قومی اسمبلی
نے اسلام آباد میں حلف اٹھا لیا ہے اسلئے کہ اسلام آباد میں اب کچھ اور
اٹھانے کو نہیں رہ گیا ہے-
اسلام آباد میں اجکل کڑاکے دار گرمیاں ہیں اگرچہ یہ شدت لاہور ، ملتان ،
پنجاب کے جنوبی علاقوں ، سبی ، جیکب آباد اندرون سندھ اورتھرکے علاقوں
سےقدرے کم ہے- گرمی کا ایک زور پچھلے ہفتے ٹوٹا جب یہاں لو چل رہی تھی اور
درجہ حرارت 44-45 سی تک پہنچ چکا تھا، گرج چمک کے ساتھ آندھی آئی اورابر
رحمت برسا جبکہ پشاور میں تو چھاجوں اولے پڑے - چند روز کیا خوشگوار موسم
تھا --
لیکن اس موسم میں بھی اسلام آباد میں سڑکوں کے دورویہ لگے ہوئے املتاس کے
درخت اور اسپر جھومر اور ہاروں کی صورت میں لٹکتے ہوئے پیلے رنگ کے پھول
کیا حسین سماں پیدا کرتے ہیںکہ قدرت کی صناعی پر عش عش کرنے کو جی چاہتا
ہے-اسکے علاوہ گلابی، قرمزی، اودے رنگ کے پھولوں کے دوسرے درخت اس شہر کے
حسن و جمال میں اضافہ کرتے ہیں-پچھلے دنوں دوسرے خوشنما درخت نیلے اودے
پھولوں سے بھرے ہوئے تھے اس درخت کو جکرانڈا کہتے ہیں - نہ معلوم یہ کس
زبان کا لفظ ہے اور یہ درخت در حقیقت کس ملک کا باسی ہے - ذرا تحقیق درکار
ہے، لیکن اسلام آباد کی آب و ہوا میں یہ خوب بہار دکھا رہا ہے-
یہ پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں پر سبز درختوں اور قدرتی سبزے کے خطوں کو
شہر کے بیچوں بیچ جابجا چھوڑا گیا ہےٓجیسا کہ دوسرے ترقی یافتہ شہروں کا
طریقہ ہے- ایک پورے سیکٹر ایف 9 کوجسکا نام" فاطمہ جناح پارک" ہے کافی دیدہ
زیب پارک بنایا گیا ہے- جسمیں کافی دلچسپیاں ہیں چہل قدمی اور جاگینگ کرنے
والوں کے لئے رستے اور گزر گاہیں ہیں مختلف ممالک کی طرز تعمیر کے چبوتروں
کو بنایا گیا ہے اور باغبانیکے نمونوں میں جاپانی طرز کے باغات اوردیگر پیڑ
پودے کافی مقدار میں ہیں، گھاس کے چمن اور پودوں کے لئے خود کار آبی نظام
فوارے ہیں-ایوان قائد کے نام سے ایک پبلک لائبریری ،ایک کافی بڑا میکڈونلڈ
ریستوران ہے- ساتھ ہی hot shot میں کافی دلچسپیاں ہیں - تیراکی کا تالاب ،
باؤلینگ ایلی اور خریداری کا مرکز ہے- یہاں کی زمین کافی زرخیزہے موسم بھار
میں ہر طرف پھول ھی پھول نظر آتے ہیں -خالی جگہوں پہ بھنگ اتنی مقدار میں
خود رو اگا ہو ہے - کہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بدی میں ذہین اذہان نے
اسکا فائدہ کیوں نھیں اٹھایا- امریکہ اور کینیڈا میں لوگ چوری چھپے گملوں
میں گھروں کے اندر بھنگ اگاتے ہیں اور جھاں پولیس کو خبر ملتی ہے تو انکی
پکڑ دھکڑ ہوتی ہےٓ-انکوpot growersکہا جاتا ہے ریاست کیلیفورنیا اور
میکسیکو میں انسے نشہ آور ادویات بنائی جاتی ہیں اور ریاستی حکومت اسکے طبی
فوائد کے مد نظر اسکو قانونی حیثئیت دینے کا سوچ رہی ہے-اسلام آباد
میںچاروں موسم بھر پور انداز میں آتے ہیں - سب سے خوبصورت موسم بہار ہوتا
ہے-
مرگلہ کی پہاڑیاںاسلام آباد کے سامنے ایک فصیل کی طرح ہیں ان پہاڑیوں کو
اوپر سے گزرتی ہوئی پیچ در پیچ سڑک کے ذریعے ہزارہ ڈویژن سے ملایا گیا ہے -
اسکے اوپر پرفضاء مقامات'ریسٹوراں اور پارک بنائے گئے ہیں دامن کوہ، پیر
سہاوہ ، مرغزار اور شکر پڑیاں پارک میں پاکستان کے دورے پر آنے والےر
سربراہان مملکت کے ہاتھوں کے لگائے ہوئے پودے اب تن آور درخت بن چکے
ہیں-مرگلہ پہاڑیوں اور اس سے انے والی تازہ اور خنک ہواکے پیش نظر ان
پہاڑیوں کی یہاں کافی اہمئیت ہے - مار گلہ روڈ اور مارگلہ کے رخ پر تعمیر
شدہ مکانات بہتر اور مہنگے جانے جاتے ہیں-
شاہ فیصل مسجد اسلام اباد کا ایک لینڈ مارک ہے فیصل ایونیو پر جاتے ہوئے اس
مسجد کے خوبصورت بلند و بالا مینار اس شھر کو اپنے سائے میں لئے کھڑے
ہیں--سایہ خدائے ذوالجلال ! اب پاکستان منومنٹ Pakistan Monument بلندی پر
تعمیر شدہ ایک اور حسین اضافہ ہے اسکی بناؤٹ کنول کے پھو ل اور اسکی
پنکڑیوں جیسی ہے - اس ساری دہشت گردی ، خانہ جنگی اور بد امنی میں پاکستان
کے دیگر شہروں کی طرح اسلام آباد بھی تعمیر و ترقی کی راہ پر رواں دواں
ہےحالانکہ جگہ جگہ رکاؤٹیں کھڑی ہیں بیشتر جگہوں میں داخل ہوتے ہوئے مختلف
اسکینرز اور حفاظتی تدابیر کا سامنا کرنا پڑتاہے - نئے شاہراہوں کی اوپر
تلے تعمیر،بلیو ایریا یہاں کے ڈاؤن ٹاؤن یعنی شہر کے مرکز کی طرف جاتاہے-
کشادہ شاہراہیں شاہراہ کشمیر، آغا شاہی ایونیو،جناح ایونیو،مارگلہ روڈ ،
بلیو ایریا روڈ یہاں کی انتہائی دیدہ زیب شاہراہیں ہیں بلیو ایریا پر بلند
و بالا جدید عمارات،بنکوں اور دیگر اداروں کے صدر دفاتر، خریداری کے جدید
مراکز اس چھوٹے شہر کے روز افزوں اضافے کا باعث ہیں--بلیو ایریا سے آگے
شاہراہ دستور پر پارلیمنٹ ، ایوان صدر و وزیر اعظم ،ایوان قومی اسمبلی
اورسپریم کورٹ کی عمارات ہیں جو اب صرف خواص کے لئے مخصوص ہیں- بلیو ایریا
سے ایک الگ راستہ ڈپلومیٹک انکلیو( اردو داں حضرات کو ہو سکتا ہے یہ
انگریزی نام ناگوار ہوں لیکن یہ نام اسی طرح رکھے گئے ہیں) کو جاتاہے جہاں
پر تمام غیر ملکی سفارت خانےہیں- انکے لئے مختلف دہشت گردی کے واقعات کے
بعد احتیاطی تدابیر سخت کر دی گئی ہیں - امریکی سفارت خانے کے لئے انکے چیک
پوائنٹ سے ایک بس کی شٹل سروس چلتی ہے اور تمام حفاظتی اقدامات کی زمہ داری
انکی اپنی ہے-
اسلام آباد ایک کافی جدید شہر ہے جدید اس لحاظ سے کہ 1960میں اسوقت کے صدر
فیلڈ مارشل ایوب خان نے اسکی جغرافیائی اور عسکری محل وقوع کے نقطہ کے پیش
نظر دارالحکومت کو کراچی سے راوالپنڈی سے متصل علاقے میں جس کا نام اسلام
آبا د تجویز ہوا تھا منتقل کرنے کا اعلان کیا -اسلام اباد اسلامی جمہوریہ
پاکستان کا نیا دارالحکومت قرار پایا-یہ تمام علاقہ اسوقت چھوٹے چھوٹے گاؤں
اور زرعی آبادی پر مشتمل تھا جسکے مالکان پنڈی اور قرب و جوار میں رہنے
والے جو یہاں کے راجے کہلاتے تھے انسے خوب مہنگے داموں زمین خریدی گئی یا
انکو متبادل زمینیں دی گئیں- اس بڑے قدم پر ایوب خان کو کافی سخت تنقید کا
سامنا کرنا پڑا اور انہیں محمد تغلق دوئم کا خطاب دیا گیا جنہوں نے پایہ
تخت دہلی سے دیو گری منتقل کیا تھا اور اسکا نام تغلق آباد رکھا- محمد تغلق
کو اس میں کافی نقصان اٹھا نا پڑا جبکہ ایوب خان کا یہ قدم ہر لحاظ سے قابل
تحسین ہے -اسلام آباد کے لئے دنیا کے بہترین ٹاؤن پلینرز کا انتخاب ہوا
1 Konstantinos Apostolos Doxiadisایک مشہور یونانی آرکیٹیکٹ فرم
کو اس شہر کی منصوبہ بندی کرنی کی ذمہ داری سونپی گئی اس شہر کو مختلف زون،
خطوں اور سیکٹروں میں تقسیم کیاگیا یہ شہر راوالپنڈی /اسلام آباد کا جڑواں
شہر کہلاتا ہے- جب شروع میں اسلام آباد کی تعمیر شروع ہوئی تو سب سے پہلے
بہترین سڑکیں بنائی گئیں - ایک عام تاثر یہ تھا کہ راولپنڈی سے جیسے ہی
اسلام آباد میں داخل ہو گاڑی کے ٹائیروں کی آواز بدل جاتی ہے اور رفتار میں
روانی آجاتی ہے -ہمارے بنگالی بھائی جو اسوقت ہمارے ہم وطن تھے انہوںنے ایک
کہانی گھڑی اور کہا کہ جب اسلام آباد کی سڑکوں کو چھو کر سونگھا تو اس سے
پٹسن کی خوشبو آرہی تھی- پٹ سن اس وقت پاکستان کیلئے زرمبادلہ کا بڑا ذریعہ
تھا اور مشرقی پاکستان میں کثرت سے پیدا ہوتا تھا-اسوقت کا اسلام آباد
آبپارہ جو کہ زیرو پوائنٹ کہلاتا ہے اور سیکٹر جی سکس جو کہ سیکریٹریٹ
کہلاتا تھاتک محیط تھا بعد میں جی نو سیکٹر میں کراچی سے لائے گئے کلرک
اسٹاف کے لئے کوارٹر اور فلیٹ بنائے گئےاور یہ علاقہ کراچی کمپنی کہلاتا
ہے- اس زمانے میں یہاں پر ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں جسپر سواری کرنے میں
لندن کا لطف آتا تھا--1951 میں یہان کی آبادی ایک لاکھ کے قریب تھی جب کہ
اب ایک سے ڈیڑھ کروڑ ہے-
یہاں پر اب پاک فضائیہ، پولیس اور بحریہ کے صدر دفاتر ہیں انکے اپنے تعلیمی
ادارے اعلے پائے کے اسکول، کالج ، یونیورسٹیاں اور ہسپتال ہیں- بری فوج نے
بوجوہ اپنے صدردفاتر راولپنڈی میں رکھے ہیں-
یہاں پر دیگربلند پایہ کالج اوریونیورسٹیاں، قائد اعظم یونیورسٹی ، میڈیکل
یونیورسٹی انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائینس یونیورسٹی ، اسلامک یونیورسٹی ،
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور دیگر بیشمار ادارے ہیں -یہاں کے رہایشی
عموما تعلیم یافتہ ہیں جنکا تعلق مختلف شعبوں سے ہے - یہاں پر پاکستان کی
تمام علاقائی زبانوں کے بولنے والے آباد ہیں جبکہ اردو عام بول چال کی زبان
ہے-نئیئ نسل میں انگریزی کا پلہ بھاری ہےطبقہ امراء، اعلے سول اور فوجی
ملازمین زیادہ تر انگریزی ملی اردو میں گفتگو کرتے ہیں-الحمدللہ اسلامی
تشخص بھی بیشتر جگہوں پر کافی نمایاں ہے اور ہر طبقہ فکر کے لوگ نظر آتے
ہیں-آبپارہ کی لال مسجد کا اندوہناک اور افسوسناک واقعہ اب بہی ذہنوں کو
جھنجھوڑتا ہے- پچھلے سال دو فضائی حادثات بہی بیحد افسوسناک ہیں-
اسلام آباد مشہور سطح مرتفع پوٹوہارمیں واقع ہے اور یہان کی عام بولی پوٹو
ہاری کہلاتی ہے جو پنجابی اور پہاڑی زبان کا مجموعہ ہے یہ سطح مرتفع وادئ
سندھ کی قدیم تہیب اور گندھارا تہزیب کا گہوارہ تھا لاہور سے آتے ہوئے جھلم
کے بعد سے اس سطح کی چڑہائی شروع ہو جاتی ہے-قرب و جوار میں آثار قدیمہ کے
کافی شواہد ہیں- چند بڑی جھیلوں اور تالابوں سے پانی کی فراہمی اور رسد
جاری ہے- اسمیں راول جھیل، سملی ڈیم اور خانپورڈیم قابل ذ کر ہیں-
موٹر وے کی تعمیر سے امد و رفت میں تیزی کے سبب اسلام آباد لاہور،
پشاور،قرب و جوار کے دوسرے شہروں سے کافی قریب ہوگیا ہے -ملکہ کوہسار مری
یہاں سے2-1/2 گھنٹے کا فاصلہ ہے اسی طرح مری سے آگے بھوربن، گلیات اور ایبٹ
آباد جاسکتے ہیں-
اسلام آباد کا ایک باغ چنبیلی اور گلاب کا باغ ہے اسکے ساتھ لوک ورثہ اور
قریب میں کنونشن سنٹر ہیں سید پور گاؤن کو ایک ماڈل ویلیج کے طور پرمحفوظ
کی گیا ہے اسمیں ایک پرانا ہندو مندر ہے اور دیس پردیس کے نام سے ایک
علاقائی ثقافت کی ترجمانی کرنے والا ریستوراں ہے - یہاں پر کافی جدید ،
مشہورمختلف ممالک کے ذائقوں والے ریستوراں ہیں - یہاں کے ایف 6،7،8 اور ای
7 سیکٹر خصوصا غیر ملکی ملازمین کی رھایش گاہیں ہیں وہ جو سفارت خانوں اور
دیکر اداروں میں کام کرتے ہیں - کتابوں کے بہت بڑے بڑے اسٹور ہیں-سائن
پلیکس کے کافی بڑے تھیٹر ہیں جہاںاب بھارتی فلمیں بھی خوب چلتی ہیں-- ایک
کافی عمدہ نیا ہوائی اڈہ فتح جنگ کے قریب زیر تعمیر ہے-حال ہی میں بلیو
ایریا ، اسلام آباد کا ڈاؤن ٹاؤن اسمیں بلند و بالا دیدہ زیب عمارات تعمیر
ہوئی ہیں اور زیر تعمیر ہیں ایک اعلے پیمانے کا شاپنگ مال سینٹورس کے نام
سے حال ہی میں کھلا ہے جسمیں خو دکار سیڑھیاں ایسکیلیٹرز چھڑتی اترتی ،
شیشے والے ایلیویٹرز ،مشہور برانڈ کی فیشن ایبل دکانیں، فوڈ کورٹ جسمیں
ھارڈیز اور دیگر ریسٹوراں ہیں جسوقت ہم وہاں گئے ایک موسیقی کا پروگرام
جاری تھا اور گلوکار کے نغموں سے لوگ لطف اندوز ہو رہے تھے- ہمارے ایک
انڈین امریکن دوست اسلام آباد کو ایک ریزورٹ ٹاؤن کہتے ہیں -
خدا کرے کہ کیپیٹل ڈولپمنٹ اتھارٹی کو کوئی عمدہ سربراہ میسر آئے جیسے ہر
ایک لاشاری کی تعریف میں رطب اللسان ہے یا لاشاری کو دوبارہ بنایا جائے
تاکہ اس شہر کے مسائل کا تدارک کرسکے اور اس شہر کو ایک نمونہ بنایا جاسکے-
یہ شہر جو پہلے اپنی خاموش زندگی کے لئے بدنام تھا اب پوری طرح جاگ چکا
ہے---
عابدہ |