چنار دیس کے پرکیف نظاروں اور پیاروں سے ملاقات کا احوال- قسط نمبر 3

گبرہ میں یہ ہماری پہلی صبح تھی۔جب میں کمرے سے باہرنکلاتو منظرہی نرالہ تھا۔بھینی بھینی خوشبولئے بادنسیم کے جھونکوں سے نیندکاساراغبارجاتارہا۔تاحدگاہ ہریالی تھی،دوردورتک پھیلے ہوئے سبزے پر شبنم کے قطرے ہیروں کی طرح چمکتے ہوئے آنکھوں کوچندھیا رہے تھے۔ہمارے چچاکے گھرسے ملحق مکئی کاڈوگا(کھیت)بھی آنکھوں کو خوب لطف دے رہاتھا۔ایک ڈیڑھ فٹ اونچی اس فصل کوجب ہواکاکوئی ہلکاساجھونکاہلاتاتو تواک مسحورکن لطیف سی موسیقی سماں باندھ دیتی۔بھارت کے زیرانتظام ضلع کپواڑہ کے سرحدی علاقے موضع نواں گبرہ کے ہی رہائیشی، مقامی تاجرمحمد رفیع قریشی کے مطابق گبرہ وہ مقام ہے جو تقسیم برصغیرکے بعدپاکستان اور بھارت کی پہلی جنگ1948ء کے بعد بھی کچھ عرصے تک پاکستانی کشمیرکاحصہ رہاہے مگربعدازاں بھارت کے ہی زیرتسلط چلاگیا۔اس انتہائی خوبصورت علاقے کی وجہ ء ِشہرت یہاں مشہور ولی کامل حضرت باباعبداﷲؒ المعروف’’ باب دُلہؒ ‘‘کی بیٹھک ہے۔ان بزرگوں کی ایک چلہ گاہ راقم الحروف کے گاؤں ریشیاں میں بھی موجود ہے۔باباعبداﷲ ؒ کے ایک مرید ِ خاصؒ کی بیٹھک ضلع مظفرآبادکے علاقے گڑھی دوپٹہ میں بھی موجودہے ۔ انہیؒ بزرگوں کی ایک زندہ کرامت گبرہ کے مقام پر آج بھی تازہ ہے اوراس کے نشانات روزاول کی طرح موجود ہیں۔کرامت یہ بیان کی جاتی ہے کہ بابا عبداﷲ شاہ ؒ نے ایک موقع پرجلال میں آکر آگ میں جلتی ہوئی کچھ لکڑیاں اٹھاکرپھینکیں اور اس سے چنارکے بہت سے درخت پیداہوگئے۔ان تمام چناروں میں سے دوآج بھی موجودہیں۔ بقیہ کو کاٹ دیاگیاتھا۔موجوددرختوں کی خاص بات یہ ہے کہ ایک صدی سے زائدعرصہ گذرنے کے بعدبھی ان کے تنے ، شاخیں اورپتے توہرے بھرے ہیں مگر نچلاحصہ بشمول جڑوں کے اُسی طرح جلے ہوئے انگاروں کی طرح ہے جیسے وہ اُس وقت تھے جب باباعبداﷲ ؒنے ان جلتی ہوئی لکڑیوں کوپھینکاتھا۔
 

image

گبرہ کی بڑی خوبی اوروہاں کے مکینوں کی آمدن کاایک بڑاذریعہ اخروٹ کے باغات ہیں اورہرشخص نے اپنی زمین میں اخروٹ کے درجنوں درخت لگارکھے ہیں۔جب دورکسی بلندمقام سے گبرہ گاؤں کانظارہ کیاجائے تو ماسوا اخروٹوں کے جُھنڈ کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ایسے لگتاہے جیسے یہ اخروٹوں کا کوئی غیرآبادجنگل ہو۔ لیکن لگ بھگ 12سومربع میل پرپھیلے اس 14ہزارسے زائدنفوس پرمشتمل علاقے میں چارپنچائیتیں (یونین کونسلز)ہیں۔تاریخی اعتباسے دیکھاجائے تومشہورزمانہ تصنیف راج ترنگنی‘ میں کرناہ کاتفصیلی ذکرموجود ہے اور گبرہ ،ٹنگڈھار اور کنڈیاں کی طرح ایک بڑاگاؤں ہے،جس کا حوالہ کسی نہ کسی انداز سے مل جاتاہے۔یہ خوبصورت گاؤں اخروٹوں کے درختوں کی طرح آبادی کے لحاظ سے بھی گنجان آباد ہے،زیادہ ترلوگوں کے مکانات قریب قریب ہی ہیں۔یہاں تین،چارجامع مساجدہیں تاہم مرکزی مقام نواں گبرہ میں ہی مرکزی جامع مسجد اورمدرسہ موجودہے۔اس جامع مسجد میں تقریباًدس ہزارنمازیوں کی گنجائش موجودہے۔یہاں گھنی آبادی ہے اورایک بڑابازاربھی ہے۔بازارمیں راشن ڈپو،بی ایچ یو،لڑکوں اورلڑکیوں کیالگ الگ پرائمری،مڈل اورہائی سکول بھی ہیں۔ٹریفک کے اعتبارسے سڑک بھی کافی ہے۔سڑک پختہ تھی جوٹنگڈھارسے گبرہ تک غالباً اکتوبر2005ء کے زلزلے سے خراب ہوگئی ہے۔اس نسبتاً نشیبی علاقے کے چاروں طرف پانی کے ٹھنڈے اور میٹھے قدرتی چشمے موجودہیں،اہم لوگوں کی سہولت کیلئے واٹرسپلائی لائن بھی موجودہے جس کے کنکشن ہرگھرمیں موجودہیں۔یہاں دوPCOموجودہیں۔یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ مقبوضہ کشمیرکے کسی بھی پبلک کال آفس سے پاکستان بشمول آزادکشمیر میں توکال نہیں ہوسکتی اس کے علاوہ دنیابھرمیں جہاں چاہیں آپ کال کرسکتے ہیں۔آزادکشمیرمیں کال کرنے اورموبائل سروس کی سہولت نہ ہونے سے یہاں کے لوگوں میں زبردست احساسِ محرومی پایا جاتا ہے۔ بالخصوص ’’پردیسیوں‘‘ کے لئے تویہ بہت بڑاعذاب اورکسی صبرآزما امتحان سے کم نہیں۔

ہم نے پہلے ہی روز مظفرآباداطلاع دیناتھی کہ ہم بخیروخوبی منزل مقصودپر پہنچ چکے ہیں،لیکن ہماری یہ کواہش اس وقت دھری کی دھری رہ گئی جب مذکورہ صورتحال بارے معلوم ہوا‘پی سی وآپریٹرنے ہمارے اصرارپر نمبرتوڈائل کیامگرکال نہ ہوسکی۔باتوں باتوں میں پی سی اومالک نے جب یہ کہاکہ آپ پاکستان میں کال نہیں کرسکتے ،البتہ وہ چاہیں توآپ کو یہاں کال کرکے بات کرسکتے ہیں۔ میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آگیا،میں نے اپنے بھائی محمداقبال کا نمبردیا،اقبال ان دنوں ابوظہبی میں ایک الیکٹریکل کمپنی میں تھا۔ہم نے ابوظہبی کے نمبرپرکال کی ،اقبال سے بات ہوئی ،توہم نے ساری بات بتادی،ساتھ یہ کہ وہ ابوظہبی سے مظفرآبادفون کرکے انہیں ہماری اطلاع دے اور یہ پی سی او کانمبردے، جس پر مظفرآبادسے کال کرکے وہ ہم سے بات کرسکتے ہیں۔ایساہی ہوااورہم نے اﷲ کاشکراداکیاکہ گھروالوں سے بات ہوگئی۔
 

image

دن بھرگاؤں کے بزرگوں،نوجوانوں،خواتین اور بچوں سے ہماری ملاقاتوں کاسلسلہ جاری رہا۔لوگ بڑی چاہ سے ہمارے پاس آرہے تھے۔بیٹھتے ،گپ شپ ہوتی،حال احوال معلوم ہوتا۔لوگ اپنے پیاروں کے بارے میں پوچھتے ،جس کسی کا کوئی سراغ نکل آتاوہ خوشی سے پھولے نہ سماتااور پھرہمارے اورقریب آجاتا۔یہ سلسلہ تین چارروز اس قدر تسلسل سے جاری رہاکہ ہمیں کہیں اور جانے کی فرصت ہی نہ ملی۔جب مہمانوں کی آمد کا سلسلہ کچھ کم ہواتو اس کے بعددعوتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ایک ہی دن میں کئی جگہ دعوت۔کھانے کی یہ دوت تومحض بہانہ تھی۔درحقیقت وہ پیارے لوگ ہمیں پیار سے اپنے بٹھاکرعجب سی خوشی محسوس کررہے تھے اورہماری خوشی کی توتوکوئی انتہاء نہ تھی، ان کی چاہت کس قدر تھی ،ناقابلِ بیاں۔کشمیری ویسے بھی مہمان نوازی کے لحاظ سے پوری دنیامیں اپناالگ مقام اور پہچان رکھتے ہیں۔ہم جہاں بھی دعوت پر گئے ،لگتاتھاکوئی ’’شاہانہ ضیافت‘‘کااہتمام ہے۔کشمیری کھانوں کے کیاکہنے،صرف گوشت کی ہی مثال لیجئے،چھ سات قسم کے الگ نوعیت کی ڈشیں،اور ہرڈش کا ایک اپناہی منفردذائقہ،سبحان اﷲ۔مجھے ان کشمیری کھانوں کی ڈشوں کے نام تو معلوم نہیں مگر ان کی خوشبو ولمس آج بھی اُسی طرح محسوس کررہاہوں۔اپنے قریبی عزیزرشتہ داروں کی تو باری ہی نہیں آرہی۔ابھی تو محلے دارہی نہیں چھوڑتے۔صبح،دوپہر،شام دعوت،اپنے کشمیریوں کی مہمان نوازی پر خوب رشک آیا۔

گبرہ میں مہمان نوازی اور دعوتوں کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ جاری تھا،ابھی ہمیں یہاں ایک ہفتہ بھی نہیں ہواتھا اورمجھے سب سے زیادہ درگاہ حضرت بل کے سائے میں نماز اداکرنے کاشوق تڑپارہاتھا۔میں رہ رہ کر خانقاہ معلی کی یادمیں بے حال ہورہاتھا۔میں نے دعوتوں سے انکاراوربار بار سرینگرجانے کی اپنی شدید خواہش اور اس تڑپ کا اظہارکیا۔آج پروگرام طے کرتے ہیں،چچابشیراحمدنے مجھے بہت پیارسے سمجھایا۔طے یہ ہواکہ چچاعزیزالرحمان،چچابشیراحمد،چچامحمدمقبول اوربھائی عبدالشکورقریشی کی معیت میں قافلہ سرینگرروانہ ہوگا۔
Safeer Ahmed Raza
About the Author: Safeer Ahmed Raza Read More Articles by Safeer Ahmed Raza: 44 Articles with 48181 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.