گزشتہ دنوں جموں کی پینتھر س پارٹی کے صدر بھیم سنگھ کا
تحریر کردہ ایک مضمون مقبوضہ کشمیر کے ایک اخبار میں شائع ہوا ۔ بھیم سنگھ
اس میں لکھتے ہیں کہ ”بھارت نے 1947ءمیں جان بوجھ کر میر پور اور کوٹلی پر
قبضہ نہیں کیا،بھارتی فوج پونچھ سیکٹر کی طرف نہیں بڑھی جہاں مہاراجہ کی
فوج پاکستانی فوج سے لڑ رہی تھی۔ان قبضہ کرنے والی فوج کو ہندوستانی فوج کی
تھوڑی سی مدد سے ریاستی فوج نے1948ءمیں پونچھ سے پیچھے دھکیل دیا تھا۔“بھیم
سنگھ لکھتے ہیں کہ”انہوں نے پاکستان سے 1975ءمیں ہونے والی در اندازی سے
بھارتی حکومت کو خبردار کیا تھا لیکن اندرا گاندھی نے شیخ عبداللہ کو جموں
و کشمیر کا وزیر اعلی بنا کر بٹھا دیاتھا۔اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی
نے 1984ءمیں خود ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار
کرتے انہیں سیکورٹی کے لئے خطرہ قرار دیا تھا۔جب نام نہاد منتخب وزیر اعلی(
بھیم سنگھ مقبوضہ کشمیر کے موجودہ وزیر اعلی عمر عبداللہ کے بارے میں لکھتے
ہیں)خود یہ اعلان کر سکتا ہے کہ جموں و کشمیر کا کبھی ہندوستان سے الحاق
ہوا ہی نہیں۔رنبیر پینل کوڈ اور یقینا ہندوستان کے آئین کے مطابق الحاق
نامہ کو چیلنج کرنا ملک سے دشمنی کے مترادف ہے ۔ان کی حکمرانی کے دور میں
تقریبا ایک ہزار پاکستانی شہری جو کہ دہشت گرد تھے،نیپال کے راستے جموں
کشمیر میں داخل ہوئے“۔بھیم سنگھ ان کی تعداد بیان کرتے ہیں کہ ”گزشتہ تین
برسوں میں اور اس سال 15 فروری2013 ءتک 241سابق جنگجو /دہشت گرد براہ نیپال
اور دیگر راستوں سے اپنی فیملی کے ساتھ واپس آئے ہیں۔2010ءمیں 29سابق دہشت
گرد پاکستان/مقبوضہ کشمیر سے واپس آئے جن میں سے پانچ اپنے بیوی بچوں کو
ساتھ لائے تھے۔2011ءمیں 54سابق دہشت گرد واپس آئے جن میں سے16اپنے بیوی
بچوں کو ساتھ لائے تھے۔2012ءکے دوران 150جن میں سے 90بیوی بچوں کو ساتھ
لائے تھے۔15فروری2013ءتک8جن میں سے دو بیوی بچوں کے ساتھ آئے۔ مزکورہ
پالیسی کے تحت واپسی کے خواہش مند سابق دہشت گردوں سے1079درخواستیں ملی ہیں
جن میں سے191کی واپسی کی سفارش کی گئی ہے جبکہ بقیہ عرضیوں کی تفتیش کی جا
رہی ہے۔تقریبا 3974جنگجو مقبوضہ کشمیر /پاکستان میں رہ رہے ہیں ۔ریاستی
حکومت مزکورہ پالیسی کے تحت واپسی کے خواہش مند جوانوں کے لئے اس پالیسی کو
نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔کیا جناب عمر عبداللہ کے اس کارنامے کے بعد اس
میں کوئی شبہ رہ جاتا ہے کہ وہ ملک کی سیکورٹی کے لئے خطرہ بن چکے ہیںاور
ان کو وزیر اعلی کے عہدے پر رہنا چاہئے؟“
بھیم سنگھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹیو رکن اور انڈین یکجہتی
کونسل کے رکن ہیں اورکشمیر اسمبلی کے رکن ر ہ چکے ہیں۔بلاشبہ اس مضمون میں
مقبوضہ جموں و کشمیر کی اندرونی سیاسی عناد کا پہلو بھی واضح ہے ۔بھیم سنگھ
کو آزاد کشمیر اور پاکستان میں اس وقت مشہوری ملی جب انہوں نے مسلم کانفرنس
کے سینئر رہنما سردار محمد عبدالقیوم خان کو ” دل سے ملے دل “ کے نام سے
دہلی مدعو کیا اور ان کی میزبانی کی۔
مجھے یاد ہے کہ کشمیر کی رواں مسلح جدوجہد سے پہلے کی سیاسی جدوجہد کے وقت
فاروق عبداللہ نے وزیر اعلی کے طور پر نئی دہلی میں ایک بیان دیا تھا۔اس
بیان میںوزیر اعلی فاروق عبداللہ نے کہا تھا کہ ” میرے والد شیخ عبداللہ نے
کشمیر پر بھارت کا قبضہ کرایا،میں نے اس قبضے کو قائم رکھنے کے لئے اپنی
ساری عمر لگادی،میںاچھا سیکولر شہری ہوں ،میں چرچ جاتا ہوں،مندر جا کر
گھنٹا بجاتا ہوں اور مسجد بھی جاتا ہوں۔میں نے خود کو بھارت کا اچھا سیکولر
شہری بنانے کے لئے اپنے بچوں کی شادیاں دوسرے فرقوں میں کیں،لیکن کیونکہ
میرا نام فاروق عبداللہ ہے اس لئے انڈین اسٹیبلشمنٹ مجھ پر اعتبار نہیں
کرتی“۔
مجھے یاد آیا کہ دہلی میں بھارت کے بزرگ و جوان دانشوروں کے ایک گروپ سے
تفصیلی گفتگومیں ایک موقع پر میں ان انڈین دانشوروں کے اس گروپ کے ارکان سے
کہا کہ برہمن( میری مراد انڈین اسٹیبلشمنٹ سے بھی تھی)عقل و دانش کا شاہکار
ہوتا ہے۔اس پر ان میں سے ایک صاحب نے بڑے فخر سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ
اس میں کیا شک ہے۔میں نے کہا لیکن جس طرح موچی دنیا کے جوتے سیتا ہے لیکن
اس کی اپنی جوتی ٹوٹی ہوتی ہے،نائی کا کام ہے بال کاٹنا ہے لیکن اس کے اپنے
بال بڑے ہوتے ہیں ۔اسی طرح آپ عقل و دانش کا شاہکار تو ہیں لیکن کشمیر کے
معالے میں آپ بیوقوف بن جاتے ہیں۔وہ حیرانی سے کہنے لگے وہ کیسے؟ میں نے
جواب دیا کہ جموں و کشمیر بھارت کے پاس موجود واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے،
اگر آپ میں عقل ہوتی تو آپ ریاست کشمیر کے مسلمانوں کو اچھی طرح رکھتے اور
دنیا میں ایک نمونے کے طور پر پیش کرتے کہ دیکھو ہم نے واحد مسلم ریاست
کشمیر کے مسلمانوں کی کتنی اچھی طرح رکھا ہوا ہے ۔لیکن اس کے بجائے آپ نے
کشمیریوں پر ستم کا سلسلہ مستقل جاری رکھا،ان پر عرصہ حیات تنگ کئے رکھا ،
اس کے نتیجے میں ہر پندرہ بیس سال کے بعد کشمیری اٹھتے ہیں اور نہتے ہی آپ
کی ایسی تیسی کر دیتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ میں اس انڈین گروپ کی دانشوری سے
متاثر ہوا کیونکہ ان کی ”باڈی لینگویج “ سے میں نے اپنی بات کا اثر محسوس
کیا اور انہوں نے اپنے یہ احساسات چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ |