ایران میں صدارتی انتخابات کی مہم زور پکڑ چکی ہے۔ صدارتی
مناظرے ، دستاویزی فلمیں اور عوامی جلسے صدارتی انتخابات کی رونق کو بڑھاتے
چلے جارہے ہیں۔ آٹھ صدارتی امیدواروں میں سب سے زیادہ مضبوط پوزیشن ایٹمی
مذاکرات کار ڈاکٹر سعید جلیلی کی ہے اور ان کے بعد متعدد اصول پرست اور
اصلاح پسند امیدوار تقریبا ایک جیسی مقبولیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر سعید جلیلی
کی کامیابی کے امکانات میں اضافہ کی وجہ سے حال ہی میں اصلاح پسند ذرائع
ابلاغ کی جانب سے ایک مہم چلائی گئی ہے جس میں یہ دعوی کیا جارہاہے کہ
ڈاکٹر سعید جلیلی ڈاکٹر احمدی نژاد کا نیا ورژن ہیں یا جدید ایڈیشن ہیں
کیونکہ موجودہ صدر احمدی نژاد کو شروع ہی سے یہ امید تھی کہ ان کے حمایت
یافتہ امیدوار کو نااہل قرار دے دیا جائے گا لہذا انہوں نے شروع ہی سے دو
امیدوار میدان میں اتارے ان میں سے ایک کی کھل کر حمایت کی اور دوسرے کے
بارے میں خاموشی اختیار کی۔ ڈاکٹر احمدی نژاد کےحمایت یافتہ امیدوار.
اسفندیار رحیم مشائی کو نااہل قرار دیدیا گیا لیکن ان کے خاموش امیدوار
یعنی ڈاکٹر سعید جلیلی میدان میں باقی رہے۔
اصلاح پسندوں کے علاوہ مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے بھی یہی رونا رویا
جارہاہے اور دلیل کے طور پر ڈاکٹر سعید جلیلی اور ڈاکٹر محمود احمدی نژاد
کا باہمی تقابل بھی پیش کیا جارہا ہے جس میں دونوں رہنماؤں کی سادگی، عوام
دوستی کے علاوہ بعض دوسری باتوں کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے مثلا یہ کہ
احمدی نژاد کی انتخابی فلم بنانے والے ڈائریکٹر کے بیٹے اب ڈاکٹر سعید
جلیلی کی انتخابی فلم بنارہے ہیں یا ڈاکٹر سعید جلیلی کو ایٹمی مذاکرات کار
اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سربراہ کے طور پر احمدی نژاد ہی نے ہی نامزد
کیا تھا۔
اصلاح پسندوں اور مغربی ذرائع ابلاغ کے اس پروپیگنڈے سے ہٹ کر اگر ایران کے
سیاسی مطلع کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر
سعید جلیلی کو ڈاکٹر احمدی نژاد کا اخلاقی ورژن قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ
سادگی، پرکاری،عوام دوستی وغیرہ میں دونوں یکساں ہیں لیکن ڈاکٹر سعید جلیلی
کو موجودہ صدر کا سیاسی جانشین قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ ڈاکٹر سعید
جلیلی کے حامیوں میں وہ تمام انقلابی افراد نظر آتے ہیں جو ماضی میں ڈاکٹر
احمدی نژاد کی کابینہ میں شامل تھے لیکن ان کی پالیسیوں اور بعض قریبی
دوستوں کی وجہ سے احمدی نژاد کے مخالفین میں شامل ہوگئے؛ چنانچہ ڈاکٹر سعید
جلیلی کے حامیوں میں ایک بڑا نام ڈاکٹر کامران باقری ہیں جو ماضی میں ڈاکٹر
احمدی نژاد کے وزیر صحت تھے اور اپنے کاموں کی وجہ سے ملک بھر میں کافی
مقبول بھی ہوئے یہاں تک کہ انتخابات سے پہلے تک یہی تصور کیا جارہا تھا کہ
صدارتی دوڑ میں ڈاکٹر کامران باقری اصلاح پسندوں کے لیے ایک سخت حریف ثابت
ہونگے لیکن انہوں نے انتخابات میں ڈاکٹر سعید جلیلی کی حمایت کی ہے۔ اسی
طرح ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے مخالفین میں شمار ہونے والے افراد میں سابق
وزیر توانائی ڈاکٹر فتاح، سابق وزیر اطلاعات ڈاکٹر سلیمانی، سابق وزیر
تجارت و تیل ڈاکٹر میر کاظمی سمیت دسیوں ایسے نام شامل ہیں جن کے ہوتے ہوئے
یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ ڈاکٹر سعید جلیلی موجودہ صدر ڈاکٹر احمدی نژاد
کا نیا سیاسی ورژن ہیں۔ |