5جون میاں نواز شریف بحیثیت وزیر اعظم نئی منتخب جمہوری
حکومت کے دوسرے جمہوری دور کا آغاز کر رہے ہیں ۔انہوں نے حکمرانی کے اہداف
”سمندر کوزہ “ میں بند کر دیا ہے ۔پہلی ترجیح بھی معیشت، دوسری بھی معیشت،
تیسری بھی معیشت،اب حالات بتائیں گے کہ وہ کیسے اسے سر کرتے ہیں۔جہاں تک ان
کے الفاظ سے اخذہو رہا کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھنے کا عزم رکھتے ہیں
۔اردو گرامر کے قاعدے کے مطابق لفظ ”بھی “ جب جملہ میں استعمال ہو تو وہ
لازمی ،فرض اور عزم مصمم کا اظہار ہوتا ہے ،میاں صاحب نے لفظ ”بھی“ تین بار
ایک ہی جملے میں دوہرائے جس سے ان کے عزم و ہمت کا پتہ لگتا ہے۔پہلے میاں
نواز شریف کی گفتگو ملاحظہ کریں پھر بحث کرتے ہیں کہ آگے کیا ہونے جارہا ہے۔
عام انتخابات کے بعد اکثریت حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ نواز کے سربراہ
میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ” حکومت بنانے کے بعد ان کی اولین ترجیح ملک
کی معیشت کی بحالی پر ہوگی۔جب ملک کی معیشت درست ہوگی تو نہ چور بازاری رہے
گی اور نہ بے روزگاری۔ ملک کی اقتصادی حالت کی بحالی ہی وہ واحد نسخہ ہے جو
سب مسائل کے لیے کارگر ثابت ہوگا۔ معیشت کو بہتر بنا کر ہی احساسِ محرومی
ختم کیا جا سکتا ہے اور جب محرومی کا احساس ختم ہوگا تو شکایتیں کم ہوں گی
اور دہشت گردی اور بدعنوانی پر قابو پایا جا سکے گا۔معیشت ٹھیک کر لیں تو
یہ سارے مسائل ٹھیک ہو جائیں گے۔ اکانومی ٹھیک کرتے ہیں تو اس سے پاکستان
کے اندر تشدد ختم ہو جائے گا، بدامنی ختم ہو گی، دہشتگردی ختم ہو گی ، بے
روزگاری ختم ہو گی ، غربت ختم ہو گی ، جہالت ختم ہو گی تو اور کیا چاہیے اس
لیے سب سے زیادہ توجہ معیشت پر ہی ہوگی۔اس سوال پر کہ اکثریت ملنے کے بعد
اب ان کی پالیسی کیا ہوگی، نواز شریف نے کہا کہ جب انتخابات میں نیت صحیح
رکھی ہے تو الیکشن کے بعد نیت خراب کیوں کریں گے۔ میں نے تو پہلے ہی کہہ
دیا تھا کہ ہم سب کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں۔ ہم سب کو ساتھ دعوت دیں گے
کہ آئیں اکھٹے چلیں اور اب اکثریت آ گئی ہے، اس وقت بھی یہی کہیں گے کہ
نواز شریف کا وزیراعظم بننا یا نہ بننا معنی نہیں رکھتا، اصل معاملہ ہے کہ
پاکستان کو آگے چلنا چاہیے۔ الیکشن میں جس جماعت کو جس صوبے میں مینڈیٹ ملا
ہے اسے وہاں حکومت بنانے کا حق ہے۔ جس کا جہاں پر مینڈیٹ ہے اس کا احترام
کیا جائےگا۔ جیسے سندھ میں پی پی پی کو مینڈیٹ ملا ہے اور انہیں اپنے
مینڈیٹ کے استعمال کا حق ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ عمران خان کو موقع دیں گے کہ وہ خیبر
پختونخوا میں حکومت بنائیں، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اگر بنا سکتے ہیں تو
بسم اللہ ، ہمیں اس میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔شدت پسندی پر قابو پانے کے
بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ طالبان سے بات چیت کے معاملے کو
سنجیدگی سے لینا چاہیے اور یہ معاملہ بات چیت سے ہی حل ہو سکتا ہے۔بجائے اس
کے کہ آپ طالبان کی مذاکرات کی پیشکش کو سابقہ حکومت کی طرح ردی کی ٹوکری
میں پھینک دیں میرا خیال ہے کہ اس میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے اور ہم سب
مل کر بیٹھ کر مشورہ کر کے کوئی مثبت ردعمل کا مظاہرہ کریں تو مثبت بات
ہوگی۔بلوچستان کے حالات اور وہاں کے عوام میں پائے جانے والی ناراضگی پر
انہوں نے کہا ملک ہمارا ہے لوگ بھی ہمارے ہیں۔غلطیاں بھی ہوتی
ہیں،ناراضگیاں بھی ہوتی ہیں۔کوئی ناراضگی ہے تو اسے دور کرنا چاہیے اور اگر
کوئی غلطی ہے تو اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ہر معاملے کے حل کے لیے تمام سٹیک
ہولڈرز کو ایک ہی سوچ کا حامل ہونا چاہیے۔بڑے بڑے معاملات دنیا میں حل ہوتے
رہے ہیں اور آئندہ بھی حل ہوں گے۔ اگر میز پر بیٹھ کر معاملے کو حل کر لیا
جائے تو اس سے کیا اچھی بات ہوگی۔بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں میاں
نواز شریف نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوں گے۔ ہم ان کے
ساتھ ہر متنازع معاملے پر بات کریں گے۔ بھارت کے دورے کے بارے میں انا کی
کوئی بات نہیں اور کوئی بھی پہلے آئے بہرحال بات چیت ہماری جاری رہے
گی۔امریکہ کے بارے میں میاں نواز شریف نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے
تعلقات ہمیشہ سے اچھے ہیں رہے ہیں اور وہ رہیں گے تاہم ان تعلقات میں یقینا
بہت اتار چڑھا آتا رہا ہے کیوں آیا اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے تاہم ان کا
کہنا تھا کہ ڈرون حملوں کے بارے میں ہماری پالیسی بالکل واضح ہے کہ یہ ڈرون
حملے نہیں ہونے چاہییں۔اس سوال پر کہ اگر امریکہ نہ مانا تو وہ کیا کریں
گے، نواز شریف نے کہا کہ نہیں اس سے منوایا جا سکتا ہے اور اس پر بات ہو
سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو کوشش کرنی چاہییے کہ وہ ہماری بات غور
سے سنے اور ہم جو سمجھتے ہیں کہ ہماری آزادی اور خود مختاری پہ ایک ضرب
لگتی ہے تو میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں انھیں توجہ دینی چاہیے“۔
میاں نواز شریف نے اپنے اقتدار کا روڈ میپ واضح کر دیا ہے معیشت کی بہتری
بڑا کام ہوگا،یقینی طور پر جب آمدن و خرچ میں توازن پیدا ہو گیا تو اس کے
نتیجے میں دہشتگردوں کی کمر ٹوٹ جائے گئی ۔یہ راز امریکہ بہادر کی سمجھ میں
آ جائے تو وہ لاکھوں انسانوں کے خون پر روئیں کہ اگر طاقت کے بجائے معاشی
جنگ کا آغاز کیا ہوتا تو آج کہیں بھی دہشگرد نظر آتا نہ اس قدر بجٹ اتحادی
افواج کی نذر ہورہا ہوتامگر ایسے حالات کا ادراک نہیںکیا گیا کہ عوام کی
خوشحالی میں ہی امن کا راز ہے ۔ یقینا میاں نواز شریف نے سوچ کر اپنے اہداف
کا ذکر کیا،اس پر من و عن عمل کرنے سے بڑی تبدیلی رونما ہونے کی امید کی جا
سکتی ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ معیشت کی بہتری میں تمام بحرانوں سے نمٹنے کا
حل موجود ہے ۔بد دیانتی ،چوری ،قتل ،اغواءبرائے تاوان ،جیسے بے شمار جرائم
جن کی پیداوار دہشتگری ہے اس کا مقابلہ طاقت کی بجائے معاشی دھماکوں سے کیا
جانا از بس ضروری ہے ۔جب ہر شہری کا مستقبل محفوظ ہو گا تب جرائم میں کمی
آئے گی۔معیشت کو ترجیح اول قرار دینا اپنی منزل کا تعین کر دیتی ہے ،اب اس
معاشی دھماکہ کو کیسے کیا جائے گا اس کے لئے بڑے پیمانے پر انتظامیہ میں
تطہیری عمل کا آغاز کرنا پڑے گا ۔شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کرنا
پڑے گی۔دراصل ہمارے سابق حکمرانوں نے بھی منصوبے بنائے مگر وہ بیوروکریسی
کے خود ساختہ قواعد و ضوابط کی بنا پر کاغذوں و فائلوں تک محدود رہے ۔اب
جمہوریت کو پھلدار بنانے کی ضرورت ہے ۔عوام کوزیادہ دیر بھول بہلیوں سے رام
نہیں کیاجا سکتا۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری نے
خواہشات دور کی بات ہے ضروریات بھی پوری نہ ہونا حکومت کے لئے چیلنج سے کم
نہیں ۔میاں صاحب کا ارشاد گرامی ریکارڈ کے طور شروعات میں رکھا تاکہ عوام
کو یاد دلایا جا سکے کہ کون کتنا عوام کا خیر خواہ رہا ان کی مذکورہ گفتگو
کا تاریخی پس منظر میںجائیزہ لیا جا سکتا ہے کبھی کھبی خیال آتا ہے کہ جس
طرح میاں نواز شریف دعوے کر رہے ہیں میں میں خاک کہ یہ ہوائی اعلانات نہ
رہیں ایسے آذادکشمیر کے ایک سابق وزیراعظم بارے بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں
نے آذاکشمیر کو سنگا پور بنانے کی بات کی تھی ،جو پوری کبھی بھی نہیں ہو
سکتی ،انہوں نے مظفرآباد سرینگر گیس پائپ لائن کا اعلان فرمایا تھا ،زیتون
کی کاشت بذریعہ ہیلی کاپٹرز کرنے کی بات کی تھی ،انہوں نے تو مقبوضہ کشمیر
کے باشندوں کے لئے نوکری میں کوٹہ دیئے جانے کا فرمان جاری کرتے ہوئے کہا
تھا کہ آذادکشمیر خوشحال ہے مقبوضہ کشمیر کے بھائی یہاں ملازمت بھی کر سکتے
ہیں ۔ایک حیران کن واقع بیان کر نا چاہوں گا،کہ آذادکشمیر کے ایک سابق
وزیراعظم ایک پن بجلی گھر کی اپ گریڈیشن کا افتتاح کے بعد تقریب سے خطاب
کرتے ہوئے نکہا کہ ”ہم بچے کے پیشاب کی بوند بوند سے بجلی پیدا کریں گے “
واضح رہے کہ مذکورہ پاور اسٹیشن جس کی اپ گریڈیشن کی گئی تھی ان کی تقریر
کے دوران وہ ٹربائن چلتی رہی مگر پانی سے نہیںڈیزل سے چلا کر ریاست کے
وزیراعظم کو چونا لگانے والے اپنا کرتب دکھا گے بیورکریسی کی اصلاح ضروری
ہے ورنہ یہ رونا دھونا کبھی بھی بند نہیں ہو سکے گا۔۔!!!معیشت کا چیلنج
آسمان کی بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے اور نا کامی کی صورت پا تال میں گرا
سکتا ہے ۔کالم کی طوالت کے خوف سے باقی کل پر چھوڑتے ہیں - |