وہ جو بیچتے تھے دوائے دل

نماز مغرب کے کچھ دیر بعد ہم حضرت والا مفتی رشید احمد صاحب نوراللہ مرقدہ کے کمرے میں کھڑے حضرت والا کی استعمال شدہ اشیاءکی زیارت کررہے تھے۔یہ کمرہ تھا یا تاریخ کا ایک گوشہ۔ایک اللہ والے کا ڈیرہ تھا کہ صدیوں کا پھیرا۔صا حب خانہ بتا تے چلے جارہے تھے : یہ حضرت والا کی مراقبہ گاہ ہے،وہ آپ کا مخصوص دائمی نقشہ اوقات ہے۔چاروں طرف لگی گھڑیاںان کے ہاں وقت کی حساسیت کی آئینہ دار ہیں۔دیوار پہ چسپاں جہادی اہمیت پر مشتمل جہازی سائز سینری آپ کی رگ رگ میں بسی اعلاءکلمة اللہ کی محبت کی غماز ہے۔ ”اشرف المدارس زیر انتظام مفتی رشید احمد !!“ ایک کتاب پہ لکھا نظر آیا۔ اسی دوران میرے موبائل پر آنے والے میسج نے چونکا دیا۔ میسج میں لکھا تھا۔عارف باللہ شیخ العرب والعجم حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دار فانی سے کوچ کرگئے ہیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ان کی نماز جنازہ جامعہ اشرف المدارس میں ادا کی جائے گی۔ اس اطلاع سے دل و دماغ کو ایک جھٹکا سا لگا۔

ایک عظیم اللہ والے کے کمرے میں کھڑے ہوئے ان کے ماضی کے یادگار واقعات میں گرداں ایک عظیم عالم ربانی کی موت کی اطلاع سے حقیقت میں عربی کہاوت ”موت العالم موت العالم“کی صداقت سمجھ میں آئی۔یوں لگا جیسے ،” اک شخص سارے جہاں کو ویران کرگیا۔“لیکن یہ کوئی ایک شخص تو نہ تھے،بلکہ پوری دنیا کے ہر انسان کی دائمی کامیابی و فلاح کے درد و غم میں ماہی بے آب کی مانند خود اک تڑپتا جہان تھے۔بے شمار لوگوں کی زندگیاں بدل کر انہیں معرفت و محبت کے جام پلانے والے انبیاءکرام کے حقیقی وارث تھے۔ اس خبر کے ساتھ ہی افسردگی کے عالم میں دونوں بزرگوں(ایک بزرگ جن کے کمرے میں ہم کھڑے تھے”حضرت مفتی رشید احمد نوراللہ مرقدہ“، دوسرے بزرگ جن کی وفات کی اطلاع ہمیں ملی تھی”حضرت مولانا حکیم اختر صاحب نوراللہ مرقدہ“) کی رفاقت و تعلق کے واقعات تسلسل کے ساتھ ذہن میں گردش کرنے لگے۔ایک وقت تھا جب دونوں بزرگوں نے مل کر ناظم آباد میں دینی کام کی ترویج کا بیڑا اٹھایااور اسی عظیم کام پر اپنا تن، من، دھن قربان کردیا۔ حضرت مفتی رشید احمد صاحب نوراللہ مرقدہ ناظم آباد میں اشرف المدارس میں دینی کام کو جاری رکھے ہوئے تھے،اس وقت حضرت مولانا حکیم اختر صاحب رحمة اللہ علیہ بھی ان کے ہمرکاب تھے۔حضرت مفتی رشید احمد صاحب نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ ناظم آباد کو اپنا مسکن بنائے رکھا،اور حضرت حکیم اختر صاحب نے بھی قریب دو دہائیوں کے ناظم آباد میں ِبِِتائی ہیں۔ بعد میں جب حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب نے گلستان جوہر میں مدرسے کی بنیاد رکھنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمة اللہ علیہ نے حضرت حکیم صاحب کو مدرسے کا نام اشرف المدارس رکھنے کا مشورہ دیااور خود ناظم آباد میں قائم ادارے”اشرف المدارس“ کا نام دارلافتاءوالارشاد رکھ لیا۔ دونوں حضرات کے مزاج میں انتہا درجے کی یکسانیت پائی جاتی تھی۔ دونوں بزرگوں نے اسلامی صحافت کا بیڑا اٹھایا اور ہفت روزہ نکالے۔دونوں نے خدمت خلق کا فریضہ ادا کرنے کے لیے ٹرسٹ قائم کیے۔دونوں نے افغانستان میں جاکر اللہ کے دین کے لیے لڑنے والے شیدائیوں کی حوصلہ افزائی کی اور ہر طرح سے ان کو تعاون فراہم کیا، اسلام دشمن این جی اوز کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے سر توڑ کوشش کی۔خیر موت تو ایک حقیقت ہے۔ ”کل نفس ذائقة الموت“ تو ایک خدائی ضابطہ ہے۔کسی بھی انسان کو اس سے مفر نہیں۔لیکن اللہ والوں کی موت سے سارا جہاں سونا ہوجاتا ہے۔ حضرت مولانا حکیم اختر صاحب نوراللہ مرقدہ بھی انہی اللہ والوں کی فہرست میں شامل ہیں، جن کے جانے سے ہر دل رنجیدہ اور ہر آنکھ پرنم ہے۔

حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اخترصاحب نے دینی علوم جوانی میں حاصل کیے تھے۔عصری تعلیم علیگڑھ سے حاصل کی، ساتھ میں حکمت کی تعلیم بھی مکمل کی۔ جب عصری تعلیم سے فارغ ہوئے تو آپ جوانی کی دہلیز پرقدم رکھ چکے تھے۔ بزرگوں کے ساتھ تعلق شروع سے ہی تھا،ا س لیے سوچا کہ علم دین حاصل کرنا چاہیے۔حصول علم کی جوانی میں ٹھانی اور اپنے ارادے کو جوانی میں ہی پایہ تکمیل تک پہنچایا اور ایک بلند پایہ عالم دین کا مقام حاصل کیا۔کئی عظیم بزرگوں کی صحبت اختیار کی اورخلافت بھی حاصل کی۔ حضرت حکیم صاحب رحمة اللہ علیہ نے آخری خلافت حضرت مولانا ابرارالحق صاحب نوراللہ مرقدہ سے حاصل کی۔آپ کے موعظ حسنہ کی تعداد تقریباً ایک سو پچاس سے زیادہ ہے۔ جن کا ترجمہ سات مختلف زبانوں میں کیا گیا۔ان مواعظ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ حضرت کے متعلقین میں سے بعض نے بتایا کہ حضرت کے چند مواعظ ایسے بھی ہیں جن کو امام کعبہ نے خود اپنے ہاتھ سے مسجد حرام کی پہلی صف میں تقسیم کیا، اسی طرح مسجد نبوی میں بھی آپ کے ترجمہ شدہ مواعظ تقسیم کیے گئے۔آپ کے متعلقین اور خلفاءکی تعداد متعدد ملکوں میں بے شمار ہے۔دنیا بھر میں حضرت حکیم صاحب کے ذریعے ھدایت پانے والوں کی تعداد کا اندازہ لگانا بھی کچھ آسان نہیں ہے۔

حضرت حکیم صاحب کی موت کی اطلاع ملنے کے کچھ دیر بعد نماز جنازہ کا وقت معلوم کرنے کے لیے جامعہ اشرف المدارس رابطہ کیا۔ بتایا گیا کہ نماز جنازہ کل بروز پیر صبح نو بجے جامعہ اشرف المدارس میں ہی ادا کی جائے گی۔ جیسے کیسے افسردگی وبے چینی کے عالم میں صبح تک کا وقت گزارا۔ صبح آٹھ بجے نمازہ جنازہ کے لیے اپنے دفتر سے روانہ ہوئے۔راستے میں ایک جگہ گاڑی روکی تو چاروں طرف افراد کو دیکھ کر یوں محسوس ہورہا تھا کہ ہر شخص ہی حضرت حکیم صاحب رحمة اللہ علیہ کے جنازے میں شرکت کے لیے جلدی پہنچنے کی کوشش کررہا ہے۔میں نے گاڑی میں اپنے ساتھ بیٹھے مولانا افتخار صاحب(استاذ جامعة الرشید کراچی، امام مسجد دارالافتا والارشاد کراچی) سے کہا کہ حضرت! آج تک یہ سنتے آئے ہیں کہ دنیا کے بادشاہوں اور حکمرانوں کی حکمرانی لوگوں کے مال و اسباب اور جسموں پر ہوتی ہے اوراللہ والوں کی حکمرانی لوگوں کے دلوں پر ہوتی ہے،آج لوگوں کے دلوں پراللہ والوں کی حکمرانی کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرلیا ہے۔ بغیر کسی اعلان و اشتہار کے لوگ دیوانہ وار نماز جنازہ پڑھنے کے لیے بڑھے جارہے تھے۔سوار اور پیدل ہرقسم کے لوگ حضرت حکیم صاحب کی وارفتگی میں شامل تھا۔

ہم تقریباً جنازے کے مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے نماز جناز ہ کی مقررہ جگہ جامعہ اشرف المدارس کے قریب پہنچ گئے۔جامعہ سے کچھ فاصلے پر گاڑی کھڑی کی۔ جنازے میں شرکت کے لیے آنے والے حضرات کا اسقدر اژدحام تھا کہ اشرف المدارس تک پہنچتے پہنچتے تقریباً بیس منٹ لگ ہوگئے۔ہر طرف انسان ہی انسان نظر آرہے تھے،جو اس دور میں بھی اللہ والوں کی نعمت کی قدر کا پتا دے رہے تھے۔جنازے میں شرکت اس لیے کی جاتی ہے تاکہ اللہ سے دعا کرکے دنیا سے رخصت ہونے والے کی مغفرت کروائی جائے،لیکن یہاں تو کئیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم تو حضرت حکیم صاحب کے جنازے میں اس لیے شرکت کرنے آئے ہیں تاکہ اللہ والے کے جنازے میں شرکت کرکے ہماری بخشش ہوجائے۔ حضرت حکیم اختر صاحب کی وصیت کے مطابق آپ کے بیٹے مولانا مظہر صاحب دامت برکاتہ نے نماز جنازہ مقررہ وقت پرپڑھائی۔نمازجنازہ بہت ہی سادگی سے ادا کی گئی، نہ کوئی اعلان، نہ کوئی بیان اور نہ کسی کا انتظار۔جنازے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کا اندازہ ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک لگایا گیا۔ دس ہزار کے لگ بھگ لوگ گھروں سے جنازے کے لیے آئے لیکن رش کی وجہ سے جنازے میں شرکت نہ کرسکے۔

حضرت مولانا حکیم اختر صاحب نے اپنی پوری زندگی سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے گزاری۔بے شمار لوگوں کوسنت نبوی کی راہ دکھائی۔ہر کام سے پہلے آپ ہمیشہ اپنے اس شعر کو پیش نظر رکھتے اوردوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے تھے۔
نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

ایک ایسے وقت میں جب جعلی پیروں نے برساتی کھمبیوں کی طرح سراٹھاکر تصوف و طریقت کو اتنا بدنام کیا کہ لوگ تصوف و طریقت کو شریعت سے الگ خیال کرنے لگے ،حضرت نے تصوف و طریقت کا حقیقی تصور پیش کیا۔ لوگوں کو بتلایا کہ اصل میں شریعت پر عمل کرنے کا نام ہی تصوف و طریقت ہے۔جو عمل شریعت سے جدا ہو وہ گمراہی تو ہوسکتا ہے، تصوف و طریقت نہیں ہوسکتا۔آپ خود بھی ہمیشہ شریعت پر عمل کرکے اپنے متعلقین کے لیے نمونہ بن کر رہنمائی فرماتے رہے۔ حضرت حکیم صاحب کے تقویٰ کا عالم ملاحظہ فرمایے! ایک بار حضرت حکیم صاحب ساﺅتھ افریقہ کے سفر پر گئے تو وہاں کسی عقیدت مند نے ایک جبہّ ھدیہ میں پیش کیا، حضرت ھدیہ لے کر بہت خوش ہوئے، جبہّ پہنا اور اپنے متعلقین سے پوچھنے لگے۔ دیکھ کر بتائیں کہ جبہ ٹخنوں سے نیچے تو نہیں جارہا؟ حضرت کے ایک بہت پرانے خلیفہ نے فرمایا کہ حضرت نیچے تو نہیں ہے، البتہ ٹخنوں کو چھورہا ہے۔حضرت چونکہ بیماری کی وجہ سے اپنا جبہّ خود نہیں اتار سکتے تھے اس لیے فرمایا کہ میرا جبہّ فوری اترواﺅ۔ جبہّ اتروانے میں کچھ دیر ہوگئی۔ تو حضرت بہت ہی غصے سے ڈانٹتے ہوئے فرمانے لگے کہ اگر اسی حالت میں میری موت آگئی تو میں اللہ کو کیا جواب دوں گا؟۔جبہّ فوری اترواﺅ۔

حضرت حکیم صاحب تو ہمیں داغ مفارقت دے گئے، لیکن قحط الرجال کے اس دور میں ان کے بعد حقیقی تصوف و طریقت کا درس دینے والی خانقاہوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اوروہ بھٹکے ہوئے لوگوں کی علاج گاہوں کو مزید ویران کرگئے ہیں۔ ”وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے“۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کے بعد بھی ان کے فیوض و بر اکات جاری رہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیںاپنی شان کے مطابق انعامات سے نوازے۔آمین
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701373 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.