یہ ان دنوں کی بات ہے جب امام اہلسنت شیخ الحدیث سرفراز
خان صفدر رحمہ اللہ تعالی کے انتقال کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے ،ہم مانسہرہ
سے ایبٹ آبادواپس آرہے تھے،ایک فاضل مولانا صاحب بتانے لگے میں نے حضرت کی
وفات پر ایک مرثیہ لکھا جو ایک مشہور رسالے میں شائع ہوا، چند دنوں بعد
مجھے ایک خط موصول ہوا،مولانا فرمانے لگے :یہ ڈھائی صفحوں کاخط تھا، آپ
یقین کریں وہ سارا خط گالیوں سے بھر اہوا تھا،اس شخص نے لکھا اب آپ یہ
قصیدہ کس مقصد کے لئے ہمیں سنا رہے ہیں یہی بات اگر ہمیں پہلے پہنچتی تو ہم
ان سے استفادہ کرتے ،ا ن کی خدمت میں حاضری دیتے لیکن اب آپ ہمیں غم و حسرت
کے بغیر کیا دے رہے ہیں؟! مولانا کہنے لگے میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں
تھا۔
بہت سے لوگ یہ عنوان دیکھ کر خیال کر رہے ہوں گے موصوف اس دنیا سے رخصت
ہوچکے ہیں اس لئے اب ان کا مرثیہ لکھا جارہا ہے لیکن ہم آپ کو یہ خوشخبری
سناتے ہیں کہ الحمدللہ موصوف صحت و سلامتی کے ساتھ ہیں،اور ماشاء اللہ ابھی
عمر کے لحاظ سے بھی بزرگوں کی فہرست میں داخل نہیں ہوئے بلکہ ابھی جوان ہی
ہیں، آپ نے کئی مضامین میں یہ شکوہ پڑھا ہوگا کہ ہم لوگ قابل قدر لوگوں کے
فضائل و مناقب اس وقت بیان کرتے ہیں جب ان کی زیارت اور ان سے استفادے کی
کوئی سبیل باقی نہیں رہتی، ان کی عمر گوشہ خمول میں گذر جاتی ہے اور ان سے
استفادہ کرنے والوں کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے جب وہ اس دنیا سے رخصت
ہوجاتے ہیں تو پھر ان کے گن گائے جاتے ہیں نتیجے میں تین چیزیں حاصل ہوتی
ہیں غم، حسرت اور غصہ۔غم شخصیت کی جدائی کا، حسرت ان کی زیارت اور استفادے
سے محرومی پر ، اور غصہ اس شخص پر جوان دونوں چیزوں کا سبب بنا ہے ، یعنی
مرثیہ کہنے والا۔میں نہیںچاہتا کہ آپ ان تینوں چیزوںمیں سے کسی کا شکار
ہوں،بلکہ اگر آپ کے پاس اسباب ہوں تو آپ ضرور ان سے استفادے کے لئے سفر
کریں،اور ان کی زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں۔
مولانا محمد عبدالمالک صاحب کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہے ، جو 1971ء کے بعد
سے بنگلہ دیش بن چکا ہے،اب وہاں جانا اتنا آسان نہیں جتنا پہلے کبھی تھا،
اسے میری خو ش قسمتی کہیے کہ اللہ تعالی کی رحمت سے اسباب ایسے پیدا ہوئے
کہ مجھے ان کی زیارت کا موقع مل گیا،میں نے پہلے ان کا نام سنا تھا، اور
اور ان کی کتاب ’’المدخل الی علوم الحدیث الشریف‘‘ کا کچھ حصہ مطالعہ کیا
تھا، لیکن ان کی شخصیت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا، ان کی اس کتاب کو
بھی میں نے عام کتابوں کی طرح ہی خیال کیاتھا، اور بہت غور سے مطالعہ نہیں
کیاتھا،اب اس سے پہلے کہ ہم اپنے ممدوح کا تعارف کرائیں یہ سنیں کہ ہماری
ان تک رسائی کیسے ممکن ہوئی، کہاں ایبٹ آباد کے پہاڑ، اور کہاں ڈھاکہ کے
مرغزار!
2010ء میں جب درس نظامی کی تکمیل ہوچکی تو میرا اگلا ہدف علوم الحدیث ہی
تھا،2011ء میں اساتذہ کرام نے یہ طے فرمایاکہ میں بنگلہ دیش جاؤں اور
مولانا محمد عبدالمالک صاحب کے پاس علوم الحدیث الشریف پڑھوں،اساتذہ کے حکم
کے سامنے پرمارنے کی کہاں گنجائش تھی، میں نے اساتذہ کی اطاعت میں اپنی
سعادت سمجھی ،ہمارے ساتھیوں کے لئے اور خود ہمارے لئے پڑھنے کے لئے بنگلہ
دیش جانے کا یہ فیصلہ باعث تعجب تھا، عجیب و غریب خیالات اور باتیں سننے کو
ملیں، کسی نے کہا: آج تک تاریخ میں کوئی بنگلہ دیش بھی گیا ہے پڑھنے کے لئے
؟ لوگ تو وہاں سے یہاں پڑھنے کے لئے آتے ہیں!کسی نے کہا : بنگلہ دیش والے
پاکستانیوں کے لئے بہت زیادہ تعصب رکھتے ہیں،ا ور وہ پاکستانیوںکو تحقیر کی
نظر سے دیکھتے ہیں، کسی نے کہا وہاں کی آبادی بہت زیادہ ہے ، عمارتیں اونچی
اونچی ہیں،آدمی ہر وقت گھٹن محسوس کرتاہے،یہ اور اس طرح کی اور باتیں سن کر
اور سوچ کر یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ شاید میرے لئے وہاں ایک دن گزارنا بھی
جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا، بعض دوستوں نے یہ بھی کہا، آپ ماشاء اللہ جس
طرح شاندار نمبروں سے کامیابی لیتے رہے ہیں آپ کو تو ترقی کرکے سعودیہ یا
مصر جانا چاہیے ، یہ تو آپ تنزل کر رہے ہیں، کسی نے طنزاً کہا : یہ اعلی
تعلیم کے لئے ’’آکسفورڈ‘‘ جا رہے ہیں، علاقے میں جب یہ خبر پھیلی تو بہت سے
خیرخواہ والدین کے پاس آگئے اور سمجھایا کہ یہ ملک ایسا نہیں ہے جہاں جانا
چاہیے،یہ تو بہت خطرناک ملک ہے ، اگر بیرون ملک جانا ہی ہے تو کسی ’’امیر
‘‘ ملک جانا چاہیے، والد صاحب نے مجھ سے بات کی میں نے یہی عرض کی کہ آپ
فکر نہ کریں میں خود تو جارہا نہیں ہوں ، اساتذہ بھیج رہے ہیں ۔۔۔بہرحال یہ
باتیں ہم نے سنیں، اور ہمارے قدم ڈگمگا جاتے اگر یہ فیصلہ ہمارا اپنا ہوتا،
لیکن کیونکہ یہ فیصلہ اساتذہ کرام کا تھا اس لئے یہ بات ہمارے لئے سکون و
اطمینان کا ذریعہ تھی کہ کچھ بھی ہو، میں تو اساتذہ کرام کی اطاعت کر رہا
ہوں۔پھرمولانا عبدالمالک صاحب کے ساتھیوں(میرے اساتذہ کرام)سے آپ سے متعلق
باتیں سنتا تو پھر دل مچلنے لگتا، اور دل سے پکار آتی کہ کب اس شخصیت کو
اپنی آنکھوں سے دیکھ پاؤں گا، ’’ایک استاذ فرمانے لگے:میں خود طالبعلم رہا
ہوں، اور دس سال سے زیادہ عرصہ پڑھانے میں لگا چکا ہوں، وہ میرے ساتھیوں
میں ہیں، میں نے بہت سے علماء کو دیکھا ہے، لیکن ان کی مثال نہیں ہے’’
لانظیر لہ‘‘۔، یہ جملے ہمیں کتابوں میں ملتے ہیں جو بعض کبارعلماء سے متعلق
ان کے شاگرد یا ملنے والے کہتے ہیں ، کہ ان کی مثال نہیں، ان جیسا شخص میری
آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا، وغیرہ لیکن اس دور میں کسی کے بارے میں مکمل
وثوق اور ذمہ داری کے ساتھ کوئی یہ بات کرے یہ میرے لئے کم تعجب کی بات
نہیں تھی،ایک استاذ محترم فرمانے لگے، وہ سراپا علم ہیں، ان کے رگ وپے میں
علم بساہے،ایک استاذ محترم سے سنا: عام طور پر تو تواضعاً خاموش رہتے ہیں
لیکن جب کسی مسئلے پر گفتگو شروع کر دیں تو علم کے دریا بہادیتے ہیں۔اساتذہ
کرام سے یہ فضائل سن کر واہمہ تو بہرحال ضرور ہوتا تھا کہ یقینا ان باتوں
میں کچھ نہ کچھ اثر تو مبالغے کا ضرور ہوگا، لیکن یہ ا طمینان بھی ہوتا تھا
کہ جیسا کیسابھی ہو، وہاں رہنا کیسا ہی مشکل کیوں نہ ہو، کیسی ہی مشکلات
کیوںنہ ہوں لیکن ایک ایسے عالم کے لئے سب کچھ برداشت کیا جاسکتاہے،بقول
حافظ شیرازی:
در بیابان گر بشوق کعبہ خواہی زد قدم
سرزنشہا گر کند خار مغیلاں غم مخور
اس امتحان میں تو الحمدللہ ہم سرخرو ہوئے اورکوئی بھی بات ہمارے ارادے کو
تبدیل نہ کرسکی، لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی تھے، پاسپورٹ بنانااور اس
کے بعد ویزا لگانا یہ ایک بڑی گھاٹی تھی جس کو عبور کیے بغیر آگے بڑھنا
ناممکن تھا،اس کے لئے ہمیں کتنی محنت اٹھانی پڑی اور اس دوران کیا کیا
آزمائشیں آئیں وہ اپنی جگہ دلچسپ بھی ہیں اور سبق آموز بھی ،لیکن اس وقت ان
کی تفصیل کا موقع نہیں، اتنی بات ہے کہ چھ مہینے مسلسل ہم اس انتظار کے
امتحان میں رہے ، حتی کہ بالکل مایوسی کے دھانے پہ پہنچ گئے لیکن بالاخر
رحمت حق کی دستگیری ہوئی اور وہ وقت آپہنچا جب ہم ڈھاکہ کا ٹکٹ لیے جناح
انٹر نیشنل ائر پورٹ پر موجود تھے۔
میرے سفر کی منزل علم حدیث تھا،اورمولانا محمد عبدالمالک صاحب تھے،اس کے
علاوہ کچھ بھی نہ تھا،ذہن ان کے بارے میں تصورات قائم کر رہا ہے، کیسے ہوں
گے؟کیسی جگہ ہوگی؟ ایک سال کا عرصہ ہے سب نئے لوگ ہوں گے وہ بھی غیر ملک
کے،غیر زبان کے ، اور ایسے ملک کے جو پاکستانیوں کے لئے کسی دشمن سے کم
جذبات نہیں رکھتاوغیرہ وغیرہ... آگے کی روداد فی الحال موضوع سخن نہیں ،
ابھی صرف یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ اس گوہر نایاب تک ہم کیسے پہنچ پائے،
حاصل یہ کہ اساتذہ کرام کی برکت سے آخر حضرت کی زیارت نصیب ہوگئی ، مولانا
عبدالمالک صاحب کے بارے میں جو سناتھااس سے بڑھ کر پایا،یہاں ایک واقعہ یاد
آگیا، سنہ ۹ہجری کو عام الوفود کہا جاتا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کے پاس مختلف قبائل کے لوگ آئے ان میںسے ایک وفد میںایک شخص آئے ان کو
لوگ زید الخیل کہا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا مجھ سے
جس شخص سے متعلق بھی بیان کیاگیا ملاقات کے بعد میں نے اس کو بیان سے کم ہی
پایا، صرف آپ ہیں جن کو میں نے جتنا سنا اس سے بڑھ کر پایا،پھر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان کو زید الخیر کا خطاب عطا فرمایا۔ مولانا عبدالمالک صاحب
کے بارے میں جو کچھ سنا اس سے ان کو بہت بڑھ کر پایا،اور ایسا نہیں کہ ان
سے پہلی ملاقات ہوئی اور پھر ہم نے ان کے بارے میں ذہن بنالیا بلکہ ہم نے
ان کو رفتہ رفتہ پہچانا ،علم شریعت میں جو تفقہ اور بصیرت اللہ تعالی نے آپ
کو عطا فرمائی ہے وہ قابل رشک ہے، علم فقہ ہو، اصول فقہ ہو، تفسیر ہو ،
اصول تفسیر ہو، آپ ہر جہت میں ایسے گفتگو کرتے ہیں جیسے یہی آپ کے مطالعے
کا اصل میدان ہے، لیکن آپ کے مطالعے کا اصل میدان علم حدیث ہے ،علوم الحدیث
میں جس شان تفقہ پر آپ پہنچ چکے ہیں درجہ امامت کے قریب ہے، اس میں آپ
مجتہدانہ مقام رکھتے ہیں، اور یہ آپ کو رگ و پے میں رچ بس چکا ہے اور آپ کا
ذوق بن چکا ہے، اس دور میں کہ جہاں اس علم کے چرچے بالکل ماند پڑ چکے ہیں،
اس علم کو مشکل سمجھ کر یا﴿معاذ اللہ﴾ بے سود سمجھ کر اس کی طرف توجہ کم
ہوگئی ہے، انہوں نے اس کی شمع جلا رکھی ہے اور اس مضبوطی کے ساتھ کہ جو بھی
ان کے پاس پہنچ جاتا ہے اسے اس علم سے محبت ہوجاتی ہے اور وہ اس علم کے لئے
جینا مرنا چاہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ علم، رجال ہی سے زندہ ہوتا ہے صرف
کتابوں سے علم نہ حاصل ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کو زندہ کہا جاسکتا ہے ،
مولانا عبدالمالک صاحب ان چند افراد میں سے ہیں جنہوں نے اس علم کی اشاعت
کو مقصد بنایا ہوا ہے،اور اب بنگلہ دیش میں ان کی وجہ سے اس علم کے چرچے
عام ہونے لگے ہیں، اور لوگ اس طرف متوجہ ہورہے ہیں، پاکستان میں بھی اس علم
کے تشنگان کی کمی نہیں ہے ، اور بہت سے علمائے کرام اپنے اپنے مقامات پر اس
علم کی تعلیم میں مشغو ل ہیں،اورتشنگان علم کی سیرابی کر رہے ہیں، لیکن جس
طرح اس کا چرچا عام ہونا چاہیے ایسا ہے نہیں ، مجھے حضرت مولانا محمد
عبدالمالک صاحب کی خدمت میں مکمل گیارہ مہینے رہنے کا موقع ملا،اور میں
جتنا عرصہ وہاں رہا ہر وقت دل سے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا رہا، اور ان
اساتذہ کے لئے دعا کرتا رہا جن کی وجہ سے مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی، ان کے
ساتھ گذرے لمحات میرے لئے انتہائی مبارک تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی
صرف ان کی زیارت کے لئے مستقل سفر کر ے تو اسے کبھی یہ خیال نہیں آئے گا کہ
اس کا سفر بے مصرف ہوا، اور علم حدیث کے طالب کے لئے تو ان کی زیارت ضرور
ہی کرنی چاہیے۔میں نے وہاں دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ اپنے ساتھیوں کو بھی
آپ کی شخصیت سے آگاہ کروں گا، پھر اہل عزم وہمت پر ہے کہ وہ استفادے کے لئے
کمر باندھیں ۔میں وثوق سے کہتا ہوں کہ ان سے ملنے کے بعد آپ کو مایوسی نہیں
ہوگی اور آپ مجھے دعاہی دیں گے۔ |