ڈاکٹر روحانی، امریکہ یا ایرانی اصلاح پسندوں کے لیے امید کی کرن!

ایران کے صدارتی انتخابات اب ایک تکون کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ اس تکون کے ایک سرے پر اصول پرستوں کے متعدد امیدوار میدان میں ہیں اور تکون کا دوسرا سرا اصلاح پند وں کے ہاتھ میں ہے۔ انتخابی تکون کے آخری سرے پر وہ امیدوار ہیں جو خود کو ان دونوں گروہوں سے علیحدہ ایک عوامی طاقت قرار دیتے ہیں۔ اصلاح پسند وہ واحد گروہ ہے جو صدارتی انتخابات کے اعلان سے لیکر اب تک سب سے زیادہ مشکلات اور عدم مقبولیت کا شکار رہا ہےاور اس پر جلتی کا کام سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کی نااہلی نے کیا جس کی وجہ سے اصلاح پسند صدارتی دوڑ میں کوئی ایسا امیدوار نہ اتار سکے جو تمام اصلاح پسند پارٹیوں کو اکٹھا کرسکتا۔

انتخابی دوڑ میں اصلاح پسندوں کے دو امیدوار میدان میں ہیں،نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سابق سربراہ ڈاکٹر حسن روحانی اور سابق نائب صدرمحمد رضا عارف۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اصلاح پسند پہلے ہی کافی غیرمقبولیت کا شکار ہیں اور رہی سہی کسر ان کے باہمی جھگڑے نے نکال دی ہے چنانچہ حال ہی میں سابق نائب صدر محمدرضاعارف نے کہا ہے کہ ڈاکٹر حسن روحانی بنیادی طور پر اصلاح پسند نہیں ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اس بیان کے بعد ڈاکٹر حسن روحانی نے خود کو اصلاح پسند ثابت کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ سی این این نے حال ہی میں ڈاکٹر حسن روحانی کے ان اقدامات کے بارے میں ایک رپورٹ نشر کی ہے جس میں اصلاح پسندوں کو یکجا کرنےکے لیے ڈاکٹر حسن روحانی کے اقدامات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

سی این این کے مطابق ڈاکٹر حسن روحانی نے براہ راست نشر ہونے والے اپنے پروگرام میں قومی ٹیلی ویژن کو تنقید کا نشانہ بنایا ، اس کے بعد جماران میں انتخابی مہم سے خطاب کے دوران ملک کے سیکیورٹی اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا اور تیسرے اور آخری اہم اقدام کے طور پر انہوں نے گذشتہ انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے والے اصلاح پسند رہنماؤں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ سی این این نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ڈاکٹر حسن روحانی کے ان اقدامات کو دیکھتے ہوئے ابھی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ آیا وہ گذشتہ انتخابات کے بعد شروع ہونے والی"جنبش سبز" کو جاری رکھنا چاہتے ہیں یا ان کا مقصد کچھ اور ہی ہے۔

یہاں ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ گذشتہ انتخابات کے بعد سیکیورٹی اداروں نے وہ تمام افراد گرفتار کرلیے تھے جن کے امریکہ یا برطانیہ کے ساتھ تعلقات تھے اور وہ انہی طاقتوں کی ایماء پر ملک میں مظاہرے اور "جنبش سبز" کو مضبوط کررہے تھے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گرفتار شدہ افراد کے تمام اعترافات قومی ٹیلی ویژن سے نشر بھی کردیئے گئے تھے اور عدالتوں میں ان پر مقدمات چلاکر سزا بھی دی جاچکی ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر حسن روحانی کے اقدامات کو امریکی اور مغربی ذرائع ممکن ہے تحسین آمیز نظروں سے دیکھیں لیکن عوام میں یہ اقدامات شاید اصلاح پسندوں کو مزید پیچھے دھکیل دیں۔

امریکہ کی طرف سے "جنبش سبز" کو جاری رکھنے کی کوشش شاید مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش سے زیادہ کوئی اہمیت نہ رکھتی ہو اور اس وقت امریکہ اور مغربی طاقتوں کی قلبی خواہش یہی ہے کہ اصلاح طلب اگر ایک نہ بھی تب بھی ملک میں کسی طرح سیاسی عدم استحکام کو فروغ دیا جائے ۔ اسی لیے شاید وہ ڈاکٹر حسن روحانی کے اقدامات کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے اس اہمیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے کو دل چاہ رہا ہے کہ ڈاکٹر حسن روحانی ایران کے اصلاح پسندوں کے لیے امید کی کرن ہوں یا نہ ہوں لیکن امریکہ اور مغربی ممالک کے لیے امید کی کرن ضرور ہیں۔
A.B. Salman
About the Author: A.B. Salman Read More Articles by A.B. Salman: 16 Articles with 13030 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.