گزشتہ 65سالوں سے ارض ِ پاک کی
عوام سے آئے روز نئے وعدے کئے گے لیکن یہ معصوم عوام باوجود اس کے کہ کوئی
ایک بھی وعدہ وفا نہیں ہوا پھر بھی ہر روز ایک نئی اْمید باندھ کر گزشتہ
وفانہ ہونے والے وعدوں کے بارے پر امید رہتے ہیں ہر نئی آنے والی حکومت نے
عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور اْنہیں جانے والوں کے عیب بتائے اور یہ
بتایا کہ کس طرح اْنہوں نے دونوں ہا تھوں سے بے دردی سے لوٹا اورملک کو
کنگال کر کے رکھ دیا تو پھر ان پیارے بھولے بھالے معصوم ہم وطنوں نے نئے
آنے والے کوویلکم کہا لیکن پھر انھوں نے کیا، کیا یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے
اورعوام نے دیکھا کہ جانے والے سے بڑھ کر اس نئے آنے والے نے کھا یالیکن
پھر بھی دکھوں کی ماری عوام نے اف تک نہ کی حالت یہ ہے کہ 65سالوں سے جو بے
گھر تھا آج بھی وہ بے گھر ہی ہے اور اْ س کی سانسیں بے گھر ہی ہیں اور جو
65سالوں سے تنگ دست تھا آج بھی اْسکی باقیات تنگدستی کی ہی زندگی گزاررہی
ہیں سب کچھ بدل چکا لیکن اْسکی تنگدستی وہیں کی وہیں رہی جو پہلے غریب تھا
اب تو وہ غریب تر ہو چکا ہے مکا ن یا گھرتو درکنار اب تو اس کے لیے سفید
پوشی کا بھر م قائم رکھنا بھی نا صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو چکا ہے اگر چہ یہ
غریب اندرسے دیمک زدہ اور کھو کھلا ہو چکا ہے لیکن پھر بھی نئی صبح کے آغاز
کا منتظر ہے آج معیشت تباہ ہو چکی ہے گیس نہ ہو نیکی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی
لمبی قطاریں لگی نظر آتی ہیں گھریلوگیس اس قدر مہنگی کر دی گئی ہے کہ آٹھ
نو سومیں فل ہونے والا سلنڈ ردو ہزار روپے تک پہنچ چکا ہے اور سفید پوش ایک
کلوآٹا خرید کر کئی کئی دنوں سے بھوکے بچوں کو ایک ٹائم کی روٹی سے کچھ
نوالے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے دیتے ہیں ایسی ایسی داستانیں سامنے آتی ہیں
کہ سن کے کلیجہ منہ کو آتا ہے . آج ملازم ہیں تو وہ پریشان تنخواہیں کم اور
اخراجات زیادہ ایک آدمی دو، دو نوکریاں کر کے بھی مشکل سے گزاراہ کر رہا ہے
، دکاندار ہے تو پریشان بازاروں میں گاہک ہیں کہ غائب ہی ہو گے ہیں اور
اشیاء کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ وہ خود کیا خریدے اور کیا بیچے مزدور
ہے تو وہ پریشان کہ دہیاڑی کتنی ہے اس سے خود کیا کھائے اور اپنے بچوں کو
کیا دے ، طالب علم ہے تو وہ پریشان بجلی کی لوڈشیڈنگ سے امتحانات کی تیاری
صفر اور اگر ڈگری لے بھی لی تو باقی بے روزگاروں کے ساتھ سرکاری دفتروں کے
چکر کاٹتے کاٹتے عمر کٹ جانی ہے کیونکہ اقرباء پروری اور سفارش کا کلچر
اتنا عام ہو چکا ہے کہ میرٹ پر آنے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا
گھریلوخواتین ہیں تو وہ پریشان ، بوڑھے ،بچے ، جوان مرد وزن سب پریشان اور
ایک ٹینشن زدہ ماحول بن چکا ہے باز ار جائیں تو چیزیں موجود ہیں لیکن قوت
خرید نہ ہے .مہنگائی پر لکھنا شروع کر دوں تو شاید اس جیسی ہزاروں تحریریں
لکھ دوں تب بھی ان کا ذکر مکمل نہ ہو سکے اب کی بار الیکشن ہوئے ایک جماعت
کو واضح اکثریت حاصل ہوئی جس سے عوام کو بہت سی توقعات ہیں اور دوسری
جماعتوں کو عوام کے انتقام بزریعہ ووٹ کے ذریعے سے حکومت سے آوٹ کر دیا
گیاہے یہاں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ گزشتہ 65سالوں سے الیکشن بھی ہورہے
ہیں تقرریں بھی ہورہی ہیں ہر لیڈ ر ایک نئی ’’ چال ڈھال‘‘کے ساتھ میدان عمل
میں آتا ہے اور اپنے کیے گئے وعدے بھول کر عوام کی بجائی گئی تالیوں اورکی
گئی ’’ دْعائے خیروں ‘‘کا مذا ق اْڑاتا ہے ہر پانچ سال کے بعد چہرے بد ل
جاتے ہیں لیکن ان غربیوں کی حالت وہیں کی وہیں رہتی ہیں ایساکیوں ہے؟ اس کی
بڑی وجہ نظام کا نہ بدلنا ہے کیونکہ چہرے بدلتے رہیں گے تو نظام نہیں بدل
سکے گانظام بدلنے کے لئے سب سے پہلے آپنے آپ کو بدلنا ہو گا میرا ایمان ہے
کہ جس دن ہم بدل گے ہم نے اپنے مفاد نہیں ملکی مفادات کے لئے کام کرنا شروع
کر دیا اس دن ہمارے حکمران بھی ملکی مفاد اور عوام کے لئے کام کرنا شروع کر
دیں گے پھر ہر تحریک، تحریک انصاف ہو گی ہر لیگ مسلم لیگ ہوگی ہر پارٹی
پیپلز پارٹی ہوگی ہر جماعت جماعت اسلامی ہو گی اگر انقلاب چاہتے ہیں تو
پہلے خود کو بدلنا ہو گا اور اگر خود اختسابی ہمارا منشور ہو جائے تو تب
پاکستان میں حقیقی تبدیلی آ سکتی ہے دوسری صورت میں پینسٹھ سالوں سے جاری
مشق پھر سے جاری رہے گی کیونکہ ہر بار کسی نہ کسی سابقہ سیاسی شخصیت کا چا
چا ،ماما ،بھائی بتھیجا ہی اسمبلی کا رکن بنتا ہے کیونکہ غریب کو تو اپنے
بحرانوں سے نمٹنے کی فرصت کہاں.آج تک توکوئی ملک کو خود مختار نہ بنا سکا
ہے اور نہ ہی اپنے عوام اور علاقے کی حالت بدل سکا ہے عوام تو پھر بھی بہت
ظلم سہہ کر بھی کہتے ہیں کہ شاید یہی نصیب میں تھا لیکن آخر کب تک ؟ایک نہ
ایک دن یہ ضرور ہو گا کہ اندھیرا چھٹ جائے گا اور ایک روشن صبح طلوع ہوگی
اور ان مظلوموں کو بھی نجات ملے گی آفرین ہے پیارے پاکستان کی عوام پرکہ جب
بھی آزمائش کا وقت آیا تو انھوں نے ہر ایک کو سینے سے لگایا اکتوبر 2005ء
کا زلزلہ اور اگست 2010ء کا سیلاب اس جذبے کی زندہ و جاوید مثالیں ہیں .
ملکی ترقی،بحرانوں سے نجات اورسہولتوں کے فراہم کرنے کا وعدہ کر کے مکر
جانے والے اب یاد رکھیں کہ عوام باشعور ہو چکے ہیں سیاسی پختگی ان میں آ
گئی ہے اب ووٹ وہی لے گا جو کچھ ڈیلور کرئے گا ورنہ دوسری صورت میں حال
سابقہ حکومت والا ہو گا اگر یہ فلٹریشن (الیکشن کا تسلسل) یوں ہی کام کرتی
رہا تو بہت جلد پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا راج ہو گاکیونکہ یہ وہ چھلنی
ہے جس سے چھن کر بلا آخر ایک ایسی قیادت سامنے آئے گی جو پاکستان کو علامہ
اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان بنائے گی اور امید ہے کہ وہ نئی صبح ضرور
آئے گی- |