قریش کے ظُلم و تعدی کابادل جب
پیہم کر نہ کھُلاتو رحمت عالم صلی اﷲ علیہ و سلم نے جاں نثار ان اسلام کو
ہدایت کی کہ حبش کو ہجرت کر جائیں ۔ حبش ،قریش کا قدیم تجارت گاہ تھا ۔
وہاں کے حالات پہلے سے معمول تھے ۔ اہل عرب ، حبش کے فرماں روا کو "نجاشی "
کہتے تھے ۔ اس کے عدل و انصاف کی عام شہرت تھی ۔
جاں نثاران اسلام ہر قسم کی تکلیف جھیل سکتے تھے اور ان کا پیمانہ ء صبر
لبزیر نہیں ہو سکتا تھا ۔ لیکن مکے میں ر ہ کر فرائض اسلام آزادی کے سے
بجالاناممکن نہ تھا ۔ اس وقت تک حرم کعبہ میں کوئی شخص بلند آواز سے قران
نہیں پڑھ سکتا تھا۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود ؓ جب اسلام لائے تو انہوں نے کہا
"اس فرض کو ضرور ادا کروں گا " لوگوں نے منع کیا لیکن وہ باز نہ آئے ، حرم
میں گئے اور مقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس کھڑے ہو کر صورۃ رحمان پڑھنا
شروع کیا ۔ کفار ہر طرف سے ٹقٹ پڑ ے اور ان کے منہ پر طمانچے مارنے شروع
کیے ۔ اگر چہ انھوں نے جہاں تک پڑھنا تھا پڑھ کر دم لیا لیکن واپس گئے تو
چہرے پر زخم کے نشان لے کر گئے ۔
اس کے علاوہ ہجرت سے ایک بڑا فائدہ بھی تھا کہ جو شخص اسلام لے کر جہاں تک
جاتا ، وہاں اسلام کی شعاعیں خود بخود پھیلتی تھیں ۔
غرض ، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایما سے اول اول گیا رہ مرد اور چار
عورتوں نے ہجرت کی ان لوگوں لوگوں نے 5 سن نبوی ماہ رجب میں سفر کیا ، حسن
اتفاق یہ ہے کہ جب یہ بندر گاہ پر پہنچے تو دو تجارتی جہاز حبش کو جار ہے
تھے ۔ جہاز والوں نے سستے کرائے پر ان کو بٹھا لیا ۔ قُریش کو جب خبر ہوئی
تو بندرگاہ تک تعاقب میں آ ئے ، لیکن مو قع نکل چکا تھا ۔
عام مورخین کا خیال ہے کہ ہجرت انھی لوگوں کی جس کا کوئی حامی و مدد گار
نہیں تھا ۔ لیکن فہرست مہاجرین میں ہر درجے کے لوگ نظر آتے ہیں ۔ حضرت
عثمان ؓ بنو امیہ سے تھے جو سب سے زیادہ صاحب اقتدار خاندان تھا۔ متعد بزرگ
مثلاََ زبیر ؓ اور مصعب ؓ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاندان سے ہیں ۔
عبدالرحمن بن عوفؓ اور ابو سبرہ ؓؓ معمولی بزرگ نہ تھے ۔ اس بنا پر زیادہ
قُرین قیاس یہ ہے کہ قریش کاظلم و ستم بے کسوں تک محدود نہ تھا بلکہ بڑے
بڑے خاندان والے بھی ان کے ظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے۔
نجاشی کی بدولت مسلمان حبش میں امن و امان کی زندگی بسر کرنے لگے ، لیکن
قریش یہ خبریں سن کر پیچ و تاب کھاتے تھے ۔ آخر ئی رائے ٹھہری کہ نجاشی کے
پاس سفارت بھیجی جائے کہ ہمارے مجرموں کو اپنے ملک سے نکال دو ۔ عبد اﷲ بن
رَبیعہ اور عمرو بن العاص ( فاتح مصر) اس کام کے لئے منتخب ہوئے ۔ نجاشی
اور اس کے دربار میں سے ایک ایک لئے گراں بہا تحفے مہیا کیے گئے ۔ اور
نہایت سرو سامنان سے سفارت حبش کو روانہ ہوئی ۔ یہ سفر نجاشی سے پہلے،
درباری پادرویوں سے ملے اور ان کی خدمت میں نزریں پیش کیں اور کہا کہ ہمارے
شہر کے چند نادانوں نے ایک نیا مذہب ایجاد کیا ہے ۔ ہم نے ان کو نکال دیا
تو آپ کے ملک میں بھاگ آئے ۔ کل ہم بادشاہ کے دربار میں ان کے متعلق جو
درخواست پیش کریں آ پ بھی ہماری تائید فرمائیں۔ دوسرے دن سفرا دربار میں
گئے اور نجاشی سے درخواست کی کہ ہمارے مجرم ہمارے حوالے کر دئیے جائیں ۔
درباریوں نے بھی تائید کی۔ جناشی نے مسلمانوں کو بلابھیجا اور کہاـ" تم نے
یہ کو سا دین ایجاد کیا ہے جونصرانیت اور بت پرستی کے مخالف ہے ؟"
مسلمانوں نے اپنی طرف سے گفتگو کرنے کے لئے حضرت جعفر ؓ ( حضرت علی ؓ کے
بھائی ) جو انتخاب کیا ، انھوں نے اس طرح تقریر شروع کی :
اَھیُاَ المَلِکُ ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے ، بت پوجتے تھے ، مردار کھاتے
تھے ، بدکاریاں کرتے تھے، ہمسایوں کو ستاتے تھے، بھائی ، بھائی پر ظلم کرتا
تھا ، قوی لوگ کمزور کو کھا جاتے تھے ۔ اس اثنا میں سے ایک شخص پیدا ہوا جس
کی شرافت اور صدق و دیانت سے ہم لوگ پہلے سے واقف تھے ۔ اس نے ہم کو اسلام
کی دعوت دی اور یہ سکھایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑدین ، سچ بولیں، خوں
ریزی سے باز آجائیں ، یتیموں کا مال نہ کھائیں، ہمسائیوں کو آرام دیں، عفیف
عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں ، نماز پڑھیں ،روزے رکھیں، زکوات دیں،
ہم اس پر ایمان لائے ، شرک اور بت پرستی چھوڑ دی اور تمام اعمال بد سے باز
آئے۔ اس جرم پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہوگئی اور ہم کو مجبور کرتی ہے
کہ اس گمراہی پر واپس آجائیں ۔
نجاشی نے کہا ـ:" جوکلام الہٰی تمھارے پیغمبر نے اترا ہے کہیں سے پڑھو"
حجرت جعفرؓ نے سورۃ مریم کے چند آیتیں پڑھیں ۔ نجاشی پر رقت طاری ہوئی
آنکھو سے آنسو جاری ہو گئے ، پھر کہا: " خدا کی قسم یہ کلام اور انجیل
دونوں ایک ہی چراغ کے پر تو ہیں " یہ کہہ کر سفرائے قریش سے کہا ـ"تم واپس
جاؤ ۔ میں ان مظلوموں کو ہر گز واپس نہ دوں گا ۔"
دوسرے دن عمرو بن العاص نے پھر دربار میں رسائی حاصل کی اور نجاشی سے کہا
کہ :" حضور ! آ پ کو یہ معلوم ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت کیا
اعتقاد رکھتے ہیں ؟" نجاشی نے مسلمانوں کو پھر بلا بھیجا اس سوال کا جواب
دیں ۔ لوگوں کو تر َ دد ہوا کہ اگر حضرت عیسیٰ ؑ کے ابن اﷲ ہونے سے انکار
کرتے ہیں تو نجاشی عیسائی ہے ناراض ہو جائے گا ۔ حضرت جعفرؓ نے کہا کچھ ہو
ہم کو سچ بولنا ہے ۔
غرض یہ لوگ دربار پر حاضر ہوئے ۔ نجاشی نے کہا: " تم لوگ عیسیٰ بن مریم ؑ
کے متعلق کیا اعتقاد رکھتے ہو ؟ ــ" حضرت جعفرؓ نے کہا : "ہمارے پیغبر نے
بتایاہے کہ عیسیٰ ؑ خدا کا بندہ اور پیغمبر اور کلمتہ اﷲ ہے ۔ـ" نجاشی نے
زمین سے ایک تنکا اٹھا لیا اور کہا ـ" وﷲ جو تم نے کہا عیسیٰ ؑ اس تنکے کے
برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں ۔ " بِطریق جو دربار میں موجود تھے نہایت
ہی برہم ہو ئے ۔ نتھنوں سے خرخراہٹ کی آواز آنے لگی ، نجاشی نے ان کے غصے
کی پروانہ کی اور قریش کے سفیر باالکل ناکامیاب چلے آئے ۔
سوالات جنم لیتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان (اسلام کے نام پر آزاد کای
گیا ملک ) میں ہم لوگ کیوں ایک جاہل قوم بن چکے ہیں ؟ ، کیوں فرقہ پرستیاور
بدت کرتے ہیں؟ ، کیوں مردار چوری ڈکیتی اور لوٹ مار کی رزق کھاتے ہیں؟ ،
کیوں کھلے عام بدکاریاں کرتے ہیں؟ ، کیوں اپنے ہمسایوں کو ستاتے ہیں ؟ ،
کیوں بھا ئی ، بھائی پر ظلم کرتا ہے ؟ ، کیوں قوی لوگ کمزور کو کھا جاتے
ہیں؟ اس اثنا میں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو خلافت راشدہ کی ضرورت ہے جو
اسلامی نظام ِ حکومت قائم کرے اور مساوات پیدا کرے، انصاف و عد بروقت کرے ،
غریب اور امیر میں فرق ختم کرے، ایک خلیفہ کا اور ایک مزدور کا یومیہ و
تنخواہ برابر کرے، اور سب کوایک ہی نظر سے دیکھے ۔
تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عوام سچ بولیں، خوں ریزی سے باز آجائیں ،
یتیموں کا مال نہ کھائیں، ہمسائیوں کو آرام دیں، عفیف عورتوں پر بدنامی کا
داغ نہ لگائیں ، نماز پڑھیں ،روزے رکھیں، زکوات دیں، ہم اس پر ایمان لائے ،
شرک اور فرقہ پرستی چھوڑ دی اور تمام اعمال بد سے باز آئے ۔ ودیگر صورت
پاکستان میں کوئی تبدیلی کی انتظار خود فریبی ہی ثابت ہو رہا ہے ۔ موجودہ
نظام سیاست و نظام آمریت ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے درحقیقت خلافت راشدہ ہی
عوام کو ان گمرائیوں سے بچا سکتاہے بشرط خود ایک بھی ایک مومن ہی ہو ۔ |