اردو جسے خونِ جگر سے سینچا ہے ہم نے

فی البدیع” اردو“ کے بارے میں تحریر رقم کرنے سے پہلے داغ کے اس شعر سے کا ذکر بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا مضمون کا تہت اللفظ ::
اردو ہے جس کا نام، ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

شروعاتِ مضمون میں آپ کو مبارک باد کے ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہماری لطیف زبان اردو برطانیہ کی چوتھی بڑی زبان تسلیم کر لی گئی ہے۔ برطانیہ میں چونکہ ہر دس سال بعد مردم شماری ہوتی ہے اس لئے 2011ءکی مردم شماری سے قبل یہ تصور عام تھا کہ شائد اردو برطانیہ میں بولی جانے والی دوسری بڑی زبان ہے مگر نئی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں بولی جانے والی زبانوں میں اگریزی کے بعد سب سے بڑی زبان پولش ہے۔ اس کے بعد پنجابی اور پھر اردو کا نمبر آتا ہے۔ بہرحال یہ بات ہمارے لئے خوش کن ہے کہ انگریزوں کے دیش میں ہماری زبان کا چرچا اس قدر ہوا کہ ”اردو “ وہاں کی چوتھی بڑی زبان سرکاری سطح پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔اور اس سے بھی خوشی کی بات یہ ہے کہ مذہب کے حوالہ سے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں ”اسلام “ دوسرا بڑا مذہب بن گیا ہے۔

فی الواقعہ یہ حقیقت ہے کہ اردو ایک لطیف زبان ہے اور اس کے لہجے کی شیرینی اور پیرائے نزاکت ہی اس کی لطیف مقبولیت کاسبب بھی ہے۔یہ ایسی زبان ہے جس میں پیار و محبت،حسن و عشق کی چاشنی شامل ہے۔مختلف تہذیبوں، فرقوں،زبانوں کے لوگوں (افراد) کے اختلاط اور میل جول سے یہ زبان وجود میں آئی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس زبان کے خمیر میں اتحاد و یکجہتی کُوٹ کُوٹ کر پیوست ہے۔تقسیمِ وطن سے پہلے اور اس کے بعد اردو ایک خاص گلدستہ کی شکل میں دنیابھرمیں سجایاگیا۔رفتہ رفتہ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ آج یہ زبانِ نسیاں سے نکل کر ہماری روز مرہ کی عملی زندگی کاحصہ بن چکی ہے۔”اردو“ یوں تو اب اخبارات ، رسائل، ٹیلی ویژن چینلوں اور ویب سائٹس پر اس طرح شامل ہے جیسے اردو کا سیلاب اُمڈ آیاہے۔جدید اردو آج پوری قوت کے ساتھ محوِ پروازہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اردو زبان سے محبت کرنے والے موقع کو غنیمت جان کرکھلے دل اورکھلے دماغ کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات اور جدیدضروریات کو مدِّنظررکھتے ہوئے اور ضروریات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالیں،سماج،ملک اور قوم کے تئیں اپنی زمہ داریاں سمجھیں اور اردو کے لئے ترقی کے مدارج طے کریں۔

”اردو “آزادی کے بعد جس ابتلا و آزمائش کے دور سے نبرد آزما رہی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ،یہ سرکاروں کی درجہ عنادپربھی رہی اوربے توجہی کا عذاب بھی جھیلی، اس کی تازہ مثال آپ صوبائی اسمبلی سندھ میں نئے ممبران اسمبلی کی تقریبِ حلف برداری کے موقعے پر دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح اردو کے ساتھ زیادتی کا کھیل کھیلا گیا جبکہ اردو ہماری قومی اور سرکاری زبان کہلاتی ہے۔یہ” اردو“ ہی کا دم خم تھاکہ وہ اپنے وجود کو ہرشکست و ریخت سے بچائے رکھنے میں کامیاب ہوئی۔دبستانِ دہلی اور دبستانِ لکھنو ¿ کے بیچ بھی اردو کافی عرصہ تک وجہ تنازعہ بنی رہی تھی ،پاک و ہند میں اردو زبان کی بحالی کیلئے کافی عرصے تک جد و جہد کی گئی ،خدابھلا کرے اصحابِ مدارس والوں کاکہ انہوں نے اردو کو ذریعہ ¿ تعلیم بنائے رکھا ،بازاروں،حلوں،گلی کوچوں میں بھی اردو کا چلن چونکہ ناقابلِ شکست تھااس لئے برصغیر پاک و ہند کے فلم انڈسٹری نے بھی اردو کو قومی سطح پر رابطے کی زبان بنائے رکھنے میں ناقابلِ فراموش کردار اداکیا ۔اس موقعے پر اگر اردو کے صحافی صاحبان کی خدمات کا اعتراف نہ کیا گیا تو ان کے ساتھ یقینا ناانصافی ہوگی،جنہوں نے آزادی سے پہلے اور بعد میں اگر انتہائی جرات و حوصلے کے ساتھ انگریزی سامراج سے تکڑ لی تھی تو آزادی کے بعد بھی اردوکے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پرصدائے احتجاج بلند کرنے میں کوئی جھجک نہیں دکھائی۔

بیسویں صدی کے آخری عشرے میں جب معیشت کا آغاز ہوا اور ملک بھر میں نیا اطلاعاتی انقلاب برپاہوا تو اردو بھی اپنے نئے امید اور امکانات لئے ہوئے ہم سب کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔یوں اردو اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک پہنچتے پہنچتے دنیا بھرمیں عام ہوگئی۔دنیا میں شاید کوئی ملک بھی ایسانہ ہوجہاں اردو نہیں بولی جاتی یا ان ملکوں میں اردو دان کی کمی ہو۔کم و بیش ہر ملک میں اردو دان اور اردو سے محبت رکھنے والے لوگ ملتے ہیں۔دنیا بھر میں بے شمار اردو اکیڈمیاں، مرکزی سطح کے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان جیسے ادارے قائم ہیں اور یہ سب ادارے اردو کے فروغ اور بہتری کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔اردودان مایوسیوں کے جس حصار میں رہنے کے عادی ہوگئے ہیں اس میں کامیابیوں کے روشن امکانات بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہی رہتے ہیں۔بہرحال جغرافیائی محور بدلے ہوں یا اردو دانشوری کے چہرے یا پھر اردو کے حوالے سے اقتصادی میدان سجے ہوں ،امکانات کی تلاش کرنے والے اردو کا مستقبل پہلے سے زیادہ روشن دیکھ رہے ہیں۔ویسے بھی اس مضمون کا مقصد صرف اتناہے کہ اردو زبان کی احیاءونگہداری ہو سکے۔اور اس کی وسعت کوبرسرِ پیکار رکھنا۔ ویسے بھی اردو تو جناب ہمارے ملکی کی سرکاری زبان ہے اور اس کی بہتری کیلئے ، اس کی احیاءو نگہداری کیلئے ہر کسی کو مستعد رہناچاہیئے ۔ویسے بھی پاکستانی قوم کا شماردنیا بھرمیں ذہین ترین اقوام میں ہوتاہے۔جب بھی ملک اور زبان کی ترویج کی بات آتی ہے یہ قوم یک جان دو قالب کے مصداق ایک ہو جاتی ہیں۔

تاریخ شاہدہے کہ” اردو “نے مختلف زبانوں کے دستر خوانوں سے خوشہ چینی کی ہے جو خود اپنے ملک میں مکمل اور وسیع رہی ہے۔ اردو زبان کا بڑا ماخذ فارسی زبان ہے جو نہ صرف ایران میں رائج ہے بلکہ مغلیہ بادشاہوں کے دور میں درباری زبان کا فخربھی رکھتی ہے۔اردو تمام غیرملکی زبانوں کے الفاظ کو اپنی آغوش میں لینے کی استعداد بھی رکھتی ہے پس پاکستانیوں کویہ دعویٰ کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ اردو زبان میں ترقی کرنے اور وسعت پانے کا فطری جوہر موجود ہے ۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس کی فطری صلاحیتوں کو کس طرح بروئے کار لایاجائے جس سے ترویج ِ اردو بامِ عروج کو چُھو سکے۔ہمارے ملکی،ملی،ثقافتی حالات اس بات کی متقاضی ہے کہ پاکستان میں اردو کو قومی زبان قرار دے کر اس کو وہی مقام دیا جائے جو پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے انگریزی زبان کو حاصل تھا۔یوں علمی سرمائے میں وسعت کے ساتھ ساتھ اردو ترقی کا باعث بھی بنے گی۔یہاں یہ قطعہ تحریر کرنا چاہوں گا اور وہ بھی شاعر سے بہت معذرت کے ساتھ کہ موزوں کو دیکھتے ہوئے چند لفظوں کی تبدیلی اس مقام پر ناگزیر ہوگئی تھی۔
ہر ایک لفظ ہے زندہ علامتوں سے تری
مری ترقیوں کی یہ قامت نزاکتوں سے تری
تیری طلب کے حوالے سے زندگی تھی مری
مِرا جواز ہوا ختم قربتوں سے تیری

یہاں آپ یہ موازنہ کر سکتے ہیں کہ ایک وقت تھاجب انٹر نیٹ پر اردو زبان کا شائبہ تک نہیں تھامگر اب یہ بات قدرے خوش آئندہے کہ اردو سے پیار کرنے والے انٹر نیٹ کی دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ہمارے کچھ محبِ وطن نوجوانوں کاگروہ اس فرض سے غافل نہیں ہے اور وہ اردو کی ترقی کے لئے اپنی تمام تر صلاحتیں اور قدرے پیسہ بھی وقف کر رہے ہیں اور شب و روز اردو کیلئے محنت کر رہے ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ انہیں اور حوصلہ مل سکے۔اگرایسا ہو گیاتو یقینا اردو زبان ترقی کی راہ پرگامزن ہو جائے گی اور اسے دنیاکی تیزرفتار ترقی میں ایک خاص مقام حاصل ہو جائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ”اردو “ زبان پر ترکی والوں کو بھی فخر ہے۔ترکی کی مایہ ناز یونیورسٹی انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ ایسٹرن لینگویجز اینڈ لٹریچر کا اردو شعبہ اس بات پر فخر ظاہر کرتاہے کہ لفظ ”اردو“ ترکی زبان کا لفظ ہے ۔ اس شعبہ کو اس بات پر بھی فخر ہوتاہے کہ برصغیر پاک وہندپر ترک تہذیب زبان،معاشرت کا کافی اثرہے۔سید مزمل الدین (جو کہ ایک پاکستانی اسکالر ہیں) کا مانناہے کہ اردو ترکی میں دور اقدار یکساں ہی ہے۔کیونکہ اردو نے چند الفاظ براہِ راست ترکی زبان سے حاصل کر رکھے ہیں۔دوسرے عربی اور فارسی میں بولے جانے والے الفاظ ترکی اور اردو دونوں میں استعمال بھی ہوتے ہیں۔وہ الفاظ جو” اردو“ نے براہِ راست ترکی سے لیئے ہیں اس میں سب سے پہلا لفظ تو اردو ہی ہے۔ترکی میں Orduکے معنی فوجی لشکر کے ہیں اسی طرح ارسلان، ایلچی، بارود، چشماق، طمنچہ قاز ہیں جب کہ دوسرے زمرے میں عاجز، بلبل ، حساب، صرف، تصدیق، زمین وغیرہ ہیں۔انقرہ یونیورسٹی میں اردو کا شعبہ 1957ءمیں قائم کیاگیاتھا اور فی الحال اس شعبے میں چار استاد، اور ریسرچ اسسٹنٹ بھی اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ہو سکتاہے کہ اساتذہ کے گنتی میں اعداد کا ہیر پھیر ہو مگر یہ بات طے ہے کہ چار استاد تو ہیں اس سے زیادہ تو ہو سکتے ہیں مگر اس سے کم نہیں۔

لیما ، محمد تاج محل اردو سینٹر (قاہرہ) میں ہوتی ہیں ۔یہ خاتون ”اردو“ کے ان کمیاب نوجوانوں کی نمائندگی کرتی ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے،مگر ان کو اردو کی لطافت اور شائستگی نے متاثرکیاہے۔کریئر کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے اردو سے وابستہ پریشانیوں کو بے حد محسوس کیاتھا ۔اردو زبان مصر کے علاوہ غالباً کسی بھی عرب ممالک میں پڑھائی نہیں جاتی ہے،اس وقت اردو کو مصرکے پانچ سرکاری یونیورسٹیوں جن میں (جامعہ ازہر، قاہرہ، عین شمس،اسکندریہ اور منصورہ) میں پڑھایاجاتاہے۔ازہر یونیورسٹی میں اس کے دو شعبے قائم ہیں۔ایک لڑکوں کے لئے اور دوسرا لڑکیوں کا۔ان تمام پانچوں جامعات میں اردو زبان و ادب اور شاعری کے مختلف عہد کا مطالعہ کیاجاتاہے۔اردو شاعری،اردو غزل،ناول،افسانہ،ڈرامہ ،تنقید،اردو صحافت،اردو ادب کی تاریخ،سیرتِ نبویﷺ ،قرآنِ مجید کے اردو تراجم اور استشراق جیسے موضوعات پرایم ۔اے اور پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں تفویض کی جاتی ہیں۔اردو کو وہاں اس کی اپنی کشش اور شائستگی نے زندہ رکھاہواہے۔اور پھر سینٹرل ایشیا میں تو اردو کا رشتہ لوگوں کے ساتھ بہت قدیم ہے۔خداکرے کہ وہاں بھی ہماری زبان کی دھوم جاری و ساری رہے۔

لکھنو کی ”انجمنِ تہذیب “کے ارکان کے ایک فرد مولوی محمد حسن نے اردو زبان کے بارے میں لکھا تھاکہ ”اردو زبان اپنی وسعت،حسن اور شیرینی میں اپنی نظیر آپ ہے۔اس کے ذریعے سے قانونی،ادبی اور علمی مطالب پوری طرح ادا کئے جا سکتے ہیں۔یہ زبان سارے ملک میں استعمال ہوتی ہے۔ہم اس کو کسی ایک صوبے سے مختص نہیں کرسکتے۔“ مجھے نہیں معلوم کہ موصوف اب حیات ہیں کہ نہیں ،اور انہیں اس زبان کے بارے میں کچھ مزید آگاہی ہوئی یا نہیں۔اگر موصوف حیات ہیں تو لازمی سی بات ہے کہ وہ اردو کوپھلتا پھولتا دیکھ کر بہت خوش ہونگے وگرنہ ان کی روح کو عالمِ ارواح میں ہی بہت سکون مل رہا ہوگا کیونکہ یہ ایسے عظیم لوگ تھے جنہیں ”اردو“اور اردو زبان سے گہرا لگاﺅ رہا ہے۔

جاپان کو ہی لے لیں یہاں بھی ”اردو “زبان چوتھے نمبرپرہی بُرا جمان ہے۔جاپان میں اردو کی درس و تدریس کاسلسلہ گزشتہ سو سال سے جاری ہے ۔ٹوکیو میں اوساکا انسٹی ٹیوٹ آف فارن اسٹڈیز میں شعبہ اردو قائم ہے اس کے علاوہ ٹوکیو یونیورسٹی میں بھی اردو کا شعبہ موجودہے۔ان دونوں اداروں میں چارسالہ دورانیئے کا اردو کورس کرایاجاتاہے اور اس چار سالہ مدت میں تقریباً ساٹھ کے قریب طلباءاردو زبان میں لکھنا پڑھنا اوربولناسیکھتے ہیں۔اردو کا طُرّہ امتیازدیکھئے کہ جاپان میں پروفیسر گامو کو بابائے اردو کا خطاب دیاگیاہے کیونکہ وہ ۳۳ برسوں سے جاپان میں اردوپڑھاتے رہے ہیں ان کی موت کے بعد ان کے شاگردوں میں پروفیسر سوزوکی کاسیمانے بھی اردو کی درس و تدریس میں اپنی خدمات انجام دیں ہیں۔جاپان میں زیادہ تراردو کی کتابیں پاکستان سے ہی چھپ کرجاتی ہیں،حال ہی میں اردو جاپان لغت بھی شائع ہو چکی ہے۔ماریشش بحرہند کے جنوب مغربی حصے میں واقع ایک خوبصورت جزیرہ ہے،آج ماریشش ایک جمہوری ملک ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کی سرکار مشریوں کی موروثی مادری زبان کی ترقی اور ترویج کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ لیکن پرائمری، سیکنڈری، اور کالجوں کی سطح کے لگ بھگ تمام ہی اداروں میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ ماریشش میں اردو کو مسلمانوں نے اپنے آباﺅ اجداد کی زبان کے طور پر اختیار کیا ہوا ہے۔ اس زبان نے اسلام کی تبلیغ و ترسیل میں اہم رول ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں نعت سرائی اور غزل سرائی دونوں مقبول ہیں۔

چند سال قبل ہی اردو کے ایک مایہ ناز ادیب اور دانشور سید سبطِ حسن برطانیہ گئے تو ایک تقریب میں انہوں نے کہا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی دقیقہ فروگشت نہیں کہ ”پاکستان اور ہندوستان کے بعد بلا مبالظہ اردو کا تیسرا مرکز برطانیہ ہے“ اب ظاہر ہے کہ برطانیہ کو یہ اعزاز اور افتخار ایک دن میں نہیں ملا ہوگا انگریزوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد ہی انگریزوں اور اردو کا رشتہ استوار ہوا ہوگا جو آج پھل پھول رہا ہے گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انگریزی کے سمندر میں اردو کا جزیرہ بہت خوبصورت گلدستہ ہے۔سید ابو بکر مالکی نے اردو زبان پر دلکش پیرائے میں پوری غزل لکھ ڈالی ہے ، جسے اگر یہاں قرطاسِ قلم کیا گیا تو جگہ کا فقدان ہو سکتا ہے اس لئے اس غزل کے چند اقتباس تحریر کئے دیتا ہوں۔
کتنی پیاری زبان ہے اردو
فخرِ پاکستان ہے اردو
جس سے آئے مہک محبت کی
وہ گلِ زعفران ہے اردو
یہ تو جیسے ڈلی ہے مصری کی
کتنی شیریں زبان ہے اردو

گویا ”اردو “ کے بارے میں لکھنے کی سعی کی جائے تو ابھی اور کئی صفحات اس کے لئے کم پڑ جائیں گے اس لئے مضمون کو سمیٹنا چاہتا ہوں تاکہ آئندہ کسی اور موقعے پر اس کے مزید خد و خال کو اجاگر کیا جا سکے۔ پاکستان کا شمار بھی دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں والے ملک میں ہوتا رہا ہے ۔ آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی اس ترقی کا ایک اہم سبب انفارمیشن ٹیکنالوجی بھی ہے اور اس ٹیکنالوجی کے میدان میں ہماری غیر معمولی پیشِ رفت بھی ہے ۔ اس ملک میں اگر کرپشن نہ ہو تو مزید ترقی پاکستان کی راہ دیکھ رہی ہے۔ ہمارے ملک میں کئی چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیوں نے بہترین ایجادات کرکے مائیکرو سافٹ ایوارڈ حاصل کر رکھا ہے۔ اردو سے محبت اور اردو کی مقبولیت اپنی جگہ مگر ایک تشویش ناک بات یہ ہے کہ اردو بول چال کی زبان کے طور پر تو فروغ پر ہی رہی ہے مگر رسم الخط کے محاذ پر اس کو زبردست چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں بھی زیادہ تر انگریزی میں ہی تمام خط و کتابت اور دیگر اظہارِ رائے ہوتی ہے۔اور لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں انگلش میڈیم اسکولوں اور کالجوں کا بڑا عروج ہے مگر اردو میڈیم اسکول ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ اربابِ اختیار اس طرف بھی نظرِ کرم فرمائیں تو معاملات درست سمت میں محوِ سفر ہو سکتے ہیں۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368090 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.