محمدشاہد لودھی
شیخ سعدی رحمتہ اللہ کی حکایت ہے کہ بلی جب چاروں سے گھر جاتی ہے تو اس میں
شیر کی طاقت آجاتی ہے اور وہ اپنی حفاظت کے لیے انسانی چہرے کو پنجوں سے
نوش لیتی ہے ۔ اس وقت پورے ملک میں عام آدمی شدید ترین گرمی میں بجلی کی
لوڈشیڈنگ کی بنا پر بلی کی طرح خونخوار ہوچکا ہے کسی بھی وقت کسی کا بھی
چہرہ نوچ سکتا ہے ۔ میاں نوازشریف عوامی جلسوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے
ستائے ہوئے لوگوں کا غم و غصہ دیکھ چکے ہیںکتنی ہی ٹرینوں کو آگ لگائی
جاچکی ہے کتنے ہی گرڈ اسٹیشن جلا دیئے گئے ہیںسرکاری املاک کو پہنچنے والا
نقصان اس سے الگ ہے ۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے میاں نواز شریف اس بات پر
متفق تھے کہ تمام روایتی طریقوں کو چھوڑ کر سب سے پہلے بجلی کے مسئلے کو حل
کرنا ہوگا لیکن وزارت عظمی کا چارج سنبھالے ہوئے دس دن ہوچکے ہیں سوائے ایک
اجلاس منعقد کرنے کے ابھی تک کچھ نہیں کیا جس دن میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں
اسی دن کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ گرمی کی شدت سے 16 افراد ہلاک
ہوچکے ہیں کاروبار کی بندش اور بے روزگارکی پریشانیاں الگ ہیں بجلی جب بند
ہوتی ہے تو سانس بھی رک جاتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت جسم ایک
دھماکے سے پھٹ جائے گا جبکہ وقت بھی ٹھہر جاتا ہے ایک ایک لمحہ اذیت ناک بن
کر انسانی سوچ کو باغیانہ روش اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے ۔ہونا تو یہ
چاہیے تھا کہ وزارت عظمی کا چارج سنبھالتے ہی میاں نوازشریف تمام ترقیاتی
فنڈ روک کر ان سے بجلی کے بند منصوبوں کو فوری طور پر چالو کرنے کا حکم
دیتے اور جنرل ذوالفقار علی خاں کو فوری طورپر واپڈا کا بااختیار چیرمین
بنا کر بجلی کی سپلائی بہتر بنانے قیمت کو کم کرنے اور سپریم کورٹ کے حکم
کے مطابق یکساں لوڈشیڈنگ کی نگرانی کا فریضہ بھی سونپ دیتے ۔ ڈاکٹر
عبدالقدیر خان یا ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو بجلی کا وزیربنایا جاتا اور انہیں
زمین کی کشش٬ سورج کی روشنی اور ہوا کے دباﺅ اور تھرکول سے بجلی پیداکرنے
کے طریقوں کی ایجاد کے ساتھ ساتھ گنے کے پھوک ٬ نندی پور ٬چیچو کی ملیاں
پراجیکٹ کی تکمیل کا کام جنگی بنیادوں پر شروع کر دیا جاتا لیکن وہ کا م جو
میاں نوازشریف کو سب سے پہلے کرنا چاہیئے تھا وہ دس دن گزرنے کے باوجود بھی
شروع نہیں کیاجاسکا اور نہ ہی کوئی ڈیڈ لائن دی جارہی ہے۔ائیرکنڈیشنڈ ہالوں
میں بیٹھ کر میٹنگ کرنے سے مسئلے حل نہیں ہوتے مزا تو تب تھا کہ توانائی کی
تمام میٹنگز ائیرکنڈیشنڈ کے بغیر منعقد کی جاتیں شرکائے میٹنگ کو تب پتہ
چلتا کہ لوڈشیڈنگ کے وقت عوام پر کیا گزرتی ہے ۔
عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر آپ کچھ نہیں کرسکتے تھے تو عوام سے
ووٹ کیوں مانگے تھے ۔ عمران خان کے نظام کی تبدیلی کے نعروں کے برعکس یہ
کہہ کر عوام کو بیوقوف بنا دیا گیا کہ انقلاب تو ہم لائیں گے جو عوام کا
درد محسوس کرتے ہیں وہ عوام کی تکالیف کو لمحہ لمحہ محسوس کرکے ان کے سدباب
کے لیے فوری اقدامات بھی کرتے ہیں ۔ اب جبکہ کابینہ بنے بھی ہفتہ گزرچکا ہے
اور کابینہ میں کوئی ٹیکنو کریٹ دکھائی نہیں دیتا ان سیاسی وزیروں کو دیکھ
کر یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے وزیروں میں
بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ وہ بھی ائیرکنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ کر خزانہ
خالی کا رونا روتے ہوئے عوام کو لوڈشیڈنگ کے دوزخ میں دھکیلتے رہے تھے اور
اب مسلم لیگ ن والے بھی نہایت سکون سے یہی فریضہ انجام دے رہے ہیں یوں
محسوس ہوتا ہے کہ انہیں بجلی کے بند یونٹس چالو کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے
وہ بہت سکون سے روڈ میپ بنارہے ہیں پہلے تین مہینوں میں روڈ میپ بنے گا پھر
اس پر عمل درآمد کے لیے کمیٹیاں تشکیل پائیں گی پھر اس کے لیے وسائل تلاش
کیے جائیں گے پھر وسائل کو کمیشن کی شکل میں ہڑپ کیا جائے گا یہ سب کچھ جب
تک ہوگا اس وقت تک موجود ہ حکومت پانچ سال پورے کرکے چلتی بنے گی اور
لوڈشیڈنگ کا عذاب سونے کا ہار بن کر عوام کے گلے میں ہی پڑا رہے گا۔پاکستان
کی غریب عوام جس نے عمران خان کے بلے کو چھوڑ کر شیر پر اس لیے مہر لگائی
تھی کہ شاید شیر ہی بجلی کی قلت کو دور کرنے میں کامیاب ہوجائے گا لگتا ہے
عوام کی یہ خام خیالی بہت جلد دور ہوجائے گی اور لوگ ایک بار پھر عمران کی
طرف راغب ہونے پر مجبور ہوجائیں گے دیکھنا تو یہ ہے کہ نہ کتنے لوگ اگلے
الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے زندہ رہتے ہیں کیونکہ انسان بھوک سے تو شاید
نہ مرے لیکن بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بجلی کی بار بار بندش ضرور ماردے گی ۔سیالکوٹ
کے بارے میں یہ خبر قابل ذکر ہے کہ وہاں کی بزنس کیمونٹی نے حکومت سے
مطالبہ کیا ہے کہ انہیں بجلی خود پیدا کرکے سیالکوٹ شہر اور صنعتوں کو
سپلائی کرنے کی بھی اجازت دے اس مقصد کے لیے نجی شعبے میں وہ ایک کمپنی
بنانے اور سولر انرجی یونٹ کی تنصیب پر اٹھنے والے تمام اخراجات برداشت
کرنے کو تیار ہیں ۔سیالکوٹ پاکستان کا وہ پہلا شہر ہے جہاں کے رہنے والوں
نے حکومتی سرپرستی کے بغیر ڈرائی پورٹ اور انٹرنیشنل ائیرپورٹ بھی اپنے ہی
خرچ پر بنایا ہے جبکہ بڑی تعداد میں سکول ¾کالج ¾ہسپتال کھیل کے میدان اور
شہر کی سڑکیں بھی اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کی ہیں ۔اب توانائی کے شدید
بحران کو دیکھتے ہوئے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے بزنس مین( فاﺅنڈر گروپ کے
قائد ریاض الدین شیخ ) اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر حکومت اجازت دے تو وہ
خود ہی اپنی ضرورت کی بجلی پیدا کرکے سپلائی بھی خود کرکے لوڈشیڈنگ کو ختم
کردیں گے اس طرح جہاں سیالکوٹ کے شہری سکھ کا سانس لیں گے وہاں بین
الاقوامی شہرت کا حامل صنعتی شہر کثیر زرمبادلہ کمانے میں بھی کامیاب
ہوجائے گا جس کی قلت کا اس وقت پاکستان کو سامنا ہے ۔میں سمجھتا ہوں ان
حالات میں جبکہ حکومت خزانہ خالی کا بہانہ بنا کر فوری طور پر کچھ نہیں
کرنا چاہتی ٬ حکومت کو فاﺅنڈر گروپ کے چیرمین ریاض الدین شیخ کی قیادت میں
بزنس کیمونٹی کو بجلی پیدا کرنے اور سپلائی کرنے کی اجازت دے دینی
چاہیئے۔اسی طرح فیصل آباد ٬ گوجرانوالہ ٬ گجرات ٬ یہ ایسے شہر ہیں جو صنعتی
اعتبار سے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں بجلی کی قلت نے ان شہروں میں صنعتی
یونٹوں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے اگر حکومت سیالکوٹ کے ساتھ ساتھ
فیصل آباد ٬ گوجرانوالہ اور گجرات کو بھی خود بجلی پیداکرنے کی اجازت دے دی
تو ایک جانب ان شہروں کے شہری سکھ کا سانس لیں گے تو دوسری جانب صنعتی ترقی
کا رکاہوا پہیہ دوبارہ چالو ہوجائے گا اور قومی پیداوار کے ساتھ ساتھ کثیر
زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ بھی بنے گا ۔اس سے زیادہ تشویش کی بات اور
کیاہوسکتی ہے کہ حکومت ایرانی کمپنی کی 7 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی
پیشکش بھی قبول نہیں کرنا چاہتی ٬ بنکوں ٬ فائیو سٹار ہوٹلوں اور
کاروباری یونٹوں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا حکم بھی نہیں دینا چاہتی ٬
ایوان صدر ٬ وزیر اعظم آفس سمیت سرکاری دفتروں میں ائیرکنڈیشنڈ بند بھی
نہیں کرنا چاہتی ٬ ڈویلپمنٹ فنڈ کو بجلی پیداکرنے کے لیے استعمال بھی نہیں
کرنا چاہتی اگر یہ سب کچھ نہیں کرنا تھا تو عوام سے ووٹ کیوں مانگے تھے
عوام نے انہیں بغیر کسی سہارے کے حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ ووٹ دے دیئے
ہیں اگر اب بھی وہ صرف روڈ میپ بنانے میں مہینے لگا دینا چاہتے ہیں تو ان
کی عقل و دانش پر ماتم کرنے کو ہی جی چاہتا ہے ۔ایک شخص بستر مرگ پر آخری
سانسیں لے رہا ہے حکومت فوری طور پر اسے ہسپتال لے کر بچانے کی بجائے ابھی
یہ سوچ رہی ہے کہ اس مریض کو کس سواری پر ٬ کونسے ہسپتال اور کونسے ڈاکٹر
کو دکھانا چاہیئے اور جیب میں موجود پیسوں کو ڈاکٹر کی فیس ادا کرنے اور
جان بچانے والے دوائیوں خریدنے پر خرچ نہیں کرنا چاہتی ۔اس سے زیادہ افسوس
ناک بات اور کیا ہوگی کہ گزشتہ پانچ سالوںمیں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے
معیشت کو ایک ہزار ارب سے زائد نقصان پہنچ چکا ہے پاکستانی حکمرانوں نے ایک
ہزار ارب کا نقصان برداشت کرلیا ہے لیکن سرکلر ڈیٹ پانچ سو ارب کی ادائیگی
ان پر بھاری ہورہی ہے ۔ یہ دیکھ کر یہی کہاجاسکتا ہے کہ اللہ تعالی
پاکستانی قوم پر رحم فرمائے جس کے لیڈر ایک سے بڑھ کر ایک ظلم اور لاپروا
ثابت ہورہے ہیں ۔ |