حضرت عائشہؓ
(Chaudhry Tahir Ubaid Taj, Islamabad)
نام و نسب
عائشہ نام، صدیقہ اور حمیرا لقب، ام عبداللہ کنیت، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی
صاحبزادی ہیں۔ ماں کا نام زینب تھا، ام رومان کنیت تھی اور قبیلہ غنم بن
مالک سے تھیں،
حضرت عائشہ ؓ بعثت کے بار سال بعد شوال کے مہینہ میں پیدا ہوئیں، صدیق اکبر
کا کاشانہ وہ برج سعادت تھا، جہاں خورشید اسلام کی شعاعیں سب سے پہلے
پرتوفگن ہوئیں، اس بنا پر حضرت عائشہ ؓ اسلام کی ان برگزیدہ شخصیتوں میں
ہیں، جن کے کانوں نے کبھی کفروشرک کی آواز نہیں سنی، خود حضرت عائشہ فرماتی
ہیں کہ جب
سے میں نے اپنے والدین کو پہچانا انکو مسلمان پایا،(بخاری ج1ص252)
حضرت عائشہ کو وائل کی بیوی نے دودھ پلایا، وائل کی کنیت ابو الفقیعس تھی،
وائل کے بھائی افلح، حضرت عائشہ کےرضاعی چچا کبھی کبھی ان سے ملنے آیا کرتے
تھے، اور رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے وہ انکے سامنے آتی تھیں،(ایضاً ص320)
رضاعی بھائی بھی کبھی کبھی ملنے آیا کرتا تھا،(ایضاًص361)
نکاح
تمام ازواجِ مطہرات ؓ ن میں یہ شرف صرف حضرت عائشہ ؓ کو حاصل ہے کہ وہ
آنحضرت ﷺ کی کنواری بیوی تھیں، آنحضرت ﷺ سے پہلے وہ جبیر بن مطعم کے
صاحبزادے سے منسوب ہوئی تھیں، لیکن جب حضرت خدیجہ ؓ کے انتقال کے بعد خولہ
ؓ بنت حکیم نے آنحضرت ﷺ سے اجازت لیکر ام رومان سے کہا، اور انہوں نے حضرت
ابوبکر ؓ سے ذکر کیا، تو چونکہ یہ ایک قسم کی وعدہ خلافی تھی، بولے کہ جبیر
بن مطعم سے وعدہ کر چکا ہوں، لیکن مطعم نے خود اس بنا پر انکار کر دیا کہ
اگر ضرت عائشہ ؓ انکے گھر گئیں تو تو گھر میں اسلام کا قدم آ جائے
گا،بحرحال حضرت ابوبکر ؓ نے خولہ کے ذریعہ سے آنحضرت ﷺ سے عقد کر دیا، پانچ
سو درہم مہر قرار پایا، یہ سن دس نبوی کا واقعہ ہے، اس وقت حضرت عائشہ ؓ چھ
برس کی تھیں،یہ نکاح اسلام کی سادگی کی حقیقی تصویر تھا، عطیہ ؓ اسکا واقعہ
اس طرح بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں، انکی
انّا آئی اور انکو لے گئی، حضرت ابوبکر ؓ نے آکت نکاح پڑھا دیا، حضرت عائشہ
ؓ خود کہتی ہیں کہ جب میرا نکاح ہوا تو مجھکو کچھ خبر تک نہ ہوئی جب میری
والدہ نے باہر نکلنے میں روک ٹوک شروع کی، تب میں سمجھی کہ میرا نکاح ہو
گیا، اسکے بعد میری بعد میری والدہ نے مجھے سمجھا بھی دیا (طبقات ابن
سعدج8ص40)
نکاح کے بعد مکہ میں آنحضرت ﷺ کا قیام تین سال تک رہا، سن تیرہ نبوی میں آپ
ﷺ نے ہجرت کی تو حضرت ابوبکر ؓ ساتھ تھے۔ اور اہل وعیال کو دشمنوں کے نرغہ
میں چھوڑ آئے تھے جب مدینہ میں اطمینان ہوا تو حضرت ابوبکر ؓ نے عبداللہ بن
اریقط کو بھیجا کہ ام رومانؓ ، اسماء ؓ اور عائشہ ؓ کو لے آئیں، مدینہ میں
آکر حضرت عائشہ سخت بخار میں مبتلاہوئیں، اشتداد مرض سے سر کے بال جھڑ
گئے،(صحیح بخاری، باب الہجرة)صحت ہوئی تو ام رومان کو رسم عروسی ادا کرنے
کا خیال آیا، اس وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر نو سال کی تھی، سہیلیوں کے ساتھ
جھولا جھول رہی تھیں کہ ام رومان نے آواز دی، انکو اس واقعہ کی خبر تک نہ
تھی، ماں کے پاس آئیں، انہوں نے منہ دھویا بال درست کیئے گھر میں لے گئیں
انصار کی عورتیں انتظار میں تھیں، یہ گھر میں داخل ہوئیں تو سب نے مبارکباد
دی، تھوڑی دیر کے بعد خود آنحضرت ﷺ تشریف لائے،(صحیح بخاری تزویج عائشہ ؓ و
سیرة النبی مجلد2)شوال میں نکاح ہوا تھا اور شوال ہی میں یہ رسم ادا کی
گئی،حضرت عائشہ ؓ کے نکاح سے عرب کے بعض بیہودہ خیالات میں اصلاح ہوئی
(1)عرب منہ بولے بھائی کی لڑکی سے شادی نہیں کرتے تھے، اسی بنا پر جب خولہ
نے حضرت ابوبکر ؓ سے آنحضرت صلی ﷺ کا ارادہ ظاہر کیا، تو انہوں نے حیرت سے
کہا کیا یہ جائز ہے؟ عائشہ تو رسول اللہ ﷺ کی بھتیجی ہے لیکن آنحضرت ﷺ نے
فرمایا۔ انت اخ فی السلام تم تو صرف مذہبی بھائی ہو
(2)اہل عرب شوال میں شادی نہیں کرتے تھے، زمانہ قدیم میں اس مہینہ میں
طاعون آیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ کی شادی اور رخصتی دونوں شوال میں ہوئیں،
عام حالات
غزوات میں سے صرف غزوہ احد میں حضرت عائشہ ؓ کی شرکت کا پتہ چلتا ہے صحیح
بخاری میں حجرت انس ؓ سے منقول ہے کہ میں نے عائشہ ؓ اور ام سلیم ؓ کو
دیکھا کہ مشک بھر بھر کر لاتی تھیں اور زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں(بخاری
ج2ص581)
غزوہ بنی مصطلق میں کہ سن پانچ ہجری کا واقعہ ہے۔ حضرت عائشہ ؓ آپکے ساتھ
تھیں، واپسی میں انکا ہار کہیں گر گیا، پورے قافلے کو اترنا پڑا، نماز کا
وقت آیا تو پانی نہ ملا، تمام صحابہ پریشان تھے، آنحضرت ﷺ کو خبر ہوئی اور
تیمم کی آیت نازل ہوئی، اس اجازت سے تمام لوگ خوش ہوئے، اسیّد بن حفیر ؓ نے
کہا، اے آلِ ابوبکر ؓ ! تم لوگوں کے لیے سرمایہ برکت ہو،اسی لڑائی میں
واقعہ افک پیش آیا۔ یعنی منافقین نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی احادیث اور
سیر کی کتابوں میں اس واقعہ کو نہایت تفصیل کے ساتھ نقل کیاہے، لیکن جس
واقعہ کی نسبت قرآن مجید میں مذکور ہے، کہ سننے کے ساتھ لوگوں نے یہ کیوں
نہیں کہدیا کہ بالکل افترا ہے اسکو تفصیل کے ساتھ لکھنے کی چنداں ضرورت
نہیں۔سن نو ہجری میں تحریم اور ایلاء و تخییر کا واقعہ پیش آیا اور واقعہ
تحریم کی تفصیل حضرت حفصہ ؓ کے حالات میں آئے گی۔ البتہ واقعہ ایلاء کی
تفصیل اس مقام پر کی جاتی ہے،آنحضرت ﷺ زاہدانہ زندگی بسر فرماتے تھے۔ دو دو
مہینے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی، آئے دن فاقے ہوتے رہتے تھے، ازواج مطہرات
گو شرف صحبت کی برکت سے تمام انبائے جسم سے ممتاز ہو گئیں تھیں۔ تاہم بشریت
بالکل معدوم نہیں ہو سکتی تھی، خصوصاً وہ دیکھتی تھیں کہ فتوحات اسلام کا
دائرہ بڑھتا جاتا ہے۔ اور غنیمت کا سرمایہ اس قدر پہنچ گیا ہے کہ اسکا ادنی
حصہ بھی انکی راحت و آرام کے لیے کافی ہو سکتا ہے، ان واقعات کا اقتضا تھا
کہ انکے صبر قناعت کا جام لبریز ہو جاتا۔
ایک مرتبہ حضرت ابوبکر و عمر ؓ ما خدمت نبوی میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ بیچ
میں آپ ﷺ ہیں ادھر ادھر بیویاں بیٹھی ہیں، اور توسیع نفقہ کا تقاضا ہے،
دونوں اپنی صاحبزادیوں کی تنبیہہ پر آمادہ ہو گئے، لیکن انہوں نے عرض کی کہ
ہم آئندہ آنحضرت ﷺ کو زائد مصارف کی تکلیف نہ دینگے۔
دیگر ازواج اپن مطالبہ پر قائم رہیں، آنحضرت ﷺ کے سکون خاطر میں یہ چیز اس
قدر خلل انداز ہوئی، کہ آپ نے عہد فرمایا کہ ایک مہینہ تک ازواج مطہرات سے
نہ ملیں گے اتفاق یہ کہ اسی زمانہ میں آپ گھوڑے سے گر پڑے اور ساق مبارک پر
زخم آیا آپ نے بالا خانے پر تنہا نشینی اختیار کی، واقعات کے قرینہ سے
لوگوں نے یہ خیال کیا کہ آپ نے تمام ازواج کو طلاق دے دی؟ تو آپ نے فرمایا
نہیں یہ سن کر حضرت عمر ؓ اللہ اکبر پکار اٹھے،جب ایلاء کی مدت یعنی ایک
مہینہ گزر چکا تو آپ بالا خانہ سے اتر آئے، سب سے پہلے حضرت عائشہ ؓ کے پاس
تشریف لائے، وہ ایک ایک دن گنتی تھیں، بولیں یا رسول اللہﷺ آپ نے ایک مہینہ
کے لیے عہد فرمایا تھا، ابھی تو انتیس ہی دن ہوئے ہیں، ارشاد ہوا مہینہ
کبھی انتیس کا بھی ہوتا ہے۔
اسکے بعد آیت تخییر نازل ہوئی، اس آیت کی رو سے آنحضرت ﷺ کو حکم دیا گیا کہ
ازواج مطہرات کو مطلع فرما دیں کہ دو چیزیں تمہارے سامنے ہیں، دنیا اور
آخرت، اگر تم دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمکو رخصتی جوڑے دیکر عزت و احترام
کے ساتھ رخصت کر دوں، اور اگر تم خدا اور رسول اور ابدی راحٹ کی طلبگار ہو
تو خدا نے نیکوکاروں کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے، چونکہ حضرت عائشہ ؓ
ان تمام معاملات میں پیش پیش تھیں، آپ نے انکو ارشاد الہی سے مطلع فرمایا،
انہوں نے کہا میں سب کچھ چھوڑ کر خدا اور سول کو لیتی ہوں، تمام ازواج
مطہرات نے بھی یہی جوابدیا،(صحیح بخاری(جلد2ص793)و صحیح مسلم الایلاء)
ربیع الاول سن گیارہ ہجری میں آنحضرت ﷺ نے وفات پائی، تیرہ دن علیل رہے، جن
میں آٹھ دن حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ میں اقامت فرمائی، خلق عمیم کی بنا پر
ازواج مطہرات سے صاف طور پر اجازت نہیں طلب کی بلکہ پوچھا کہ کل میں کس کے
گھر رہونگا؟دوسرا دن(دوشنبہ) حضرت عائشہ ؓ کے ہاں قیام فرمانے کا تھا،
ازواج مطہرات نے مرضی اقدس سمجھ کر عرض کی کہ آپ جہاں چاہیں قیام فرمائیں،
ضعف اس قدر زیادہ ہو گیا تھا کہ چلا نہیں جاتا تھا، حضرت علی وحضرت عباس ؓ
ما دونوں بازو تھام کر بمشکل حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ میں لائے،وفات سے پانچ
روز پہلے(جمعرات کو) آپکو یاد آیا کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس کچھ اشرفیاں
رکھوائی تھیں، دریافت فرمایا، عائشہ !وہ اشرفیاں کہاں ہیں؟ کیا محمّد خدا
سے بدگمان ہو کر ملے گا، جاؤ انکو خدا کی راہ میں خیرات کر دو، (مسندابن
حنبل ج6ص49)جس دن وفات ہوئی(یعنی دو شنبہ کے روز) بظاہر طبیعت کو سکون تھا
لیکن دن جیسے جیسے چڑھتا جاتا تھا، آپ پر غشی طاری ہوتی تھی، حضرت عائشہ ؓ
فرماتی ہیں کہ آپ جب تندرست تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ پیغمبروں کو اختیار
دیا جاتا ہے کہ وہ خواہ موت کو قبول کریں یا حیات دنیا کو ترجیح دیں۔ اس
حالت میں اکثر آپکی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے رہے مع الذین انعم اللہ
علیھم اور کبھی یہ فرماتے اللہم فی الرفیق الاعلی وہ سمجھ گئیں کہ اب صرف
رفاقت الہی مطلوب ہے۔وفات سے ذرا پہلے حضرت ابوبکر ؓ کے صاحبزادے عبدالرحمن
ؓ خدمت اقدس میں آئے، آپ حضرت عائشہ ؓ کے سینہ پر سر ٹیک کر لیٹے تھے،
عبدالرحمن ؓ کے ہاتھ میں مسواک تھی، مسواک کی طرف نظر جما کر دیکھا، حضرت
عائشہ ؓ سمجھیں کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں، عبدالرحمن ؓ سے مسواک لیکر
دانتوں سے نرم کی، اور خدمت اقدس میں پیش کی، آپ نے بالکل تندرستوں کی طرح
مسواک کی، حضرت عائشہ ؓ فخریہ یہ کہا کرتی تھیں کہ تمام بیویوں میں مجھی کو
یہ شرف حاصل ہوا کہ آخر وقت میں بھی میرا جھوٹا آپ نے منہ میں لگایا۔اب
وفات کا وقت قریب آ رہا تھا، حضرت عائشہ ؓ آپکو سنبھالے بیٹھی تھیں کہ
دفعتہً بدن کا بوجھ معلوم ہوا، دیکھا تو آنکھیں پھٹ کر چھت سے لگ گئیں تھیں
اور روح پاک ﷺ عالم اقدس میں پرواز کر گئی تھی، حضرت عائشہ ؓ نے سراقدس
تکیہ پر رکھ دیا اور رونے لگیں۔حضرت عائشہ ؓ کے ابواب مناقب کا سب سے زریں
باب یہ ہے کہ انکے حجرہ کو آنحضرت ﷺ کا مدفن بننا نصیب ہوا، اور نعش مبارک
اسی حجرہ کے ایک گوشہ میں سپردخاک کی گئی۔ چونکہ ازواج مطہرات کے لیے خدا
نے دوسری شادی ممنوع قرار د ی تھی اس لیے آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے
48 سال بیوگی کی حالت میں بسر کیئے، اس زمانہ میں انکی زندگی کا مقصد واحد
قرآن و حدیث کی تعلیم تھا، جسکا ذکر آئندہ آئے گا، آنحضرت صلی اللہ ولیہ
وسلم کی وفات کے دو برس بعد سن تیرہ ہجری میں ابوبکرؓ نے انتقال فرمایا اور
حضرت عائشہ ؓ کے لیے یہ سایہ شفقت بھی باقی نہ رہا۔حضرت ابوبکر ؓ کے بعد
حضرت عمر ؓ خلیفہ ہوئے، انہوں نے جس قدر حضرت عائشہ کی دلجوئی کی وہ خود
اسطرح بیان فرماتی ہیں۔ ابن خطاب نے آنحضرت ﷺ کے بعد مجھ پر بڑے بڑے
احسانات کیئے،(مستدرک حاکم ج4ص78)حضرت عمر ؓ نے تمام ازواج مطہرات کے لیے
دس دس ہزار سالانہ وظیفہ مقرر فرمایا تھا، لیکن حضرت عائشہ ؓ کے لیے وظیفہ
بارہ ہزار تھا، جسکی وجہ یہ تھی کہ وہ آنحضرت ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب
تھیں،(مستدرک)
حضرت عثمان ؓ کے واقعہ شہادت میں حضرت عائشہ ؓ مکہ میں مقیم تھیں، حضرت
طلحہ اور حضرت زبیر ؓ ما نے مدینہ جا کر انکو واقعات سے آگاہ کیا تو دعوت
اصلاح کے لیے بصرہ گئیں اور وہاں حضرت علی ؓ سے جنگ پیش آئی، جو جنگ جمل کے
نام سے مشہور ہے، جمل اونٹ کو کہتے ہیں، چونکہ حضرت عائشہ ؓ ایک اونٹ پر
سوار تھیں، اور اس نے اس معرکہ میں بڑی اہمیت حاصل کی تھی، اسلیئے یہ جنگ
بھی اسی کی نسبت سے مشہور ہو گئی، یہ جنگ اگرچہ بالکل اتفاقی طور پر پیش آ
گئی تھی تاہم حضرت عائشہ ؓ کو ہمیشہ اسکا افسوس رہا۔بخاری میں ہے کہ وفات
کے وقت انہوں نے وصیت کی کہ مجھے روضہ نبوی میں آپکے ساتھ دفن نہ کرنا،
بلکہ بقیع میں ازواج کے ساتھ دفن کرنا، کیونکہ میں نے آپکے بعد ایک
جرم(کتاب الجنائز و مستدرک حاکم جلد4ص8) کیا ہے ابن سعد میں ہے کہ وہ جب یہ
آیت پڑھتی تھیں وَقَرنَ فِی بُیُوتِکُنَ اے پیغمبر کی بیویو! اپنے گھروں
میں وقار کے ساتھ بیٹھو۔ تو اس قدر روتی تھیں کہ آنچل تر ہو جاتا
تھا،(طبقات ابن سعد ص59جزثانی)
حضرت علی ؓ کے بعد حضرت عائشہ ؓ اٹھارہ برس اور زندہ رہیں اور یہ تمام
زمانہ سکون اور خاموشی میں گزرا،
وفات
امیر معاویہ کا اخیر زمانہ خلافت تھا کہ رمضان سن اٹھاون ہجری میں حضرت
عائشہ ؓ نے رحلت فرمائی، اس وقت سرسٹھ برس کا سن تھا، اور وصیت کےمطابق جنت
البقیع میں رات کے وقت مدفون ہوئیں، قاسم بن محمّد، عبداللہ بن عبدالرحمن،
عبداللہ بن ابی عتیق، عروہ بن زبیر ؓ م نے قبر میں اتارا، اس وقت ابو ہریرہ
ؓ ، مروان بن حکم کی طرف سے مدینہ کے حاکم تھے، اس لیے انہوں نے نماز جنازہ
پڑھائی،
اولاد
حضرت عائشہ ؓ کے کوئی اولاد نہیں ہوئی، ابن الاعرابی نے لکھا ہے کہ ایک
ناتمام بچہ ساقط ہوا تھا، اسکا نام عبداللہ تھا، اور اسی کے نام پر انہوں
نے کنیت رکھی تھی، لیکن یہ قطعاً غلط ہے، حضرت عائشہ ؓ کی کنیت ام عبداللہ
انکے بھانجے عبداللہ بن زبیر کے تعلق سے تھی، جنکو انہوں نے متبنی بنایا
تھا،
حلیہ
حضرت عائشہ ؓ خوش رو اور صاحب جمال تھیں، رنگ سرخ و سفید تھا،
فضل و کمال
علمی حیثیت سے حضرت عائشہ ؓ کو نہ صرف عورتوں پر نہ صرف دوسری امہات
المومنین پر، نہ صرف خاص خاص سحابیوں پر بلکہ باستثنائے چند تمام صحابہ پر
فوقیت حاصل تھی، جامع ترمذی میں حضرت ابوموسی اشعری سے روایت ہے، ہمکو کبھی
کوئی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی جسکو ہم نے عائشہ سے پوچھا ہو اور انکے
پاس اس سے متعلق کچھ معلومات نہ ملے ہوں،
امام زہری جو سرخیل تابعین تھے، فرماتے ہیں، عائشہ ؓ تمام لوگوں میں سب سے
زیادہ عالمہ تھیں، بڑے بڑے اکابر صحابہ ان سے پوچھا کرتے تھے،(طبقات ابن
سعدجزو2قسم2ص26)
عروہ بن زبیر ؓ کا قول ہے، قرآن، فرائض، حلال و حرام، فقہ و شاعری، طب، عرب
کی تاریخ اور نسب کا عالم عائشہ ؓ سے بڑھکر کسی کو نہیں دیکھا،امام زہری کی
ایک شہادت ہے، اگر تمام مردوں کا اور امہات المومنین کا علم ایک جگہ جمع
کیا جائے تو حضرت عائشہ ؓ کا علم وسیع تر ہو گا۔حضرت عائشہ ؓ کا شمار
مجتہدین صحابہ ؓ م میں ہے، اور اس حیثیت سے وہ قس قدر بلند ہیں کہ بےتکلف
انکا نام حضرت عمر، حضرت علی، عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس ؓ م کے
ساتھ لیا جا سکتا ہے، وہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ؓ م کے زمانہ
میں فتوے دیتی تھیں، اور اکابر صحابہ ؓ م پر انہوں نے جو دقیق اعتراضات
کیئے ہیں انکو علامہ سیوطی نے ایک رسالہ میں جمع کر دیا ہے، اس رسالہ کا
نام عین الاصابہ فی ما استدرکتہ عائشہ ؓ علی الصحابہ ہے،حضرت عائشہ ؓ کثرین
صحابہ میں داخل ہیں، ان سے 2210 حدیثیں مروی ہیں، جن میں 174 حدیثوں پہ
شیخین نے اتفاق کیا ہے، امام بخاری نے منفرداً ان سے 54 حدیثیں روایت کی
ہیں، 6 حدیثوں میں امام مسلم منفرد ہیں، بعض لوگوں کا قول ہے کہ امام شرعیہ
میں سے ایک چوتھائی ان سے منقعول ہے،علم کلام کے متعدد مسائل انکی زبان سے
ادا ہوئے ہیں، چنانچہ رویت باری، علم غیب، عصمت انبیاء، معراج، ترتیب خلافت
اور سماع موتیٰ وغیرہ کے متعلق انہوں نے جو خیالات ظاہر کیئے ہیں، انصاف یہ
ہے کہ ان میں انکی وقت نظر کا پلہ بھاری نظر آتا ہے،علم اسرارالدین کے
متعلق بھی ان سے بہت سے مسائل مروی ہیں، چنانچہ قرآن مجید کی ترتیب نزول،
مدینہ میں کامیابی اسلام کے اسباب، غسل جمعہ، نماز قصر کی علت، صوم عاشورہ
کا سبب ، ہجرت کے معنی کی انہوں نے خاص تشریحیں کی ہیں،طب کے متعلق وہی عام
معلومات تھیں، جو گھر کی عورتوں کو عام طور پر ہوتی ہیں۔البتہ تاریخ عرب
میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں، عرب جاہلیت کے حالات انکے رسم و رواج،
انکے انساب اور انکی طرز معاشرت کے متعلق انہوں نے بعض ایسی باتیں بیان کیں
ہیں، جو دوسری جگہ نہیں مل سکتیں، اسلامی تاریخ کے متعلق بھی بعض اہم
واقعات ان سے منقول ہیں مثلاً آغازِ وحی کی کیفیت، ہجرت کے واقعات، واقعہ
افک، نزول قرآن اور اسکی ترتیب، نماز کی صورتیں، آنحضرت ﷺ کے مرض الموت کے
حالات، غزوہ بدر، احد، خندق، قریظہ کے واقعات، غزوہ ذات الرقاع میں نماز
خوف کی کیفیت، فتح مکہ میں عورتوں کی بیعت، حجة الوداع کے ضروری الات،
آنحضرت ﷺ کے اخلاق و عادات، خلافت صدیقی، حضرت فاطمہ ؓ اور ازواج مطہرات ؓ
ن کا دعوی میراث، حضرت علی ؓ کا ملال خاطر اور پھر بیعت کے تمام مفصل الات
ان ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوئے ہیں۔ادبی حیثیت سے وہ نہایت شیریں کلام اور
فصیح اللسان تھیں، ترمذی میں موسی ابن طلحہ کا قول نقل کیا ہے، میں نے
عائشہ ؓ سے زیادہ کسی کو فصیح اللسان نہیں دیکھا۔ (مستدرک حاکم ج4ص11)
اگرچہ احادیث میں روایت بالمعنی کا عام طور پر رواج ہے، اور روایت باللفظ
کم اور نہایت کم ہوتی ہے تاہم جہاں حضرت عائشہ کے اصل الفاظ محفوظ رہ گئے
ہیں، پوری حدیث میں جان پڑ گئی ہے، مثلاً آغاز وحی کے سلسلہ میں فرماتی
ہیں، آپ جو خواب دیکھتے تھے سپیدۂ سحر کی طرح نمودار ہو جاتا تھا،آپ پر جب
وحی کی کیفیت طاری ہوتی، تو جبیں مبارک پر عرق آ جاتا تھا اسکو اسطرح ادا
کرتی ہیں، پیشانی پر موتی ڈھلکتے تھے، واقعہ افک میں انہیں راتوں کو نیند
نہیں آتی تھی، اسکو اسطرح بیان فرماتی ہیں، میں نے سرمۂ خواب نہیں
لگایا،صحیح بخاری میں انکے ذریعہ سے ام زرع کا جو قصہ مذکور ہے، وہ جان ادب
ہے اور اہل ادب نے اسکی مفصل شرحیں اور حاشیے لکھے ہیں،خطابت کے لحاظ سے
بھی حضرت عمر اور حضرت علی ؓ ما کے سوا تمام صحابہ ؓ م میں ممتاز تھیں جنگ
جمل میں انہوں نے جو تقریریں کی ہیں، وہ جوش اور زور کے لحاظ سے اپنا جواب
نہیں رکھتیں، ایک تقریر میں فرماتی ہیں، لوگو! خاموش، تم پر میرا مادری حق
ہے، مجھے نصحیت کی عزت حاصل ہے، سوا اس شخص کے جو خدا کا فرمانبردار نہیں
ہے، مجھکو کوئی الزام نہیں دے سکتا، آنحضرت ﷺ نے میرے سینہ پہ سر رکھے ہوئے
وفات پائی ہے، میں آپکی محبوب ترین بیوی ہوں خدا نے مجھکو دوسروں سے ہر طرح
محفوظ رکھا اور میری ذات سے مومن و منافق میں تمیز ہوئی اور میرے ہی سبب تم
پر خدا نے تیمم کا حکم نازل فرمایا،پھر میرا باپ دنیا میں تیسرا مسلمان ہے
اور غار حرا میں دو کا دوسرا تھا اور پہلا شخص تھا جو صدیق کے لقب سے مخاطب
ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے اس سے خوش ہو کر اور اسکو طوق خلافت پہنا کر وفات پائی
اسکے بعد جب مذہب اسلام کی رسی ہلنے ڈلنے لگی تو میرا ہی باپ تھا جس نے
اسکے دونوں سرے تھام لیے، جس نے نفاق کی باگ روک دی، جس نے ارتداد کا
سرچشمہ خشک کر دیا، جس نے یہودیوں کی آتش افروزی سرد کی، تم لوگ اس وقت
آنکھیں بند کیے غدر و فتنہ کے منتظر تھے اور شوروغوغا پر گوش برآواز تھے۔
اس نے شگاف کو برابر کیا، بیکارکو درست کیا، گرتوں کو سنبھالا، دلوں کی
مدفون بیماریوں کو دور کیا، جو پانی سے سیراب ہو چکے تھے، انکو تھان تک
پہنچادیا، جو پیاسے تھے انکو گھاٹ پر لے آیا، اور جو ایک بار پانی پی چکے
تھے انکو دوبارہ پانی پلایا جب وہ نفاق کا سر کچل چکا، اور اہل شرک کے لیے
آتشِ جنگ مشتعل کر چکا اور تمہارے سامان کی گٹھڑی کو ڈوری سے باندھ چکا تو
خدا نے اسے اٹھا لیا۔،ہاں میں سوال کا نشانہ بن گئی ہوں کہ کیوں فوج لیکر
نکلی؟ میرا مقصد اس سے گناہ کی تلاش اور فتنہ کی جستجو نہیں ہے، جسکو میں
پامال کرنا چاہتی ہوں، جو کچھ کہہ رہی ہوں سچائی اور انصاف کے ساتھ تنبہہ
اور اتمامِ حجت کے لیے۔ (عقد الفرید باب، الخطیب وذکرواقعۂ جمل ص14)
حضرت عائشہ ؓ گو شعر نہیں کہتی تھیں، تاہم شاعرانہ مذاق اس قدر عمدہ پایا
تھا کہ حضرت حسان ابن ثابت ؓ جو عرب کے مسلم الثبوت شاعر تھے، انکی خدمت
میں اشعار سنانے کے لیے حاضر ہوئے تھے، امام بخاری نے ادب میں المفرد میں
لکھا ہےکہ حضرت عائشہ ؓ کو کعب بن مالک کا پورا قصیدہ یاد تھا، اس قصیدہ
میں کم وبیش چالیس اشعار تھے، کعب کے علاوہ انکو دیگر جاہلیت اور اسلامی
شعراء کے اشعار بھی بکثرت یاد تھے، جنکو وہ مناسب موقعوں پر پڑھا کرتی تھیں
چنانچہ وہ احادیث کی کتابوں میں منقول ہیں،حضرت عائشہ ؓ نہ صرف ان علوم کی
ماہر تھیں، بلکہ دوسروں کو بھی ماہر بنا دیتی تھیں، چنانچہ انکے دامن تربیت
میں جو لوگ پرورش پاکر نکلے،اگرچہ انکی تعداد دو سو کے قریب ہے لیکن ان میں
جنکو زیادہ قرب و اختصاص حاصل تھا، وہ حسب ذیل ہیں،
عروہ بن زبیر، قاسم بن محمّد، ابو سلمہ بن عبدالرحمان، مسروق، عمرة، صفیہ
بنت شیبہ، عائشہ بنت طلحہ، معاوة عدویہ،
اخلاق عادات
اخلاقی حیثیت سے بھی حضرت عائشہ ؓ بلند مرتبہ رکھتی تھیں، وہ نہایت قانع
تھیں، غیبت سے احتراز کرتی تھیں، احسان کم قبول کرتیں، اگرچہ خود ستائی
ناپسند تھی تاہم خود دار تھیں، شجاعت و دلیری بھی انکا خاص جوہر تھا،انکا
سب سے نمایاں وصف جودوسخا تھا، حضرت عبداللہ بن زبیر فرمایا کرتے تھے کہ
میں نے ان سے زیادہ سخی کسی کو نہیں دیکھا، ایک مرتبہ امیر معاویہ ؓ نے
انکی خدمت میں لاکھ درہم بھیجے تو شام ہوتے ہوتے سب خیرات کر دیئے اور اپنے
لیے کچھ نہ رکھا، اتفاق سے اس دن روزہ رکھا تھا، لونڈی نے عرض کی کہ افطار
کے لیے کچھ نہیں ہے، فرمایا پہلے سے کیوں نہ یاد دلایا،(مستدرک حاکم ج4ص13)
ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ جو انکے متبنی فرزند تھے انکی فیاضی دیکھ
کر گھبرا گئے اور کہا کہ اب انکا ہاتھ روکنا چاہیے، حضرت عائشہ ؓ کو معلوم
ہوا تو سخت برہم ہوئیں اور قسم کھائی کہ ان سے بات نہ کرینگی، چنانچہ ابن
زبیر ؓ مدت تک معتوب رہے اور بڑی دقت سے انکا غصہ فرو ہوا،(صحیح بخاری باب
مناقب قریش)
نہایت خاشع، متضرع اور عبادت گزار تھیں، چاشت کی نماز برابر پڑھتیں، فرماتی
تھیں کہ اگر میرا باپ بھی قبر سے اٹھ آئے، اور مجھکو منع کرے تب بھی باز نہ
آؤں گی، آنحضرت ﷺ کے ساتھ راتوں کو اٹھ کر تہجد کی نماز ادا کرتی تھیں اور
اسکی اس قدر پابند تھیں، کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جب کبھی یہ نماز قضا ہو جاتی
تو نماز فجر سے پہلے اٹھ کر اسکو پڑھ لیتی تھیں، رمضان میں تراویح کا خاص
اہتمام کرتی تھیں، ذکوان انکا غلام امامت کرتا اور وہ مقتدی ہوتیں۔اکثر
روزے رکھا کرتی تھیں، حج کی بھی شدت سے پابند تھیں اور ہر سال اس فرض کو
ادا کرتی تھیں،غلاموں پر شفقت کرتیں، اور انکو خرید کر آزاد کرتی تھیں،
انکے آزادک ردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے،(شرح بلوغ المرام کتاب العتق) |
|