آغا شاعر قزلباش دہلوی کا اصل نام آغا ظفر علی بیگ تھا ۔
وہ اصلاً ایرانی النسل کے تھے ۔ محمد شاہ رنگیلا کے دور حکومت میں نادرشاہ
نے ہندوستان پر حملہ کیا اور جون 1739ء میں دہلی کو لوٹ کر مال غنیمت کے
ساتھ ایران و اپس ہو گیا مگر اس کے لشکر میں سے چند لوگ دہلی میں ہی رہ گئے
اور ہندوستان کو اپنا وطن بنا لیا ۔ انہیں لوگوں میں سے آغا شاعر قزلباش
دہلوی کے بزرگ بھی تھے ۔ شاعر ان کا تخلص تھا اور ایرانی ہونے کی حیثیت سے
قزلباش دہلوی کہلاتے تھے۔ ترکی میں فزل کے معنی سرخ کے ہوتے ہیں اور باش سر
کو کہتے ہیں چو نکہ ان کے بزرگ سپاہی تھے اور روایت کے مطابق سپاہی سر پر
لال ٹوپی پہنتے ہیں اسی لحاظ سے وہ قزلباش کہلاتے تھے ۔ رفتہ رفتہ قزلباش
کا ایک قبیلہ ہو گیا آغا شاعر قزلباش دہلوی اسی قبیلہ کے ایک فرد آغا عبد
علی بیگ قزلبا ش کے فرزند تھے۔
آغا شاعر کے آباو اجد اد کا پیشہ سپہہ گہری تھاشروع میں ان کے بزرگ مغلیہ
حکومت کے دربار سے وابستہ رہے اور فوجی خدمات انجام دیتے تھے جب زمانے نے
کروٹ لی اور مغلیہ حکومت کا زوال ہو گیا تو انگریزبر سراقتدار ہو گئے
نتیجتاً ان کے بزرگوں نے انگریزی فوج ملازمت کر لی یہ سلسلہ ان کے دادا کے
زمانے تک چلا مگر ان کے والد آغا عبد علی بیگ نے ’’تیرشکستہ نیاں گاں کو
قلم میں بدلا۔ انہوں نے رڑ کی اسکول سے اور سیری پاس کر کے مستحکم طور پر
سرکاری ملازمت کر لی اور دہلی میں کشمیری دروازہ موجودہ کشمیری گیت کھڑکی
ابراہیم خاں میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ آغا شاعر قزلباش کے والد ایک
نوکر پیشہ ہونے کی حیثیت سے اس دور کے حالات سے متا ثر ہو کر شعرو شاعری
بھی کرتے تھے مگر ان کا کوئی بھی کلام دستیاب نہیں ہے وہ بنیادی طور پر
صوفی منش تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے صاحب زادے شعر و سخن کی طرف مائل ہوئے۔
آغا شاعر کی پیدائش بروز یکشنبہ 5مارچ 1871 ء میں ان کے آبائی گھر کشمیری
دروازہ کھڑکی ابراہیم میں ہوئی۔ باپ کے اکلوتے بیٹے ہونے کی حیثیت سے ان کی
پرورش و پرداخت یوں کہئیے کہ مثنوی سحر البیان کے ہیرو بے نظیر کی طرح ہوئی
اور ہوتی بھی کیوں نہیں گھر میں خد ا کا دیا ہوا بے شمار مال و اسباب تھا
ساتھ ہی ان کے والد آغا عبد علی بیگ قزلباش اعلی عہد ے پر فائز تھے ۔ ان کی
ماں نہایت ہی نیک خدا ترس، صوم صلوۃ کی پابند پسند اور خوددار خاتون تھیں۔
قدامت پسندی ورثے میں ملی تھی البتہ اس طرح آغا شاعر قزلباش دہلوی بڑے ہی
لاڈ و پیار سے پرورش پاکر جب سن شعور میں داخل ہوئے تو ان کے والد نے انہیں
اس وقت کے مشہور و ممتاز درسگاہ اینگلو عربک اسکول اجمیری گیٹ دہلی میں
داخل کر ادیا اس وقت کی روایت کے مطابق انہوں نے اردو ، فارسی، عربی،
انگریزی و غیرہ علوم حاصل کئے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے انگریزی با
ضابطہ اسکول یا درسگاہ میں نہیں پڑھی بلکہ لگن، مطالعہ، مشاہدہ، کے ذریعہ
انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شیکسپئر کے بعض
ڈراموں کا ترجمہ انگریزی سے اردو میں کیا ہے۔ جواب تک غیر مطبوعہ ہیں
اینگلو عربک اسکول کی تعلیم کے بعد آغاشاعرقزلباش دہلوی کی باقاعدہ تعلیمی
زندگی کا سلسلہ مکمل طور پر ختم ہوگیا۔آغا شاعر قزلباش کا مطالعہ وسیع تھا
ساتھ ہی ترجموں اور انگریزی زبان کے مطالعہ کے ذریعہ اپنی استعداد میں
اضافہ کرتے رہے ۔
ابھی موصوف نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ ماں کی ممتا سے محروم
ہو گئے والد ہ کا سایہ سر سے اٹھنا تھا کہ دن بہ دن ماں کی فرقت میں افسردہ
رہنے لگے۔ ادھر حالات کے پیش نظر ان کے والد نے دوسری شادی کر لی روایت کے
مطابق سوتیلی ماں کا نام سن کر آغا شاعرقزلباش دہلوی کا دل کا نپ اٹھا ان
کے لئے سکون آرام راحت چین اور اطمنان کو سوں دور ہو گیا۔ گھرکی زندگی ان
کے لئے زنداں ہو گئی تھی سوتیلی ماں پھرسوتیلی ہوتی ہے یہ اپنی ماں کے
آنکھوں کے تارے تھے سوتیلی ماں سے نہیں بنی مہربان باپ کی ایک نہ چلی
چنانچہ ظلم و ستم سے تنگ آکر آغاشاعر ایک دن گھر سے نکل گئے یا یو ں کہئے
کہ نکال دئے گئے کئی دن تک بے یارو مدد گاربھو کے پیاسے فاقے کی حالت میں
شہر کے فٹ پاتھ کا طواف کر تے رہے تین دن حیران و پریشان بھوک سے بے حال
نیند سے نڈہال جامع مسجد کے سامنے والے میدان میں حضرت شاہ کلیم اﷲ رحمتہ
اﷲ جہاں آبادی کے مزار پر آرام اور خدا کی مدد کے طلبگار و امیدوار بن کر
بیٹھ گئے زمانے کے بیچ و خم سے گھبراکر زارو قطار رونے لگے تھکے ماندے تو
تھے ہی آنکھ لگ گئی سونے کی حالت میں ان کو تازہ کھانے کی خوشبو آئی اور اس
کے ساتھ بیدار ہوگئے جاگنے کی حالت میں دیکھا کہ سامنے زردے کی رکابی رکھی
ہے چہار طرف سناٹا دور دور تک انسان کا کوئی نا م و نشان نہیں تین دن کے
فاقے سے تو تھے ہی کھانا دیکھنے کے بعد بھوک کی شدت بڑھنے لگی۔ بسم اﷲ کر
کے کھانے لگے رکابی کے سارے چاول کھا گئے اور پانی پیا بعد اس کے موزوں شعر
کی شکل میں خدا کا شکر ادا کیا گویا کہ آج سے آغا شاعر قزلباش دہلوی کا دل
شاعری کی طرف مائل ہوا جس کو علم خدا داد کہیں تو بے جانہ ہو گا۔ح۔1
تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ تو ختم ہوچکا تھا اس کے بعد و ہ حضرت کلیم اﷲ کے
پیروکار ہو گئے ۔ دن بھر گھومتے پھرتے تھے مگر رات کو حضرت شاہ کلیم اﷲ ؒ
کے مزار پرعبادت و ریاضت میں رات گزارتے تھے اور اس طرح آغا شاعر قزلباش
دہلوی زندگی بھر شاہ کلیم اﷲ کے عقیدت مند ر ہے ان کی حیات میں کبھی ان کی
پایۂ استقامت کولغزش نہ نہیں ہوئی۔
جس عہد میں آغا شاعر نے مشق سخن کی ابتدا کی اس وقت ادب میں دو دھارے خاص
طور سے نمایاں تھے ایک طرف تو ہندوستان میں داغ کا طوطی بول رہا تھا دوسری
طرف حالی ، اکبر، چکبست، آتش، ناسخ، مولانا ابوالکلام آزاد، خواجہ حسن
نظامی جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی اور امیر مینائی وغیرہ کی نئی نظموں
نے دھوم مچا رکھی تھی یہ بیسویں صدی کا زمانہ تھا اس زمانہ کے اکثر شاعر و
ادیب ان رجحانات سے اثر قبول کر تے تھے اس زمانے میں ’’مخزن‘‘کا اجرا ہوا
اس سے نئے رجحانات کو اور تقویت پہنچی۔
آغا صاحب کی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز 1890ء یعنی انیسویں صدی کے آخری
دہائی سے ہوتا ہے ۔ آغا شاعر ماہر فن تھے وہ شاعر ،محقق، صحافی، انشا پرداز
ناول نگار، ڈرامہ نگار ، قصیدہ نگار، مثنوی نگار، غزل گو، رباعی گو اور
مضمون نگار تھے ان کا ایک اہم کام قرآن پاک کا منظوم ترجمہ بھی ہے ۔ انہوں
نے رباعیات عمر خیام کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے وہ بزرگ کا مل تھے وہ ہند و
مسلم اتحاد کے حامی تھے ان کی شاعری ہویا ڈرامہ نگاری، ناول نگاری ہندوستان
کے سماجی ، سیاسی ، اقتصادی مسائل کی تصویر پیش کرتی ہے ۔ ان کی شاعری
اتحاد باہمی بھائی چارگی، اخوت ، محبت، شجاعت اور قومی یکجہتی کا ضامن ہے ۔
اس طرح آغا شاعر کی شاعری چاہے وہ نظم ہو یا نثر انیسویں صدی کے اواخر دس
سال کی اور بیسویں صدی کی چار دہائی پر محیط ہے۔ آغا شاعر قدامت پسند تھے
مگر انہوں نے نئے رجحانات کو بھی قبول کیا اور جب انہوں نے شاعری شروع کی
تو بلا شبہ اپنے استادفصیح الملک بلبل ہند حضرت داغ کی قائم کی ہوئی روایات
پر چلنے لگے مگر ان کے دوش بدوش ان کے یہاں بعض ایسے نئے پہلو بھی نمایاں
دکھائی دیتے ہیں جن کو نئے عہدکے بدلتے ہوئے حالات اور ان کی وجہ سے پیدا
ہونے والے ایک نئے احساس و شعورتعبیر کیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ ان دنوں آغا شاعر کو رہبری کی ضرورت محسوس ہوئی جیسا کہ اوپر ذکر
آچکا ہے ان کی عمر بارہ سال کی تھی کہ وہ سوتیلی ما کی وجہ سے گھر سے نکل
گئے تھے اور شاہ کلیم اﷲ کے مزار میں پناہ گزیں تھے اب ان کا دل شعرو شاعری
کی طرف مائل ہوا اور استاد ڈھونڈ نے لگے البتہ اس وقت خاندان لوہا رو علم و
ادب کا گہوارہ تھا اور اس کے بانی نواب الہٰی خاں معروف تھے انہیں کوئی
اولاد نہیں تھی مگر ان کے بھائی نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بیٹے نواب ضیاء
الدین احمد خاں نیر رخشاں تھے وہ نواب الہی خاں سے استفادہ کر کے فن شاعری
پر کامل دستگاہ حاصل کر چکے تھے ان کے دو بیٹے شہاب الدین احمد خاں ثاقب
اور سعید الدین احمد خاں طالب دونوں شاعر تھے ثاقب کے چار بیٹوں میں سے
چاروں شاعر ہوئے اور طالب لاولد تھے ہی ثاقب کے بڑے بیٹے شجاع الدین احمد
خاں تاباں اور ان کے چچا طالب اس زمانے کے مشہور و معروف شاعروں اور ادیبوں
میں شمار ہوتے تھے ۔
خدا کی مدد شامل حال ہوئی آغا شاعر دہلوی کی ان دونوں کے یہاں رسائی ہوگئی
تابا ں شعر کے فن میں کا مل تھے انہوں نے آغا شاعر کی مکمل حمایت اور
رہنمائی کی اور رموز شاعری سے آگاہ کرنے کی کوشش میں آغا شاعر نے ایک ہفتہ
وار اخبار’’ آصف الاخبار‘‘ جاری کیا جس کا دفتر ان کے آبائی مکان کشمیری
دروازہ کھڑکی ابراہیم خاں میں تھا۔ اس کے ذریعہ وہ ادبی مضامین نظم و نثر
لکھتے رہے ان کے رنگین شاعرانہ اورپر کیف مضامین کا ایک مجموعہ ’’
خمارستان‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے اس میں 37مضامین ہیں جو مختلف موضوعات
سے متعلق ہیں اس لئے ان سارے مضامین کا مزاج ایک سا نہیں ہے لیکن ایک چیز
ضروری ہے جو ہر مضمون میں بے حد نمایاں ہے اور وہ ہے آغا شاعر کی شاعرانہ
فطرت جو ان کی نثرمیں بھی نمایاں ہے جن میں سے اکثر شائع نہیں ہوئے ہیں ۔
آغا صاحب اپنے ڈراموں میں کبھی کبھی خود ہیرو کا رول ادا کرتے ہوئے نظر آتے
ہیں ۔ وہ ایک کامیاب ڈرامہ نگار اور ناول نویس تھے ان کے بعض ناول اور
ڈرامے ان کی زندگی میں شائع ہو چکے تھے انہوں نے قرآن کریم کا منظوم ترجمہ
کر کے کار نمایاں انجام دیا ان کے اس غیر معمولی کام کو اس وقت کے ادیب اور
سیاسی رہنا مولانا ابوالکلام ازاد، مولانا اشرف علی تھانوی، خواجہ حسن
نظامی بابائے اردو مولوی عبدالحق، شمس العلماء مولوی عبد الرحمن، مفتی عبد
القدیر قادری بدایونی مفتی اعظم حیدر آباد دکن ، مفتی کفایت اﷲ مفتی اعظم
ہند وغیرجیسے لوگوں نے سراہا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ مدتو ں کی محنت کے بعد 1922 ء میں پہلا پارہ انہوں نے اپنی
زندگی میں دہلی سے شائع کیا اس پر اکبر الہ آبادی نے ایک خط میں لکھا تھا۔
حضرت آغا تسلیم !
’’ اﷲ آپ کو جزائے خیر دے آپ نے کلام اﷲ کو نظم کر دیا کوئی اﷲ کا بندہ اسے
طبلہ اور سارنگی پر گادے تو مزہ آجائے گا۔‘‘ ح۔ 2
منظوم ترجمہ کا نمونہ ملاحظہ کئے جسے اس میں آغا شاعر نے بسم اﷲ اور سورہ
فاتحہ کا ترجمہ یوں کیا ہے ۔
’’ ہے نا م سے خدا کے آغاز کا(اجالا) جو مہر بان بڑا ہے بے حد جورحم والا
تعریف اس خدا کی جو رب ہے عالموں کا محشر کے دن کا مالک روز جز ا کا والی
تجھکو ہی پوجتے ہیں ہم تیرے ہیں سوالی سیدھی ڈگرپہ لے چل تابت قدم بنادے
نعمت جنہیں عطا کی ان کی روش سجھادے ( ان کی راہ) جن پر قہر و قضب ہوئے ہیں
( نے وہ) کہ جو بھٹک کر گمرا ہو گئے ہیں ۔‘‘
انہوں نے قرآن کریم کا منظوم ترجمہ کے علاوہ عمر خیام کی رباعی کا مکمل
ترجمہ کیا جس میں دو سو ان کی زندگی میں ’’ خمکدہ خیام‘‘ کے نام سے شائع
ہوا بقیہ ساڑھے چار سو رباعیوں کا ترجمہ غیر مطبوعہ ہے یہ ترجمہ اردو زبان
کے مقتد ر ترجموں میں سب سے زیادہ مقبول ترجمہ ہے ان کی اس خد مت کو سراہتے
ہوئے عطا اﷲ بالوی صاحب نے 1837ء میں لکھا تھا۔
’’میں بیا نگ دہل یہ کہنے کے لئے تیار ہوں عمر خیام کا سب سے بڑا سب سے
بہتر اور اعلی متر جم دہلی کا مایہ ’’ ناز شاعر آغا شاعر ہے ‘‘ ۔ح۔ 3
آغا شاعر کی اس خدمت کو سراہتے ہوئے مالک رام نے لکھا ہے کہ ! ’’ آغا شاعر
دہلوی نواز خاں ناز تالپور کی فر مائشوں پر رباعیات خیام کا منظوم ترجمہ
اردو میں کیا جو خمکدہ خیام کے نام سے شائع ہوا ۔ ح۔ 4
بیشتر نقادوں کی رائے ہے کہ اردو میں خیام کا اس سے بہتر اور عمدہ ترجمہ
کوئی نہیں یہاں نمونہ کے طور پر خیام اور آغا شاعر کے اشعار کو قلم بند کیا
جاتاہے۔
خیام آغاشاعر
آمد سحری نداز میخانۂ ما ----- آئی یہ ندا صبح کو میخانے سے
کای رند خراباتی دیوانہ ٔما ----- ای رند شراب خوار، دیوانے سے
برخیز کے پر کنیم پیمانہ زمی ----- اٹھ جلد ،شراب سے ساغر مہر لیں
زان پیش کہ پر کندپیمانہ ما ----- کمبخت !چھلک جائے نہ پیمانے سے
گرمے نخوری ، طنغہ مزن مستاں را طعنہ نہ دے مستوں کو ، جو ہے مئے سے حذر
گر دست دہد، توبہ کنم یذداں را ----- ہم توبہ ہی کر لیں گے مصیبت ہے اگر
توفحر بدیدین کنی کہ من مے نخوارم ----- ہے فخر یہی نا۔ کہ تو میخوار نہیں
صد کا رکنی کہ مے غلام است آن را سو عیب ہے اور مے سے بد تر بدتر
عمرخیام
ہرچند کہ رنگ دبوی زیباست مرا ----- چون لالہ رخ وچو سروبالاست مر ا
معلوم نشد کہ درطر بخانۂ خاک ----- نقاش من از بہرچہ آراستہ مرا؟
افسرالشعرا
قدرت نے مجھے حسن دیا تھا کیسا؟----- رخ پھول سا،قدسرو سے پیارا بخشا
پریہ نہ کھلا کہ خاک کر نے کے لئے نقاش نے پھر مجھ کو سنوارا کیوں تھا؟
عمر خیام
درہر وشتی کہ لالہ زاری بودہ است ----- آن لالہ زخون شہر یار بودہ است
ہر برگ بنفشہ کز زمین می روید ----- خالیست کہ پر رخ نگا ری بودہ است
افسرالشعرا
صحرا میں جہاں لالۂ رنگین ہے کھلا سلطان کا خون ہے کسی قیصر کا
جو پتی بنفشہ کی زمیں سے پھوٹی ----- تل ہے ، جو کسی چاند سے رخسار پہ تھا
عمر خیام
نا کر دہ گناہ در جہان کیست بگو؟ ----- آنکس کہ گنہہ نکر و چون زیست بگو؟
من بد کتم و تو بد مکافات کنی ----- پس فرق میاٰن من و تو چیست بگو؟
افسرالشعرا
نا گردہ گناہ کون دینا میں ہوا ----- جس نے نہ کیا پاپ وہ کس طرح جیا
مجھے ہو بدی، تو اس کا بدلہ دے برا مجھ تجھ میں بتا تو سہی پھر فرق ہے کیا؟
عمر خیام
من بندۂ عاصیم رضای تو کجاست ----- تاریک و لم نور ضیاوی تو کجاست
ماراتوبہشت اگر بطا عت بخش ----- ایں ضردبود لطف عطائی تو کجاست
افسر الشعرا
پاپی سہی پر تیری رضا ہے وہ کہاں تاریک ہے دل نور ضیا ہے وہ کہاں
گر مجھ کو بہشت بندگی سے بخشا ----- اجرت ہوئی یہ لطف وعطا ہے کہاں
جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے کہ آغا شاعر فن ترجمہ پر عبور رکھتے تھے ۔ انہوں
نے ایک انگریزی ناول کا ترجمہ اردو میں ’’ طلسم بدلہ‘‘ کے نا م سے کیا جو
بالاقساط ان کے اخبار ’’ آصف الاخبار‘‘ میں چھپتا رہا انہیں دنوں آغا شاعر
نے ایک ماہنامہ ’’ گلدستہ’’ پنجہ نگاریں ‘‘ کے نا م سے اپنی سر پرستی میں
نکالا اس ماہنامہ میں اس وقت کے شاعروں اور ادیبوں کا کلام چھپتا تھا ۔ آغا
شاعر کے یہ دونوں خرید ے ایک عرصہ تک شائع ہوتے رہے جس کے ذریعہ سے اردو
زبان و ادب کو حد درجہ فروغ ملا اور ساتھ ہی آغا شاعر کو میدان صحافت میں
شہرت حاصل ہوئی ۔ اس کے علاوہ آغا شاعر نے متر جم کی حیثیت سے شکسپئر کے
انگریزی ڈراموں کا اردو میں تر جمہ کیا جو غیر مطبوعہ ہے۔
آغا شاعر قزلباش دہلوی1940-1871 اپنے عہد کے ادبی منظر نامے میں نامو رنثار
اور شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ۔ وہ بیک وقت شاعر، ناول نگار ، ڈرامہ
نگار، مترجم اور کئی رسالوں کے مد یرو صحافی تھے ۔ داغ دہلوی کے مشہور
شاگرد جہاں نواب سراج الدین احمد خاں سائل دہلوی اور منشی وحیدالدین بیخود،
دہلوی تھے ۔ وہیں آغا شاعر نے اپنے استاد داغ دہلوی کی شاعری کو اس درجہ
پھیلایاکہ ان کی شہرت کا آفتاب نصف النہار تک جاپہنچا۔یہی وجہ ہے کہ وہ
جانشین داغ افسرالشعراء جہاں استاد جیسے القاب و خطابات سے نوازے گئے۔ انکے
انداز بیان کی تشکیل مشاہدے کی قوت احساس کی شدت، جذبے کی جدت اور تخیل کی
رفعت کو ان کی شاعری میں بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے ۔’’تیر و نشتر‘‘ ان کا
واحد دستیاب مجموعہ ہے انہوں نے افسانے بھی لکھے ہیں ۔چند افسانے ان کے
مجموعے خمارستان میں ملتے ہیں ۔جسے مضامین کا مجموعہ بھی قرار دیا گیا ہے
اس میں شامل مندرجہ ذیل افسانے ہیں ۔ یادوطن، نیا سال، دامان بہار، جوئی
اور بارش کا ننھا قطرۂ، ہندوستانی، بڑھو ورنہ کچل دئے جاوگے، پوشیدہ، ایک
قطرہ خون کی سر گذشت، باغ بہشت، حسن اردو کا حجاب، پھول والوں کی سیر،
چھوئی موئی، وفائے عہد، کھلتا ہوا پتہ، بجھتا ہو ا چراغ، ٹوٹا ہوا ہاتھ،
انیس و دبیر، خانہ بدوش، جل ترنگ، چاندنی رات دریائے فرات، رنگیلاجوگی، آہ
پنڈت رتن ناتھ سرشار، حضرت داغ کی ایک صحبت، اپنے خالق کو پہچان، میری
بادشاہت کا زمانہ، غلام ہندوستان، پہلے کی دلی، جمنا کے کنارے، عبرت ناک
مشاہدہ، فیروز شاہ کی لاٹ، ایک البیلی شام، برسات کی بہار، تاجدار دکن کی
سوانح عمری، استاد داغ کی اصلاح ، ادبی صحبت، میرا گناہ، آغا شاعر کا
پیغام۔ انہوں ڈرامے بھی لکھے ہیں اور ناول بھی ارمان، ناہید، ہیرے کی کنی،
اور نقلی تاجدار، انکے مشہور ناول ہیں ان کے ناول کے بارے میں بھی یقین کے
ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے صر ف چار ہی ناول لکھے ہو نگے اس
لئے کہ ’’لیلی دمشق ‘‘ کو بھی ناول کہا جاتا ہے ’’شعلہ جوالہ‘‘ ایک ناولٹ
اور’’دامن مریم‘‘ موصوف کے انشائیوں کا مجموعہ ہے جو ان سے منسوب ہے ۔
موصوف اپنے عہد کی ایسی اہم شخصیت تھے جس کے متعلق مولا نا شبلی نعمانی،
سیماب اکبر آبادی، سر شیخ عبد القادر ، صفی لکھنؤی ، جگر مرادآبادی ، جوش
ملیح آبادی، حامد حسن قادری، سید عابد علی عابد، خواجہ حسن نظامی،عبادت
بریلوی، امیر حسن عابدی، مالک رام، مہیشور دیال، وجاہت حبیب اﷲ، ویمل جین ،
عمار رضوی، مہاتما گاندھی ، فرمان فتح پوری وغیرہ نے اپنے مضامین میں اپنی
قیمتی رائے کا اظہار کیا ہے اور آغا شاعر کے ادبی حیثیت کو متعین کر نے کسی
کو شش کی ہے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کی شخصیت اور انکے ادبی کام پر اب
تک کسی بھی یو نی ور سٹی میں کوئی تحقیقی اور تنقیدی کام نہ ہوسکا ہے ۔ آغا
شاعر دہلوی کی شاعری میں روایت اور تجربے کا نہایت ہی حسین امتزاج ہے جو
نواب مر زا داغ کی شاعری کا سرچشمہ اور پیش خیمہ ہے ۔ نوح ناروی ، سائل
دہلوی، بیخود دہلوی کے ساتھ ساتھ اردو شعر گوئی میں موصوف کا اپنا علیحدہ
مقام ہے ۔
آغا شاعر نے ڈرامے بھی لکھے ہیں موصوف مشہور ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کے
استاد تھے ۔آغا حشر کاشمیری صحافی بھی تھے وہ ’’آصف الا خبار‘‘ اور’’ پنجۂ
نگاریں‘‘ رسالے کے مدیر تھے انہوں اس وقت کے سماجی، سیاسی ،تاریخی، معاشی،
اور ادبی مسائل پربڑی بے باکی کے ساتھ اداریے لکھے اوراس وقت کے مسائل پر
محیط و مبنی بے شمار مضامین قلم بند کئے ان کی نظر سماج اور سیاست کے ساتھ
ادب پر بھی گہری تھی۔ آغا شاعر کی ایک حیثیت متر جم کی بھی ہے انہوں نے
قرآن پاک ، رباعیات، عمر خیام اور ایک انگریزی ناول کا تر جمہ اردومیں
’’طلسم بدلہ‘‘ کے نا م سے کیا ہے جو اس عہد میں معیاری اور ادبی تر جمہ
ہونے کا سند حاصل کر چکے ہیں اور اس وقت بھی مقبول عام ہیں ۔
آغا شاعر قزلباش دہلوی آغا حشر کاشمیری کے استاد تھے ڈرامے کا فن آغاحشر نے
خاص طور سے آغا شاعردہلی سے ہی سیکھا ہے اس سے آغا شاعر دہلوی کی ادبی
شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ آغا حشر کا شمیری جیسے ادیب نے ان کے سامنے
زانوئے ادب تہ کیا۔ ‘‘ ح ۔ 5
یو ں آغاشاعر دہلوی کی ادبی زندگی کا کارواں اپنی منزل طے کرتا رہا اس
زمانے میں شیخ عبد القادر نے 1901ء میں اردو کا مشہور ماہنامہ ’’ مخزن‘‘
لاہور سے جاری کیا اورآغا شاعر کو لکھنے کے لئے مد عو کیا اس طرح ان کا
کلام ’’ مخزن‘‘ کے اس ابتدائی دور میں باقاعد گی سے شائع ہوتا رہا اس سے
بھی آغا شاعر کو شہرت ملی۔1901ء میں بھی ان کے کلام کا مختصر مجموعہ
’’تیرونشتر‘‘ کے نا م سے مخزن پریس لاہور سے شائع ہوا۔ اس زمانے میں منشی
غلام محمد نے امرت سر سے ایک ہفتہ وار پر چہ ’’ وکیل‘‘ کے نا م سے 1901ء
میں جاری کیا ۔ ح۔ 6
اس کے پہلے ایڈیٹر لاہورکے مولوی انشا اﷲ خاں تھے دو تین سال کے بعد انشااﷲ
خاں نے ملازمت تر ک کرکے اپنا ذاتی پر جہ ’’ وطن‘‘ ہفتہ وار 1903ء میں
لاہور سے جاری کیا ۔ح 6
اس کے بعد کچھ دنوں تک ’’ وکیل‘‘ کی ادارت خود غلام محمد کرتے رہے پھر
انہوں نے 1904 ء میں مولانا ابو الکلام آزاد کو مدیر کی حیثیت سے کام کرنے
کی دعوت دی موالانا آزاد نے اسے منظور کر لیا ادھر غلام محمد نے آغا شاعر
کو پر چے کے حصہ نظم کی خدمت سپر د کی مگر یہ کام زیادہ دن تک نہ چل سکا اس
لئے کہ مولانا آزاد آزادی کے علمبردار تھے وہ آزادی کا خواب دیکھ رہے تھے
اور آغا شاعر داغ کے شاگرد ہونے کی حیثیت سے انارومانیت کے شکار تھے وہ
شوخی اور بانکپن کے سراپا مجسمہ تھے غرض جلد ہی یہ دونوں وکیل سے الگ ہو
گئے مولانا ابوالکلام آزاد نے کلکتہ کی راہ لی اور آغا شاعر دہلوی نے لاہور
کا راستہ اختیار کیا۔
لاہور پہنچ کر ان کی ملاقات فتح علی خاں قزلباش سے ہوئی جو بہت ادب نواز
تھے مگر ساتھ ہی حاسد بھی تھے کچھ دنوں تک تو آغا شاعرکی انھوں نے بہت ہی
خلوص اور محبت سے خدمت کی مگر جب دیکھا کہ ان کی شہرت میں روز بروز اضافہ
ہو رہا ہے تو فتح علی خاں آغا شاعر سے نا رواسلوک کرنے لگے اس لئے آغا شاعر
چند دن بعد شیخ محمد رفیع دہلوی کے ساتھ رہنے لگے محمد رفیع سرکاری ملازمت
میں اعلی عہد ے پر فائز تھے۔
آغا شاعر نے قیام لا ہور کے زمانے میں اپنے بیٹے آفتاب علی قزلباش کے نام
پر ماہنامہ ’’آفتاب‘‘ بھی جاری کیا اس زمانے میں ماہنامہ ’’آفتاب‘‘کا لاہور
میں کافی شہرہ ہوا۔ تقریباً دو تین سال کی مدت میں ہی اس کے بے شمار خرید
ار ہوگئے تھے۔ انہیں دنوں انجمن حمایت اسلام لاہور کے اجلاس بڑی دھوم دھام
سے ہوا کرتے تھے ایک جلسے کے لئے انہوں نے ایک طویل نظم’’ یتیموں کی
فریاد‘‘ لکھی جو انہیں دنوں ایک کتابچے کی شکل میں مرغوب بک ایجنسی لاہور
سے شائع ہوئی۔
آغا شاعر دہلوی کی قاد ر الکلامی کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ جب
لاہور میں تھے انجمن کا جلسہ برکت علی میموریل ہال میں ہو رہا تھا شام کا
وقت تھا حسب معمول حاضرین میں نا مور ادبا و شعراء تشریف فرما تھے ڈپٹی
نذیر احمد دہلوی صدرات کا کام انجام دے رہے تھے آغا شاعر اپنی نظم پڑھ رہے
تھے اور مجمع دم بخود ہمہ تن گوش تھا یکا یک بجلی چلی گئی اور ہال تاریک ہو
گیا فوراً سر عبد القادر دیا سلائی روشن کر کے آغاشاعر کے دوش بدوش کھڑے
ہوگئے تا کہ پڑھنے میں دشواری نہ ہو سر عبد القادر صاحب نے یکے بعد دو تین
بار سلائیاں روشن کیں اتنے میں بجلی آگئی اور سر عبد القادر اپنی جگہ بیٹھ
گئے ۔ بجلی گئی اور آئی اس مو قع پر نہ تو آغا شاعر نے پڑھنا بند کیا اور
نہ ہی سامعین میں سے کسی نے اپنی جگہ سے جنبش کی اس طرح لاہور کے قیام کے
زمانے میں آغاشاعر نے بہت بڑے بڑے کار نمایاں انجام دئے مگر تھوڑے ہی دن
میں آغا شاعر کا دل لاہور سے اچاٹ ہو گیااور انہوں نے لاہور کی سکونت ترک
کردی۔
آغاشاعر دہلوی نے لاہور کو خیر باد کہا اور کلکتہ تشریف لے گئے وہاں ان کی
ملاقات نصیر الملک شجاعت علی خاں قو نصل جنرل ایران سے ہوئی اور آغاشاعر کو
ان کی مصاحبت میں رہنے کا موقع ملا اس مدت میں انہوں نے نصیر الملک کے
ایماء پر ایک قصیدہ فارسی میں والی ایران مظفرالدین شاہ کی مدح میں لکھا اس
پر شاہ موصوف نے خوش ہو کر آغا شاعر کو اختر الشعر اء کا خطاب فرمایا اس
لئے ان کے احباب ان کے نام کے ساتھ اختر الشعراء لکھتے ہیں ۔
انہیں دنوں آغا شاعر کی ملاقات آغا حشر کاشمیری سے ہوئی جو تھیٹریکل کمپنی
چلاتے تھے انہوں نے آغا شاعر کو ڈرامہ لکھنے کی دعوت دی قیام کلکتہ میں
انہوں نے بے شمار ڈرامے لکھے جب ڈرامے کے فن پر دستگاہ حاصل کرلی تو آغا
شاعر کاشمیری کے کہنے پر وہ بمبئی منتقل ہو گئے۔ وہاں پارسی حضرات نے
تھیٹریکل کمپنیاں قائم کر رکھی تھیں ان کمپنیوں کو آئے دن اسٹیج کر نے کے
لئے نئے نئے ڈراموں کی ضرورت ہوتی تھی اس ضرورت کو آغا شاعر نے پوراکیا۔
آغا شاعرکی اس کامیابی پر آغاحشر کا شمیری کو ڈرامہ لکھنے کا خیال پیدا
ہوا۔ چنانچہ انہوں نے آغا شاعر سے اصلاح لی اور ڈرامہ نویسی کرنے لگے نتیجہ
یہ ہواکہ جو کام آغا شاعر نے شروع کیا تھا آغا حشر نے اسے تکمیل کی منزل تک
پہنچا دیا اس طر ح انہوں نے آغا شاعر کی عقیدت میں اپنے نام کے آگے ’’
آغا‘‘ لگا لیا اور آغا حشر کاشمیری کہلانے لگے حالانکہ اس سے پیشتروہ محمد
شاہ لکھا کرتے تھے۔
آغاشاعر کی ادبی شخصیت اپنے زمانے میں مقبول تھی اس کا پتہ اس زمانے کی
تحریروں سے چلتا ہے ان کی شخصیت پر ان کے بعد آنے والے ادباء اور شعراء نے
بھی۔ تحریری خراج عقیدپیش کی ہیں۔ان میں چندادبیوں کے خیالات ملاحظہ ہوں ۔
جن سے آغا شاعر کی ادبی شخصیت زیادہ واضح شکل میں سامنے آسکے گی۔
حامد حسن قادری کا خیال ہے کہ !
’’ آپ پلنگڑی پر لیٹے یو ں گاؤ تکیہ سے لگے بیٹھے ہیں چاروں طرف۔ تلا مذہ
کا جھرمٹ ہے اور ایک صاحب غزلوں کا تبہ سامنے مسودہ رکھے قلم ہاتھ میں لئے
ایک ایک غزل پڑھتے جاتے ہیں ۔ حاضرین ہر شعر کو غور سے سماعت فرماتے ہیں
اور مناسب موقع پر اپنی اپنی رائے کے لقمے بھی دیئے جاتے ہیں اگر اس مشورے
سے استاد کی رائے کو بھی اتفاق ہو گیا تو وہی الفاظ غزل میں بنا دیئے گئے
ورنہ جو استاد نے بطور خود املا فر مایابے ہچک وہ اس مقام پر جڑدیا گیا اس
طرح اصلاح کی اصلاح ہو جاتی تھی اور آپس کے تبادلہ خیالات سے معلومات کا
دائرہ بھی وسیع تر ہوتا جا تا تھا ۔ ح ۔6
خواجہ حسن نظامی فرماتے ہیں !
’’ آغا شاعر قزلباش کا قددر میانہ تھا جسم دوہرا گداز تھا چہرہ پر گول
آنکھیں بڑی بڑی چمکدار اور رسیلی تھیں آوازپاٹ دار تھی جب شعر پڑھتے تھے تو
شعر کی تصویر بن جاتے تھے ۔ ح۔7
سیماب اکبر آبادی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ !
’’ برادر مرحوم حضرت آغا شاعر قزلباش دہلوی صرف تخلص کے شاعر نہ تھے بلکہ
حقیقی شاعر تھے ان کی شاعری میں زندگی تھی اور وہ شاعری میں زندگی کی
ترجمانی کرتے تھے دلی اسکول اور اسالیب داغ کی تبلیغ و نمائندگی آغا صاحب
کا حصہ مخصوص تھا ان کی تمام زندگی خدمت ادب میں گزری میں نے انہیں اس وقت
دیکھاجب وہ منزل شباب سے گزرچکے تھے لیکن جن لوگوں نے ان کی جوانی دیکھی ہے
کہتے ہیں کہ ان کی غزل گوئی اور غزل سرائی دونوں قیامت تھی وہ جب اپنی بلند
آواز سے غزل پڑھتے تھے تو مشاعرے کے دور دیوارلرز جاتے تھے اور وہ بقول
شخصے لوگوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال ڈال کر داد لیتے تھے بلند قامت بھر ا
ہوا بدن رعب دار چہرہ، بڑی بڑی موچھیں کشادہ دامن اور اپنے قد سے لمباعصا
لیکر جب وہ کسی مشاعر ے میں داخل ہوتے تھے تو مشاعرے میں موجود یا معین کی
نگاہوں کا مرکز بن جاتے تھے اور آغا صاحب آگئے آغا صاحب آگئے کی آوازیں ہر
طرف سے بلند ہو جاتی تھیں۔ حیدرآباد دکن کے مشاعروں میں ان کی غزل سرائی آج
تک ایک حدیث یادگار ہے ۔ ح۔7
علامہ شبلی نعمانی کا خیال ہے !
’’ آغا شاعر صاحب دلی کے نادرروزگار شاعر ہیں ۔ اردو زبان داں ان سے بڑھکر
کون ہو سکتا ہے ۔ اس خصوصیت کے علاوہ کہ اردوئے معلی ان کی مادری زبان ہے
ان کو لٹریچر اور انشا پرداری کا خاص مذاق ہے ۔ان کی نثر نہایت صاف شتہ اور
بے تکلف ہوتی ہے شاعری میں بھی کمال حاصل ہے ۔ خیال بندی کے ساتھ بندش کی
صفائی اور بر جستگی اور روز مرہ محاورات کا نہایت عمدگی سے استعمال ان کے
کلام کاخاص جوہر ہے ۔ ح۔8
پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی رقم طراز ہیں !
شاعر مرحوم تخیل کی تہذیب ، الفاظ کی دلاویزی، اسلوب کے اور محاوروں کی صحت
میں اپنے استاد کے سچے پیر و تھے۔ شاعر شاعرکا تخیل اونچا تھاان کی فکر
گہری تھی مگر ایسی نہیں کہ انسان کی فہم کوچراغ پا کردے ان کے بیان میں
مٹھاس تھی لیکن گلو سوزنہیں ۔ کلا سیکل غزل کی تقریباً تمام ضروریات ان کے
اشعار میں موجود تھی انہوں نے نظمیں بھی کہیں ہیں اور اچھی کہی ہیں مگر
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس صنف کو انہوں نے اپنے شاگرد رشید مہاراج بہادربرق
دہلوی کے سپر د کردیا تھا اور خود غزل کے احیاء میں مصروف رہے ۔مشاعروں میں
پڑھنے کا طور اگر چہ محض تحت اللفظ تھا مگر نہایت موثر لہجہ بہت دلاویزتھا
ہاتھ اورتیور سے بھی کام لیتے تھے لیکن صرف اتناکہ شعر کے موضوع کی رسائی
قاری تک ہو جائے اور کتھک کے ہاؤبھاؤ سے دور رہے میں نے ان کے استاد حضرت
داغ کے پڑھنے کا اندازسب سے نرالا اور موثر تھا ان سے بہتر پڑھنے ولا میں
نے نہیں دیکھا بعد کے شعراء میں یہی فیصلہ شاعر مرحوم کے حق میں ہے ۔‘‘ح۔9
نیاز فتح پوری نے ان الفاظ میں یاد کیا ہے !
وہ نہ صرف دبستان داغ کے بڑے خوش گو و پر گو شاعر تھے بلکہ اس تہذیب و
روایتی زندگی کے بھی بہترین نمائند ے تھے جو دلی کی اجڑی ہوئی ثقافت دلی کے
مشاعروں دلی کے چاندنی چوک، دلی کی جامع مسجد اور دلی کے اکابر علم و ادب
سے مخصوص تھی وہ ایک شاعر تھے اور ان کی زندگی کا وہ حسن تھا جس نے ان کی
شاعری کو شہرت دوام عطا کی ۔‘‘ح۔10
مجتبیٰ حسین کا خیال ہے !
’’ آغا شاعر کی پوری شاعری میں خواہ وہ غزل کہہ رہے ہوں یا نظم دو چیزیں
بڑی نمایاں ہیں ایک تو یہی سامنے کی چیز ہے جسے ہم زبان کی صفائی کہہ سکتے
ہیں ۔ دوسرے ان کی وسیع النظری، زبان کی پختگی اور قادر الکلامی ان کی
غزلوں اور نظموں دونوں میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے ۔ غزل میں جو زبان
شوخ، صاف اور چٹپٹی ہے وہ نظموں میں پہنچ کر ایک نئے انداز سے ابھرتی ہے ۔
ان کی غزلوں میں بول چال کا اندازہ جا بجا ملتا ہے وہ مصرعوں میں پختگی اور
بر جستگی پیدا کرنے کے علاوہ ایک ہی شعر کے کئی رخوں کو وضاحت سے پیش کر تا
ہے ۔میں نے اپنی زندگی میں ایسا پڑھنے والا نہیں دیکھا ایک طوفان کا منظر
ایک زلزلے کا عالم ایک بم پھٹنے کی کیفیت مگر بلا کا اثر سن بھی لیں اور
سہم بھی جائیں۔ شعر پر جھومنے کو دل چاہے تو بھی دم سادھے بیٹھے رہیں ۔ ح۔
11
شیش چند طالب دہلوی !
آغا شاعر کی وفات سے گویا ایک نہیں کئی ہستیا ں ایک ساتھ اٹھ گئیں قوم کا
محترم، قدامت کا مجسمہ دلی کا زبان داں شاعری کا استاد داغ کا جانشین ۔ ح۔
12
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا خیال ہے کہ !
’’ آغا شاعر دہلوی کا بڑا کمال یہ ہے کہ وہ ترجمہ کوبے کیف اور بے جس نہیں
ہونے دیتے چنانچہ ان کی اکثر رباعیوں میں کچھ ایسی غزلیت حیات خیزی رومانیت
اسلوب کی دلکشی اور فنی پختگی نظر آتی ہے جو عمر خیام کی رباعیوں کی چغلی
نہیں کھاتیں‘‘۔ ح۔13
سیدوقار عظیم نے لکھا ہے !
’’ آغا شاعر قزلباش کو اردو والے ایک غزل گوکی حیثیت سے جانتے ہیں جن کی
غزلیں رنگین محفلوں کو رنگین بناتی ہیں اور جن کے شعر پڑھکر اب بھی لوگ سرد
ھتے ہیں ۔‘‘ ح۔ 14
اسی طرح ڈپٹی نذیر احمد دہلوی جو اردو ناول نگاری کے موجد ہیں انہوں نے
اپنے عہد میں آصف الاخبار کے حوالے سے آغا شاعر کی شخصیت پر روشنی ڈالتے
ہوئے کہا ہے کہ !
’’ میں بلا خوف تردد کہہ سکتا ہوں کہ اردو کے جتنے اخبار میری نظر سے گزرے
اور شاید ہی کوئی ایساہو جو میری نظرسے نہ گذر ا ہو اس کی سی زبان کے
اعتبار سے دہلی اس کو شایان ہے اور یہ تعرض اگر ہے تو اتنا کہ بیان و اقعات
میں جو شاعری کی جھلک مارتی ہے ۔‘‘ ۔ح۔15
مذکورہ بالا بیانات اور خیالات سے آغا صاحب کی شخصیت کے جو جوہر سامنے آتے
ہیں وہ داغ اسکول کے ممتاز شاعر تھے ان کے کلام کی پہلی اہمیت یہ ہے کہ خود
اپنی جگہ مستند اور تیکھا ہے ۔ دوسری اہمیت یہ ہے کہ شعری کمالات کی نشاند
ہی کرتا ہے ۔ تیسری اہمیت یہ ہے کہ آغا شاعر کے بعد اور خود ان کے زمانے
میں نئے کہنے والوں کے لئے جو زمین ہموار ہو رہی تھی اس کے ہموار کر نے میں
آغا شاعر کی محنتوں کو دخل ہے ۔ زبان پر ان کی قدرت کسی سے مخفی نہیں بلکہ
جتنی ڈرامائیت اور مکالمے کا عنصر ان کے کلام میں ملتا ہے اتنا شاید ہی کسی
اور شاعر کے یہاں موجود ہو ۔ یہی طرز نگارش ان کے ڈرامے میں ملتا ہے ۔
آغا شاعر کے متعلق جیسا کہ مشہور ہے کہ وہ قلندر انہ صفت رکھتے تھے ایک جگہ
قید ہو کر نہیں رہنا چاہتے تھے وہ آزادتھے اور آزادی پسند کرتے تھے اس بات
کی تجدید ان کی تخلیقات سے ہوتی ہے خاص طورسے ان کی نظموں نے جو جنگ آزادی
کی فضاء پیدا کی ہے مثلاً ’’ بہار ہندوستان‘‘ بھارت دیوی کو پرنام‘‘ ’’
سرزمین ہند‘‘ ’’ بھارت ماتا کی فریاد‘‘ جیسی نظمیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے
ایک طویل نظم ’’ بند ے ماترم‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی جس میں ہندوستانیت کی
خوشبو رچی بسی ہیں یا یو کہئے کہ قومی یکجہتی کا اعلی شا ہکار ہے ۔
آغا شاعر دہلوی آغا حشر کاشمیری سے جدا ہو کر بمبئی سے حیدر آباد اپنے
استاد داغ سے ملنے گئے ۔ داغ کا انتقال ہوگیا تھا شاعر کو اس کا بہت صدمہ
ہوا ابھی حیدرآباد میں قیام کرتے ہوئے چند روز ہوئے تھے کہ مہاراجا سر کشن
پرشاد جو اچھے شاعر تھے انہوں نے اپنی مصاحبت میں جگہ دے دی اور آغا شاعر
ان کے دربار سے منسلک ہو گئے ۔1911ء میں دلی میں شہنشاہ جارج پنجم کی
تاحپوشی کا دربار میں بڑے تزک و احتشام اور اہتمام سے ہوا ۔ ایسے موقع سے
ملک بھر سے والیان ریاست حاضری دینے کے لئے آئے مہاراجا سرکشن پرشاد بھی ان
کے ہمر کاب تھے آغا صاحب مہاراجا کے ساتھ دہلی آئے اور اپنے والد مرحوم کے
ترکے کاتصفیہ کرنے کے لئے چند دن ٹھہرنے کے لئے مہارا جا سر کشن پرشاد سے
اجازت لے لی ۔ آغا شاعر دہلی میں رک گئے اور اس کے بعد نہیں گئے ۔ انہیں
دنوں جھالاوار کے مہاراجا سر بھوانی سنگھ دلی تشریف لائے انہوں نے اصرار کر
کے ناز برداری کے ساتھ 1919ء میں اپنے ساتھ جھالاوار لے گئے۔
جھالاوار میں ان کی بڑی آو ٔبھگت ہوئی یہاں پھر آغا شاعر دہلوی نے مہاراجا
سر بھوانی سنگھ کی سرپرستی میں آفتاب دو بارہ جاری کیا یہ پرچہ سات برس تک
بڑی آن بان اور کامیابی کے ساتھ جاری رہا۔ 1926ء میں مہاراجا سر بھوانی
سنگھ کا انتقال ہو گیا حکومت کی بساط الٹ گئی لامحالہ پھر آغا شاعر لاہور
پہنچے وہاں پر علمی ادبی حلقے میں لوگ انہیں پہلے ہی سے جانتے تھے اور ان
کے شاگردوں کی بھی کمی نہیں تھی ان میں آنند شرر بھی تھے ۔ انہوں نے آغا
شاعر دہلوی کا تلمند اختیار کیا اور آغا شاعر نے 1927ء کے شروع میں پھر سے
’’ آفتاب‘‘ کا احیا کیا اور اس تیسرے دور میں یہ پر چہ’’ آفتاب‘‘کافی دن تک
شائع ہوتا رہا اس قیام کے دوران آغا شاعر نے ہمارا آسمان’’بلبلان
فارسی‘‘روح نغمہ (غزلیات) ’’ گل برگ‘‘وغیرہ کتابیں مولانا احسان اﷲ خان
تاجور نجیب آبادی کے اردو مرکز اور ناشر کتب فیروز سنز کے لئے لکھیں اس کے
علاوہ ’’آویزہ ٔگوش‘‘ اور ’’ دامن مریم‘‘ بھی آغا صاحب کی اہم تصاتیف ہیں ۔
دونوں دلچسپ کہانیوں کا مجموعہ ہے ۔ یہ ساری کہانیاں انھوں نے میاں عبد
العزیز صاحب تاجرکتب لاہور کی بے حد فر مائش پر وقتاًفوقتاً طلبات کے اخلاق
کی درستی کے لئے لکھی تھیں ۔ اس عہد میں یہ ساری کہانیاں اردو ئے معلی میں
چھپتی رہیں اور پھر بعد میں انہوں نے ترتیب دے کر لاہور سے شائع کیا۔
آغاشاعر قزلباش دہلوی کی ادبی زندگی دو ادوار پر مبنی ہے ان کا ابتذائی دور
1880ء سے 1901ء تک کا ہے اور دوسرا 1901ء سے 1935ء پر محیط ہے اس مدت میں
آغا شاعر نے بے شمار کتابیں لکھیں ہیں۔ ان کی بہت ساری مطبوعہ کتابیں نایاب
اور غیر مطبوعہ ہیں ۔ ’’ لگونہ ‘‘ شہادت‘‘ (واقعہ کر بلا پر ایک نثری تالیف
مبلوعہ یوسفی پریس دہلی 1915ء ’’ لیلی دمشق‘‘ شائع کردہ آزاد بک ڈپو لاہور
’’ انور و رضیہ‘‘ ناول شائع کردہ مطبوعہ خادم الااسلام دہلی ’’ حو ر جنت‘‘
’’ ڈرامہ ‘‘ ’’ پہلی کرن‘‘ ’’ یاد وطن ‘‘ ’’ دربار ہولی‘‘ ’’ سکہ روز‘‘ نصف
النہار‘‘ (لارڈ تاتھ کلف) ’’ جلترنگ‘‘ ’’ سب میربن‘‘ خدا کے فضل سے دوبارہ
زندگی پائی ۔ جیسی تحر یریں آغا شاعر قزلباش دہلوی کی ادبی شخصیت کو چار
چاند لگا تی ہیں ۔
تیسری بار بھی آغا شاعر قزلباش دہلوی کو لاہور راس نہیں آیا تو وہ لاہور سے
دہلی اپنے آبائی وطن آگئے اور آخری ایام میں میر علی نواز خاں نازتالپور
والی خیر پور سے رسائی ہو گئی میر صاحب علم دوست اور علم نواز بھی تھے
باوجود اس کے کہ ان کی ریاست میں اردو کا چلن برائے نام تھا پھر بھی لکھنؤ،
حیدر آباد وغیرہ سے شاعروں اور ادبیوں کو بلا کر اپنا مہمان رکھتے تھے اور
شعر و شاعری کی رنگا رنگ محفل کا اہتمام کرتے تھے اس بہانے آغا شاعر بھی
بلائے گئے اور میر علی نواز ناز کا دیوان مرتب ہوا جس کی اصلاح آغا شاعر کے
ہاتھوں ہوئی حقیقت یہ ہے کہ میر علی خاں نواز نا ز نے اپنا دیوان مرتب کر
نے لئے آغا شاعر کو اپنا مہمان رکھا۔
آغا شاعر بنیادی طور پرشاعر تھے مگر انہوں نے اردو ادب کی ہر صنف سخن میں
طبع آزمائی کی ۔ دنیائے شاعری میں ان کا مرتبہ اظہر من الشمش ہے ۔ ان کی
غزلوں میں روایت رچی ہوئی صورت ملتی ہے اس روایت میں داغ کے اثرات نمایاں
ہیں لیکن انہوں نے داغ کی اس روایت کے ساتھ جرأت مومن ناسخ’’ ذوق اور میر
مینائی کی قائم کی ہوئی روایت کو کچھ اس طرح سے شیر وشکر کیا ہے کہ ان کی
غزلوں میں ان کے مختلف رنگوں سے ایک قوس قز ح کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔
آغا شاعر نے اپنی غزلوں میں حسن کا بیان بڑے سلیقے سے کیا ہے ۔ عشق کی
مختلف منزلوں کی تفصیل و جذیأت بڑے ہی دلکش انداز میں پیش کی ہے اور ان کی
سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے غزل کے ان دونوں بنیادی موضوعات یعنی حسن
و عشق کو انسانی زندگی کی بنیادی سچائی بنا کر پیش کیا ہے اس لئے ان کے
معمولی خیالات میں بھی زیادہ گہرائی نظر آتی ہے اور وہ انسانی زندگی کے
بنیادی مسائل معلوم ہوتے ہیں ۔پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان تمام مسائل کا
بیان انہوں نے اپنی تہذیبی روایات کے پس منظر میں کیا ہے اس لئے ان کے خد و
خال نہ صر ف نمایاں نظرآتے ہیں بلکہ اس میں نسبتاً زیادہ دلکشی کا احساس
ہوتا ہے ۔ ایک مخصوص معاشرتی فضا اور مخصوص تہذیبی ماحول کے اثرات ان کی
غزل میں سب سے زیادہ نمایاں ہیں ان کی میٹھی اور رسیلی زبان نے بھی ان
اثرات کو نمایاں کرنے میں بڑا کام کیا ہے ۔ آغا شاعر کی غزلوں کی غالباً سب
سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جو زبان اس میں استعمال ہوئی ہے وہ صرف زبان ہی
نہیں ہے ایک رچی ہوئی تہذیبی روایت کا عکس ہے اور ان کی غزلوں کی ہی خصوصیت
انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی ۔ چند اشعار ملا حظہ ہو ۔
یہ کیسے بال بکھرے ہیں یہ کیوں صورت بنی غم کی
تمہارے دشمنوں کو کیا پڑی تھی میرے ما تم کی
مجھے یاد ہے میں نہ بھو لو نگا شاعر
وہ ہنر نہیں کے منہ پھیر لینا کسی کا
انہیں یہ ضد کے پلک پر سے گرپڑے آنسو
مجھے یہ دھیان کہ محنت ہے رائیگا ں کیوں ہو
تم کہاں وصل کہاں ، وصل کی امید کہاں
دل کے بہلانے کو اک بات بنارکھی ہے
ہے تیری ہی سی شکل مگرشوخیاں نہیں
چپ چپ جب ہی تو ہے تری تصویر کیا کرے
تیز پھر ہوئے جاتے ہی الٹے وہ صداشن کو
نالوں میں خدا جانے یہ بے اثری کیوں ہے
انگار گر یہ پر میرے کس ناز سے کہا
آنسو نہیں تو پوچھتے ہو آستین سے
یہی دن ہیں دعا لیلو کس کے قلب مضطر سے
جوانی آنہیں سکتی میری جان پھر نئے سرسے
میں نے تنہا پا کے جب اس سے کیا اظہار حال
پہلے تو سنتا رہا پھر مسکر ا کر رہ گیا
ذرا نیچے اتر کر بات سن لو
یہ کیا تم آسماں پر میں زمین پر
اک دن برس پڑ وگے ، ہمیں پر ، یہ کھل گیا
کب تک پھر وگے روز میری جان بھر ے ہوئے
اے شمع ہم سے سوز محبت کے ضبط سیکھ
کمبخت ایک رات میں ساری پگھل گئی
منتیں کرتی ہے جتون کے منالوں تجھکو
جب میری سامنے روٹھا ہو ا توآتا ہے
کس کے روکنے سے کب ترا دیوانہ رکتا ہے
بہار آئی چلا میں یہ دھری ہیں بیٹیاں میری
مجھکو آتا ہے تیمم نہ وضو آتا ہے
سجدہ کر لیتاہوں جب سامنے تو آتا ہے
ان اشعار کے علاوہ آغا شاعر کے کلام میں ہر جگہ کم و بیش ہیتی خصوصیت نظر
آتی ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان کی غزلیں اردو شاعری میں اہم مقام رکھتی ہیں
۔ آغا شاعر نے غزل گوئی کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی لکھیں ۔انھوں نے مختلف
موضوعات پر خاصی تعداد میں ایسی نظمیں لکھیں جن میں جدید شاعری کی اس تحریک
کے اثرات نمایاں ہیں جو آغاشاعر کے زمانے میں شباب کی منزلیں طے کر رہی تھی
ان نظموں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر خود اس تحریک سے متاثر تھے اور
یہ نظمیں ان کے مشاہدات اور احساسات کی صحیح ترجمان اور عکاس ہیں موضوعات
کے اعتبار سے ان کی نظموں کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس میں خاصہ تنوع پایا
جاتا ہے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی ان کی نظموں کی خصوصیت کے بارے میں ایک
موہوم سا اشارہ کیا گیا ہے انہوں نے مختلف موضوعات پر نظمیں لکھی ہیں تبرکا
ان کی نظموں کے چند اشعار ملاحظہ ہو ۔
کالی گھٹائیں اٹھیں، وہ بر سا ابررحمت
ہر شاخ میں شگوفہ کو نپل ہری بھر ی ہے
سبزہ مہک چلا ہے کوئل کی کوک سنکر
قمری کا ہر ترنم پر لطف بانسری ہے
چھم چھم برس رہا ہے شملے میں آج پانی
کشمیر گل فشاں ہے، گل بینز قر مزی ہے
دیکھو سنہری کر نیں اور برف کے نظارے
کس حسن پر ہمالیہ قدرت کا سنتری ہے
مہکے ہوئے خیاباں، نکہت سے یا سمن کی
نرگس کی آنکھ میں بھی شوخی نئی بھری ہے
سورج کسے غوطے کھانا وہ قبلہ رخ شفتہ
دامن میں آسماں کے یہ پھل جھڑی چھٹی ہے
متھر ا جی گردارے آ شام کی نگری میں رم جا
برکھا رت میں گوکل دیکھ بند رابن کے جنگل دیکھ
یہ وہ دھرتی ہے داتا جس پر آئے ہیں کنہیا
بہائے وہ صورت وہ تصویر دل پر مارے سو سو تیر
وہ صندل صندل سی کایا آنکھوں نے سکھ درشن پایا
ہاتھ میں مرلی دل میں چین
مگن مگن رہنا، دن ، رین
آغا شاعرقزلباش نظم کے ساتھ ساتھ اپنی ادبی زندگی میں نثر کی طرف پر متوجہ
ہوئے اور انہوں نے افسانے ، کہانیاں، مضامین ،ڈرامے، انشائیے اور ناول بھی
جانے جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ آغا شاعر صرف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ایک
انشا پرداز، صحافی ،ناول، نگار، ڈرامہ نویس، قصیدہ نگار اور مثنوی نگار
وغیرہ تھے ۔
آغا شاعر مرثیہ نگار بھی تھے وہ اپنے مرثیوں میں اظہار مطالب کی ایسی
تلمیحات سے کام لیتے ہیں اور ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ ان کے اشعار
خود بخود دل کی گہرائیوں میں پیوست ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ آغا شاعر نے یو ں
تو بہت سے قصیدے لکھے مگر تمام قصیدوں میں ان کا ممتاز قصیدہ ’’
درباراعظم‘‘ ہے جو اس زمانے میں نہایت اہتمام سے یوسفی پریس دہلی سے شائع
ہو ا اس میں تقریباً دو سو اشعار ہیں اس کی زمین بہت مشکل ہے زبان کی
خوبیاں ویسے ہی اہل دہلی کا حصہ ہیں آغا شاعر اس بارے میں امتیاز خاص رکھتے
ہیں پورا قصیدہ تو بہت طویل ہے یہاں گریز کے چند اشعار نمونتاً قلم بند
کرتا ہوں ملاحظہ ہو۔
وہ کیا کہنا ترا جان جہاں اندریت
تیری ہی خاک سے چمکے ہیں ہزاروں اختر
آسماں، تیری زمیں کو جو کہیں زیبا ہے
ذرہ ذرہ ہے تری خاک کا مہر انور
تجھ میں وہ لعل چھپے ہیں کہ نہ تھا جن کا نظیر
تجھ میں وہ گہر نایاب کہ قدرت ششدر
دھرم اوتار، مہا بیر رشی اور منی
وہ جواں مرد ، کہہ ، میدان نہ چھوڑیں مر کر
وہ شہنشاہ اولوالعزم، وہ خدا م قریش
وہ شجاں عان عر ب میر عجم ، گردوں فر
جاں نثار ازلی ، پشت و پناہ اسلام
سر فروشان سر انداز و جلالت پیکر
وہ بہادرکہ بگڑ جائیں تو لے لیں اقلیم
بات پر آئیں تو دم بھر میں الٹ دیں لشکر
وہ حسینان جہاں جن کا نہ پر تو دیکھا
مہرگردوں کی نہ پرتی تھیں نگاہیں جن پر
انتخابات زمانہ حکمائے کامل
فضلائے ادب آموزو طریقت گستر
پاک بازاں حقیقت، سخن آرائے مجاز
معدن علم و عمل ، مخزن تفہیم و نظر
تو وہ ہے جس سے ہوہر اک شہر نے رونق پائی
تو وہے لفظ و معانی کا ہے تو ہی ممصدر
تیرے ہی درسے تولے آئے ہیں اردو والے
بات کرنے کی روشن، لطف زباں کے تیور
تو وہ ہے ، تو نے لٹایا ہے چمن کو اپنے
ہند میں چار طرف ہی تری بخشش کے ثمر
برسوں آداب تلفظ کو کیا ہے تعلیم
درس و تدریس سے ہرشخص ہوا بہرہ ور
پھر خدا جانے یہ کیا ہے کہ زمانہ دشمن
افس احسان فراموشی ارباب ہنر
تجھ کو دل بھی کہیں ، تو بھی ہے ام بلاد
ریش باباپۂ بازی ہے تہ زلف مادر
اب کے بھی دور میں تین ہی رہا سر سہرا
تاج پوشی شہ حم جاہ کی ہے پیش نظر
یہ وہ عالم ہے کہ برسوں نہ کوئی بھولے گا
یہ وہ چرچے ہیں ، زبانوں پہ رہیں گے اکثر
گہما گہمی ہے وہ ہر چار طرف نا خدا
لفظ بھی صاف سنائی نہیں دیتے دب کر
اس طر ح آغا شاعر نے اپنی زندگی میں لاکھوں شعر کہے مگر افسوس ہے کہ انہوں
نے اپنا کوئی دیوان خاص اہتمام سے شائع نہیں کیا ۔ آغا شاعر دہلوی فن شعر
گوئی میں داغ دہلوی کے شاگرد خاص اور بہت جدت پسند شاعر تھے ۔ ساتھ ہی وہ
نثر لکھ کر ناول نگاری کے میدان میں اپنے جوہر دکھائے انہوں نے اپنی زندگی
میں بہت سے ناول لکھے ۔ مثلاً طلسم بدلہ ’’شعلہ جوالا‘‘ (ناول) ’’ قتل
نظر‘‘ (ڈرامہ) ’’نفلی تاجدار‘‘ وغیرہ مگر خاص طور سے اردو ادب میں وہ اپنے
چار ناولوں کے ذریعہ بحیثیت ناول نگار جانے جاتے ہیں وہ ہے ’’ہیرے کی کنی‘‘
’’ناہید‘‘ ’’ارمان‘‘ نقلی تاجدار‘‘ یہ چاروں ناول ان کے طبع زاد ناول ہیں
جس میں ہندوستان کے متوسط طبقے کی خانگی معاشرت کا نقشہ کھینچا ہے ان کی
تہذیب و تمدن ،معاشی، اقتصادی و سیاسی زندگی کی دکھتی رگ کو قلم بند کر کے
آپسی اختلاف بغض، کینہ، حسد، نابرابری دور کرنے اور اخوت مروت، مساوات ،
بھائی چارگی پیدا کرنے کی ترغیب دی ہے ۔
جس وقت آغا شاعر دہلوی نے ادبی دنیا میں قدم رکھا ہندوستان میں انگریزوں کی
حکومت تھی ۔ ہندوستان کے عام لوگوں کی زندگی دگرگوں تھی انگریزی حاکم
ہندوستانیوں کے ساتھ ناشائستہ اور ناروا سلوک کرتے تھے ہندو مسلم کے درمیان
نفاق اور اختلاف پیدا کر کے آرام اور سکون سے زندگی بسر کرتے رہتے عام عوا
م انگریز وں کے شکنجے میں پھنسے ہوئے تھے اور نفرت کی آگ میں جل رہے تھے اس
وقت ہندوستان میں سماج کے تین طبقے تھے ایک تو امرا’’وشرفا‘‘ یعنی نواب لوگ
جو انگریزوں کے فرمانروا تھے دوسرا متوسط طبقہ تھا جس کو خوشی میسر نہیں
تھی اور تیسرا طبقہ مزدوروں کا تھا جن کی زندگی دوزخ جیسی تھی ایسے ہی برے
وقت میں آغا شاعرنے ناول لکھنا شروع کیا اور اپنے ناولوں کے ذریعہ
ہندوستانیوں کے اندر محبت اور انسانیت پیدا کرنے کی کوشش کی اس لئے ان کا
ناول رومانی ہوتے ہوئے بھی اصلاحی فلاحی اور قومی یکجہتی کا ضامن ہے ۔
بہر کیف اس وقت کے مشہور شعراء مثلاً ،حالی ،اقبال ، آزاد، چکبست، مجروح،
طالب، ثاقب، راسخ، برتر، ذوق، مومن، غالب، امیر مینائی اور جوش وغیرہ نے ان
کی قابلیت کا اعتراف کیا ہے ۔ آغا شاعر حیات وشاعری مرتبہ مجتبی حسین خاں
بہت ہی اہم تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس میں ان کی شخصیت اور فن پر متعدد
مضامین شامل ہیں ۔ یہ مضامین ان کے رفقاً اور ناقدین نے ان کی زندگی ہی میں
اور بعض نے بعداز مرگ تحریر کئے جس میں آغا شاعر اردو ادب میں ایک ہفت
شخصیت نظر آتے ہیں ۔
آغا شاعر بہت ہی سادہ زندگی بسر کرتے تھے انہوں نے اپنی زندگی میں دو
شادیاں کیں ۔ پہلی شادی انہوں نے آغا یعقوب دواشی (سابق مدیر ماہنامہ آجکل)
کی بہن سے کی تھی ان کے شاگرد جناب دگمبر پرشاد گوہر دہلوی کے مطابق ان سے
کوئی اولاد نہ ہوئی کچھ دنوں بعد ان کی پہلی بیگم عارضہ قلب کی وجہ سے ملک
عدم سفر کرگئیں حالانکہ مرحومہ کی زندگی ہی میں آغا شاعر نے دوسری شادی
سیتا پور میں سید امیر حیدر کی صاحب زادی سے کر لی تھی۔
ان کے دادا آصف مشہدی اپنے زمانے کے بہت بڑے اور اچھے شعرا میں سے تھے ان
کا ذکر ’’ صبح گلشن‘‘ میں آیا ہے۔ح۔ 17
بہر حال اس بیگم سے آغا شاعر کو چار اولاد یں ہوئیں۔ تین بیٹے اور ایک
بیٹی۔ آغاشاعر کے سب سے بڑے لڑکے کا نام آغا آفتاب علی قزلباش ’’ آغا شیر
علی قزلباش اور آغا اقبال علی قزلباش تھا سبھی نے ادبی حلقوں میں اپنا نام
پیدا کیا یہ لوگ تقسیم ملک کے بعد دہلی سے پاکستان رخصت ہوگئے ۔ آغا شاعر
کی سب سے چھوٹی صاحبزادی خدا جانے کیا نام تھا مگر وہ سیماب تخلص کرتی تھیں
۔ شایدکہ اب بھی پاکستان میں حیات ہوں ۔ انہیں شعر گوئی ورثے میں ملی تھی۔
آغا شاعر دہلوی نے اپنی ستر سالہ عمر میں اردو کی جو خد مت کی وہ بہت کم
لوگوں کو میسر ہوتی ہے۔ حضرت آغا شاعر قزلباش دہلوی کا انتقال 12مارچ1940ء
کو ہوا ۔ موصوف کے آخری ایام بہت عسر ت اور طویل علالت میں گزرا۔ آغا شاعر
دہلوی کا انتقال ظہر اور عصر کے درمیان ان کے آبائی مکان کشمیری دروازہ کھڑ
کی ابراہیم میں ہوا اور آخری رسوم کی ادائیگی قبرستان علی گنج شاہ مرداں
’’صفدر جنگ‘‘ میں کی گئی ۔ ان کے پختہ مزار پر علامہ اقبال کا یہ مصرع کندہ
تھا ۔
’’ آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے ‘‘
اور مرحوم کا یہ شعر بھی کند ہ تھا
مسکن ہی کوئی قبر سے بہتر نہیں ملتا
آرام کہیں گھر کے برابر نہیں ملتا
مگر تقسیم ہند کے طوفان میں پناہ گزینوں کی آبادی کاری کی وجہ سے مزار شریف
کا نام و نشان مٹ گیا ۔ آغا صا حب مرحوم نے اپنے ایک شعر میں بے نام ونشان
ہونے کی پیشن گوئی بھی اس طرح فرمادی تھی۔
آخر نہ ہوا درجہ شاعر موئی مٹی کا ،
ٹکراکے ستمگر نے بے نام و نشان کردی۔ح18
آغا شاعر کے انتقال پر ملال پر کئی حضرات نے قطعات ناریخ و فات لکھے۔ رضا
علی وحشت نے ہجری میں یوں کہا:
جب کہ آغا محترم شاعر سوئے دارالفنا ہوئے راہی
شعر ا میں بپا ہو ا ماتم ----- عا م شغل نالہ و زاری
آج دہلی کی اٹھ گئی رونق ----- محفل شعر ہوئی خالی
فکر تاریخ جب ہوئی وحشت ----- شاعر ’’محتشم‘‘ صدا آئی
ح۔19
تلو ک چند مرحوم نے لکھا !
بعد ان کے ہوئے بہت سے پیدا شاعر
لیکن نکلا نہ کوئی ان سا شاعر
دہلی میں یاد آئے ہر کو اکثر
فخر دہلی ! جناب آغا شاعر
نظم اور غزل میں بھی جو یکتا شاعر
پیدا ہوتا ہے کوئی ایسا شاعر
قادر تھے نظم اور غزل دونوں پر
دہلی کے شاعروں میں آغاشاعر
انوار ازل کا ہو جو شیدا شاعر
اک معنی روشن ہے سراپا شاعر
ایسے ہی شاعروں میں ہے نام ان کا
دہلی میں ہوئے ہیں وہ جو آغا شاعر
۔ح۔20
آغا شاعر کی ادبی شخصیت پر محاسمے او ر مکالمے کا کام ایسا نہیں کہ ان کی
زندگی کے ساتھ ختم ہو گیا بلکہ ان کے انتقال کے بعد بھی جہان شعرو ادب میں
دلچسپی رکھنے والے حضرات ان کی شعری اور ادبی خدمات کا وقتاً فوقتاً جائزہ
لیتے رہے ہیں اس کی نمائندہ مثال مجتبیٰ حسین کی مرتب کردہ کتاب بھی ہے اور
یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اس لئے کہ 27اگست 1983ء کو بمل جین نے آغا شاعر
دہلوی کی 43ویں برسی منانے کے لئے ایک سیمنار کا انعقاد کیا تھا اس موقع سے
اردو کے مشہور ناقد گیان چند جین، عارف محمد خاں ،بابائے ڈاکٹر عمار رضوی ،
راؤبرندرا سنگھ، مہیشور دیال وغیرہ لوگوں نے اپنے پیغامات بھیجے تھے ۔ یہاں
صرف گیان چند جین ، بابائے قوم مہاتما گاندی جی ،عماررضوی اور مہیشور دیال
کے خیالات پیش ہیں ۔
’’ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ آغا شاعر قزلباش پر ایک سمینار منعقد کر رہے
ہیں ۔ میرا ہمیشہ سے عقیدہ رہا ہے کہ بڑے شعرا کے اہم تلامذہ کے کاموں کو
ضروری روشنی میں دیکھناچاہئے ۔ آتش، ناسخ، غالب، میر و داغ کے اہم شاگردوں
میں سے محض معدودے چند ہی پر کچھ لکھا گیا ہے ۔
میں سمینار کے لئے مضمون نہیں لکھا سکتا ۔ پیغام لکھتے وقت بھی قلم لڑکھڑا
تا ہے کیونکہ آغا شاعر کے بارے میں میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ داغ دہلوی
کے شاگرد تھے ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا آپ کے تفصیلی مکتوب سے کچھ
معلوم ہوا مثلاً یہ کہ آغا حشر ان کے شاگردتھے اور انہیں کی تقلید میں
انہوں نے اپنے نام کے ساتھ آغا کا طرہ لگایا تھا ۔ مجھے یہ بھی علم نہ تھا
کہ آغا شاعر نے رباعیات عمر خیام یا کلام مجید کا منظوم تر جمہ کیا تھا ۔
مجھے یقین ہے کہ اس سمینار کے طفیل مجھ جیسے ناواقفوں کے علم میں اضافہ
ہوگا ۔
ح۔21
سیگاؤں وردھا ۔۱۱ ستمبر ۳۹ ء
پیارے اقبال
مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ آپ کے والد عارضۂ قلب میں مبتلا ہو کر شدید
بیمار ہو گئے ہیں
میری دعا ہے کہ خدا انھیں جلد صحت یاب کر دے
ایم ۔کے ۔ گاندھی
(ایک خط)
خیرت طلبی
اظہارتعزیت
سیگاؤں وردھا ۔۹ مئی ۴۰ ء
پیارے اقبال
مجھے آپ کے محترم والد آغا شاعر دہلوی کی وفات کی رنجیدہ اطلاع مل گئی تھی
مگر تمہارا پتہ نہیں معلوم تھا ۔
میں سوچتا رہا کہ تم لوگوں کو اپنی تعزیت کس طر ح بھیجوں ، اس کا موقع مجھے
اب مل گیا اور میں پورے خاندان کو تعزیت بھیج رہا ہوں۔
تمہارا مخلص
ایم۔ کے ۔ گاندھی
ح 22-
ڈاکٹر عمار رضوی
وزیر تعمیرات عامہ۔ قومی یکجہتی و
پارلیمانی امور
پیغام
مجھے یہ جان کر بے حد مسرت ہوئی کہ نامو ر شاعر آغا شاعر قزلباش دہلوی
مرحوم کی یاد میں ان کی ۴۳ ویں برسی کے موقع پر غالب اکادمی نئی دہلی کے
زیر اہتمام ایک سمینار منعقد کیا جا رہا ہے اور اس موقع پر ایک سوڈینر بھی
شائع کیا جارہا ہے۔
قزلباش دہلوی مر حوم داغ کے ایک ممتاز شاگرد اور قادرالکلام شاعر تھے ۔ ان
کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ڈرامہ نویس آغا
حشر کا شمیری کے استاد تھے ۔
میں اس موقع پر شائع ہو نے والے سوینر کی کامیابی کے لئے اپنی نیک خواہشات
پیش کرتا ہوں۔
(عماررضوی)
ودھان بھون لکھنؤ مورخہ ۲اگست ۱۹۸۳ء ۔ح۔23
جناب بمل جین صاحب تسلیم
آپ کا خط ملا ، آغا شاعر قزلباش دہلوی کی شان میں جتنا بھی کہا جائے کم ہے
۔سوینر کے لئے پیغام بھیج رہا ہوں ۔
نیاز مند
مہیشور دیال
پیغام
مجھے یہ جان کر مسرت ہوئی کہ جناب آغا شاعر قزلباش کی یاد میں ۲۷ اگست
۱۹۸۳ء کو غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین میں ایک سمینار کا انعقاد ہو
رہا ہے ۔
آغا ظفر علی بیگ قزلباش شاعر ایک کامل فن استاد اور مشاق سخنور تھے ، ایک
تو دہلوی ہونا ہی زبان کے معاملے میں کافی سے زیادہ سندر کھتا ہے ۔ اس پر
انھیں جناب داغ سا فصیح البیان استاد ملا ، یہی وجہ ہے کہ شاعر صاحب کا
کلام زبان و بیان کی خصوصیات سے مالا مال ہے ، آغا صاحب دیوان ’’ تیر ونشتر
‘‘ کے علاوہ بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ کے لکھے ہوئے ڈرامے بھی بہت
مقبول ہیں۔
میں منتظمین سمینار ، اس میں شرکت کرنے والے ادیبوں کو مبارک باد پیش کر
تاہو ں اور سمینار کی کامیابی کی دعا کرتا ہوں ۔
مہیشور دیال۔ح24
پچھلے دنوں دہلی اردو اکادمی نے بھی آغاشاعر کے حوالے سے ایک سمینار کا
اہتمام کیا تھا جو آغا شاعر قزلباش کی تفہیم کے سلسلے کی ایک کڑی کہا جا
سکتا ہے۔ جوش ملیح آبادی کے اس اقتباس کے ساتھ اپنی گفتگو ختم کر نے کی
اجازت چاہونگا۔
’’ آغا صاحب کے زبان میں وہ شیرینی ہے جیسے لعل و نگار وہ لوچ ہے جیسے شاخ
گل اور وہ روانی ہے جیسے آب رکنا باد۔ ‘‘ ح۔25
جس شاعر کو جوش نے ان الفاظ میں یاد کیا ہو یا جس شاعر و ادیب کی تخلیقات
میں شیرینی لوچ اور روانی ہو بھلا جہاں ادب میں اس کی شہرت عام اور بقائے
دوام سے کون انکار کر سکتا ہے ۔
حوالے
سونیر1983ء صفحہ 14آغا شاعر میموریل سوسائٹی دہلی
.2خمکدہ خیام صفحہ 8/9کتب پرنٹر ز اینڈ پبلیشرز لمیٹیڈ کراچی1976ء
.3سونیر1983ء صفحہ 12آغا شاعر میموریل سوسائٹی دہلی
.4سونیر1983ء صفحہ 10آغا شاعر میموریل سوسائٹی دہلی
.5سونیر1983ء صفحہ 10آغا شاعر میموریل سوسائٹی دہلی
.6منقول از رسالہ ’’ نقد و نظر‘‘ آگرہ 1942ئی
.7منقول از رسالہ ’’ منادی ‘‘ دہلی 1942ء
.8منقول از رسالہ ’’ چمنستان‘‘ دہلی 1941ء
.9آغا شاعر حیات وشاعری ۔ مرتبہ مجتبیٰ حسین خاں صفحہ 151ء
.10منقول از رسالہ ’’ چمنستان‘‘ دہلی 1940ء
.11آغا شاعر حیات و شاعری صفحہ 295
.12منقول از رسالہ ’’سیب‘‘ کراچی مئی 1964ء
.13آغا شاعر حیات و شاعری صفحہ152
.14آغا شاعر حیات و شاعری صفحہ155
.15حیات و شاعری مرتبہ مجتبیٰ حسین خان صفحہ 240
.16منقول از رسالہ آج کل مارچ 1947ء
.17حیات و شاعری مجتبیٰ حسین خاں صفحہ293
.18صبح گلشن صفحہ 419مطبوعہ شاہجہانی بھوپال 12-15ہجری
.19از رسالہ انجام کراچی 13 مارچ 1964ء
.20منقول از رسالہ چمنستان دہلی 1941ء
.21منقول از رسالہ ’’ شعلہ و شبنم‘‘ دہلی 1952ء
.22سونیر 1983ء صفجہ 16آغا شاعر میموریل سوسائٹی دہلی
.23انگریزی خط سے ترجمہ (منقول ازشلعہ شبنم 1953ء
.24سونیر 27اگست 1983ء گوہر دہلوی
.25سونیر 27اگست 1983ء گوہر دہلوی
.26منقول از رسالہ چمنستان دہلی مارچ1946ء |