ڈاکٹر روحانی کی فتح اور اسرائیل کی پریشانی

ایران میں انتخابات مکمل ہوچکے ہیں اور عوام نے سیاسی تجزیوں کے برعکس انتخابات کو دوسرے مرحلے سے پہلے ہی ختم کردیا اور ڈاکٹرحسن روحانی کو بھاری اکثریت کے ساتھ صدارتی محل کی طرف روانہ کردیا ہے۔ ایران میں اصلاح پسند امیدوار کی کامیابی کی وجہ سے دنیا میں ایک خوشگوار حیرت پائی جارہی ہے۔ اس حیرت کی کچھ وجوہات ہیں ان میں سے پہلی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر حسن روحانی دیگر امیدواروں کی نسبت بہت زیادہ مقبول نہیں تھے لیکن انتخابی مناظروں میں انہوں نے اپنے انداز خطابت اور عوامی انداز سے خاموش اکثریت کے دل موہ لیے تھے اور یہ ایران میں جمہوری روایت کی مضبوطی کی طرف پیش قدمی ہے۔

دوسری بڑی وجہ یہ ہے جس کی طرف میں اپنے گذشتہ کالم میں بھی اشارہ کرچکا ہوں کہ دنیا بھر میں امریکی میڈیا اور امریکہ نواز ذرائع ابلاغ نے یہ پروپیگنڈہ کیا ہوا تھا کہ ایران میں انتخابات انجینئرڈ ہوتے ہیں اور انتخابات کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ ان کے مطابق اس بناوٹی اسٹیج پر کبھی بھی کوئی اصلاح پسند کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ یہ پروپیگنڈا اتنے وسیع پیمانے پر کیا گیا کہ دیگر ممالک میں رہنے والے لوگ بھی یہی تصور کرنے لگے کہ ایران میں کبھی بھی اصول پرستوں کے علاوہ کوئی امیدوار کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ اس پروپیگنڈے سے ہٹ کر اگر ہم ماضی کے ایرانی صدور پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اصول پرست یا انقلابی صدور کی تعداد دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے صدور سے کہیں کم رہی ہے چنانچہ ہاشمی رفسنجانی، سید محمد خاتمی اور بنی صدر وغیر ہ کا تعلق اصول پرستوں سے نہیں ہے اور موجودہ صدر بھی اصول پرستوں میں شمار نہیں ہوتے۔

ڈاکٹر حسن روحانی انتخابات جیت کر میدان میں آگئے ہیں۔ انکی جیت پر ایران کے ایٹمی پروگرام کے مخالفوں خاص طور پر اسرائیل اور امریکہ کو تو بہت خوش ہونا چاہیے تھا لیکن ڈاکٹر روحانی کی جیت کے فورا بعد اسرائیل کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ اسرائیل کی طرف سے تشویش کا اظہار کیے جانے کی کچھ وجوہات ہیں؛ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر روحانی کے صدر بن جانے کی وجہ سے مغربی ممالک اب ایران کو مزید وقت دینے کے لیے تیار ہوجائیں گے تاکہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام اور غنی سازی کو روکیں لیکن ڈاکٹر روحانی کے حلف اٹھانے اور اختیارات سنبھالنے تک بہت دیر ہوچکی ہوگی اور ایران اس وقت تک اپنے ایٹمی پروگرام کو بہت آگے بڑھاچکا ہوگا۔ اسرائیل کی دوسری پریشانی یہ ہے کہ کہیں ڈاکٹر روحانی بھی دیگر ایرانی صدور کی طرح ایٹمی مسئلہ پر وہی موقف اختیار نہ کریں جو آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے اور عام عوام بھی اسی موقف کی تایید کرتی ہے۔ اسرائیل کی تیسری پریشانی یہ ہے کہ ڈاکٹر روحانی کی وجہ سے مذاکرات اب مزید تاخیر کا شکار ہونگے اور ایران اس وقت تک سینٹری فیوجز کی ایک بڑی مقدار اپنی ایٹمی سرکل میں شامل کرلے گا اور اس طرح مذاکرات کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔

اسرائیل کا رونا یہ بھی ہے ڈاکٹر روحانی کی آمد سے پہلے ایران عالمی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار تھا اب یہ پابندیاں نرم ہوجائیں گی اور ڈاکٹر روحانی کے آنے سے ایران کمزور نہیں بلکہ مزید مضبوط ہوجائے گا۔ اسرائیل کے نزدیک ڈاکٹر روحانی ایک ایسا پھندا ہے جو ایران نے امریکہ اور مغربی ممالک کی گردن کے گرد لگایا ہے جس سے مغربی ممالک کو ہوشیار رہنا چاہیے۔

A.B. Salman
About the Author: A.B. Salman Read More Articles by A.B. Salman: 16 Articles with 13043 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.