گزشتہ دنوں برطانوی اخبار ”دی گارڈین“ نے ایک رپورٹ شائع
کی تھی کہ امریکا نے پاکستان سے مارچ 2013ءکے دوران ساڑھے 13 ارب خفیہ
معلومات چرائی ہیں۔ یہ معلومات ٹیلی فون اور کمپیوٹر نیٹ ورک سے لی گئیں۔
اخبار کے مطابق امریکی ادارے نے پاکستان کے علاوہ ایران سے 14 ارب معلومات
لیں۔ اردن سے 12 ارب سے زائد، مصر سے 7 ارب سے زائد جبکہ بھارت سے 6 ارب 3
کروڑخفیہ معلومات اکھٹی کیں۔ جاسوسی کے اس پروگرام کا راز ڈیفنس کنٹریکٹر
بوز ایلن ہیملٹن کے ساتھ کام کرنے والے انتیس سالہ ایڈورڈ سنوڈن نے ظاہر
کیا جو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سابق ٹیکنیکل اسسٹنٹ ہے۔ اخبار نے
ایڈورڈ کا نام اسی کی درخواست پر ظاہر کیا۔ ایڈورڈ سنوڈن کا کہنا تھا کہ
”میں ایسے معاشرے میں نہیں رہنا چاہتا جہاں اس قسم کا کام کیا جائے۔۔۔ میں
ایسی دنیا میں نہیں رہنا چاہتا جہاں ہر وہ چیز جو میں کروں یا کہوں اس کو
ریکارڈ کیا جائے۔“ اس نے کہا کہ میں نے امریکی جاسوسی کا راز دنیا کی آزادی
کے لیے افشا کیا، کیونکہ امریکا کا یہ اقدام سراسر غیرقانونی ہے۔ بعدازاں
امریکا کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے تسلیم کیا کہ
حکومت انٹرنیٹ کمپنیوں سے صارفین کی بات چیت کا ریکارڈ حاصل کرتی ہے۔ اس نے
کہا تھا کہ معلومات حاصل کرنے کی پالیسی کا ہدف صرف ”غیر امریکی افراد“ ہیں۔
صدر اوباما نے بھی اس غیرقانونی پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کی
انتظامیہ نے سیکورٹی اور پرائیویسی کے درمیان ”صحیح توازن برقرار رکھا ہے
اور این ایس اے کے پروگرام کی منظوری کانگریس نے دی ہے، کانگریس کی
انٹیلیجنس کمیٹیاں اور خفیہ جاسوسی کی عدالتیں اس پروگرام کی مسلسل نگرانی
کرتی ہیں۔“
خیال رہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے کچھ عرصہ قبل خبر دی تھی کہ
امریکی خفیہ ایجنسیاں سراغ رسانی کی غرض سے انٹرنیٹ کی نو بڑی کمپنیوں کے
سرورز سے صارفین کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کر رہی ہیں۔ ان
کمپنیوں میں فیس بک، یو ٹیوب، سکائپ، ایپل، پال ٹاک، گوگل، مائکروسافٹ اور
یاہو بھی شامل ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسی کے اس پروگرام کے ذریعے لوگوں کی
ذاتی ویڈیوز، تصاویر اور ای میلز تک نکال لی جاتی ہیں تاکہ مخصوص لوگوں پر
نظر رکھی جا سکے۔ فیس بک انتظامیہ کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کے مختلف
شعبوں سے ان کے صارفین کے ڈیٹا کے بارے میں 2012 کے آخری نصف میں 9 سے 10
ہزار درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ یہ درخواستیں 18 سے 19 ہزار صارفین کے
اکاو ¿نٹس کے متعلق تھیں۔ فیس بک انتظامیہ کے رکن ٹیڈ اولیوٹ نے یہ نہیں
بتایا کہ ان کی کمپنی نے کس حد تک ان درخواستوں پر عمل کیا۔ ایک سابق
امریکی سرکاری اہلکار کے مطابق رواں ماہ کے آغاز میں امریکا میں حکومت کی
نگرانی میں الیکٹرانک جاسوسی کا عمل پہلے سے کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر
جاری ہے۔ امریکی سینیٹ کی ایک شنوائی کے دوران نیشنل سیکورٹی ایجنسی (این
ایس اے) کے ڈائریکٹر کیتھ الگزینڈر نے انٹرنیٹ، ٹیلی فون اور ڈیٹا کی
نگرانی کرنے والے اس پروگرام کا دفاع کیا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے
بھی کہا کہ اس کے ذریعہ پرائیویسی اور سیکورٹی کے نازک لیکن اہم توازن کی
نشاندہی ہوئی ہے۔ اس نے کہا کہ انٹیلی جنس حکام اس بارے میں شفافیت لانے کی
کوشش میں تھے لیکن بعض چیزیں صیغہ راز ہی میں رہیں گی کیوں کہ اگر ہم ٹریک
کرنے کے اپنے طریقوں کو بتا دیں گے تو دہشت گرد اسے جان لیں گے اور امریکا
ختم ہو جائے گا۔ وہ ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی بجائے لوگوں کی
تنقید کو برداشت کر لیں گے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم کچھ چھپا رہے ہیں۔
انٹرنیٹ کی ہیکنگ کا تو سب کو معلوم ہے اور سرکاری سطح پر بھی ایسے لوگ
موجود ہیں جو دیگر ممالک میں ریاستی سطح پر ہیکنگ کرتے اور کرواتے ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی کے ایک ہیکٹاوسٹ (hacktavist) (ہیکنگ کا ماہر) نوجوان کا
کہنا تھا کہ وہ کسی بھی ہوٹل کے وائی فائی کا کنٹرول حاصل کر کے اس سے
منسلک تمام کمپوٹروں اور سمارٹ فونوں تک پہنچ سکتا ہے۔ اس ہیکٹاوسٹ نے
بتایا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں اس نگرانی اور جاسوسی کے نظام کا
استعمال کافی بڑھا ہے۔’امریکا اور برطانیہ نے انٹرنیٹ پر نظر رکھنا شروع کی
تاکہ اپنے مخالفین کے رابطوں پر نظر رکھ سکیں۔ اسے سنجیدگی سے لیا جانے
لگا۔ ‘اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان میں یہ نگرانی ہو رہی ہے، تو اس
کا کہنا تھا: ’مجھے حیرت ہوگی اگر ایسا نہیں ہو رہا ہوگا۔ مجھے اس میں کوئی
شک نہیں کہ یہ نہیں ہو رہی ہے۔ اس کے ثبوت موجود ہیں۔ ہم نے خود اسے کئی
مرتبہ دیکھا ہے۔ سابق پارلیمان کی رکن اور عوامی نیشنل پارٹی کی رہنما
بشریٰ گوہر نے پارلیمان میں اپنی ٹیلیفون ٹیپنگ کا الزام عائد کیا تھا۔
انہوں نے گزشتہ برس حکومت پاکستان کی جانب سے انٹرنیٹ پر فلٹرنگ کا نظام
لگانے کے فیصلے کی بھی شدید مخالفت کی تھی۔ اس نظام کے نصب کیے جانے کے
بارے میں آج تک حکومت نے باضابطہ طور پر اس کو روکنے کا کوئی اعلان تو نہیں
کیا لیکن اس وقت اسے موخر کر دیا گیا تھا۔ اسے مکمل روکنے کی بات نہیں کی
گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جاسوسی انٹرنیٹ کی آزادی کے خلاف اقدام ہے۔اسلام
آباد کے ایک انٹرنیٹ کیفے میں کسی نجی کمپنی کا ڈیٹا اپ لوڈ کرنے والے پارٹ
ٹائم ملازم کا کہنا تھا کہ یہ تو کافی تشویش کی بات ہے کہ لوگوں کا ڈیٹا
بغیر کسی وجہ کے دوسرے لوگ دیکھ سکیں گے۔ آپ کو اس کا علم ہی نہ ہو تو یہ
تو ٹھیک نہیں۔ یہ کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس کے بارے میں
کارروائی کرے۔ کہیں سی آئی اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن اس نگرانی کا
بھانڈا پھوڑ رہے ہیں تو کہیں خود صدر براک اوباما ای میل اور ٹیلی فون
نگرانی کا دفاع کر رہے ہیں۔ ایسے نگرانی کے نظام کی موجودگی کی اطلاعات تو
ہیں، سرکاری تصدیق ابھی تک نہیں ہے۔ کیا پاکستانی حکومت اس بابت کچھ وضاحت
کرے گی؟۔
دنیا بھر میں امریکا کی جانب سے انٹرنیٹ کے ذریعے جاسوسی کا چرچا تو ہے ہی
اس کے ساتھ امریکا کا جاسوسی نظام پی ٹی سی ایل میںنصب ہونے کا انکشاف بھی
ہوا ہے اس بابت میں گزشتہ دنوں کینیڈا کی ٹورنٹو یونیورسٹی کے ایک تحقیقی
گروپ نے پاکستان میں بھی انٹرنیٹ کے ذریعے نگرانی کے اس نظام کی موجودگی کا
انکشاف کیا ہے۔’مشتری ہوشیار باش‘ طرزکی یہ وارننگ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے
’دی سٹیزن لیب‘ نامی تحقیقی گروپ نے اپنی ایک رپورٹ ’فار دئیر آئیز اونلی
ڈیجیٹل سپائینگ کی کمرشلائزیشن‘ میںجاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان میں
بھی فن فشر نامی نظام کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سرور پایا۔ یہ سافٹ ویئر ایک
برطانوی کمپنی گیما گروپ تیار کرتی ہے جو کسی ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے
کمپیوٹر کا کنٹرول حاصل کر کے دستاویزات کاپی کر سکتا ہے، سکائپ کالز سن
سکتا ہے اور ہر ٹائپ کیے ہوئے لفظ کا لاگ حاصل کر سکتا ہے۔دی سٹیزن لیب کا
الزام ہے کہ یہ نظام پاکستان میں چلنے والی سرکاری کمپنی پی ٹی سی ایل جو
کہ اس وقت متحدہ عرب امارات کی اتصالات کمپنی کے زیر کنٹرول ہے میں پایا
گیا ہے تاہم پی ٹی سی ایل کے متعلقہ حکام نے رابطے کے باوجود اس بارے میں
کوئی جواب نہیں دیا۔
انٹرنیٹ پر رازداری کے لیے سرگرم تنظیم ’بولو بھی‘ کی ڈائریکٹر ثنا سلیم کا
کہنا تھا کہ اس تحقیق میں ثبوت کے ساتھ بات کی گئی ہے اور جب وہ رپورٹ جاری
کرتے ہیں تو یہ بھی ساتھ بتاتے ہیں کہ یہ تحقیق کس طرح سے کی گئی۔ ’یہ
ادارہ 2008 سے کام کر رہا ہے اور یہ کوئی سرکاری یا کارپورِٹ فنڈنگ نہیں
لیتا۔ لہٰذا اسے ایک آزاد ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ نظام کوئی کمپنی نہیں
حاصل کر سکتی، اسے حکومت ہی لے سکتی ہے۔ ہم نے حکومت سے اور پی ٹی سی ایل
سے دریافت کیا ہے کہ ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں جو صحافیوں، سیاستدانوں
یا کسی شخص کو اس سے بچا سکے تو ایسے میں اس کا استعمال کیوں کر ہو رہا ہے۔
اگر حکومت نے یہ نظام نہیں حاصل کیا تو پھر وہ معلوم کرے کہ اسے کون
استعمال کر رہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ان حالات میں سوال اٹھتا ہے کہ یہ کس قسم کی حکومت
ہے؟ پاکستان میں انٹرنیٹ اور ٹیلیفون صارفین پر ان کے علم میں لائے بغیر
نظر رکھی جا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے نہ کوئی اقدام نہیں ہے ۔ اس سے ایک
ہی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ دال میں کالا نہیں پوری دال ہی کالی
ہے۔معلوم نہیں کب سے پاکستان کے اندر سے انٹرنیٹ اور ٹیلیفون کی نگرانی ہو
رہی ہے اور کسی کو توفیق نہیں ہوئی امریکا کی اس دہشتگردی کو روک سکے ۔
ایسے میں بھاڑ میں گئے وہ انسانی حقوقِ انسانی جس قانون کی ایک شق میں درج
ہے کہ ایسی کسی غیر قانونی جاسوسی کرنے والے کو جرمانے کے علاوہ تین سال
قید بھی دی جا سکتی ہے۔ |