لاہور بم دھماکہ

کبھی کبھی حالات و واقعات بھی انسان کو اتنا بے بس کر دیتے ہیں کہ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا اور جب کبھی بے سرو سامانی کا یہ عالم دیکھنے کو ملتا ہے تو رگِ جان تک سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ ہر باشعور انسان کبھی بھی بے یقینی اور جمود کی کیفیت کو اپنے اوپر طاری نہیں رہنے دیتا مگر توقعات صرف دوسروں پہ لگا کر معاملات سے پہلو تہی کی جائے تو کبھی نہ کبھی حالات آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے تک لے آتے ہیں اور حالات کا ر یلہ بہا کر لیجائے تو پھر با شعوری کیسی ؟

میں ابھی اپنے دفتر میں آکر بیٹھے ہی تھا کہ اچانک ایک بجلی سی کوند گئی اور اندھیرا ہو گیا۔ میرے دفتر کے سامنے والا شیشہ کا دروازہ دو ٹکڑے ہو کر لہرانے لگا جبکہ ہر طرف دھند ہی دھند اور گرد کے بادل چھا رہے تھے اس سرعت کے ساتھ واقعہ ہوا کہ صرف میں یہی سوجھ ہوئی کہ فوراً بلڈنگ سے باہر نکلا جائے۔ لہٰذا تمام لوگوں کو جو کہ دفتر میں موجود تھے اور انکی ہوائیاں سی اڑی ہوئی تھیں انکو لے کر کمروں سے باہر نکل آئے۔ ہر طرف بے سرو سامانی کا عالم تھا۔ بچے رو رہے تھے جبکہ خواتین کا عالم بھی کچھ یہی تھا۔ مرد حضرات جن کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں اور بے سرو سامانی کے عالم میں بھاگ رہے تھے۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اچانک کیا ہو گیا ہے اب صرف دو باتوں کا امکان تھا یا تو زلزلہ آیا ہے یا پھر کوئی بم دھماکہ ہوا ہے۔ باہر سڑک پہ آنے سے پتہ چلا کہ ایک طرف دھویں کے بادل اٹھ رہے ہیں جبکہ ہماری بلڈنگ کے سامنے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی طالبات سہمی ہوئیں گیٹ اور سڑک کے اطراف میں موجود تھیں جبکہ اسی سڑک پر لوگوں کا جم غفیر تھا اور ہر ایک حواس باختہ ایک دوسرے سے یہی پوچھ رہا تھا کہ بتاﺅ کیا ہوا؟

یہاں اس عالم پریشانی میں قیاس آرائیاں یہیں تھیں کہ کہیں قریب ہی یا پھر مال روڈ پر یہ سانحہ پیش آیا ہوگا۔ دریں اثناء فائرنگ کی آواز سنائی دی اور لوگوں میں پھر افراتفری پھیل گئی۔ جبکہ لوگوں کے فق چہرے پیلے پڑ چکے تھے اور ایک قطعی سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے کہ آیا ہم اب اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ۔بہرحال ہمت کر کے میں فوراً جائے حادثہ پر پہنچا وہاں پر ایک حشر برپا تھا، ریسکیو 15 کی بلڈنگ جو کہ کوئنز روڈ پر واقع ہے مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی اور اس سے ملحقہ عمارات بھی شدید متاثر ہوئیں تھیں ۔اب الارم بجاتی گاڑیاں جمع ہونی شروع ہو گئیں اور ریسکیو 15 کی تباہ شدہ بلڈنگ کے ملبے تلے دبے لوگوں کی تلاش شروع کر دی گئی تھی۔ جبکہ ملحقہ عمارات کے دروازے اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹنے کے باعث بہت سے راہ گزر بری طرح زخمی ہو چکے تھے ۔اور وہاں جمع لوگوں نے زخمیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت نزدیک گنگا رام ہسپتال کے ایمر جنسی تک پہنچانا شروع کر دیا۔ ریسکیو 15 کی بلڈنگ کے ملبے تلے سے زخمیوں اور لاشوں کو نکالنے کا کام بھی شروع ہو چکا تھا اور ساتھ ساتھ موقع پر موجود ایمبولینس متاثرین کو نزدیکی ہسپتالوں میں پہنچا رہیں تھیں۔

اس موت کے منظر کو دیکھنے کے لیے واقعی جگرہ چاہیے تھا جو کہ اب ہر فرد کے پاس ہونا چاہیے کیونکہ اب مزید کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ ایک بات سب لوگوں کی زبان پر تھی کہ لاہور کے مرکز میں اتنی محفوظ جگہ پر اور وہ بھی ریسکیو 15 جیسے ادارے بھی حملہ سے محفوظ نہیں تو ہم اپنے آپ کو کہاں تک محفوظ سمجھیں؟ ہماری حکومت نے ہمارے لیے کونسے عملی اقدامات کیے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں۔ شدید مذمت کے بیان جاری ہوتے رہتے ہیں مگر عملی طور پر خوف و ہراس کے بادل چھٹتے دکھائی نہیں دیتے۔

اس پریشانی کے عالم میں بچے اسکولوں سی جاتے نظر آئے جن کے چہرے خوفزدہ اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ رہے تھے جبکہ انہوں نے ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا کہ کہیں پھر اس دہشت ناک مرحلہ سے گزرنا نہ پڑ جائے۔ یہ دمکتے پھول جو کہ صبح اسکول جاتے ہوئی چہچہاتے ہوئے اور اٹھکھیلیاں کرتے نظر آتے ہیں، کملائے ہوئے لگ رہے تھے انکی خاموش نگاہیں سوالیہ نشان بنی ہوئیں تھیں کہ ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمیں کونسا مستقبل دے رہے ہو؟ ہمارا ملک ہمارے لیے کونسے نئے تحفے لیے ہوئے ہے۔ ان دہشت ناک مناظر نے ماحول کو المناک بنا دیا تھا۔

کیا ہم اسے ایک گناہ اور سہی سمجھ کر بھول جائیں؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردی اپنے عروج پہ ہے جبکہ عام آدمی عدم تحفظ اور بے اعتمادی کا شکار ہے۔ لگتا تو یہی ہے کہ اگر معاملات یونہی رہے تو پھر گھروں میں بیٹھے ہوئے یا پھر بستروں میں پڑے ہوئے عدم سدھار جائیں گے۔ اپنی تقدیر تو اپنے ہاتھوں میں ہے اور کس کا انتظار کر رہے ہیں کہ تحفظ دے؟

اب سماجی روابط (Social contacts) کی ضرورت ہے جو کہ ایک مکمل اور مستحکم معاشرے کی تکمیل کر سکتا ہے۔ اب بنیادی سطحوں پر عوامی حلقوں میں بیداری کی کیفیت پیدا ہو جانی چاہیے۔ اپنی مدد آپ کے تحت گلی محلوں میں نوجوانوں کو بزرگوں کی زیرِ نگرانی اتحاد بنانا پڑے گا جو کہ کسی بھی وقت برے حالات سے نپٹنے کے لیے تیار ہو۔ بیرونی سازشوں نے اس ملک عزیز کے ایک بڑے حصے کو عدم استحکام کی آگ میں دھکیل دیا ہے جبکہ اغیار ہمیشہ سے یہی چاہتے آئے ہیں کہ یہ متزلزل اور بے یقینی کے حالا ت کا شکار رہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمرانوں نے جو پالسیاں اپنائی ہوئی ہیں آیا انہوں نے اس کے رد عمل کے لیے بھی کچھ کیا ہے یا پھر سب کچھ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ ہم کس ڈگر پر چل رہے ہیں آیا ہم خود بے حس ہیں اور بیدا ر نہیں ہونا چاہتے یا پھر اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑنے کو تیار ہیں۔ اب اس قوم کے نوجوان جب تک اپنی مدد آپ کے تحت ہاتھ سے ہاتھ ملائے معاملات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اٹھ کھڑے نہیں ہونگے تب تک حالات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔ ہم سیل رواں پر بہتے ہوئے کائی کے تنکے نہیں کہ حالات کی موجوں کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پہ رہیں اور جانے کب کوئی انجانی موج اُڑے اور اُٹھا کر کہیں پھینک دے یا پھر حالات کے گرداب میں پھنس کے اپنا وجود کھو بیٹھیں۔

بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے
Muhammad Altaf Gohar
About the Author: Muhammad Altaf Gohar Read More Articles by Muhammad Altaf Gohar: 95 Articles with 175916 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.