ایک انار دو بیمار ۔۔۔۔۔۔میڈیکل کالجز کی جنگ

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں حضرت ثمامہ بن عبداﷲ ؒ کہتے ہیں حضرت انس بن مالکؓ کے باغ کا مالی سخت گرمی کے زمانے میں ان کے پاس آیا اور ان سے موسم کی خشکی اور بارش نہ ہونے کی شکایت کی ۔حضرت انس ؓ نے پانی منگوا کر وضو کیا اور نماز پڑھی پھر مالی سے کہا کیا تمہیں کوئی باد ل آسمان میں نظر آ رہا ہے ؟اس نے کہا کوئی نظر نہیں آ رہا ہے حضرت انس ؓ نے اندر جا کر پھر نماز پڑھی پھر اسے کہا ۔اس طرح تین چار مرتبہ ہوا ۔تیسری یا چوتھی مرتبہ اس مالی کو دیکھنے کو کہا تو اس نے کہا پرندے کے پر جتنا بادل نظر آ رہا ہے حضرت انس ؓ نماز پڑھتے رہے اور دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ باغ کے ذمہ دار نے اندر جا کر ان کو بتایا کہ آسمان پر بادل چھا گئے اوربارش ہو چکی ہے تو اس سے فرمایا جو گھوڑ ابشر بن شغاف نے بھیجا ہے اس پر سوار ہو کر جاؤ اور دیکھو بارش کہاں تک ہوئی ؟چنانچہ وہ دیکھ کر آیا اور اس نے بتایا کہ بارش مسیرین کے محلات اور غضبان کے محل سے آ گے نہیں ہوئی (یعنی حضرت انس ؓ کے باغات میں ہی ہوئی ہے اس سے آگے نہیں ہوئی )
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں مجھے ایک دفعہ بہت زیادہ درد ہوا ۔میں حضور ﷺ کی خدمت میں گیا ( اور اپنی تکلیف حضور ﷺ کو بتائی )حضور ﷺ نے مجھے اپنی جگہ بٹھایا اور خود کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے اور اپنے کپڑے کا ایک کنارہ میرے اوپر ڈال دیا پھر فرمایا اے ابن ابی طالبؓ ! کوئی بات نہیں تم ٹھیک ہو جاؤ گے میں نے اﷲ سے اپنے لیے جو چیز بھی مانگی وہی میں نے تمہارے لیے بھی مانگی اور اﷲ سے میں نے جو چیزمانگی وہ اﷲ نے مجھے ضرور عطا فرمائی البتہ مجھے یہ کہا گیا کہ تمہارے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا ۔حضر علی ؓ نے فرمایا میں وہاں سے کھڑا ہوا تو سارا درد ختم ہو چکا تھا اور ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے مجھے کوئی تکلیف ہی نہ ہو ۔

قارئین آزادکشمیر میں ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ ایک بھی میڈیکل کالج یہاں پر موجود نہیں تھا مختلف اضلاع بالخصوص مظفرآباد ،میرپور ،راولاکوٹ اور کوٹلی سمیت دیگر علاقوں کے عوام کو میڈیکل کالج کے نام پر ایک دوسرے سے لڑانے کا سیاسی کھیل بھی جاری تھا اور آزادکشمیر بھر میں طبی شعبہ میں نمایاں قسم کی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آ رہی تھی ۔آزادکشمیر سے ہر سال ایف ایس سی میں نمایاں پوزیشنز حاصل کرنے والے پری میڈیکل کے طلباء و طالبات پاکستان بھر کے میڈیکل کالجز میں کوٹہ کی بنیاد پر داخلے حاصل کرتے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال ایک سو دس کے قریب ڈاکٹرز پاکستان بھر کے میڈیکل کالجز سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتے اور یہاں سے ایک نئی کہانی شروع ہوتی ۔صرف دس فیصد کے قریب ڈاکٹرز آزادکشمیر ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو جائن کرتے اور باقی نوے فیصد ڈاکٹرز دستیاب سہولت کی وجہ سے یا تو بیرون ملک فرار ہو جاتے ،اعلیٰ تعلیم ایف سی پی ایس یا دیگر ڈگریاں حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کر دیتے اور یا پھر سول سروسز میں قدم رکھ دیتے ۔جو ڈاکٹرز بیرون ممالک چلے جاتے یا اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر لیتے وہ ان ممالک میں تو خدمات انجام دیتے رہتے جہاں انہیں ہر قسم کی سہولت بھی میسر ہوتی اور عزت بھی ملتی باوجود اس کے وہ لوگ ان ممالک میں سیکنڈ گریڈ سٹیزن کے طور پر ٹریٹ کیے جاتے اسی طرح وہ ڈاکٹرز جو اسلام آباد ،لاہور ،کراچی یا دیگر ترقی یافتہ شہروں میں ایڈجسٹ ہو جاتے وہ بھی آزادکشمیر آ کر خدمات انجام دینے کے لیے تیار نہ ہوتے اس کی وجہ وہ یہ بتاتے کہ آزادکشمیر میں چونکہ وہ سہولیات موجود نہیں ہیں کہ جن کے مطابق وہ اپنی اعلیٰ ڈگری یا حاصل کردہ تربیت کے مطابق فرائض منصبی انجام دے سکیں ۔یہی وجہ ہے کہ آزادکشمیر میں طویل عرصہ تک میڈیکل کالجز کے قائم نہ ہونے کی وجہ سے ’’ ٹر شری لیول ‘‘کی سہولیات میسر نہ آ سکیں ۔اس بات کو سادہ زبان میں یو ں سمجھ لیجیے کہ پرائمری لیول کی سہولیات کے لیے جو طبی مراکز قائم کیے جاتے ہیں وہاں ایمر جنسی سہولیات موجود ہوتی ہیں جیسا کہ ہمارے بنیادی مراکز صحت ،رورل ہیلتھ سنٹر ز اور دیگر بنیادی نوعیت کے ہسپتالوں میں فراہم کی جاتی ہیں جبکہ سیکنڈری لیول کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ،تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ،سی ایم ایچ اور ایم ڈی ایس کا م کر رہے ہیں جہاں مریض کو ان ڈور سہولیات بھی مہیا کی جاتی ہیں لیکن اگر کسی مریض کی بیماری زیادہ پیچیدہ نوعیت کی ہے اور اس کے علاج کے لیے سپشلائزڈ سروسز درکار ہیں تو آزادکشمیر کے تمام ہسپتال ان سروسز سے محروم تھے اور ابھی تک ہیں ۔ان تمام مریضوں کو اسلام آباد ،راولپنڈی ،لاہور اور دیگر شہروں کے بڑے بڑے ہسپتالوں میں ریفر کر دیا جاتا اور ان ہسپتالوں میں آزادکشمیر کے غریب عوام انتہائی کٹھن حالات میں علاج معالجے کی سہولیات حاصل کرنے کے لیے خوار ہوتے رہے اور آج تک ہو رہے ہیں ۔

قارئین یہ وہ تمام بیک گراؤنڈ ہے جو آج کے کالم کا حاصل ہو گا خیر ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ دور حکومت میں جب آزادکشمیر کے موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اپوزیشن لیڈر تھے اس دوران میرپور میں پیر علاؤ الدین صدیقی نے خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے نجی شعبہ میں ’’محی الدین اسلامک میڈیکل کالج ‘‘قائم کیا سردار عتیق احمد خان وزیراعظم تھے راتوں رات تمام ضروریات پوری کی گئیں اور انڈسٹریل اسٹیٹ میرپور میں وسیع و عریض عمارت میں میڈیکل کالج کی کلاسز کا آغاز کر دیا گیا۔ آسان ترین الفاظ میں ہم اپنے پڑھنے والوں کے لیے عرض کرتے چلیں کہ کسی بھی میڈیکل کالج کے قیام کے لیے اہم ترین بات ٹیچنگ ہسپتال کی سہولت کا موجود ہونا ہے ۔ محی الدین اسلامک میڈیکل کالج چونکہ ایک پرائیویٹ ادارہ تھا ضرورت اس امر کی تھی کہ اس ادارے کے ساتھ جو ایک سو سیٹوں کے ساتھ سامنے آیا تھا کم از کم چار سو بستروں پر مشتمل ٹیچنگ ہسپتال اٹیچ کیا جائے اس کے لیے دو باتیں زیر غور رہیں کہ یا تو محی الدین اسلامک کالج والے دوست اپنی زمین پر چار سو بستروں پر مشتمل ایک پرائیویٹ ہسپتال بنائیں اور یا پھر کسی سرکاری ہسپتال کو اپنے ساتھ منسلک کر کے اس ادارے کو بھی پی ایم ڈی سی سے منظور کروا لیں اور منسلک شدہ سرکاری ہسپتال کو بھی اعلیٰ ترین پیشہ ورانہ طبی سہولیات مہیا کریں اور فنڈز بھی دیں۔ یہاں پر ہم محی الدین اسلامک میڈیکل کالج کی کہانی کو ادھورا چھوڑتے ہوئے یہ بتاتے چلیں کہ اسی سلسلہ میں میرپور کے سب سے بڑے طبی ادارے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور کو ایک خصوصی ایم او یو کے ذریعے محی الدین اسلامک میڈیکل کالج کے ساتھ اٹیچ کر دیا گیا۔ اس معاہدے میں میڈیکل کالج اور ہسپتال کی ذمہ داریوں اور فرائض کا تعین واضح اور غیر واضح الفاظ میں کر دیا گیا۔

قارئین یہاں سے ہم اپنے کالم کے ابتدائی حصے کی جانب جاتے ہیں ۔ گزشتہ دور حکومت کے دوران چودھری عبدالمجید نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے میرپور میں میڈیکل کالج قائم کرنے کی تحریک شروع کی اور یہ موقف اختیار کیا کہ شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو نے برطانیہ میں بریڈ فورڈ کے مقام پر اپنے آخری جلسے میں اہل میرپور تارکین وطن سے خطاب کرتے ہوئے یہ وعدہ کیا تھا کہ ان کی پارٹی پاکستان میں بر سر اقتدار آ کر منگلا ڈیم کے لیے دی گئی قربانیوں کے اعتراف میں میرپور میں میڈیکل کالج اور انٹرنیشنل ایئرپورٹ قائم کرے گی۔ اسی سلسلہ میں میرپور میں ’’میرپور میڈیکل کالج ایکشن کمیٹی ‘‘ بھی قائم ہو گئی اس ایکشن کمیٹی نے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ، ٹریڈ یونینز ، بار ایسوسی ایشن اور مختلف سیاسی و سماجی جماعتوں سے رابطہ قائم کرنے کے بعد سرکاری سطح پر میرپور میں میڈیکل کالج کے قیام کے لیے تحریک شروع کر دی۔ اس ایکشن کمیٹی میں ڈاکٹر ریاض احمد، ڈاکٹر سی ایم حنیف، ڈاکٹر ریاست چودھری، چودھری محمد سعید سے لے کر شہر کی ہر تنظیم کا سربراہ اور کارکن شامل تھا۔ اس دوران برطانیہ سے ہاؤس آف لارڈز کے پہلے تاحیات مسلمان رکن لارڈ نذیر احمد بھی اپنے پیدائشی شہر میرپور کے دورے پر آئے اور میرپور میڈیکل کالج ایکشن کمیٹی کے مطالبات کی بھرپور حمایت کی اور سرکاری سطح پر صدر پاکستان آصف علی زرداری سے ہونی والی ملاقات کے موقع پر وہ میرپور میڈیکل کالج ایکشن کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر ریاض احمد کو بھی ساتھ لے گئے اور صدر پاکستان سے انہوں نے میرپو رمیڈیکل کالج کے قیام کی کھل کر بات کی۔ قصہ مختصر چودھری عبدالمجید کی تحریک ، میرپور میڈیکل کالج ایکشن کمیٹی کی عملی جددجہد اور لارڈ نذیر احمدسمیت دیگر دوستوں کی مخلصانہ مساعی کے نتیجہ میں میرپور کا میڈیکل کالج کاغذی سطح پر منظور کر لیا گیا اور اس کے بعد ایک پراسرار سی خاموشی طاری ہو گئی ۔ قارئین یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی گزشتہ قانون ساز اسمبلی نے تین وزیراعظم دیکھنے کا شرف حاصل کیا اور چار مرتبہ قائد ایوان کا انتخاب عمل میں آیا دو مرتبہ سردار عتیق احمد خان وزیراعظم آزاد کشمیر رہے۔ جب کہ ایک ایک دفعہ سردار یعقوب خان اورراجہ فاروق حیدر خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ پراسرار خاموشی کی بنیادی وجہ آزاد کشمیر حکومت کے پاس فنڈز کی عدم دستیابی تھی اور سیاسی سطح پر پیپلز پارٹی کی آزاد کشمیر میں حکومت کا نہ ہونا تھا اور بھی کچھ وجوہات ہیں تو ان کے متعلق اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔

قارئین 26جون 2011کے انتخابات کے نتیجہ میں آزا دکشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور چودھری عبدالمجید نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انتہائی قلیل عرصے میں مظفرآباد میں میر واعظ میڈیکل کالج اور میرپور میں محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج سرکاری سطح پر قائم کر دیئے گئے اور پی ایم ڈی سی نے ان دونوں کالجوں کو منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اسی دوران راولاکوٹ پونچھ سے تعلق رکھنے والے صدر ریاست سردار یعقوب خان نے بھی عوامی دباؤ کے پیش نظر تحریک کی اور غازی ملت سردار ابراہیم خان میڈیکل کالج راولاکوٹ میں بھی کلاسز شروع کر دی گئیں حالانکہ پی ایم ڈی سی نے ابھی اس کالج کی منظوری صرف اس بنیاد پر نہ دی تھی کہ اس میڈیکل کالج کے ساتھ عقلی بنیادوں پر درکار ٹیچنگ ہسپتال موجود نہ تھا۔ راقم کے ’’خبری یا مخبر‘‘ کے مطابق راولاکوٹ میڈیکل کالج کے قیام کے حامی دوستوں نے آزاد کشمیر میں دیگر میڈیکل کالجز کے ساتھ منسلک ٹیچنگ ہاسپٹلز پر انگشت نمائی کی اور ان میڈیکل کالجز کی تربیتی سہولیات کے بارے میں بات کی۔ یہاں پر ہم اس معاملے کو ادھورا چھوڑرہے ہیں ۔

قارئین وزیراعظم آزا دکشمیر چودھری عبدالمجید نے حالیہ دنوں میں دو تاریخی اعلانات کر ڈالے ایک اعلان کے مطابق انہوں نے میرپور میں موجود ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کواپ گریڈ کرتے ہوئے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بنادیا اور دوسرے اعلان کے مطابق محکمہ صحت آزاد کشمیر نے میرپور کے اس سرکاری ہسپتال کو پرائیویٹ میڈیکل کالج یعنی محی الدین اسلامک میڈیکل کالج سے علیحدہ کرتے ہوئے سرکاری میڈیکل کالج یعنی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے ساتھ منسلک کر دیا۔ اس سلسلہ میں میرپورمیڈیکل کالج ایکشن کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر ریاض احمد نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک پریس کانفرنس بھی کی اور سول سوسائٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے میڈیا کے سامنے انکشافات کیے کہ پیر علاء الدین صدیقی صاحب کے پرائیویٹ میڈیکل کالج نے میرپور کے غریبوں کے علاج کے لیے بنائے گئے سرکاری ہسپتال کو استعمال کیا، طلباء و طالبات سے بھاری فیسیں وصول کیں اور برطانیہ میں آباد اہل میرپور ہی کی مذہبی عقیدت کا فائدہ اٹھا کر اربوں روپے چندہ بھی اکٹھا کیا۔اور میرپور ڈسٹرکٹ ہسپتال کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی ایک بھی شق پر عمل نہ کیا جس کی وجہ سے نہ تو علاج معالجے کی سہولیات اپ گریڈ ہو سکیں اور نہ ہی غریب عوام کو کسی قسم کا فائدہ ملا۔ اس لیے وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید نے جو یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے میرپور کی سول سوسائٹی اور میڈیکل ایکشن کمیٹی اس کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔

قارئین محی الدین اسلامک میڈیکل کالج ایک پرائیویٹ ادارہ ہے اور آزاد کشمیر اور پاکستان بھر میں مختلف پرائیویٹ ادارے تعلیم کے شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ جہاں پر ان کے حقوق تحریر شدہ ہیں وہیں پر ان کے فرائض بھی درج ہیں اب یہ کام فیصلہ ساز قوتوں اور عدالتوں کا ہے کہ وہ خود ان باتوں کا تعین کریں کہ کس ادارے نے کیا کیا فرائض ادا کیے اور ان کے حقوق کون کون سے ہیں۔ راقم اپنے دوستوں ڈاکٹر سی ایم حنیف، ڈاکٹر ریاست چودھری، ڈاکٹر ریاض احمد اور دیگر کے ہمراہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے قلم اورآواز کا اسلحہ لے کر پہلے بھی غریب عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتا رہا ہے اور کشمیر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی شکل میں کروڑوں روپے خرچ کر کے دل کے امراض کے علاج کے لیے ایک انوکھی سہولت مہیا کرنے والے حاجی محمد سلیم کے شانہ بشانہ آسان اور کٹھن حالات میں ہمیشہ کھڑا رہا ہے اور آئندہ بھی طعن و تشنیع کی سنگ باری اور الزامات کے چرکے برداشت کرنے کے لیے تیار ہے۔ محکمہ صحت عامہ آزاد کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عبدالقدوس اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے پرنسپل پروفیسر عبدالرشید میاں نے راقم سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پرجوش انداز میں امیدکا اظہار کیا کہ وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید کے ان دو اقدامات سے میرپور ڈویژن میں ’’ٹرشری لیول‘‘ کی طبی سہولیات اپ گریڈ ہوں گی اور غریب عوام کو فوائد ملیں گے ۔ بقول حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ غریب عوام کے لیے کام کرنے والے تمام شہیدوں اور غازیوں کے بارے میں ہم یہی کہیں گے۔
شہید محبت نہ کافر نہ غازی
محبت کی رسمیں نہ ترکی نہ تازی!
وہ کچھ اور شے ہے محبت نہیں ہے
سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی !
یہ جو ہر اگر کارفرما نہیں ہے
توہیں علم و حکمت فقط شیشہ بازی !
نہ محتاجِ سلطان نہ مرعوبِ سلطان
محبت ہے آزادی و بے نیازی !
مرافقربہتر ہے اسکندری سے
یہ آدم گرمی ہے وہ آئینہ سازی !

ہمیں امید ہے کہ ان دونوں نوٹیفکیشنز کے جاری ہونے سے میرپور کی دھرتی پر قائم ہونے والے سرکاری میڈیکل کالج اور پرائیویٹ میڈیکل کالج کے درمیان کوئی جنگ نہیں چھڑے گی اور ان دونوں میڈیکل کالجز سے تعلیم حاصل کرنے والے اور پڑھانے والے ڈاکٹرز غریب عوام کو علاج معالجے کی سہولیات انسانیت کی خدمت سمجھتے ہوئے مہیا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے۔
تحریک خلافت کے زمانے میں مولانا محمد علی جوہر علامہ اقبال کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ
’’ظالم تم نے لوگوں کو گرما کر ان کی زندگی میں ہیجان برپا کر دیا ہے خود کسی کام میں حصہ نہیں لیتے‘‘
اس پر علامہ اقبال نے برجستہ جواب دیا
’’میں تو قوم کاقوال ہوں اگر قوال خود وجد میں آ کر جھومنے لگے تو کیا قوالی ختم نہ ہوجائے گی‘‘

قارئین فیصلہ آپ خود کر لیجئے کہ جھومنے والے کون ہیں ، قوال کون ہے اور کس کے خلاف یہ محفل آراستہ کی گئی ہے کچھ بھی ہو وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید ، لارڈ نذیر احمد،ڈاکٹر ریاض احمد، ڈاکٹر سی ایم حنیف، ڈاکٹر ریاست چودھری اور تمام شہری تنظیموں کے وہ دوست خراج تحسین کے مستحق ہیں جو غریب آدمی کے لیے دل کی مخلصانہ دھڑکنوں کے ساتھ عملی کاوشیں کر رہے ہیں۔ اب ذمہ داری پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مشتاق چودھری کے سر ہے کہ وہ انتہائی وزنی عوامی امیدوں کا بوجھ کس طریقے سے اٹھاتے ہیں۔ اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374814 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More