محترمہ بینظیر بھٹو شہید سے آخری ملاقات

21جون یوم پیدائش

دخترمشرق شہیدمحترمہ بے نظیر بھٹو جناب قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خاندان اور پاکستان پیپلزپارٹی سے میرا رشتہ برسوں پراناہے یہ عظیم رشتہ اور تعلق بنانے میں مجھے اپنے عظیم اور جلیل القدر والد گرامی جناب پروفیسر خان زمان مرزا مرحوم کی محبت ،شفقت اور صورت میں ورثے میں ملا ۔ 1986میں گورنمنٹ کالج مظفرآباد میں داخل تھامجھے آزادکشمیر کے طلباء کی سب سے بڑی تنظیم جموں کشمیر پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن میں متحرک اور فعال ہونا پڑا پاکستان پیپلزپارٹی کے فعال بازو سے میری وابستگی میرے لیے کئی امتحان سامنے لائی اتنی کم عمری میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی اور جناب بھٹو شہید خاندان کی قربانیوں کی تاریخ میرے لیے نئی نہ تھی کیونکہ میرے نامور والد گرامی جناب پروفیسر خان زمان مرزا پاکستان پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کے ایسے عاشقوں میں شامل تھے کے ان کا ـاُٹھنا بیھٹنا جناب قائد عوام کی عملی جدوجہد اور کشمیر کاز کے حوالے سے افکار موضوع بحث ہوتے تھے پروفیسر خان زمان مرزا جیسے عالمی شہرت یافتہ دانشور اور مورخ نے کم و بیش 32کتابیں تصنیف کی مگر کوئی کتاب بھی بھٹو خاندان سے ان کے والہانہ عشق کو چھپا نہ سکیں ایسے ماحول میں میری تربیت بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی سے محبت اور وفاداری مجھے ورثے میں ہی نہیں گھٹی میں ملی ہے ۔

جناب بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے رفاقتوں کا یہ سفر وقت کے ساتھ مستحکم ہو گیاجوں جوں شعوری سطح بلند ہوئی عملی جدوجہد میں بھی سر گرمیاں بڑھتی گئیں 1986ء میں دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹوکا جب زندہ دلان لاہور میں فقید المثال اور تاریخ ساز استقبال ہو یا بھٹو شہید کی برسی ہو کہیں بھی کوئی تحریک آواز دے ’’رازداں‘‘ وہاں موجود رہا میری یادوں کا دامن آج بھی اسی طرح تروتازہ ہے وہ وقت مجھے اچھی طرح سے یاد ہے میں چونکہ قلمی محاذ کا بندہ تھا اور پیپلز پارٹی کے بانی جناب ذوالفقار بھٹو شہید کی اقوام متحدہ کے اندر اور باہر تاریخی تقاریر اور مطالعہ میری کمزوری تھا اسی وجہ سے میں نے اپنے نامور والد گرامی جناب ’’پروفیسر خان زمان مرزا‘‘کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھٹو خاندان کی کشمیر اور کشمیری عوام کے بنیادی پیدائشی انسانی حقوق اور معاشرتی حالات کی بہتری کیلئے جو بے مثال اور جرأت مندانہ کارنامے سرانجام دیے انہیں یکجا کر کے نئی نسل کیلئے مرتب کرنے کا بیڑا اٹھا یا اس کے باوجود ’’رازداں‘‘ مختلف ادوار میں سیاسی جدوجہد اور جمہوریت کی بحالی کی تحریکوں میں شمولیت کے باعث کئی مرتبہ تھانوں اور جیلوں کی زینت بنا نہ تو میرے پایا استقلال میں جنبش آئی اور نہ ہی فکری اور نظریاتی سفر رک سکا ۔

بھٹو اور کشمیر کے نام سے میری کتاب کا مسودہ جب تیار ہوا تو شریک چیئر پرسن دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو طویل جلا وطنی کے بعد جب وطن تشریف لائیں اور الیکشن کی مہم میں شب و روز مصروف ہو گئیں مگر ان کی محبت ، عنائت اور شفقت ہی تھی کہ شہید بی بی نے میرے مسودے کی ایک ایک سطر پڑھی اپنی پسندگی کا اظہار کرتے ہوئے ’’ بھٹو اور کشمیر‘‘ کا پیش لفظ لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا اسی سلسلے میں 27دسمبر 2007ء راولپنڈی لیاقت باغ کے آخری اور تاریخی جلسہ عام میں ’’رازداں‘‘ کو سٹیج پر بلا کر کتاب کے حوالہ سے پسندگی کا اظہار کرتے ہوئے میرے حوصلے بڑھائے اپنے تاریخی خطاب کے بعد کسے معلوم تھا کہ شہید قائد محترمہ بے نظیر بھٹو ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہونے کیلئے مقتل کی طرف روانہ ہو رہی ہیں شہید بی بی جب اپنی گاڑی میں بیٹھ چکی تو اپنے پارٹی کے نظریاتی ، وفادار جیالے کارکن پر نظر پڑ گئی وہاں بھی میری عظیم قائد اپنے لفظوں سے میرے حوصلے بڑھاتے ہوئے میری اس کاوش کا سراہا اور وعدہ کیا کہ سانحہ کار ساز کراچی کے بعد ابھی تک کئی ایسے معاملات درپیش ہیں جنہوں نے میری توجہ حاصل کیے رکھی اور میں آپ کی کتاب کیلئے پیش لفظ نہ لکھی سکی اب میں پہلی فرصت میں ہی اسے مکمل کر لوں گی ۔عزیزان وطن کسے معلوم تھا کہ 27دسمبر کو عالم اسلام کی ایک بہادر، نڈر خاتون اور بھٹو شہید کی عظیم بیٹی ، بھٹو خاندان کی روایات پر عمل کرتے ہوئے جمہوریت کے استحکام کی خاطر اپنا قیمتی لہو پاک سرزمین پر نچھاور کرنے کیلئے بے خوف و خطر مقتل گاہ کی طرف بڑھ رہی ہیں ۔

27دسمبر کو ’’رازداں‘‘ بھی اپنی عظیم اور نامور لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ عقیدت میں انکی گاڑی کے ساتھ ساتھ پیدل رہا تھا کہ اچانک وہ منحوس لمحہ آن پہنچا جب بی بی شہید تمام حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے پارٹی کے جیالوں کے نعروں کا جواب دینے کیلئے اپنی گاڑی کے سن روف میں کھڑے ہو کر ہاتھ ہلا ہلا کر زور دار جواب دے رہی ہیں سفاک قاتلوں ، یزید قوتوں کے نمائندوں ، جمہوریت کے دشمنوں اور ڈکٹیٹروں کے پروردہ ایجنٹوں نے اس موقع کو ان کی زندگی کا چراغ گل کرنے کا بندوبست کر دیا ’’رازداں‘‘ نے بی بی شہید پر گولیاں چلتے دیکھا اور ساتھ ہی خود کش دھماکہ اس قدر قیامت خیز تھا کہ ہر طرف انسانی عضاء اور خون ہی خون تھا مگر ہر ایک کارکن کو اپنی نہیں اپنی بہن اور ماں شہید محترمہ اور ماں شہید بے نظیر بھٹو کی زندگی عزیز تھی ۔1986ء سے میری جناب بھٹو خاندان کے ساتھ جو لازوال انمنٹ محبت شروع ہوئی وہ ہر سردو گرم میں جاری رہی اور یوں 27دسمبر کی اس منحوس گھڑی میں ہماری شہید بی بی ہمیں تنہا چھوڑ گئیں ۔ بقول شاعر
جو رکے تو کوہ گراں تھے جو چلے تو جان سے گزر گئے
راہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے نامور والد گرامی شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ہر سطح کے کارکنوں سے لازوال محبت اور عقیدت کرنے والی شخصیات تھیں ایک ایک نظریاتی اور وفادار جیالے کارکن کا نام اور اس کی معاشی و معاشرتی حالت کے بارے میں انہیں مکمل آگاہی ہوتی تھی کسی بھی ملاقات میں شہید بی بی نے کبھی نام کے بغیر مخاطب نہیں کیا اور یہ سب کچھ بی بی شہید کو اپنے عظیم والد بھٹو شہید سے ورثے میں ملاتھا اپنی طویل ترین جلا وطنی اور بکھرے ہوئے خاندان کے باوجود پارٹی کارکنوں سے بی بی شہید کا رابطہ کبھی کمزور نہیں ہو سکا اور ہر کارکن یہ سمجھتا ہے کہ جیسے وہی ان کے زیادہ قریب تھا بھٹو شہید اور بی بی شہید نے ہمیشہ اپنے کارکنوں کو عزت نفس سے نوازا ۔

آج محترمہ بے نظیر شہید کے بارے میں لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آرہا ہے ہاتھ اور ذہن میں ربط نہیں کے تحریر کیا لکھوں آنکھیں ویران ہیں دل پریشان ہے دنیا بھر نے دیکھا کے تمام میڈیا چینل نے وطن عزیز پاکستان کی عظیم لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی تاریخی اور تاریخ ساز جدوجہد کے حوالہ سے خصوصی نشریات دیکھائیں ’’رازداں‘‘ اپنے 27سالہ سیاسی زندگی کے تلخ تجربے کے حوالہ سے یہ کہنے میں کوئی آڑ محسوس نہیں کرتا کہ عالمی سطح پر جو شہرت اور عزت اور مقام محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو بخشی گئی ایسی تاریخی شہرت بہت کم عالمی لیڈر کو میسر آسکی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی شہادت عالم اسلام کی تاریخ کا وہ عظیم المیہ ہے جو لفظوں میں بیان کرنا میرے لیے نہایت ہی مشکل ہے بلا شبہ بی بی شہید چاروں صوبوں ، آزاد جموں وکشمیر ، گلگت بلتستان ، مقبوضہ جموں وکشمیر اور بیرون ملک عالمی لیڈر تھیں ۔ پاکستانی عوام کی تقدیر ان سے منسوب تھی آپ کی شہادت پاکستان قوم کیلئے ایک ایسا دھچکا ہے جس سے سنبھلا کسی کیلئے بھی آسان نہیں ہے ۔ بے نظیر بھٹو شہید عوام کی امنگوں کی ترجمان ، امیدوں اور خوابوں کا محور و مرکز تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کروڑوں ، مزدوروں ، کسانوں ، طالب علموں ، ہاریوں ، محنت کشوں اور غریب عوام کی مقبول ترین قائد تھیں عوام سے اپنی لازوال محبت اور جذباتی لگاؤ ہی انہیں نعروں کا جواب دینے کیلئے اپنی گاڑی سے باہر نکلنے پر مجبور کر بیٹھااور پاکستانی عوام کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی قربانی رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی ۔
یہ بازی خون کی بازی ہے یہ بازی تم ہی ہارو گے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے
Humayun Zaman Mirza
About the Author: Humayun Zaman Mirza Read More Articles by Humayun Zaman Mirza: 10 Articles with 12067 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.