جوں توں کر کے آصف علی زرداری نے اپنی حکومت کے
پانچ سال پورے کر ہی لیے۔فروری 2008میں پیپلز پاڑٹی کے حکومت سنبھالنے کے
بعددوسری تمام جماعتوں کے راہنماﺅں کا خیال تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی
اپنی حکومت کے5سال بھی پورے نہیں کر سکے گی مگر ایسا نہ ہوا اورصدر آصف علی
زرداری نے اپنی حکومت کی مدت پوری کرتے ہوئے ان تمام رہنماﺅں کے منہ پر زور
دار طماچہ مارا جو کہتے تھے کہ زرداری تو اپنی حکومتی مدت بھی پوری نہیں کر
سکیں گے۔ایسا تاثر رکھنے والے لیڈران میں سے زیادہ کا تعلق پاکستان مسلم
لیگ نواز سے تھا اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں مسلم لیگ زور و شور سے
عوام کی فلاح کے لیے نئی نئی سکیموں کا اجراءکرتی رہی جیسے سستی روٹی
سکیم،ییلو کیپ سکیم،لیپ ٹاپ اور اجالہ سولر سسٹم سکیم وغیرہ۔اس تمام سکیموں
کا مقصد صرف ووٹ حاصل کرنا تھا جس میں مسلم لیگ نواز کامیاب رہی۔صدر آصف
علی زرداری کے پاس ایک زبر دست ٹیم موجود تھی جس کی نگرانی میں صدر زرداری
نے اپنی حکومتی مدت پوری کی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ زرداری دور میں مہنگائی
میں کافی اضافہ ہوا،بے روزگاری بھی بڑھ گئی اور امن و امان کی صورت حال بھی
ٹھیک نہ رہی۔پاکستان پیپلز پارٹی نے غریب خاندانوں کی امداد کے لیے اپنے
دور حکومت میں بے نظیر انکم سپورٹ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا جس
میں غریب خاندانوں کو ہر ماہ ایک ہزار روپیہ بھیجا جاتا تھا جو کہ ایک بہت
بڑی بات ہے کیونکہ ایسی سکیم پہلی دفعہ عوام کے لیے پیپلز پارٹی نے شروع کی
اس سے پہلے آج تک مسلم لیگ یا کوئی اور جماعت ایسی سکیم متعارف نہ کرا سکی
جو غریب لوگوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔
صدر آصف علی نے جیسے احسن طریقے سے حکومت کو چلایا شاہد اب نواز شریف اس
طرح نہ چلا سکیں اور ان کا اپنی حکومتی مدت پوری کرنا تو بہت مشک ہو گا
کیونکہ حکومت سنجھالتے ہی نشانیاں واضح کر دی ہیں جن سے معلوم ہو رہا ہے کہ
عوام ان کو جلد ہی سڑکوں پر گھسیٹے گی ۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں شہباز
شریف نے کہا تھا کہ جب ہماری حکومت آئی تو آصف زرداری کو یم سڑکوں پر
گھسیٹیں گے اور عوام سے لوٹی ہوئے تمام دولت آصف زرداری ست واپس کریں گے
مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا کیونکہ شریف برادران نے ہمیشہ جو وعدہ کیا اسے
ہوا میں اُرا دیا کیونکہ وعدے پورے کرنا ان کی عادت ہی نہیں ۔وعدہ پورہ نہ
کرنے کے متعلق ایک اور واقعہ بیان کرتا ہوں۔زرداری کے دور حکومت میں نواز
لیگی رہنما نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ موبائل میں100روپے کے ریچارج پر
15روپے زرداری ٹیکس لگا ہوا ہے ہم اقتدار میں آ کر اس زرداری ٹیکس کا ضاتمہ
کریں گے۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ مسلم لیگ کے اقتدار میں آتے
ہی زرداری ٹیکس 15روپے سے بڑھ کر 34ہو گیا مگر اب زرداری ٹیکس نہیں بلکہ
نوا شریف ٹیکس ہو گیا جو کہ عوام پر ایک بوجھ ثابت ہو گا۔اسی طرح جو عوام
دوست بجٹ بنایا گیا ہے وہ تو آپ کے سامنے ہی ہے جس کے متعلق ایٹمی سائنسدان
ڈاکٹر عبدلقدیر خان نے کہا کہ لنڈا بازار سے ڈگریاں خریدنے والوں نے بجٹ
بنایا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جیسے ایک کلرک ٹرین نہیں چلا سکتا اسی طرح
ایک اکاﺅٹنٹ بھی بجٹ نہیں بنا سکتا۔اس سے اچھے بجٹ تو زرداری دور میں پیش
کیے جاتے رہے کیونکہ زرداری کے دور حکومت میں ہر بجٹ پر عوام خوش نظر آئی
اور کسی قسم کا کوئی احتجاج نہیں ہوا مگر میاں نواز شریف کے پہلے ہی عوام
دوست شریف بجٹ نے عوام کا پسینہ نکال دیا اور سرکاری ملازم احتجاج کرنے پر
مجبور ہو گئے جس کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکتے
ہوئے سرکاری ملازمیں کی تنخواﺅں میں10فیصد اضافے کا اعلان کر دیا۔
اسی طرح میرٹ میڑٹ کی باتیں کرنے والوں نے بیکری ملازم تشدد کیس کی طرح
اپنی ایم پی اے نگہت شیخ کو بھی بچا لیاجس نے پچھلے دنوں بس ہوسٹس کو تھپڑ
مار کر اُسی کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا تھا۔اسی طرح نجم سیٹھی کیسے میڑٹ پر
آ گئے جنہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کا عبوری چیئر مین بنا دیا گیا انہیں سے
کرکٹ کی الف ب تک کا نہیں علم۔ایک ایسا شخص جو شروع سے ہی شعبہ صحافت میں
رہا اورٹاک شوز کی میزبانی کرتا رہا وہ کرکٹ بورڈ کو کیسے چلا سکے گا؟یہی
شریف برادران صاحب کا میرٹ ہے۔
الیکشن سے پہلے اے طاہر لاہوتی جیسے نعرے مارنے والوں نے وعدہ کیا تھا کہ
ہم اقتدار میں آتے ہی سیاستدانوں کے اخراجات کم سے کم کر دیں گے اور عام
آدمی کو ریلیف دیں گے مگر یہ سب جھوٹے وعدے تھے جس کی واضح مثال بیان کرتا
ہوں دو دن پہلے روزنامہ دنیا میں رﺅف کلاسرا کی ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں
بیان کیا گیا کہ پارلیمنٹ میں سیاستدانوں کو روزانہ دوپہڑ کا کھانا اور شام
کی چائے پیش کی جاتی ہے جس سے نہ صرف اسمبلی میں بیٹھے لیڈران ہی مزے کرتے
ہیں بلکہ ان کے دوست اور رشتہ دار سب شامل ہوتے ہیں ۔رپورٹ میں مزید کہا
گیا کہ کھانے کا ایک دن کا خرچہ 5لاکھ ہے اور مہینے تک کا 5 کڑوڑ صرف
سیاستدانوں کے ایک وقت کے کھانے پر خرچ ہوتا ہے۔
اب اگر نوا ز شریف کی حکومت کے پہلے چند دنوں سے ہی موازنہ کر لیا جائے تو
صاف معلوم ہو رہا کہ مس مینجمنٹ کا مظاہرہ کیا گیا جیسے کہ وزارتوں کی بندر
بانٹھ ہوئی۔ناقابل لوگوں کو ایسی ایسی وزارتیں دی گئی جن کے متعلق وہ بالکل
تجربہ ہی نہیں رکھتے جیسے کہ سعد رفیق کو ریلوے ،شاہد خاقان عباسی کو
پیٹرولیم اور اسحارق ڈر کوخزانہ کی وزارت دی گئی بات ڈاکٹر عبدلقدیر خان
والی ہی ہے کہ ایک اکاﺅنٹنٹ کیسے وفاقی بجٹ بنا سکتا ہے اسی طرح سعد رفیق
کیسے ریلوے چلائے گا جس نے لاہور سے پنڈی تک ریل میں سفر کیا مگر اسے کانوں
کان تک خبر نہ ہوئی کہ اس کے اس دورے پر حکومتی خزانے کو 10لاکھ کا بوجھ
اٹھانہ پڑا جو ساتھ چالیس سرکاری افراد نے سفر کرنے کا ٹی اے ڈی اے وصول
کیا۔مینجمنٹ کے حوالے سے صدر آصف علی زرداری نے نہایت محارت کا مظاہرہ کرتے
ہوئے وزارتوں اچھے طریقے سے کی تھی مگر نواز شریف کی حکومت میں تو آوے کا
آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔اگر نواز شریف نے عوام کی فلاح کے لیے کام نہ کیے تو
تاریخ گواہ ہے ایسے سیاستدان پل میں روند دیئے جاتے ہیں کیونکہ ایوانوں سے
زیادہ طاقت عوام کے پاس ہوتی ہے۔ |