بلوچستان میں لاشوں کا سلسلہ کب تک؟ اسکا حل اور زمہ دار کون؟

بلوچستان میں جنوری 2013ءسے ابتک کم از کم 70سے زائد دھماکے ہوئے ہیں جس میں 270 سے زائد افراد لقمہ اجل ہوئے ہیں اور 600 سے زائد شدید زخمی ہوئے ہیں ۔ بلوچستان میں امن کا قیام صوبائی و مرکزی حکومت کے لئے امتحان بنتا رہتا ہے ۔ کوئٹہ کو متعد بار خون میں نہلایا گیا اور شہری اپنی حالت پر خود ہی رہتے رہے ہیں۔

15جون 2013ءکو پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی آخری آرام گاہ قائد اعظم ریذیڈنسی بمقام زیارت بلوچستان کو 4 دھماکوں سے تباہ کیا گیا جس سے مکمل عمارت اور قائد اعظم کے زیر استعمال اشیاءخاکستر ہو گئے۔اسی دن دوسری جانب سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی کے بس میں دھماکہ ہوا اور بولان میڈیکل ہسپتال میں دھماکوں اور فائرنگ سے ڈپٹی کمشنر سمیت 14 طالبات، ایک ڈاکٹر، 4 نرس، چار اہلکاروں سمیت تقریباََ 26 افراد شہید جبکہ اسسٹنٹ کمشنر اور 22 طالبات ، سیکورٹی افسر ، ڈی ایس پی، سب انسپکٹر ، صحافی اور ڈاکٹر سمیت 55 افراد زخمی ہوئے تھے۔ بولان ہسپتال جو بلوچستان کا سب سے بڑا ہسپتال ہے میں دہشت گردوں نے ایمرجنسی میں ڈاکٹروں اور دیگر لوگوں کو یرغمال بنا یا تھا ۔ بعدازاں شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی نے دھماکے اور ہسپتال میں حملے کی زمہ داری قبول کی تھی۔
شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
لاشیں گرنے کا یہ سلسلہ کب رکے گا
مو ت کا یہ رقص کب تھا مے گا

بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ کی نامزدگی بلوچستان کی تاریخ میں نئی سیاسی تبدیلی ہے کیونکہ اس سے قبل تمام وزراءاعلیٰ کا تعلق نواب ، سردار گھرانے سے تعلق رہا ہے ۔پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے بھائی سابق سینئر بیو رو کریٹ محمد خان اچکزئی کو گورنر بلوچستان نامزد کر دیا گیا ہے ۔بلوچستان میں ایک نئی سیاسی تاریخ رقم ہونے کو ہے ۔ پہلی بار وہاں کسی سردادر یا نواب کے بجا ئے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے قوم پرست رہنما ڈاکٹر عبد المالک بلوچ جن کا نیشنل پارٹی سے ہے کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بلحاظ رقبہ سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے وزیر اعلی ٰ کے عہدے کے لئے نامز د کیا گیا ہے ۔ گو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا تعلق صوبہ بلوچستان میں نسباََ کم نشستیں حاصل کرنے والے قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی سے ہے ان کی ارکان صوبائی اسمبلی بلوچستان 10 ہے اور جبکہ نیشنل اسمبلی پاکستان میں2ہے ۔ باقی صوبوں میں سندھ ، پنجاب ، کے پی کے میں کافی حلقوں سے امیدوار کھڑے تھے مگر پارٹی ووٹ بنک نہ ہونے کی وجہ کہیں سے بھی کوئی نشست حاصل کرنے میں ناکام ہی رہے جبکہ بلوچستان میں تیسری بڑی پارٹی کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے انھیں وزارت اعلیٰ کے لئے نامزد کای ہے ۔ بلوچستان کے مسائل کے مسائل پر سخت گیر موقف رکھنے والی قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی بلوچستان کے دس سالوں سے سلگتے مسائل حل کر پائیں گے ؟ یہ ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے۔

بلوچستان کی حکومت کی پارٹی کے نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹر ی سینٹر میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی سب سے پہلے بلوچستان کے مسئلے کے اہم فریق یعنی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے ۔

نواز شریف سے ہم نے بات کی ہے کہ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں اور لاشوں کو انتہائی متاثرہ کر کے ناقابل شناخت بنانے کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند کرنے کا دیمانڈکیا ہے جس پر نواز شریف نے بھی نظر ثانی کرنے کا ہے-

ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا ہے کہ میرے کافی دوستوں کے والد ، کافی دوستوں کے بچے بھی مسنگ ہیں ۔

ہم عسکری قیادت بات کرنے کی کوشیش کریں گے۔نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی و معروف قوم پرست ممتاز رہنماءمیر خالد خان لانگو کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے گلہ ہے کہ وہ ہمیں بلوچ ہونے کی سزا دیتے ہیں یا بلوچ قوم پر بلوچ ہونے کی وجہ سے مظالم کرتے ہیں ۔ بلوچستان میں گزشتہ سال سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک اہم ترین اور تاریخی سیمنار منعقد کیا تھا جس میں پاکستان کے مامور وکلاءصحافی اور بلوچستان کے تمام قوم پرست جماعتوں اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے نمائندگان نے شرکت کی تھی جس میں نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ،پاکستان کے معروف صحافی و پی ایف یو جے PFUJ کے سیکرٹری جنرل میاں رفعت قادری،ن لیگ کے صوبائی صدر نواب ثناءاللہ زہری،پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے ایاز جو گیزئی،پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر صادق عمرانی،جمعیت علماءاسلام کے حافظ حمداللہ، نیشنل پارٹی کے نواب محمد خان شاہوانی، ٹکری شفقت اللہ لانگو،بلوچستان نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، سپریم کورٹ بار کے صدر یاسین آزاد،انسانی حقوق کی رہنماءعاصمہ جہانگیر، نیشنل پارٹی کے عبدالحئی بلوچ ،جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر عبدالمتین اخوندزادہ،جمعیت علماءاسلام نظریاتی مولانا قادر لونی،پاکستان مسلم لیگ ن کے جنرل (ر) عبد القادر بلوچ،ائس فار مسنگ کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ،معروف قانون دان علی احمد کرد ، بلوچستان بار کے صدر ظہور شاہوانی،مسلم لیگ ق کے شکور مری و دیگر نے خطاب کیا تھا۔کانفرنس کی اختتام پر جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ آئندہ انتخابات کو شفاف بنائے بغیر مرکز اور صوبے کے مابین خلیج کو کم نہیں کیا جا سکتا ، ریاستی اداروں کی انتخابات میں مداخلت تشدد کو فروغ اور مسئلے کو مزید الجھادے گی، بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی لاشیں مل رہی ہیں، ایف سی اور خفیہ اداروں کی موجودگی کے باوجود بلوچستان میںامن قائم نہیں ہوا ۔

ہر دن خون بہایا جا رہا ہے ، ایف سی اور پولیس کے جوانوں کی جانیں بھی ضائع ہو رہی ہیں ، بلوچستان میں سیکورٹی فورسز اور خفیہ ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں حالات درست ہونے کے بجائے مزید خراب ہو رہے ہیں جو عام شہریوں اور پاکستان کے لئے نا زیبا ہے ۔

سپریم کورٹ بار کی پر وقار و تاریخی تقریب کے بعد بھی وقت کے حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑا اور بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے نظر اندازی سے کام لیا گیا ۔ اگر حکومت ناراض بلوچ رہنماو ¿ں کی تمام مطالبات تسلیم کرتی ہے تو ممکن ہے کہ بلوچستان میں پہاڑوں پر جانے والے تمام بلوچ رہنما واپس سیاسی جدوجہد کی طرف گامزن ہو سکتے تھے ۔ درحقیقت کسی ناراض بلوچ نوجوان کی مسخ شدہ لاش اگر اس کے گھرپہنچ جاتا ہے جو ناقابل شناخت ہو تو اس گھر کے باقی نو جوانوں پر کیا اثرات مرتب ہو نگے اس کا اندازہ لگا نا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لئے موسم کو خوشگوار بنائے تمام لاپتہ بلوچ حضرات کو عدالتوں میں پیش کرے ،تحقیقات کروائے اور قانونی طرز استعمال کرے ۔ لاشوں کو مسخ شدہ کر کے پھینکنے کے بجائے ان کی احترام کرے تاکہ بلوچستان کے 75% فیصد بلوچوں کی مظاکرات کے لئے کم از کم حوصلہ بلند ہو تاکہ بلوچستان کو مسئلہ آرام کے ساتھ حل ہو جائے۔

پاکستان کے سیکورٹی فورسز بلوچوں کو اٹھاتے اور مسخ شدہ لاشیں پھینکتے رہیں گے تو ناراض بلوچوں ( جو پہاڑوں میں ہیں) کی طرف سے پاکستان کی رٹ کو ماسوائے چیلنج کے کوئی راستہ بھی نہیں بچتا ہے اسی لئے " کٹو یا کاٹو " کی پالیسی چل رہی ہے۔ بحرحال بلوچستان میں میاں نواز شریف کے لئے اہم چیلنجز ہیں کیونکہ اس کے ساتھ کافی بلوچوں نے اکھٹے سیاست کیا ہے۔ سردار ثناءاللہ زہری، نواز زادہ چنگیز مری، جنرل (ر) قادر بلوچ سمیت کئی اہم رہنما ءاس کی جماعت میں ہیں۔

بلوچستان کی صوبائی حکومت کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک بلوچ اور اس کی ٹیم کے لئے انتہائی زیادہ چیلنجز ہیں کہ بلوچ ہونے کے ناتے اور بلوچستان مسئلے پر سخت اور قائم شدہ موقف رکھنے والی نیشنل پارٹی کیا خدمات سر انجام دیتی ہے؟

دیکھاجا ئے تو ناراض بلوچوں کی طرف سے بیانات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کے حالات کی زمہ دار پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور خفیہ ادارے ہیں جو بلوچستان مشن کی تمام کمانڈ سنبھالے ہوئے ہیں ۔ ان کو لگامدینے کی ضرورت ہے کہ بلوچوں کے ساتھ انسانی سلوک اختیا ر کریں ان کی گھروں میں مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ اور اغوا نما گرفتاری کا سلسلہ بند کریں تو حالات کسی حد تک خوشگوار ہو سکتے ہیں۔

Asif Yaseen
About the Author: Asif Yaseen Read More Articles by Asif Yaseen: 31 Articles with 27280 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.