’’اگر بھاگوت اور مودی آر ایس
ایس اور بی جے پی چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہوجائیں تو کیا وہ بھی سیکولر
قرار دئیے جاسکتے ہیں؟ یہ سوال میرے ایک دوست نے وزیر اعظم من موہن سنگھ کے
اس بیان کے بعد کیا تھا جس میں انہوں نے وزیر اعلیٰ بہار نتیش کمار کو این
ڈی اے سے الگ ہوجانے کے بعد سیکولر قرار دیا تھا۔ میرے لئے اس اس سوال کا
جواب دینا آسان نہیں ہے۔ میں ہی کیا ہر ایک کے لئے اس سوال کا جواب دینا
آسان نہیں ہے۔ اگر میں ہاں کہتا ہوں تو سیکولرازم کا تصور ہی کچھ سے کچھ
ہوجائے گا اگر نہیں کہتا ہوں تو پھر ان ہندوتوا کے علمبرداروں جو بی جے پی
اور شیوسینا چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہوئے۔ کی حیثیت (بہ اعتبار نظریات)
کے آگے سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ کیونکہ جس طرح پانی کو جس کسی شکل کے برتن
میں ڈالا جاتا ہے وہ اسی کی شکل اختیار کرلیتا ہے اسی طرح کسی بھی قسم کے
نظریات پر ایقان رکھنے والا کانگریس میں آخر کانگریسی بن جاتا ہے اور ہر
کانگریسی کو سیکولر کہنا اتنا ہی ضروری ہے۔ جتنا کہ سونیا گاندھی کو ہر
معاملہ میں آخری فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہونے کو تسلیم کرنا ہے۔ گویا
کانگریس پر سونیا گاندھی کی حکمرانی کے بغیر کانگریس کا تصور ممکن نہیں تو
کانگریس کا ہی نہیں بلکہ ہر کانگریسی کا سیکولر ہونا امرلازم ہے۔ کل کوئی
جو بھی رہا ہو وہ آج کانگریسی ہے تو یہی اس کے سیکولر ہونے کی دلیل ہے۔
کانگریس میں آزادی سے بہت پہلے سے ہی اس کلچر کا رواج رہا ہے کہ سیکولر اور
قوم پرست صرف کانگریسی ہوتا ہے ۔ غیر کانگریسیوں کو خواہ وہ کسی مذہب سے
تعلق رکھتے ہوں نہ سیکولر مانا جاتا ہے اور نہ ہی جنگ آزادی میں ان کی
خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کانگریس میں رہتے ہوئے کانگریس کی
پالیسی سے انحراف یا مخالفت کرنے والوں کو وہ مقام نہیں دیا جاتا ہے جس کے
وہ مستحق ہیں اس سلسلے میں سبھاش چندربوس، مولانا محمد علی جوہر مرحوم اور
راج گوپال چاری کے نام لئے جاسکتے ہیں اور ماضی کے بعض بڑے بڑے کانگریسی
قائدین کے سیکولرازم کے آگے سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں جن میں سے اکثر سے
ہمارے قارئین واقف ہی ہیں تاہم محض مثال یا نو عمر قارئین کی خاطر ملک کے
پہلے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کا نام لینا یوں
ضروری ہے کہ نریندر مودی ان کا ایک شاندار مجسمہ بنوانے کا منصوبہ بنارہے
ہیں اور آج کل وہ ان کے قصیدے پڑھ رہے اور خود کو وہ سردار پٹیل سوم ثابت
کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہوگا کہ سردار پٹیل کی طرح خود کو مرآہن
یا سردار ثانی ثٓبت کرنے کا شوق تو اڈوانی کو بھی تھا۔ اب آپ ہی اندازہ
کریں کہ جن سردار پٹیل کے مداح اور مقلد اڈوانی اور مودی ہوں وہ کیسے
سیکولر رہے ہوں گے؟ تو جس کانگریس کے سیکولرازم کا یہ معیار ہو وہ کیسا
سیکولرازم ہوگا؟
مجھے ہی نہیں لاتعداد افراد کو ہنسی اسی بات پر آتی ہے کہ کوئی بندہ بی جے
پی میں ہوتو وہ سیکولرنہیں ہے اور بی جے پی چھوڑ کانگریس میں آجائے تو وہ
اچانک سیکولر ہوجاتا ہے گجرات کے واگھیلا مہاراشٹرا کے شیوسینا سے تعلق
رکھنے والے بال ٹھاکرے کے پسندیدہ افراد سنجے نروپم اور نارائن رانے
کانگریس میں آگئے تو سیکولر ہوگئے کمال تو یہ ہے کہ شردپوار کی این سی بی
کا بھی یہی حال ہے۔ چھگن لال بھجبل ہوں یا آر آر پاٹل وزیر داخلہ مہاراشٹرا
ہوں یہ بھی این سی پی میں آکر سیکولر ہوگئے۔ ان دونوں کی کارکردگی اور
مسلمانوں سے ان کا سلوک اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کیسے اور کس قسم کے سیکولر
ہیں؟ مسلم دشمنی اور ہندوتوا کے نظریات کو دل و دماغ سے مان کر اس پر عمل
کرنے والے بڑی آسانی سے کانگریس میں آکر سیکولرزم کا لبادہ اوڑھ کر ہندوتوا
کے علمبردار بنے رہنے والوں کی کانگریس میں اکثریت ہے۔
نتیش کمار 17 سال بی جے پی کے حلیف رہے اور بی جے پی سے ناطہ توڑ لیا تو وہ
نہ صرف اچانک سیکولر ہوگئے اور وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ان کو سیکولر
ہونے کا صداقت نامہ بھی جاری کردیا کمال ہے کہ مودی کے ساتھ مل کر وزیر
ریلوے کی حیثیت سے گودھرا اسٹیشن پرسابھرمتی اکسپریس کی بوگی 6کو جلانے کی
ساز ش اور اس سازش کے ثبوت مٹانے اور عمداً تحقیقات سے گریز اور مودی سے
تعاون کرنے والے نتیش کو منموہن سنگھ این ڈی اے سے علاحدگی پر سیکولر قرار
دیتے ہیں یہی نہیں بہار میں سوشیل مودی جیسے گٹر ہندتوا دی کے ساتھ سالوں
سے کام کرنے والے اور اسکولوں میں ’سوریہ نمسکار ‘ جیسے بھجن کو پڑھائے
جانے کا حکم دینے والے نتیش کو سیکولر کہنا سیکولرازم کی توہین ہے یہ تو
ایسی بات ہوئی کہ اسلام دشمن اوبامہ خود کو مسلمانوں کا ہمدرد کہہ رہا ہے۔
کانگریس جن نظریات پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتی ہے وہ محض عوام کو گمراہ
کرنا ہے آج ہم کو سنگھ پریوار ہندوتوا کا علمبردار نظر آتا ہے لیکن کل
کانگریس سخت ہندوتوا نہ سہی نرم ہندوتوا کی علمبردار تھی اور آج بھی ہے۔
اگر کانگریس حقیقی معنی میں سیکولرازم پر عمل پیرا ہوتی تو آج سنگھ پریوار
اتنا طاقت ور اور بااثر نہ ہوتا! آر ایس ایس، ہندومہا سبھا، جن سنگھ، بی جے
پی کا وجود اور فروغ کانگریس کا مرہون منت ہے۔ فرقہ پرستی، مسلمانوں کو کسی
حق اور مراعات کا مستحق نہ سمجھنا ہی خرابیوں کی جڑ رہی ہے اور آج بھی یہی
حال ہے کانگریس کی دوسری بڑی کمزوری اس کی اقتدار سے محبت ہے۔ کانگریس ہر
حال میں تن تنہا اقتدار میں رہنا چاہتی ہے۔ کانگریس کو کسی کی اقتدار میں
شرکت پسند نہیں ہے۔ آزادی سے پہلے اگر کانگریس 1946ء کی عارضی حکومت میں
مسلم لیگ کے ساتھ گذارہ کرلیتی تو ملک تقسیم نہ ہوتا۔ آزادی کے بعد بھی
مرکز اور مختلف ریاستوں میں جتنی حکومتیں کانگریس نے اپنی حمایت واپس لے کر
گرائیں ہیں وہ خود اپنی جگتہ ریکارڈ ہے۔ کانگریس کے پاس سوشلزم (وہ تو خیر
اب رہا نہیں) حال نہ سہی ماضی میں اس کی قدر و قیمت تھی۔ یا سیکولرازم اور
دیگر جمہوری اصول کانگریس کیا آج کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔ کانگریس کو اگر
اپنے نظریات اور اصولوں پر یقین ہوتا یا وہ ان کی قدر کرتے ہوئے ان پر مکمل
عمل کرتی اور اگر کانگریس ایسا کرتی تو پھر واگھیلا، نارائن رانے، سنجے
نروپم، بھجبل اور کئی دوسرے کانگریس میں شامل نہیں ہوتے اسی قسم کے اہم
اصحاب کی فہرست میں تلگودیشم سے وابستہ رہی۔ رینوکا چودھری بھی ہیں
آندھراپردیش کے فلم اسٹار چرنجیوی بھی شامل ہیں اس طرح اب کانگریس کا یہ
حال ہوگیا ہے کہ کسی بھی پارٹی کا کوئی بھی شخص خواہ وہ کسی نظریہ کا حامل
ہو اگر وہ سیاسی ماحول میں کسی اہمیت یا مقام کا حامل ہے تو وہ جب چاہے
کانگریس کا رخ کرسکتا ہے اور کانگریس میں اس کا خیر مقدم بھی لازمی ہے۔ اب
کل اگر کوئی بی جے پی یا شیوسینا سے کانگریس میں آجاتا ہے اور مان لیں کہ
وزیر داخلہ بن جاتا ہے تو کیا وہ وزیر داخلہ بن کر وہی نہیں کرے گا جو
گجرات کے سابق وزیر داخلہ امت شاہ نے کیا تھا۔ کانگرے کے وزرائے داخلہ خواہ
وہ مرکزی حکومت کے ہوں یا کسی ریاستی حکومت کے ان کی بھاری اکثریت وہی کرتی
رہی ہے جو بی جے پی کے وزرا کرتے رہے ہیں۔ شیوراج پاٹل، شندھے اور چدمبرم
کا مسلمانوں کے معاملات میں اڈوانی سے مختلف نہیں ہیں بلکہ سقوط حیدرآباد
کے بعد مرحوم نظام ہفتم کی مسلم رعایا کے ساتھ اس وقت کے وزیر داخلہ سردار
پٹیل نے جو سلوک ہونے دیا وہی اڈوانی بھی کرتے! کانگریسی حکومتوں نے آزادی
کے بعد جمشید پور، بھیونڈی، روڈکیلا، راچی، مرادآباد اور میرٹھ میں جو
جانبدارانہ رویہ اختیار کیا تھا اسی کو مودی نے گجرات میں 2002ء میں اختیار
کیا تھا پس معلوم ہو ا کہ کانگریس کو سیکولرازم پر ایقان ہوتا وہ ان کو
اہمیت دیتی تومنموہن سنگھ نتیش کار کو سیکولر نہ کہے اور واگھیلا سنجے
نروپم اور بھجبل کے ہندوتوا دیوں کا کانگریس میں خیرمقدم نہیں کیا جاتا! |