بسم اللہ الرحمن الرحیم
وہ ایک زندہ جاگتا شخص تھاجسے آگ کے سرخ شعلوں نے اسے لپیٹ رکھا تھا اس کی
چیخوں سے شاید پتھر سے بھی ذیادہ سخت دل رکھنے والوں کو موم کر دیتی لیکن
بھرے مجمع میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو اس کو آگ سے بچا لیتا اس کے ارد
گرد پولیس کا بھی ایک ہجوم تھا لیکن وہ سب خاموش کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے
بلکہ شاید وہ اس منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے انسانیت اس منظر کو دیکھ کر
شرما رہی تھی تھوڑی ہی دور کچھ لوگ دوکانوں اور گھروں کو لوٹ کر انہیں نذر
آتش کر رہے تھے یہ بدنصیب بھی شاید اسی بستی کا مکین تھا جسے نذر آتش کیا
جا رہا تھا ،اس کا جسم جل کر سیاہ ہو رہا تھا ، مجمع میں سے شاید کسی کو اس
پر رحم آگیا کہ ایک آواز آئی ”اس پر پانی ڈالو“ یہ آواز تھی کہ ایک دم سب
خاموش ہو گئے لیکن اسی خاموشی کو توڑتے ہوئے ایک اور آواز آئی ”کوئی پانی
نہیں اس کے لیے اسے مرنے دو“۔ آگ لگی بستی میں سے ایک اور نوجوان آگ سے
بچنے کے لئے باہر نکلتا ہے اور وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن
ہجوم اسے قابو کر لیتا ہے اور آگ لگی بستی میں سے نکلنے کے جرم کی سزا
مارنے اور پیٹنے کی شکل میں ملتی ہے جب مار مار کر ہجوم تھک جاتا ہے تو ایک
بدھ بھکشو آگے بڑھتا ہے اس کے ہاتھ میں تلوار ہے اپنا پورا زور لگاتے ہوئے
وہ تلوار سے کئی وار کرتا ہے اور بدحال نوجوان کی سانسیں اس کا ساتھ چھوڑ
دیتی ہیں جب ہجوم کو یہ تسلی ہو جاتی ہے کہ اس نوجوان میں زندگی کی سانسیں
باقی نہیں رہیں تو وہ تسلی کے ساتھ یوں آگے بڑھ جاتے ہیں جیسے کسی درندے کو
ختم کیا ہو۔اس نوجوان کا یہ انجام دیکھ کر بہت سے لوگ آگ میں ہی زندہ جل
گئے ان چیخیں آہستہ آہستہ اس ہجوم کے نعروں میں دب گئیں ، آپ سوچ رہے ہوں
گے کہ شاید یہ کسی فلم کا منظر ہے نہیں ہر گز نہیں یہ اسی دنیا کا ایک
حقیقی منظر ہے جہاں میڈیا آزاد ہے ، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سینکڑوں
این جی اوز کام کر رہی ہیں ، انسان تو بہت دور کی بات ہے اگر کہیں جانوروں
پر بھی ظلم ہو تو دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو جاتے ہیں ان کے تحفظ کے لئے
دنیا کی تمام تنظیمیں سڑکوں پر آجاتی ہیں اور جب تک انہیں یہ یقین دہانی نہ
کروائی جائے کہ ان کو مناسب سہولتیں دی جائیں گی یہ لوگ گھروں کو واپس نہیں
جاتے۔ لیکن اس انسانیت سوز پر نہ تو عالمی تنظیموں کی جانب سے کوئی آواز
بلند ہوتی ہے نہ میڈیا میں ان کو جگہ ملتی ہے ۔ یہ مناظرکسی دنیا کے کسی
ایسے خطے کے نہیں بلکہ سب سے بڑی سیکولر ریاست بھارت ، بنگلہ دیش اور تھائی
لینڈ کے بیچ میں ایک چھوٹی سی ریاست برما کے قصبے میں رونما ہوئے ان باسیوں
کا قصور صرف یہ ہے کہ یہ مسلمان ہو کر آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں
پندرہویںصدی عیسوی میں خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں یہاں چند تاجروں کے
ذریعے اسلام کی روشنی پہنچی اور پھر برما میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی
تعداد نے اسلام قبول کر لیا برما میں بدھ بھکشوﺅں کی حکومت نے اسلام کو
اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس خطے پر قبضہ کر کے اس کا نام میانمار رکھ
دیا 1824ءمیں برطانیہ نے اس پر قبضہ کر لیا اور پھر 1938ءمیں اسے آزاد کیا
گیا لیکن اس کے باوجود مسلمان امن کے مذہب کے داعی بدھ بھکشوﺅں کے رحم و
کرم پر زندگی گزار رہے ہیں اور اس نام نہاد آزادی کے باوجود لاکھوں مسلمان
اپنی اصل شناخت سے محروم ہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ”مسلم مٹاﺅ“
پالیسی کا آغاز کیا گیا اور مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اس علاقے سے
ہجرت کر جائیں ان کے ساتھ جانوروں سے بھی ذیادہ بد تر سلوک کرنے کی وجہ سے
پانچ لاکھ کے قریب مسلمان ہمسایہ ملک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے
لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ ہمسایہ ملک نے بھی ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا
تحریک پاکستان کے وقت بھی برما کے روہنگیا مسلمانوں نے پاکستان میں شامل
ہونے کی کوشش کی لیکن ان کا یہ مطالبہ رد کر دیا گیا 1962ءمیں فوجی حکومت
کے دوران مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا آغاز ہوا جب ان پر تمام سرکاری
اداروں کے دروازے بند کر دیے گئے اور پہلے سے موجود سرکاری ملازمتوں پر
فائز مسلمانوں کو برخاست کر دیا گیا 1980ءمیں ان پر حج سمیت دیگر مذہبی
اجتماعات میں شرکت پر پابندی عائد کر دی گئی اور اسی وقت انہیں برما کا
شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا اقوام متحدہ کے مطابق روہنگیا مسلمان
دنیا کی سب سے ذیادہ ستائی جانے والی قوموں میں سے ایک ہیں۔2011ءکے بعد
مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ یا اس ملک سے نکل جائیں یا پھر وہ مہاجر کیمپوں
کا رخ کریں جہاں پہلے ہی چار لاکھ سے زائد مسلمان نہایت ہی کسمپرسی کی
زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور جدیدیت کے اس دور میں جب دنیا گلوبل ولیج بن
چکی ہے روہنگیا مسلمان ان کیمپوں میں ضروریات زندگی کے لئے دن رات ترستے
ہیںحالیہ مسلم نسل کشی مہم کا آغاز گزشتہ سال مئی2012ءمیں اس وقت ہوا جب
فوج کے ہاتھوں گیارہ بے گناہ مسلمانوں کو شہید کیا گیا سرکاری سرپرستی میں
شروع ہونے والی اس مہم میں بدھوں نے ایک ایک بس کو نشانہ بنایا جس میں
مسلمان سوار تھے اور اسی دوران یہ افواہیں پھیلانا شروع کر دی گئیں کہ
حکومت نے مسلمانوں کو برما سے نکالنے کا آغاز کر دیا ہے اور جو رضاکارانہ
طور پر اپنے گھر بار چھوڑ کر جائے گا اسے سہولیات بھی دی جائیں گی اس کے
ساتھ ہی مسلمانوں کی بستیوں پر انتظامیہ کی سرپرستی میں شدت پسند بدھوں نے
حملہ کر دیا ایمنسٹی انٹر نیشنل کے مطابق ایک ہفتے میں 2000گھروں کو جلاےا
گیا ، ایک لاکھ مسلمان اس مہم کے نتیجے میں بے گھر ہو چکے ہیں اور 20,000سے
زائد کو قتل جبکہ ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی اوران بستیوں میں زندہ
جل جانے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے یہ سب کچھ ایک ایسے مذہب کے
پیروکاروں کی طرف سے کیا گیا جس کے بانی کا کہنا تھا ”بارش کے موسم میں
کوئی بھکشو گھر سے باہر نہ نکلے مبادا اس کے پاﺅں تلے برستا کے کیڑے نہ آ
جائیں “ ایسا کیوں ہے اس کی سیدھی وجہ تو یہ ہے کہ دنیا میں ستاون سے زائد
اسلامی ملک اپنی اصل شناخت کھو چکے ہیں اگر آپ ان کے وسائل کا اندازہ
لگائیں تو صرف سعودی عرب کے پاس آئل کے ذخائر دنیا کے کل ذخائر کا 25.4%ہے،
ایران ، عراق ، کویت اور دیگراسلامی ممالک اس کے علاوہ ہیں صرف مشرق وسطیٰ
میں قدرتی گیس کا ذخیرہ دنیا کے مقابلے میں 40%ہے ازبکستان اور کرغستان کا
شمار ان بڑے ممالک میں ہوتا ہیں جہاں سونے کے ذخائر موجود ہیں تاجکستان میں
المونیم کے سب سے ذیادہ ذخائر پائے جاتے ہیں اگر مسلم دنیا کے زرعی ذخائر
کا تخمینہ لگایا جائے تو مجموعی طور پر دنیا میں سب سے ذیادہ ذخائر انہی کے
پاس ہوں گے ہیومن ریسورس کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی مسلم دنیا کے پاس ہے آج
جہاں مختلف ممالک پریشان ہیں کہ ان کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے لیکن
مسلم دنیا میں یہ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ان کے پاس افرادی قوت کی کوئی
کمی نہیں ہے دنیا میں سب سے ذیادہ رقبہ مسلم ممالک کے پاس ہے دنیا میں آٹھ
بڑے ممالک ایٹمی قوت کے مالک ہیں اور ان آٹھ میں سے ایک مسلم ملک پاکستان
بھی ہے جبکہ ایران کے بارے میں بھی اطلاعات موجود ہیں کہ وہ ایٹمی قوت حاصل
کرنے کے قریب ہے لیکن ان سب کے باوجود یہ سب اتحاد و یکجہتی سے بہت دور ہیں
ان ممالک کے حکمران اور عوام میں ایک بہت بڑا خلا ہے یہ لوگ کئی فرقوں میں
بٹ چکے ہیں اور ہر فرقہ دوسرے فرقے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے یہ اسلام
کے اس آفاقی پیغام کو بھول چکے ہیں جو ان سب کو ایک لڑی میں پروتا ہے اور
جس کی وجہ سے مشرق میں کسی ایک کے پاﺅں میں کانٹا چبھنے پر مغرب کا مسلمان
پریشان ہو جائے لہٰذا دنیا کی دوسری قوموں نے ان کی خامیوں کی بنیاد پر
انہیں نشانہ بنانا شروع کر دیا او آئی سی ، اسلامی کانفرنس سمیت اسلامی
ملکوں پر مشتمل تمام تنظیمیں اپنی ہی قوم کے مسائل حل کرنے میں ناکام نظر
آئیں کیہنکہ ان کے حکمرانوں کی ڈور دوسروں کے ہاتھ میں ہے اور یہی وجہ ہے
کہ کبھی برما میں ان کی نسل کشی کی جاتی ہے تو کبھی کشمیر میں ان کا قتل
عام ہوتا ہے اسرائیل ایسا چھوٹا ملک بھی وسائل سے مالا مال عرب ریاستوں کو
آنکھیں دکھاتا ہے اور یہ سب اس کے آگے بے بس نظر آتے ہیں اقوام متحدہ میں
ان کی کوئی نہیں سنتا ، اور سنے بھی کیوں ؟؟علامہ اقبال نے تو بہت پہلے کہہ
دیا تھا کی
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات |