5 جولائی 1977ء :تاریخ کا بدترین مارشل لاء بھٹو شہید حکومت کا خاتمہ

5جولائی 1977ء کو ظالم ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کی حکومت کا تختہ الٹ دیا

5جولائی 1977ء کادن وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ایک سیاہ علامت کے طور پر یاد رکھا جائے گا بظاہر یہ ایک عام دن تھا مگر اس دن کی منفی قوتوں نے پاکستان کے 10کروڑ عوام کو گیارہ سالوں تک کرب کے بھیانک سمندر میں غرق کر رکھا پھانسی گھاٹ پر انسانی سروں کے پھول کھلتے رہے اور سیاسی کارکنوں کی پیٹھوں کوڑے لگائے جاتے رہے پاکستانی تاریخ کے صفحات مظلوموں کی جدوجہد سے بھرے پڑے ہیں کیونکہ جہاں اشکباری طاقتوں نے عوام کے حقوق کو شکجوں میں جکڑا یہ وہی ضیاء الحق تھا جس نے آگے چل کر پاکستان کے منتخب وزیر اعظم پر شب خون مارا اور ان کے پاکیزہ اور مقدس خون سے اپنے ہاتھوں کو آلودہ کیا فوجی ڈکیٹر جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی مسلح فوجی بغاوت کا آغاز کردیا تاریخ نے اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا دیکھی ہوگی کہ آمروں نے 10کروڑ عوام پر مشتمل قوم کے مستقبل کو تاریک کرکے رکھ دیا اور جرائم او رسیاہ کاریوں کا وہ باپ شروع ہوا جو گیارہ سالوں پر محیط ہوا 85ہزار کوڑے آدم کے فرزندوں کو محض اس جرم میں لگائے گئے کہ وہ اپنی شخصی آزادی کا حق مانگ رہے تھے پھانسیوں ،کوڑوں کا لامتناعی سلسلہ شروع ہوا جس میں محسن پاکستان ،قائد عوام شہید بابا ذوالفقار علی بھٹو کا پاکیزہ خون بھی شامل تھا ۔انسانی تاریخ نے بہت سے لوگوں کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے اور ان لوگوں میں جنہوں نے نظریہ اور اصول کی جدوجہد کی ہے جناب بھٹو شہید کا نام آج بھی روشنی کے منارے کی صورت میں موجود ہے کیونکہ شہید بھٹو نے ہماری آنیدہ آنے والی نسلوں کے درخشاں اور تابناک مستقبل تیسری دنیا کے مظلوم عوام بلکہ دنیا بھر کے دکھی انسانوں کیلئے اپنی جان عزیز اور مقدس لہو کا نذرانہ پیش کرکے نہ صرف عظمت انسانیت کی آبیاری کی بلکہ تاریخ کو ایک نئی جہت بخشی ۔امریکی منصوبے کے تحت وقت کے آمر جنرل ضیاء الحق نے جناب بھٹو کو جب عدالتی قتل کے زریعے شہید کرنے کی کوشش کی تو دنیا بھر کے تما م جمہوری ممالک او راسلامی ممالک نے اس آمر مطلق ڈکیٹر سے رحم کی اپیلیں کیں مگر ظالم ڈکیٹر ضیاء امریکہ سے ساز باز کرچکا تھا اس لیے بطلِ حریت ،عظیم مفکر دانشور جناب بھٹو تیسری دنیاکے مظلوم انسان اس عظیم انسان سے محروم کردیئے گئے جو ان کے دلوں میں روشن مستقبل کی شمعیں ہی نہیں جلا رہا تھا بلکہ عملاً انہیں ان کی زندگی کے فیصلوں میں بھی انہیں شمولیت کی آزادی بخش رہا تھا ۔4اپریل 1979ء کو گزرے آج کئی برس بیت چکے ہیں آج ایک ایسی نسل جوان ہوچکی ہے جو اس وقت پیدا ہوئی تھی مگر عوامی قوت پر ایمان رکھنے والے قافلے کا سالار اعلیٰ آج بھی وہی عظیم قومی ہیرو ہے جس نے وقت کے فرعونوں سے ٹکرلیکر پاکستانی عوام ہی نہیں دنیا بھر کے پسے ہوئے طبقات اور تیسری دنیا کے نیم غلامانہ معاشرے میں آزادی ،خوداعتمادی اور اپنے بل بوتے پر زندہ رہنے کا وہ عزم بخشا کہ آج ہم ہی نہیں دنیا بھر میں اس کے چاہنے والے اسے فخر ایشاء ،محسن پاکستان ،قائد عوام جناب ذوالفقارعلی بھٹو کے نام سے یا د کرتے ہیں ۔اولیاء کرام کی دھرتی سندھ سے جنم لینے والا بطلِ حریت ذوالفقارعلی بھٹو آج پاکستانی عوام کی آزادی ،روشن خیالی ،شعور کی بیداری اور فرعونیت کوللکارنے کی آواز بن چکی ہے جناب بھٹو نے اپنی مختصر زندگی میں جو کچھ پاکستان کے محنت کش ہاریوں ،کسانوں ،مزدوروں ،صحافیوں ،دانشوروں ،قانون دانوں ،خواتین اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی فلاح وبہبود کیلئے جو کچھ کیا پاکستان کے عوام آج بھی اُن کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں ۔تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جناب بھٹو شہید ہی تھے جنہوں نے سب سے وطن عزیز کے مزدوروں ،محنت کشوں ،ٹریڈ یونین ،سوشل سیکیورٹی ،بونس ،منافع میں حصہ داری جیسے حقوق لیکر دینے بھٹو شہید نے اﷲ تعالیٰ اور عوام سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا تاریخ کے صفحات تویہ بتاتے ہیں اسلامی سربراہی کانفرنس ،مسئلہ احمیدیت کاحل ،متفقہ اسلامی آئین ،زرعی اصلاحات ،دس بڑی صنعتوں کو قومی ،تحویل میں لیا ،اسٹیل ،پٹرولیم ،گندم میں خود کفیل کرنا ،معاشرے مین مسجد کواس کا تاریخی مقام دلانا ،پرائمری درجے تک تعلیم عام کرنا ،نیشنل یوتھ کوفروغ دینا اور پاکستان میں یواین او کے قوانین کے تحت (ilo)کے ضوابط کو لاگو کیا ۔جناب بھٹو نے اس ملک کے کروڑوں مزدوروں ،ہاریوں ،کسانوں ،طالب علموں پیپلزپارٹی کے جیالے کارکنوں کوجو عزت نفس بخشی یہ سب اُن کی عوام اور وطن سے محبت کانتیجہ تھا کہ آج بھی بھٹو ہر پاکستانی اور کشمیری کے دل میں بستا ہے اور ہر کوئی بھٹو شہید کو اپنا قائد سمجھتا ہے تیس سال گزرنے گئے مگر بڑے سے بڑاآمر ،ظالم اس عظیم نعرے کو جیوے بھٹو ہزاروں سال ’’جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا ‘‘نہ روک سکا کسی عظیم مفکر دانشور نے درست کہا تھا کہ ’’ریت کا بند باندھے سے سیلاب کو روکا نہیں جاسکتا ــ‘‘

جناب بھٹو کا بدترین دشمن اور منافق بھی آج تک بھٹو پرکسی سرکاری او رذاتی کرپشن اور مفاد کے حصول کا الزام نہیں لگا سکتا یہ بھٹو کی دوراندیش سوچ اور فکر ہی تھی کہ آپ نے بینکوں سمیت بڑی بڑی بنیادی صنعتوں کو نیشنلائز کر دیا ۔تاریخ اور صحافت کے ادنی شاگرد کی حیثیت سے میں جناب بھٹو صاحب کے وہ تاریخی لفظ او ران کی صداقتوں کو اپنے سامنے ہر وقت دیکھتا ہوں جناب بھٹو نے اپنی آخری کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا ‘‘میں لکھتے ہیں کہ (میں تاریخ میں مرنے کی بجائے جرنیلوں کے ہاتھوں ختم ہونا پسند کروں گا )

یہی وہ صداقت ہے کہ جناب بھٹو شہید کی نامور بیٹی محترمہ بینظیر دومرتبہ پاکستانی عوام کی دعاؤں اور عوام کی قوت پر اسلامی اُمہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں شہید بھٹو نے جیل میں اپنی پیاری بیٹی کو اپنی زندگی میں ہی کہہ دیاتھا جاؤ بیٹی مجھے اﷲ تعالیٰ پر مکمل یقین ہے کہ تم (پنکی )اس وطن عزیز کی وزیراعظم بنوگی شہید بھٹو نے بیٹی سے یہ بھی کہا کہ عوام سے کبھی بھی اپنا رشتہ نہ توڑنا ۔یہی وجہ ہے کہ اُن کا انتخاب او رآج بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی مقبولیت دراصل شہید بھٹو کو ہی خراج تحسین ہے ۔ ہم آج اُن عظیم کارکنوں ،کسانوں ،مزدوروں ،ہاریوں ،دانشوروں ،صحافیوں ،قانون دانوں کو بھی یاد کریں جنہوں نے شاہی قلعے کے ازیت ناک عقوبت خانوں میں ضیائی فسطایت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اپنے حوصلے بلند رکھے ہزاروں مردوخواتین نے جبروتشدد کے اس ظالمانہ دور کو دیکھا جہاں چراہوں اورکھیل کے میدانوں میں معصوم لوگوں کو محض اس لیے کوڑے مارے گئے کہ جبر کے خریداروں کے سامنے انہوں نے اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا آفرین ہے جناب بھٹو کے اُن پروانوں ،دیوانوں ،عاشقوں پر جنہوں نے احتجاج میں خود سوزی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ شہید بھٹو نے پاکستان کے محنت کش طبقے سے جو پیار کیا انہیں بولنے کی آزادی دی اور انہیں ایک تنظیم کی ایک لڑی میں پروڈالایہی سے وہ حوصلہ ملا کہ دنیا کی کوئی طاقت جیالوں کے اتحاد کے سامنے کبھی ٹھہر نہ سکی ریاستی جبر اور مکروسازشیں نہ پہلے کبھی پیپلزپارٹی کا راستہ روک سکیں نہ آئندہ کبھی روک سکیں گے جبر کی قوتیں سازش اور مکروفریب سے وقتی طور پر عوام میں جگہ بنا سکتی ہے مگر رفتہ رفتہ ان کا یہ خود ساختہ طلسم ٹوٹ جاتاہے ۔

عزیز ہم وطنو:۔تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ آمر وقت (جنرل ضیاء ) کی قبر پر آج مجھے دعا کرتا کوئی نظر نہیں آتا جبکہ کئی لوگ (شاہ فیصل مسجد )سے نماز پڑھ کر پانچ وقت گزرتے ہیں جب شہید بھٹو کا مزار سندھ کوریگستانوں میں ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں بس او رٹرین سے پہنچنا بھی کافی دشوار ہے لیکن پاکستان ،آزادجموں وکشمیر ،شمالی علاقہ جات سمیت گلی گلی قریہ قریہ سے لاکھو ں عقیدت مند (گڑھی خدابخش)میں ہر وقت روحانی سکون کیلئے وہاں حاضری دیتے ہیں ۔

تاریخ فرعون اور یزید کو کبھی یاد نہیں کرتی امام مقام عالیٰ حضرت امام حسین ؓاوران کے عظیم ساتھیوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے جناب بھٹو نے اپنی جان قربان کردی مگر وقت کے یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کردیا ۔

ہر حال میں ہم جُراّت اظہار کریں گے
یہ جُرم سرِبزم سرِدار کریں گے

Humayun Zaman Mirza
About the Author: Humayun Zaman Mirza Read More Articles by Humayun Zaman Mirza: 10 Articles with 12188 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.