سنی اتحاد کونسل کا امن فارمولا ایک نظر میں

پاکستان میں گزشتہ تیرہ سالوں سے دہشت گردی نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ اس نے ہماری ہزاروں جانیں نگل لی ہیں۔ اربوں روپے کا نقصان کر چکی ہے۔ یہ ختم ہونے میں بھی نہیں آرہی ہے۔ تین حکومتیں ختم ہوچکی ہیں۔ چوتھی حکومت نے اپنے کام کا آغاذ کردیا ہے۔ مگر یہ دہشت گردی ہے کہ جاری ہے۔ افغانستان میں شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پاکستان کی کوئی مذہبی سیاسی جماعت ایسی نہیں جس کے کارکن جس کے عہدیداروں کو دہشت گردی کے اس اژدھا نے نہ نگلا ہو۔ جو لوگ امن قائم کرنے کیلئے سوچ بچار کرنے کیلئے کسی ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہ ان کو بھی ہڑپ کر جاتی ہے۔ دہشت گردوں کومارنے کیلئے امریکہ ڈرون گرائے یا بم برسائے تب بھی اس کا نشانہ بے گناہ پاکستانی بنتے ہیں۔ اور اس کے ردعمل میں دہشت گردی ہوتی ہے تو اس کا نشانہ بھی بے گناہ پاکستانی ہی بنتے ہیں۔ اس مصیبت سے چھٹکارہ پانے کیلئے سب کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ ملک کو اس دہشت گردی سے نجات دلائی جائے۔ ان میں ایک سنی اتحاد کونسل بھی ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے سابق چیئر مین صاحبزادہ فضل کریم رحمۃ اﷲ علیہ بھی دہشت گردی کے خلاف سرگرم عمل رہے۔ انہوں نے ملک بھر میں جلسوں ، جلوسوں، ریلیوں، سیمینارز، اجتماعات اور تقریبات کے ذریعے عوام کی ترجمانی کی۔ کہ ملک میں دہشت گردی ختم کی جائے او ر اصلی دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔ یہ بھی سچی بات ہے کہ دہشت گردی سے بچنے کیلئے اب تک جتنے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ان سے دہشت گردی سے ہم کتنے بچے یہ تو سب جانتے ہیں۔تاہم اس سے پاکستانی ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہوگئے۔ پاکستانی قوم نے ایک وقت وہ بھی دیکھا جب تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے وقت طلباء کی تلاشی لی جاتی تھی کہ یہ نونہال جو یہاں پڑھنے آتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس بھی کوئی خطرناک چیز ہو۔ ہر سکول اور کالج کے بڑے دروازے پر چیک پوسٹیں قائم کی گئیں۔ جو کہ اب تک قائم ہیں۔ اب تو بچوں کے والدین کو بھی ایف آئی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ہی اپنے بچوں سے ملنے دیاجاتا ہے۔اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ والدین کو تعلیمی ادارہ میں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی کہ مبادا کہ یہ بھی کہیں خود کش بمبار نہ ہو ۔ جس طالب علم سے اس نے ملنا ہوتا ہے اس کو ہی گیٹ پر بلالیا جاتا ہے۔ ہم یہ تعلیمی اداروں یا اس کے منتظمین پر تنقید نہیں کررہے ہیں۔ بلکہ اس حقیقت کو سامنے لارہے ہیں ۔ جس کا ہمیں سامنا ہے۔ اور دہشت گردی کے مسلسل واقعات نے ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب تمام مذہبی سیاسی جماعتیں اس مصیبت سے چھٹکارہ چاہتی ہیں۔ کوئی بھی جماعت یا پارٹی ایسی نہیں ہے جو اس سے متاثر نہ ہو۔ سنی اتحاد وکونسل کے چیئرمین صاحبززادہ حامد رضا نے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کیلئے چونتیس نکاتی امن فارمولاپیش کیاہے۔ ہم ان تمام نکات کا الگ الگ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سنی اتحادکونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے اپنے امن پلان میں تجویز دی ہے کہ گرفتار دہشت گردوں کو سپیڈی ٹرائل کے ذریعے سخت ترین سزائیں دلوائی جائیں۔ اور اس سلسلہ میں پراسیکیوٹن کا عمل اور تفتیشی نظام موثر بنایا جائے۔ انہوں نے اپنے اس پہلے نکتہ میں بھی کئی نکات بیان کر دیے ہیں۔ دہشت گردوں کا سپیڈی ٹرائل ہونا چاہیے تاکہ جن لوگوں کے پیارے ان کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہیں ان کو جلد سے جلد انصاف مل سکے۔ تاہم انصاف کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ دہشت گردوں کو تو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے یہی پاکستان کی قوم کی خواہش بھی ہے، تاہم کسی بیگناہ کو کسی صورت بھی اس کی سزا نہیں ملنی چاہیے۔ انہوں نے اس نکتہ میں تفتیشی نظام بھی موثر بنانے کی بات کی ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ اس کی ہی وجہ سے دہشت گرد عدالتوں سے رہا ہوجاتے ہیں۔ آج جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ہمیں اپنا تفتیشی نظام بھی جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر اگرچہ کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ تاہم اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے اپنے امن پلان کے دوسرے نکتے میں کہا ہے کہ تمام مسالک کے جیّد علماء اور دوسرے اسلامی ممالک کے عالمی شہرت یافتہ مفتیوں سے خودکش حملوں اور قتل ناحق کے خلاف فتویٰ حاصل کرکے اس کی بھرپور تشہیر کی جائے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ سیاستدان بھی گاہے بگاہے علماء سے مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف فتویٰ جاری کریں۔ خود کش حملوں کو حرام قرار دیا جائے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان دہشت گردوں نے کسی بھی عالم دین سے اجازت نہیں لی کہ وہ یہ مذموم کام کریں یا نہ کریں۔ دوسری بات یہ ہے ان دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فتویٰ جاری ہونے سے دہشت گردوں کی کاروئیاں رک نہیں جائیں گی۔ کیونکہ وہ تو اس کو مانتے ہی نہیں۔ علماء اس کے خلاف تو متعدد بار فتویٰ جاری کر چکے ہیں۔ منہاج القرآن کے سرپرست اعلیٰ اور اس تحریک کے بانی پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری بھی اس کے خلاف بھی فتویٰ جاری کرچکے ہیں۔ جو چھ سو صفحات پر مشتمل کتاب کی صورت میں دستیاب ہے اور اس کا بارہ زبانوں میں ترجمع بھی ہوچکا ہے۔ اس فتویٰ کے جاری ہونے سے جو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ دنیا بھر میں اسلام کے بارے میں جوم تاثر پایا جاتا ہے کہ اسلام دہشتگردوں کا مذہب ہے اس تاثرکو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس فتویٰ کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں کو بتایا جائے گا کہ ان دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ ہی اسلام دہشت گردوں کا مذہب ہے۔ اسلام سلامتی کا دین ہے امن پسندوں کا مذہب ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے امن فارمولا کا تیسرا نکتہ بھی اہمیت سے خالی نہیں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اسلام کے تصور جہاد کی غلط تشریحات اور اسلام کی من پسند تعبیرات سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کے ازالے اور حقیقی فلسفہ جہاد کی وضاحت کیلئے وسیع پیمانے پر لٹریچر تیار کروا کر ملک بھر میں تقسیم کیا جائے۔ اسلام کی غلط تشریح بھی انہی دہشت گردوں اوران کے سرپرستوں کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اسلام کے نام پر اسلام کے نام لیواؤں کا ہی خون بہایا جاتا ہے۔ جنت کے سہانے خواب دکھا کر خودکش حملہ آور تیار کیے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کو جہادکا نام دے دیا جاتا ہے۔ جہاد ظالم کے خلاف ہوتا ہے۔ یہ کیسا جہاد ہے جو مظلوم کے خلاف ہورہا ہے۔ اسلام کے تصور جہاد کی غلط تشریحات کو روکنے اور عوام کو اصل تشریحات سے آگاہ کرنے کیلئے جہاں لٹریچر تقسیم کرنے کی ضرورت ہے وہاں سوشل میڈیا کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور میڈیا پر بھی خصوصی پروگرام نشر کیے جاسکتے ہیں۔ تما م ٹی وی اورنیوز چینلز اور ریڈیو ہفتہ وار ایک گھنٹہ کا ایسا پروگرام نشر کریں جس میں جہاد سمیت اسلام کی تمام غلط تشریحات کو رد کرکے عوام کو اسلام کی اصل تشریحات سے آگاہ کیا جائے۔ امن فارمولا کا چوتھا نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کیلئے انٹیلی جنس اداروں کو فعال بنایا جائے اور سیاسی و عسکری اداروں کے درمیان رابطے، اعتمادسازی اور معلومات کے تبادلے کا موثر نظام وضع کیا جائے۔ یہ نکتہ بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ انٹیلی جنس ادارے توپہلے ہی فعال ہیں۔ ان اداروں کی رپورٹوں کی ہی وجہ سے کئی دہشت گرد واردات کرنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ ان اداروں کی ہی بدولت اسلحہ کے ذخائربرآمد کیے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے شہری دہشت گردی کی واردات سے محفوظ رہ جاتے ہیں۔ دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے کیلئے حکومت مسلسل کو شش کررہی ہے مگر ابھی تک اس کو کامیابی نہیں ملی۔ ان کا نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ دہشت گردی کی ایک واردات کرنے کیلئے کم سے کم ایک سال کا وقت درکار ہوتا ہے۔ یہ اکثر وارداتوں کا کسی کو پیشگی علم ہی نہیں ہونے دیتے۔ اور یہ ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ جگہوں پروارداتیں کرکے انتظامیہ کیلئے مشکلات پیدا کردیتے ہیں۔حکومت ان کے ایک لبادہ کا توڑ کرنے کا ابھی سوچ رہی ہوتی ہے کہ یہ نئے لبادہ میں وارداتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا نیٹ ورک توڑنے سے ہی دہشت گردی سے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔ صاحبزادہ حامد رضا نے اپنے امن فارمولا کے پانچویں نکتہ میں کہا ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی پر اکسانے والا اشتعال انگیز اور نفرت آمیز لٹریچر ضبط کیا جائے۔ اور اس طرح کے لٹریچر کی اشاعت کو ریاستی طاقت کے ذریعے روکا جائے۔ ملک میں اشتعال انگیز لٹریچر شائع کرانا اور تقسیم کرنا پہلے ہی جرم ہے۔ اس کی اشاعت اور تقسیم کو روکنا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں پرنٹنگ پریسوں اور چھاپہ خوانوں پر چھاپے بھی مارے جاسکتے ہیں۔ کچھ اخبارات بھی ایسے ہیں جو اس طرح کا لٹریچر مختلف ناموں سے شائع کرتے ہیں۔ ان کے خلاف بھی کارائی کی جانی چاہیے۔ اس فارمولا کا چھٹا نکتہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر اعلان کیاجائے کہ ہتھیار پھینکنے دہشت گردی چھوڑ کر پرامن زندگی اختیارکرنے کا قرآن مجید پرحلف دینے والوں کو معاف کرکے سرکاری ملازمتیں فراہم کی جائیں گی۔ بلوچستان میں اس اعلان کے کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ وفاقی اور بلوچستان حکومتیں یہ اعلان کریں کہ جو بلوچ اور دیگر قوم پرست اسلحہ چھوڑ کرپر امن زندگی گزارنے کا قرآن پاک پر حلف دیں گے ان کو معاف بھی کیا جائے گااور ان کو سرکاری ملازمتیں بھی دی جائیں گی۔اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ جو لوگ مہنگائی یا کسی اور وجہ سے اس مذموم کاروائیوں میں ملوث ہیں۔ وہ راہ راست پر آجائیں گے۔ اس اعلان کے بعد جو دہشت گرد دہشت گردی سے توبہ کرلیں اور پر امن زندگی گزارنے کا حلف بھی دے دیں توان کو ان کی تعلیمی قابلیت اور تجربہ کے معیار کے مطابق سرکاری ملازمتیں بھی دی جائیں۔ ان کو پھر وعدوں پر نہ ٹرخایا جاتا رہے۔ اس فارمولا کا ساتواں نکتہ کچھ اس طرح ہے کہ ملک کو ناجائز اسلحہ اور گولہ بارود سے پاک کرنے کیلئے پیشگی اطلاع کے بغیر ملک گیر فول پروف آپریشن کیا جائے۔ اور اسلحہ کی نمائش پر پابندی کیلئے سخت قوانین بنائے جائیں۔ ملک میں اسلحہ کی نمائش پر تو پہلے ہی پابندی ہے۔ ضرورت نئے قوانین بنانے کی نہیں ان پر عمل کرا نے کی ہے۔ پیشگی اطلاع کے بغیر آپریشن کرنے سے ہی ملک سے غیر قانونی اسلحہ ختم کیا جاسکتاہے۔ آٹھویں نکتہ میں کہا گیا ہے کہ تمام حکومتی محکموں کو طالبان نواز اور دہشت گردوں کے مخبروں اور کالعدم تنظیموں کے حامیوں سے پاک کیا جائے۔ جس طرح حکومت نے اپنے جاسوس چھوڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح دہشت گردوں نے بھی اپنے جاسوس چھوڑے ہوئے ہیں۔ سرکاری محکموں میں موجود دہشت گردوں کے جاسوس ریاست کے وفادار نہیں غدار ہیں۔ ان کو نہ صرف محکموں سے نکالا جائے بلکہ ان کے خلاف ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کاروائی بھی کی جائے۔ نواں نکتہ ہے کہ ملک بھر کے اچھی صحت اور جسم کے مالک بیروزگار نوجوانوں کو ہنگامی بنیادوں پر بھرتی کرکے ’’ اینٹی ٹیررسٹ فورس‘‘ بنائی جائے۔ اور اس اسپیشل فورس کو عالمی معیار کی تربیت اور جدید ترین اسلحہ سے لیس کیا جائے۔ اس وقت افوج پاکستان فورسز بھی اینٹی ٹیررسٹ فورس بن چکی ہیں۔ اس طرح کی ایک فورس نیٹو کے نام سے امریکہ نے بھی بنا رکھی ہے۔ تاہم ہماری فورس اور امریکہ کی فورس میں نمایاں فرق ہوگا۔ اگر حکومت نے غور کرلیا تو۔ دسواں نکتہ یہ ہے کہ فتویٰ نما نعروں پر پابندی لگائی جائے۔ نفرت انگیز اشتعال انگیز تقریروں پر سخت سزائیں مقرر کی جائیں۔ ان نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقریروں کے ضرر سے قوم کو بچانے کیلئے حکومت نے لاؤڈسپیکر پر پابندی لگارکھی ہے۔ خفیہ ادارے نفرت انگیزاور اشتعال انگیز تقریریں کرنے والوں کی فہرستیں مرتب کرتے رہتے ہیں۔ ان فہرستوں کی بنیاد پر ہی محرم الحرام میں علماء اور زاکرین کی ضلع بندی اور زبان بندی کی جاتی ہے۔ گیارھواں نکتہ ہے کہ ہر جامع مسجد کے خطیب کو پابند کیاجائے کہ وہ اپنے ہر خطبہ جمعہ میں خودکش حملوں کے خلاف اسلامی نکتہ نظرسے گفتگوکرے اور اسلام کی امن وسلامتی، اخوت ومحبت اور بھائی چارے پر مبنی تعلیمات کواپنے خطبہ جمعہ کا حصہ بنائے۔ اس سلسلہ میں حکومت کی طرف سے آرڈرجاری کرنے کی ضرورت نہیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شامل تمام علماء اور مفتی صاحبان از خود ہی اپنی اپنی مساجد میں اس طرح کی تقریریں کرنا شروع کردیں۔ تو دیگر امن پسند علماء بھی ایسا ہی کرنے لگیں گے۔ امن فارمولا کا بارہواں نکتہ ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کی بیرونی فنڈنگ روکنے کیلئے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔ جو ممالک یا بیرونی تنظیمیں ان دہشت گرد تنظیموں کو فنڈنگ کرتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن قائم ہو جائے۔ تحقیقات کے بعد دہشت گرد تنظیموں کو جس ملک سے بھی امداد آرہی ہے۔ اس ملک سے بات کی جائے۔ کہ وہ یہ سلسلہ روکے۔ سنی اتحاد کونسل کے امن فارمولا کا تیرہواں نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نواز خارجہ پالیسی تبدیل کرکے ملکی مفادات کے تناظر میں آزادانہ خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے۔ یہ تو قوم کا اس وقت سے مطالبہ ہے۔ جب سے مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو امریکہ کا اتحادی بنادیا تھا۔ یہ مطالبہ ابھی تک کیا جارہا ہے۔ اور اس وقت تک کیا جاتا رہے گا جب تک حکومت آزادانہ خارجہ پالیسی بنا نہیں لیتی۔ امن فارمولا کا چودھواں نکتہ ہے کہ ڈرون حملے رکوانے کیلئے امریکہ سے دوٹوک بات چیت کی جائے۔ اور حکومت ڈرون حملوں کے خلاف عالمی عدالت میں جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر تمام عالمی فورمز پربھی اس معاملہ کو اٹھایا جائے۔ امریکہ سے ڈرون حملوں میں شہید ہونے والے بیگناہ افراد کے خون کا حساب لیاجائے۔ پندرہواں نکتہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت اسرائیل اور امریکہ کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت عالمی برادری کے سامنے اور اقوام متحدہ کے فورم پر پیش کیے جائیں۔ ان تینوں ممالک کو بے نقاب کرنے کا سب سے بہترین فورم اقوام متحدہ ہی ہے۔ اب اس کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس آنے والا ہے پاکستان اس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی خدمات ، نقصانات اور ان تینوں ممالک کی سازشوں کو بے نقاب کرے تاکہ دنیا جان سکے کہ دہشت گرد کون ہے اور امن پسند قوم ہے۔ سولہواں نکتہ میں ہے کہ تمام بڑے شہروں کے داخلی راستوں پر بڑے بڑے سکینر لگاکر بارودسے بھرے ٹرکوں کی شہروں میں آمد روکی جائے۔ اگر چیکنگ کا نظام درست بنا دیا جائے اور اس سلسلہ میں کسی سے کوئی رعایت نہ کی جائے تو بارود بھرے ٹرکوں کی آمدورفت روکی جاسکتی ہے۔ اس کیلئے صرف اور صرف ایماندار عملہ کی ضرورت ہے۔ سترہواں نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو پناہ دینے ، اپنے پاس ٹھہرانے اور دہشت گردوں کی کسی بھی طرح حمایت کو سنگین ترین جرم قراردیا جائے۔ یہ تو پہلے ہی جرم ہے۔ اس پر سختی سے عمل کرانے کی ضرورت ہے۔ اٹھارہواں نکتہ ہے کہ کالعدم تنظیموں کو نئے ناموں سے کام کرنے سے روکا جائے۔ اور کالعدم تنظیموں کے نیٹ ورک کو توڑنے کیلئے پوری ریاستی طاقت استعمال کی جائے۔ حکومت پاکستان نے جن تنظیموں کو ان کی منفی سرگرمیوں کی وجہ سے کالعدم قراردیا تھاوہ اب نئے ناموں سے کام کررہی ہیں۔ کالعدم تنظیموں کو نہ صرف نئے ناموں سے کام کرنے سے روکا جائے بلکہ ان میں کام کرنے والوں کو کسی بھی تنظیم میں کام کرنے سے بھی روکا جائے۔ انیسواں نکتہ ہے کہ دہشت گردوں کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججز، چالان تیارکرنے والے پولیس افسران اور مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلاء کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کی سیکورٹی کے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔ اس نکتہ پر متعلقہ شخصیات ہی تبصرہ کرسکتی ہیں۔بیسواں نکتہ ہے کہ تمام ریاستی ادارے نجی سطح پر عسکری گروپ بنانے کے کلچر کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا عہدکریں اور کسی بھی مصلحت کا شکار ہوئے بغیرعسکریت پسندی کو جڑسے اکھاڑنے کیلئے اپنی پسند ناپسندکوچھوڑ کر بلا امتیاز ہر انتہا پسند دہشت گرد گروپ کا قلع قمع کردیں۔ اکیسواں نکتہ ہے کہ قبائلی علاقہ جات میں تعمیروترقی خوشحالی عوام کی فلاح وبہبود اور تعلیم کے فروغ کیلئے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔ بائیسواں نکتہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں بنائے گئے امن لشکروں کو مضبوط بنایا جائے اور ان کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ تئیسواں نکتہ ہے کہ انٹرنیٹ پر انتہاپسندوں کے گمراہ کن پراپگینڈا اور اسلام کی غلط تشریحات کے توڑ کیلئے انتہائی ذہین اور باصلاحیت سکالرز پر مشتمل گروپ تشکیل دیا جائے۔ جو نہ صرف ان غلط تشریحات کا توڑ کرے بلکہ ساتھ ساتھ اصل تشریحات بھی پیش کرتا جائے۔ اس امن فارمولا کا چوبیسواں نکتہ ہے کہ میـڈیا کے ذریعے مہم چلاکر لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے کہ وہ اپنے اردگرد اپنے محلوں، گلیوں، بازاروں میں مشکوک اجنبی اور پراسرار افرادپر کڑی نظر رکھیں۔ صرف یہی نہیں جہاں بھی ایسا شخص دکھائی دے اس کی اطلاع اپنی پولیس کو دیں یا خفیہ اداروں کو اس سے آگاہ کریں۔ شہریوں کو پہلے ہی حکومت نے کہہ رکھا ہے کہ جس کو بھی مکان کرایہ پر دیں اس کا ریکارڈ اس کے کاغذات متعلقہ تھانہ میں جمع کرائیں۔ اپنے محلہ گلی میں مشکوک افراد پر نظر رکھیں۔ دہشت گردی کے واقعات کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ واردات کرنے والے ایک سال سے اسی محلہ میں کرایہ کے مکان پر رہ رہے تھے۔ عوام اسی ایک نکتہ پر عمل کر لیں تو ایک تہائی دہشت گردی ختم ہوجائے گی۔ اس کا پچیسواں نکتہ ہے کہ ’’ اسلام دین امن ‘ ‘ کے موضوع پر تحریری و تقریری مقابلے منعقدکیے جائیں ۔ اور امن مشاعرے منعقدکرائے جائیں۔ یہ مقابلے سکولوں اور کالجوں کی سطح پر منعقد کیے جاسکتے ہیں۔ چھبیسواں نکتہ ہے کہ دہشت گردی ، انتہاپسندی اور اسلام کی غلط تشریحات کا راستہ روکنے کی سفارشات اور لٹریچر تیار کرنے کیلئے ’’تھنک ٹینک ‘‘ قائم کیا جائے۔ جس میں اہم دینی سکالرز، تجربہ کارریٹائرڈ پولیس وفوجی افسران، نامور صحافیوں، ریٹائرڈ ججزاور انٹیلی جنس کے ماہرین کو شامل کیا جائے۔ ستائیسواں نکتہ بہت اہم ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ ہر مذہبی مسلک کو پابند بنایا جائے کہ وہ فتویٰ دینے کیلئے اپنے مسلک کے سنجیدہ اور سینیئر ترین مفتیوں پر مشتمل علماء بورڈ تشکیل دے۔ ہر مسلک کے علماء بورڈ کے علاوہ کسی کو فتویٰ دینے کی اجازت نہ ہو۔ یہ علماء بورڈ مرکزی اور صوبائی سطح کے ساتھ ساتھ ضلعی سطح پر بھی بنائے جائیں۔ اور ان کے اختیارات متعین کر دیے جائیں کہ وہ ان مسائل پر فتویٰ جاری کر سکتے ہیں۔ اٹھائیسواں نکتہ ہے کہ ہر شہر میں کرائے کے مکانوں اور ہوٹلوں پر رہنے والوں کے کوائف متعلقہ تھانوں میں ہرروزجمع کیے جائیں۔ ایسے افراد کے کوائف روزانہ جمع کرنا تو ممکن نہیں البتہ مکانوں کے مالکان کو پابند بنایا جا سکتاہے کہ وہ جس کو مکان کرایہ پر دیں اس کے کوائف بھی اور جس کرایہ دار سے مکان خالی کرائیں اس کے کوائف بھی متعلقہ تھانہ میں جمع کرائیں۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے بھی سزائیں مقرر کی جائیں تاکہ کوئی بھی غفلت کاارتکاب نہ کرنے پائے۔ امن فارمولا کا انتیسواں نکتہ ہے کہ تمام دینی مدارس اور دوسرے تعلیمی اداروں میں قرآن وحدیث کی روشنی میں دہشت گردی کے خلاف اور امن کے حق میں خصوصی لیکچرزکا اہتمام کیا جائے۔ منہاج القرآن رمضان المبارک میں دروس قرآن کا اہتمام کرتی ہے ۔ ہم اس کے قائدین سے التماس کریں گے کہ وہ اپنے موضوعات میں اس کو شامل کریں۔ تیسواں نکتہ ہے کہ بیروزگاری غربت ، افلاس کے خاتمے کیلئے ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔ نیز جنوبی پنجاب اور قبائلی علاقہ جات سمیت دوسرے پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے فروغ اور خوشحالی لانے پر خصوصی توجہ دی جائے کیونکہ انتہا پسندی کی ایک بڑی وجہ غربت ہے۔ اکتیسواں نکتہ ہے کہ نفرتوں کے خاتمے اور محبتوں کے فروغ کیلئے صوفیاء کی تعلیمات عام کی جائیں۔ اوراس مقصد کیلئے ملک بھر میں کانفرسیں او ر سیمینار منعقدکرائے جائیں۔ یہ ذمہ داری سماجی تنظیموں کو بھی دی جاسکتی ہے۔ بتیسواں نکتہ ہے کہ عراق ، افغانستان میں امریکی مظالم کے خلاف حکومتی سطح پر احتجاج اور وہاں سے امریکی فوجوں کی جلد واپسی کا مطالبہ کیا جائے۔ تینتیسواں نکتہ ہے کہ تما م مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی قومی کانفرس بلا کردہشت گردی کے خاتمہ کیلئے متفقہ طور پر نیشنل ایجنڈا تشکیل دیاجائے۔ اوراس پر عمل کو یقینی بنانے کیلئے تما م سیاسی و مذہبی اور عسکری قیادتوں سے حلف لیا جائے۔ اس مقصد کیلئے پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس ہو چکے ہیں۔ ان پرکہاں تک عمل ہوا۔ یہ متعلقہ افراد ہی بتاسکتے ہیں۔ اس امن فارمولا کا آخری نکتہ یوں ہے کہ افغان جہاد کے دوران ٹریننگ لینے والوں کی فہرستیں بناکر ان پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔ مجموعی طور پر یہ ایک اچھا امن فارمولا ہے۔ حکومت پاکستان اس پر غور کرلے تو دہشت گردی روکنے میں اس سے مدد مل سکتی ہے۔ ملک کی دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتیں ا ور تنظیمیں بھی سنی اتحاد وکونسل کی طرح امن فارمولے بنائیں اورقوم کے سامنے پیش کریں۔ اور پھر سب جماعتوں کے امن فارمولوں کو سامنے رکھ کر متفقہ قومی امن فارمولا بھی بنایا جاسکتا ہے۔آپ نے یہ تحریر پڑھ لی ہے آپ بھی امن فارمولا بنائیں۔ تاکہ امن قائم کرنے کی کوشش کرنے والوں میں آپ کا نام بھی شامل ہوجائے۔ سنی اتحاد کونسل کے اس امن فارمولا میں ہم ایک نکتہ کا اضافہ کررہے ہیں وہ یہ کہ پانچ ایسی ویب سائٹس بنائی جائیں جن میں اسلام کے صحیح تصور، اسلامی تعلیمات، قرآن پاک اور احادیث مبارکہ ، بزرگان دین کے اقوال و افعال کا دنیا کی تمام اہم زبانوں میں ترجمع کرکے اپ لوڈ کیا جائے۔ اور مسلمانوں کی دنیا بھر میں امن قائم کرنے کی کوششوں کو بھی ویب سائٹس پر اپ لوڈ کیا جائے۔ اس سے اسلام کے خلاف پراپگنڈا روکنے میں بڑی مدد ملے گی۔ سنی اتحاد کونسل نے یہ امن فارمولا جاری کرکے بتادیا ہے کہ پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں بھی امن پسند ہیں اور وہ ملک میں امن دیکھنا چاہتی ہیں۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351028 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.