غلام ابن غلام

"پختونوں کو آزادی کے معنی اور مفہوم کو سمجھنا ہوگا آزاد قوم کے بچے دوسروں کے بوٹ پالش نہیں کرتے بلکہ آزاد ملکوں میں بچوں پر مزدوری کرنا جرم ہے۔آزاد قوم کی ماؤں کے بال مسافر بچوں کے انتظار میں سفید نہیں ہوتے ،آزاد قوموں کو فیصلوں میں شریک کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کی قومی نجی چینلوں پر پختون قوم کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔، پختونوں کے نام پر لطیفے بنا تا ہے ، آزاد قوم کا اپنا پرچم ہوتا ہے،ان کی اپنی زبان کا احترام ہوتا ہے ، آزاد قوموں کا داخلہ اور خارجہ پالیسی میں کردار ہوتا ہے ، میں اس اس نام نہاد آزادی کو ماننا اور منانا گناہ کبیرہ سمجھتا ہوں ، جس میں پختون بحیثیت قوم کراچی ، دوبئی اور سعودی شیوخ کا ڈرائیور اور چوکیدار ہو،میں ایسی آزادی پر ہزار بار لعنت بھیجتا ہوں اور اس استعماری ریاست کے خلاف جد وجہد کو فرض عین سمجھتا ہوں ۔ ہمارے اکابرین نے انگریزوں کے پاس پختونستان کا مقدمہ داخل نہیں کیا ۔ جس کے نتیجے میں پختون کانگریس کے باراتی بن گئے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ دلہن کا نکاح باراتی سے کبھی نہیں ہوتا۔ہم غلام تھے اور 14اگست 1947ء کو ہمیں گورے آقا نے کالے آقا کے حوالے کیا" ۔یہ تقریر شیر علی باچا مرحوم نے شیر گڑھ میں کی تھی ۔اسی غلام ابن غلام کی نسل سے ایک عمرانی لیڈر اسد عمرکا بیان منظر عام پر آیا کہ پختونخوا میں شہید ہونے والوں کے جنازے میں شرکت کرنے سے کوئی زندہ نہیں ہوجاتا ۔ کیاپختونوا میں رہنے والے اپنی پختون ثقافت کو بھی بھول گئے کہ سیاست ، ریاست ، حکومت اور مصلحت اپنی جگہ ، لیکن پختون معاشرے میں ہی نہیں بلکہ انسانی معاشرے میں یہ فرض کفایہ ازخود فرض اولین بن جاتا ہے کہ جب آپ پر ریاست کی ذمے داری عائد کردی جائے تو پھر عوام کے دکھ ، غم اور خوشی میں بھی شریک ہونگے ۔ اس موقع پر لاکھ اختلافات کے باوجود اے این پی کے میاں افتخار حسین ، شہید بشیر بلور ،بہت یاد آجاتے ہیں کہ بم بلاسٹ کے بعد میڈیا اور فورس سے پہلے تمام احتیاطی تدابیر بالائے طاق رکھ کر پہنچ جایا کرتے تھے ۔لیکن تحریک انصاف کی جانب سے یہ عمل تو درکنار ، جنازے میں شرکت بھی بہت دور کی بات ، اُس پر اس قسم کے اسد عمر صاحب کا یہ فتوی زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر ہے۔کسی بھی گھر میں آگ لگے تو پڑوس میں اس کی چنگاری ضرور جایا کرتی ہے۔ تحریک انصاف اپنے کئے جانے والے وعدوں سے انتخابات کے اگلے دن ہی منہ لپیٹ چکی تھی اس لئے ان سے ایسے ہی بیانات کی توقع تھی ۔بد قسمتی سے ابتلا کے اس دور میں پختون قومیت کی نمائندگی کرنے والی کوئی جماعت نہیں ہے ۔ محمود خان اچکزئی ، صرف کوئٹہ تک محدود ہوگئے ہیں اور اسفندیار ولی خان تو پہلے ہی امریکہ کی گود میں جا بیٹھے تھے ۔ اب پختونخوا میں جماعت اسلامی اور تحریک اسلامی کا ایک ایسا مغلوبہ پختونوں کے سامنے ہے جو نئے پاکستان کے نام پر من پسند شریعت اور یہودی جمہوریت لانے کے خواہش مند ہیں۔1987ء میں بلور ہاؤس پشاور میں پاکستان کی چار قوم پرست جماعتوں کی آرگنائزنگ کمیٹی کا اجلاس ہورہا تھا ، NDP(ولی خان)،PNP(لطیف آفریدی )،سندھ عوامی تحریک)رسول بخش پلیجو)، مزدور کسان پارٹی(سردار شوکت کی پارٹیوں نے آپس میں ادغام کرکے ایک جمہوری ، قوم پرست اور ترقی پسند پارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا تھا، اس کے منشور ، آئین جھنڈے اور کنونشن کے انعقاد کیلئے ہر پارٹی کے چار چار ممبران پر مشتمل ایک سولہ رکنی آرگنائزنگ کمیٹی بنائی گئی تھی۔NDPکی نمائندگی ولی خان مرحوم ،عبدالخالق خان ، حاجی غلام احمد بلور سمیت چار اراکان کر رہے تھے PNPکی طرف سے کمیٹی کے ممبران میں لطیف آفریدی ، مختیار باچا ، امتیاز عالم اور محمد جمیل مرغز شامل تھے۔(ولی خان کے ساتھ مرحوم غوث بخش بزنجو کے انکار کے بعد سابقہ NPPکے ساتھیوں نے لطیف آفریدی کی قیادت میں ان سے الگ ہوکر PNPلطیف آفریدی گروپ بنا لیا تھا ) رسول بخش پلیجو اور سردار شوکت بھی اپنے ممبران کے ساتھ موجود تھے ۔اجلاس کے دوران ولی خان مرحوم نے مختار باچا سے کہا کہ PMAPکا وفد اتحاد کے بارے میں ملاقات کیلئے آرہا ہے ، ان کی خواہش ہے کہ NDPاور PNPملکر ان سے بات چیت کریں۔PMAPکی طرف سے عبدالرحیم مندوخیل(جو محمود خان اچکزئی کے زیر زمیں ہونے کی وجہ سے پارٹی چیئرمین تھے) مرحوم شیر علی باچا ، رفیق دوتانی نے دو گھنٹے تک ملاقات کی ان کی خواہش تھی کہ ولی خان NDPاور لطیف آفریدی کی PNPاس اتحاد کے ساتھ ملکر پختونوں کی ایک پارٹی بنائیں ۔کیونکہ یہ رائے قائم تھی کہ پختونوں کے حقوق کے لئے ایک پلیٹ فارم ہونا ضروری ہے۔جبکہ خان عبدالولی خان عوامی نیشنل پارٹی بنانے جا رہے تھے جس میں تمام قومیتوں کے مسئلے سمیت دیگر مسائل کے حل کیلئے ضروری خیال کرتے تھے کہ جمہوری عناصر ملکر جدو جہد کریں ۔ ان کی رائے اُس وقت درست تھی لیکن یہ بد قستمی سے عدم اتفاق کے باعث کامیابی سے ہمنکار نہ ہوسکی اور اے این پی سے سب نے رائیں جدا کرکے قوم پرست جماعتوں کی صورت میں اپنی قوم کے لئے جدوجہد کا آغاز کردیا ۔عوامی نیشنل پارٹی ، بڑے پلیٹ فارم سے محدود ہو کر اس قدر مختصر ہوگئی کہ اب اس کی جڑیں بھی دم توڑنے لگی ہیں اگر اُس پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی تجویز مان لی جاتی تو یقینا اس بات کی امید تھی کہ پاکستان میں پختونوں کے خلاف ہونے والی نسل کشی کی سازشوں کو روکا جاسکتا تھا ۔اس موقع پر اجمل خٹک بابا کے یہ الفاظ یاد آجاتے ہیں جب انھون نے جابر حکمران قیوم خان کے سامنے اشعار کے صورت میں پڑھے"میرے ننگے سر دوشیزاؤں کی زندگی گائے بھینس کا اٹھاتے اٹھاتے ختم ہوجاتی ہے ، ان حالات میں پرائیطوائفوں کی اداؤں کا تذکرہ ہمارے سامنے مت کرو۔"اس گستاخی کی پاداش میں ان کو جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں ، انھوں نے سوال کیا "کیا میں پاگل تھا ؟"آج سب لوگ انہی آدرشوں کا نعرہ لگا رہے ہیں ، آج ہر جماعت غربت کے خاتمے ، سامراج کی مخالفت ، طبقاتی نظام کے خاتمے ، قومی حقوق ، جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خاتمے اور ایک سیکولر اور جمہوری نئے پاکستان کی بات کر رہاہے۔اجمل خٹک بابا نے کہا تھا ۔۔" اوس ٹول خلق دہ ھغہ محبوبہ سندرے وائی ۔۔۔۔خٹک بہ چے د زان سرہ ژڑلہ کلہ کلہ "( جس محبوبہ کے فراق میں خٹک اکیلا چھپ چھپ کر روتے تھے ۔ آج تما م لوگ اسی محبوبہ لے پیچھے دیوانے ہیں۔)۔پختون قوم کے لئے گذشتہ چند دہائیوں سے المناک دور نئی نسل پر بھاری گذر رہا ہے۔پاکستانی قومیت کا تصور قیام پاکستان کے بعد سے پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ، اس لئے نسلی اور لسانی اعتبار سے پاکستان دنیا کا واحد ملک بنا ہے جس میں ، پاکستانیت کو، سندھی ، بلوچی ، پنجابی اور پٹھان کی نمائندگیوں کو سر فہرست رکھا گیا اور میرٹ کے بجائے قوم کو کوٹہ سسٹم کے تحت تقسیم کردیا گیا ۔ان حالات میں دیگر قومیتوں نے بھی اپنی پہچان کو روشناس کرایا اور اپنے حقوق کیلئے قومیت اور لسانیت کے نام پر تحریکیں بنائیں اور ملکی سیاست میں حصہ لیا اب ، قومی اور لسانی سیاست کے ساتھ مذہبی اورط فرقہ وارانہ سیاست نے بھی اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کردی ہیں ۔ ہم اب یہ کہیں کہ پاکستان اس وقت متعدد ذہنیتوں میں تقسیم ہوچکا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ہم آج بھی غلام اور ماضی میں بھی غلا م تھے ، خود کو بدلنے کی کوشش نہ کرنے کے سبب ہمیں تاریخ میں غلام ابن غلام کے نام سے جائیگا۔فیصلہ پختون کرے یا کوئی بھی قومیت آزادی حاصل کرنے کیلئے غلامی چھوڑنا ہوگی۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 666686 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.