آج یہ زبانِ زدِعام کیوں
ہے..؟کیازرداری اور نواز ایک ہیں اور نہیں بھی...؟
مُلک میں گیارہ مئی کے عام انتخابات میں تبدیلی کے خواہشمندوں نے پی ایم
ایل (ن) کے حق میں بے تحاشہ ووٹوں کی بھرمارکرکے اِسے بھاری اکثریت سے
کامیابی سے ہمکنار کیااور اقتدار اِس کی تیرہ سال سے خالی جھولی میں ڈال
دیا، مگراِن تبدیلی کے خواہشمندوں کو چند دنوں بعد ہی اِس بات کا شدت سے
احساس ہوگیاکہ اِنہوں نے جو سوچ کر (ن) لیگ کو ووٹ دیااور اِسے مسندِ
اقتدار پر بٹھایا، یہ اِن کی بڑی بھول تھی، کیوں کہ انتخابات سے قبل (ن)
لیگ نے جو وعدے کئے اور جتنے دعوے کئے وہ سب سیراب ثابت ہوئے ہیں،آج ویسے
بھی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حکومت کا رویہ
بھی سابق دورِ حکومت جیساہے ،توپھر کیوں نہ اکثر مُلکی معاملات پر یہ زبانِ
زدِ عام ہوجائے کہ زرداری اور نواز ایک ہی ہیں، اور آج یہی وجہ بنی ہے ،
اِس حقیقت کی کہ (ن) لیگ کے چاہنے والوں میں پی ایم ایل (ن) کی موجودہ
حکومت کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا عنصر غالب آتاجارہاہے۔
یہاں میں نے بغیر لگی لپٹی وہ حقیقت بیان کردی ہے، جِسے بیان کرنے کے لئے
دوسروں کو کئی دن، ہفتے، ماہ اور سال لگ جاتے اور پھر بھی کوئی اِس حقیقت
کا پردہ اِس طرح سے چاک نہیں کرپاتاجس طرح میں نے بے فکری سے حقیقت بیان
کردی ہے، اگر میری اِس حقیقت سے حکمران الوقت کو کوئی تکلیف پہنچی ہو، تووہ
مجھ سے بھلے سے پوچھ سکتے ہیں، میں اِن سے بھی یہی حقیقت اِسی طرح بیان
کرنے کی طاقت رکھتاہوں کہ اَب تک اِنہوں نے عوام کو سوائے سبزباغ دکھانے
اور بے وقوف بنانے کے کچھ نہیں دیاہے،اِس لئے کہ گیارہ مئی کے عام انتخابات
کے بعد یہ اقتدار کی کنجی ہاتھ میں لیتے ہی اِس لائین پر چل پڑے ہیں جس پر
پاکستان پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت چلاکرتی تھی، آج بھی جس کی ایک نشانی کے
طور پر ایوانِ صدر میں صدرآصف علی زرداری موجودہیں۔
جبکہ آج یہاں یہ امرقرار واقعی ضرورہے کہ پی ایم ایل (ن) کی حکومت کو
اندرونی اور بیرونی طورپر جن مسائل اور چیلنجز کا سامناہے، اِس کی ایک سب
سے بڑی وجہ یہ ہے، کہ آج بھی (ن) لیگ کی حکومت نے وہی خارجہ پالیسی
اپنارکھی ہے، جس پر پی پی پی کی حکومت کارفرمارہ کر اپنی حکومت کے( لولے
لنگڑے اور گرتے پڑتے انداز سے ) پانچ سال گزرے اور مُلک میں دہشت گردی اور
قتل و غارت گری کا گرم بازار چھوڑ کررخصت ہوگئی ۔
آج بھی قوم جانتی ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے ایسا اِس لئے
کیاتھاکہ اِس کے بغیر اِس کواپنی حکومتی مدت پوراکرنامشکل ہوجاتا،سواِس لئے
اِس نے چاہاکہ مُلک کے حالات جیسے بھی ہوں، اِسے اپنے تو پانچ سال پورے
کرنے ہیں اور بس بھلے سے مُلک میں کچھ بھی ہوتاہے تو ہوتارہے، اِس سے اِسے
کوئی سروکار نہیں ہے ، ایسے میں اِسے اپنے دورِ اقتدار میں کوئی مطلب اور
غر ض باقی رہا تو بس صرف اتناکہ اِس کے اقتدار کی پانچ سالہ مدت پوری
ہوجائے ،یہ اِس ہی کوشش میں لگی رہی اور یوں یہ اپنی اِس خواہش کو پوری
کرکے مُلک کو پندرہ کھرب ڈالر سے زائد کا قرضہ لے کر اُس مصیبت میں
پھنساکئی اَب جس کا خمیازہ (ن) لیگ کی حکومت کو بھگتناہوگا۔
اگرچہ موجودہ حکومت کو اقتدار کی مسندپر اپنے قدم رنجافرمائے ، تقریباََ
چالیس دن سے زائد کا عرصہ گزرچکاہے، تاہم اِس عرصے کے دورا ن اِس نے اپنے
تعین اِدھراُدھربہت پاؤں مارے اور آئندہ بھی مزید مارنے اور کشکول اُٹھاکر
در، درپھرنے اور چپلیں گھسنے کا عزم کررکھاہے کہ یہ مُلک کو قرضوں سمیت
توانائی کے بحران اور دہشت گردی سے نجات دلاکر ہی دم لے گی ، بہر کیف
دیکھتے ہیں یہ (ن) لیگ والے اِن پندرہ کھرب ڈالرکے قرضے کیسے اداکرتے ہیں،
جن میں سے دس کھرب ڈالر کے قرضے صرف پی پی پی کی حکومت نے اپنے اقتدار کو
طول دینے کے لئے لیئے تھے۔
جبکہ کسی حد تک یہ امر حوصلہ افزاضرور ہے کہ سو اِس قسم کے معاملات کے فوری
حل کے خاطر وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہاہے کہ دہشت گردی اور مُلک کو
درپیش توانائی بحران کے خاتمے سمیت مُلکی معیشت کو سہارادینے کے لئے
مذاکرات کے دروازے ہر وقت کُھلے ہیں اور ہم نے یہ تہیہ کررکھاہے کہ ہم ہر
حالت میں مُلک سے دہشت گردی ختم کرکے ہی دم لیں گے ،اور جیساکہ اُنہوں نے
کہاہے کہ نئی قومی پالیسی بنانے کے لئے سب کو اعتمادمیں لیاجائے گا،دہشت
گردی سے نمٹے بغیر معیشت بہترنہیں ہوسکتی ہے ، ہم اپنے مُلک کو دہشت گردی
اور توانائی کے بحران سے نکالے بغیر ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے ہیں۔
جبکہ راقم الحرف کے نزدیک وزیراعظم میاں نواز شریف کو یہ سب کہنے کی ضرورت
اِس لئے پیش آئی ہے کہ شاید ایسالگتاہے کہ اِنہیں اِس بات کا احساس ہوگیاہے
کہ اِن کی حکومت کا عوام الناس میں گراف گررہاہے، اور اِس گرتے ہوئے گراف
کو سہارادینے کے لئے بہت ضروری ہے کہ حقیقی معنوں میں ایسے اقدامات کئے
جائیں ، جن کے کرنے سے عوام الناس میں حکومت کا مورال بہترہو، اِس لئے
وزیراعظم میاں نواز شریف کی ترجیحات میں یہ شامل ہے کہ جلد ازجلد ایسے کام
کئے جائیں ، جس کے کرنے سے عوام میں پایاجانے والا یہ اثر زائل ہوجائے کہ
زرداری اور نواز دونوں ایک ہی ہیں ، اور دونوں کا ایجنڈابھی ایک ہے۔
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک ہی
ایجنڈے کی دوکڑیاں ہیں، جوجب بھی اقتدار میں آتی ہیں یہ اپنے اپنے انداز سے
اپنی اپنی سوچوں اور نظریات کے اعتبار سے کام کرتی ہیں، ہاں البتہ...!دونوں
میں ایک نقطے پر ضرور اختلاف پایا جاتاہے وہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی
جب بھی اقتدار میں آئی ہے، اِس کی تاریخ گواہ ہے کہ اِس نے بیروزگار
نوجوانوں کے لئے قومی ادادوں میں نوکریوں کے دروازے کھلے اور ہر گریڈ میں
قابلیت کے اعتبار سے نوکریاں دی ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اِس معاملے
میں پاکستان پیپلز پارٹی سے بلکل اُلٹ فطرت کی حامل جماعت ثابت ہوئی
ہے،کیوں کہ یہ جب بھی اقتدار میں آئی ہے، اِس نے پی پی پی دور میں قومی
اداروں میں بھرتی کئے گئے لوگوں کی نوکریاں اِن قومی اداروں سے ختم کرنے
میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا ہے، اِس حوالے سے موجودہ (ن) لیگ کی حکومت
ایک بار پھر متحرک نظرآتی ہے، اِس نے اپنے تیسرے اقتدار کو سنبھالتے ہی پھر
وہی کچھ کرناشروع کردیاہے،جو یہ پہلے بھی کرتی رہی ہے، اِس نے سابق حکومت
پاکستان پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں قومی اداروں میں بھرتی ہونے والے
بیروزگار نوجوانوں کی نوکریاں ختم کرنے کے لئے پسند کے لوگوں پر مشتمل
کمیٹیاں بنادی ہیں جو اِس کام کو حتمی شکل دیں گیں اور قومی خزانے پر پڑنے
والے اضافی بوجھ کابہانہ بناکر قومی اداروں سے لوگوں کو نکال باہر کرے گی ،
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اِس سیاسی اقدام سے یقینا مُلک میں بے روزگاری
بڑھے گی ، اور معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوگا، لہذاضرورت اِس امر کی ہے کہ
نواز لیگ کوئی ایسااقدام نہ کرے جس کے کرنے سے ضرورت مندافرادبے روزگار
ہوجائیں اور مُلک میں بگاڑکی سی مزید صورت حال پیداہوجائے، میں اپنے اُن
لوگوں کو یہ سمجھناچاہتاہوں کہ زرداری اور نواز کسی سیاسی معاملے میں تو
ایک ہوسکتے ہیں مگربے روزگار کو نوکریاں دینے اور لینے میں دونوں بہت مختلف
ہیں،لہذااپنی اپنی اصلاح کرلیں۔ |