بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں
بھارتی مظالم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو بھارتی حکومت ، اداروں ،
فوج اور دوسری فورسز کی طرف سے کشمیریوں کو انسانیت سوز مظالم کا نشانہ
بنائے ہوئے ہے۔آفرین ہے مقبوضہ کشمیر کے دلیرعوام پر جو تمام تر فوجی جبر
کے باوجود سڑکوں پر نکل کر زبردست احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے بھارت کو بے بس
کرکے رکھ دیتے ہیں۔چند ہی دن قبل بھارت میں مقبوضہ کشمیر کے دو نوجوانوں کو
ناکردہ جرم میں عمرقید کی سزا سنائی گئی اس کے ساتھ ہی بھارت کے دو شہروں
میں دو کشمیری نوجوانوں کو ہلاک کیاگیا۔ ان دونوں واقعات کیخلاف بھی تمام
کشمیری گھروں سے باہرآگئے اور بھارتی فوجیوں کی فائرنگ ، تشدد ،گرفتاریوں
کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شدید احتجاجی مظاہرے کئے۔ اس کے بعد رام بن کے علاقے
گول گلاب گڑھ میں بھارتی باڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کی فائرنگ سے دس
کشمیری شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر کے اخبارات میں شائع خبروں
کے مطابق بی ایس ایف نے ایک مسجد میں داخل ہو کر امام مسجد کو اعتراض پر
تشدد کا نشانہ اورپھر اس کے سر میں گولی مار کر اسے شہید کردیا ۔ اس واقعہ
کے خلاف علاقے کی آبادی بی ایس ایف کے کیمپ پہنچی تو بی ایس ایف کے فوجیوں
نے ان پر فائرنگ شروع کردی بھارتی فوج کی اس بزدلانہ کارروائی کیخلاف
مقبوضہ وادی اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں عوام نے سخت احتجاج کا
سلسلہ شروع کردیا ہے۔
ان ہی دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان ’’بیک ڈور ڈپلومیسی‘‘ کے تحت
مذاکرات ، کئی باتوں پہ اتفاق اور جامع مذاکرات جلد دوبارہ شروع ہونے کی
اطلاعات ہیں۔ پاکستان کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کے فیصلے کے باوجود بھارتی
حکومت مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کے خلاف ہلاکت خیز ، پرتشدد ، قید
اوردوسرے مظالم کی پالیسی پہ مسلسل قائم نظر آتی ہے۔ کشمیریوں کیخلاف بھارت
کارویہ دیکھتے ہوئے بجا طورپر یہ کہاجاسکتا ہے کہ بھارت کشمیریوں کو اپنا
مستقل دشمن قرار دیکر ان کیخلاف اپنی ہر طرح کی طاقت کا بھرپور اورظالمانہ
استعمال کرتے ہوئے ، ان کیخلاف انتقامی رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ تاہم مقبوضہ
جموں و کشمیر کے غیور عوام نے بھارتی حکومت کی تمام تر سازشوں اور مظالم کے
باوجود بے دریغ قربانیاں دیتے، جدوجہد کرتے ہوئے بھارت سے آزادی حاصل کرنے
کے عزم کاپرچم بلند رکھا ہے۔
حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ
بھارت سے بیک ڈور ڈپلومیسی کے آغاز کے اعتراف کرکے وزیراعظم محمد نوازشریف
نے کشمیری قیادت کو مایوس کیا ہے۔پاکستانی میڈیا سے گفتگو میں میر واعظ نے
کہا کہ نوازشریف کی جانب سے بھارت سے ’’بیک ڈور ڈپلومیسی‘‘ کے آغاز کے
اعتراف پر تحفظات ہیں۔ توقع تو یہ تھی کہ نوازشریف کشمیر میں بھارتی فوج کے
ہاتھوں ہونے والی 14 ہلاکتوں پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے عالمی سطح
پرآواز اٹھائیں گے۔انہوں نے کہا کہ کشمیری قیادت کی شمولیت کے بغیر بیک ڈور
ڈپلومیسی ہو یا فرنٹ ڈور، یہ سلسلہ نتیجہ خیز نہیں ہوسکے گی۔میر واعظ عمر
فاروق اکثر وبیشتر بیرون کشمیر کے دورے کرتے رہتے ہیں اور انہیں باقی
کشمیری حریت رہنماؤں کے مقابلے میں رابطوں،بیانات کی زیادہ سہولت حاصل
ہے۔کسی بھی توقع ،مطالبے اور اپیل وغیرہ سے پہلے اپنا’’ ہوم ورک‘‘ مکمل
کرنے کی ایک جائز توقع اور پہلی ضرورت بھی ہوتی ہے۔میر واعظ عمر فاروق اگر
حریت رہنماؤں کے درمیان اتحاد کی ضرورت و اہمیت پر توجہ دے سکیں تو بھارت
اور پاکستان کے لئے مسئلہ کشمیر کے حل میں کشمیری قیادت کو نظر انداز کرنا
ممکن نہ ہو گا،قیادت کے موجودہ پیمانے تو مبہم نظر آتے ہیں۔حریت رہنما
کشمیری عوام کی بھارت مخالف سیاسی مزاحمت کی قیادت کے تقاضوں سے بھی عاری/
محروم چلے آرہے ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری
نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعہ میں پاکستان
کی حکومت اور عوام میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔اس واقعہ سے مسلمانوں کے
جذبات مجروح ہوئے ہیں۔بھارت اس واقعہ کی فوری تحقیقات کرائے ،ذمہ داروں کو
انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
بعض حلقے کہتے ہیں کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے حالات پر سخت ردعمل ظاہر کرے
لیکن وہ کشمیر سے متعلق ان تمام حقائق کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتے
ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی آشیر باد سے اتفاق کردہ ہیں۔یوں
تو پاکستان عرصہ سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور کشمیریوں کی مزاحمت
پر خاموشی اختیار کرنے کی پالیسی پہ قائم چلا آ رہا ہے تاہم مسلم لیگ(ن) کی
حکومت قائم ہونے اور میاں محمد نواز شریف کے وزیر اعظٖم بننے کے بعد کے بعد
پہلی مرتبہ سفارتی خاموشی دیکھنے میں آئی ہے۔ اب کشمیر کے عمومی حلقے بھی
اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ پاکستان کے کشمیر سے متعلق کھوکھلے بیانات سے
کشمیریوں کی بھارت مخالف مزاحمت کی کوئی مدد نہیں ہوتی۔ پاکستان کی کشمیر
سے متعلق پالیسی کیا چلی آ رہی ہے ؟اگر اب بھی کوئی اخباری بیانات کی دنیا
میں، عالم خود فریبی میں جینا چاہے تو یہ اس کی عقل کا معیار ہے۔ہاں اگر
مقصد عوام کو بے وقوف بنانا ہو تو ایسا قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
بھارت اور پاکستان اپنے اندھیرے دور کرنے، اپنی معاشی ترقی کے لئے کشمیر کے
دریاؤں سے بجلی پیدا کر رہے ہیں اور اس حوالے سے بھی کئی سمجھوتوں پر لڑائی
کے باوجود اتفاق رکھتے چلے آئے ہیں۔لیکن مسئلہ کشمیر کے حل میں،کشمیریوں کے
مصائب و مشکلات کے خاتمے کے لئے دونوں ملکوں کی صلاحیتوں کو’’زنگ‘‘ لگ جاتا
ہے۔اکثر کئی شخصیات و افراد کی طرف سے یہ بات سننے میں آتی ہے کہ مسئلہ
کشمیر نہایت پیچیدہ مسئلہ ہے جبکہ حقیقت میں مسئلہ کشمیر کے کئی منصفانہ حل
موجود ہیں ۔مسئلہ کشمیر پیچیدہ نہیں بلکہ یہ بالخصوص بھارت،پاکستان،برطانیہ
اور امریکہ کی سوچ و عمل کی پیچیدگیاں ہیں جس سے برصغیر کو روشن کرنے والا
خطہ کشمیر مسلسل المناک و خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔ یوں مسئلہ کشمیر
نہیں بلکہ ملکوں کی سوچ اور ان کا طرز عمل پیچیدہ مسئلے کے طور پر درپیش
ہے۔ |