مصر میں مرسی کے حامی مظاہرین کو خون میں نہلا دیا گیا

مصر میں پولیس نے محمد مرسی کے حامیوں پر براہ راست فائرنگ کر کے دوسو افراد شہید اور چار ہزار سے زائد افراد کوزخمی کردیا۔ مصر میں فوج کی جانب سے محمد مرسی کی حکومت پر شب خون مارنے کے بعد سے معزول صدر محمد مرسی کے حمایتی مسلسل ان کی بحالی کا مطالبہ کررہے ہیں۔وہ گزشتہ ایک ماہ سے محمد مرسی کے حق میں ”مسجد ربا الاداویہ“ کے باہر دھرنادیے بیٹھے ہیں۔ آرمی چیف جنرل السیسی نے اپنے حامیوں کو شہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انہیں کارروائی کا اختیار دیں اور ان کے حق میں مظاہرے کریں۔ جس پر الاخوان المسلمون نے کہا تھا کہ جنرل السیسی ’خانہ جنگی کی دعوت دے رہے ہیں‘۔ جبکہ الاخوان المسلمون کے روحانی پیشوا محمد بدیع نے بھی محمد مرسی کے حق میں مظاہروں کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جنرل السیسی نے مصر میں جو کیا وہ اس سے بڑا جرم ہے کہ کوئی پھاوڑا لے کر خانہ کعبہ کو مسمار کرے۔‘ مصر میں فوج کی جانب سے نامزد وزیر داخلہ محمد ابراہیم نے کہا تھا کہ ایک ماہ سے جاری مرسی کے حامیوں کے دھرنے کو جلد از جلدختم کیا جائے گا۔ فوج، پولیس اور محمد مرسی کے مخالفین نے کئی طرح کی دھمکیوں سے دھرنے میں بیٹھے محمد مرسی کے حامیوں کو اٹھانے کی کوشش کی، جب ناکام ہوئے تو ان پر اندھا دند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں دوسو افراد جاں بحق اور ساڑھے چار ہزار کے قریب زخمی ہوگئے۔

میڈیا نمائندوں کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کے بعد ہسپتالوں میں ہر طرف خون پھیلا ہوا ہے۔ بہت سے زخمیوں کی حالت بہت خراب ہے۔ بعض کے سروں کے کچھ حصے غائب ہیں۔ بظاہر انھیں سروں میں گولیاں لگی ہیں۔ ہم نے خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کی آوازیں سنیں۔ فضا آنسو گیس سے بوجھل تھی اور لوگوں کو متلی ہو رہی تھی۔ ایک بچہ خون میں لت پت تھا۔ اس کی عمر 12 برس ہو گی۔ اس کا رنگ سفید پڑ گیا تھا۔ ہسپتال کے دروازے بند تھے اس لیے وہ کسی اور زخمیوں کو داخل نہیں کر رہے تھے لیکن ایمبولنسیں پھر بھی پہنچتی رہیں۔رابعہ العدویہ کے اردگرد فون اور انٹرنیٹ کی سہولتیں ختم کردی گئی ہیں تاکہ اس گھناو ¿نے قتل عام کو کوئی میڈیا نہ دکھا سکے۔ قاہرہ میں بی بی سی کے نامہ نگار کونٹن سمرول کہتے ہیں کہ آنسو گیس، شاٹ گن کے کارتوس اور گولیوں سمیت ہر چیز استعمال کی گئی ہے۔ معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں نے رات بھر دارالحکومت میں مظاہرے جاری رکھے۔ شمالی قاہرہ میں الاخوان المسلمون کے حامیوں کے ایک ماہ سے جاری دھرنے کو توڑنے کی کوشش میں تصادم شروع ہوا۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والے افراد پر براہ راست گولیاں چلائیں گئیں اور زیادہ تر متاثرین کو چھتوں سے نشانہ باندھ کر براہ راست سر اور سینے میں گولیاں ماری گئیں ہیں۔الاخوان المسلمون کے ترجمان جہاد الحداد کا کہنا ہے کہ مصری فوج باقاعدہ منصوبے کے تحت شرپسندوں کے ساتھ مل کر حملے کر رہی ہے۔ فوج نے باقاعدہ قتل عام شروع کر رکھا ہے۔ مظاہرین کے سروں اور سینوں کا نشانہ لے کر گولیاں چلائی جا رہی ہیں۔ الاخوان المسلمون کا کہنا ہے کہ پرتشدد ہتھکنڈوں سے ہمارے احتجاج کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ صدر مرسی کی بحالی تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔ ‘ الاخوان المسلمون کے رہنما سعدالحسینی نے بتایا کہ یہ سیکورٹی فورسز کی طرف سے مسجد کا علاقہ خالی کرانے کی کوشش تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’میں پانچ گھنٹوں تک جوانوں کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کرتا رہا لیکن نہیں کر سکا۔ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے خون کی قربانی دی ہے اور پسپا نہیں ہونا چاہتے۔‘

مصرمیں اس درندگی پر الاخوان المسلمون کے مخالفین بھی بول اٹھے۔ جنہوں نے مرسی کی حکومت پر فوج کی جانب سے شب خون مارنے کی حمایت کی تھی انہوں نے بھی اس تشدد کی مذمت کی ہے، جن میں مصر کی جامعہ الازہر کے سربراہ شیخ الازہر احمد الطیب سرفہرست ہیں۔ انہوں نے ایک بیان میں ہفتے کے روز پیش آئے تشدد کے واقعات میں متعدد افراد کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ”ان ہلاکتوں کے ذمے داروں کو ان کی وابستگی سے قطع نظر سزا دی جائے، یہ تشدد کا بدترین واقعہ ہے“۔ مصری رہنما محمد البرادی، برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ اور یورپین یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرائن ایشٹن نے بھی مصر میں مظاہرین کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے پرامن احتجاج کے حق کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ مسٹر اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مصر میں حکومت کی تبدیلی کو بغاوت قرار نہیں دیا جائے گا اور مصر کی سالانہ 1.5 بلین ڈالر کی فوجی امداد جاری رکھی جائے گی۔
دوسری جانب جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے صدر مرسی کی گرفتاری اور معصوم جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہار کر تے ہوئے کہا ہے کہ یقیناً یہ قابل مذمت ہے، صدر مرسی کور ہا کیا جائے اور مرسی مخالف عناصر کو امریکا اسلحہ کی فراہمی کا سلسلہ بند کر کے معصوم انسانوں کی ضیاع کو روک دے۔ امریکا ایک جانب یہ کہتا ہے کہ وہ جمہوریت کا حامی ہے تو دوسری جانب وہ مسلم ممالک میں مداخلت کر کے وہاں پر امن و امان تباہ کرنے کا موجب بن رہا ہے۔ مصر میں ہر روز ہلاکتیں ہورہی ہیں مگر عالمی اداروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کی جانب سے کوئی آواز نہیں اٹھائی جارہی جبکہ اقوام متحدہ کی مصر کی صورت حال پر خاموشی بھی سوالیہ نشان ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے قاہرہ میں صدر مرسی کے حامیوں پر فوج اور شرپسندوں کی فائرنگ کے نتیجے میں مزید دوسو سے زائد افراد جاں بحق اور ساڑھے چار ہزار افراد زخمی کر دیے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ مصری عوام جمہوریت کی بحالی کے لیے پرامن مظاہرے کر رہے ہیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔ مغربی حکومتیں، عالمی ادارے اور حقوق انسانی کی تنظیمیں اس قتل عام پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے جنرل السیسی اور ان کے حامیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے پیشرو حکمرانوں کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔ سرزمین مصر پر کئی فرعون عبرت کا نشان بن چکے ہیں اور اب جنرل السیسی کی باری ہے۔

واضح رہے جمعہ کے روز مصری فوج نے باقاعدہ طور پرمصر کے معزول صدر محمد مرسی کو فلسطینی تنظیم حماس کے ساتھ سازباز کرنے اور 2011 ءکی بغاوت کے دوران جیل پر حملوں کی منصوبہ بندی کے الزامات کے تحت حراست میں لے لیا ہے۔حکام ان سے فلسطینی تنظیم حماس سے تعاون کے الزامات سے متعلق تفتیش کر رہے ہیں۔ الاخوان المسلمون کا کہنا ہے کہ صدر مرسی کی حراست دیکھ کر لگتا ہے کہ حسنی مبارک کا دور واپس لوٹ آیا ہے۔ صدر مرسی کے خلاف عاید الزامات سے صدر مبارک کے انتقام کی بو آتی ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ مصر کے برطرف صدر کے خلاف شروع ہونے والا فوجداری تحقیقات کا سلسلہ محمد مرسی اور الاخوان المسلمون کے خلاف وسیع البنیاد قانونی اقدامات کا نقطہ آغاز ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں سے معزول صدر مرسی کی خفیہ حراست کے دوران فوجی انٹلی جنس نے ان سے ایوان صدر اور الاخوان المسلمون کے طریقہ کار کے بارے میں متعدد سوالات کیے ہیں۔برطرفی کے بعد سے مصر کی فوجی انٹلی جنس کے سوا کسی کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں۔ ان سے روزانہ کی بنیاد پر تفتیش کی جاتی ہے جو بسا اوقات 5 ، 5 گھنٹے جاری رہتی ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج محمد مرسی سے حاصل ہونے والی معلومات کو الاخوان المسلمون کے دیگر قائدین پر فرد جرم عاید کرنے کے لیے بطور جواز استعمال کرسکتی ہے۔ نیز خفیہ تفتیش کے نتائج کو الاخوان المسلمون پر پابندی لگانے جیسے انتہائی ڈرامائی اقدام کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور محمد مرسی کو انتقامانہ موت کی سزا بھی دے سکتی ہے۔ادھر الاخوان المسلمون کا کہنا ہے کہ محمد مرسی کے خلاف مقدمہ چلانے کا اعلان ”خونی بغاوت کی راہ ہموار کرنے والی فوجی قیادت کے سیاسی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا مظہر ہے“ تاہم محمد مرسی سے کی جانے والی تفتیش کے قرائن بتاتے ہیں کہ مصری فوج 85 سالہ قدیم دینی سیاسی جماعت الاخوان المسلمون پر پابندی لگانا چاہتی ہے۔ الاخوان پر پابندی کی صورت میں اسلام پسند عوام شدید ردعمل ظاہر کر سکتے ہیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701008 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.