جمعہ کے روز پاکستان پیپلز پارٹی نے تیس جولائی کو ہونے
والے ملک کے صدارتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی
جانب سے صدارتی امیدوار میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ صدارتی انتخابات کے
بائیکاٹ کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے ہمیں
اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ہم نے جمہوریت کے تسلسل کے لیے
11 مئی کے انتخابی نتائج کو قبول کیا۔ ہم سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی قبول کر
لیتے مگر ہمارا آج کا فیصلہ فوجی اور سویلین آمریت کے خلاف ہماری جدوجہد کا
حصہ ہے۔ امید تھی کے 18ویں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن آزاد ہو گا۔ انتخابی
شیڈول دینا اور انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ان کا مزید
کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے سنجیدگی سے انتخابی مہم میں حصہ لیا، انتخابی
مہم میں تمام اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کیا اور اپوزیشن کا متفقہ امیدوار
لانے کی بھی کوشش کی۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کی جانب سے صدارتی انتخاب کی
تاریخ میں تبدیلی کے فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انتخابات میں
حصہ لیے یا نہ لینے پر غور شروع کر دیا تھا۔ 24 جولائی کو صدارتی امیدوار
رضا ربانی نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے صدارتی انتخاب کی تاریخ میں تبدیلی
ایک ہی فریق کو سن کر دے دی، وہ بھی صدارتی انتخاب کے امیدوار ہیں لیکن
انہیں نوٹس تک نہیں بھجوایا گیا۔ اس موقع پر سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا
تھا کہ صدارتی انتخاب کی تاریخ میں تبدیلی مسلم لیگ (ن) کی خواہش پر ہوئی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر انہیں حیرت ہے کیونکہ اس فیصلے کی کوئی قانونی
آئینی بنیاد نہیں اور الیکشن کمیشن سے بھی نہیں پوچھا گیا۔ دنیا میں
انتخابی عمل جنگ کے دوران بھی ہوتا ہے۔ وزیراطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے
کہ صدارتی انتخاب کے شیڈول کے بارے میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس
پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ 27ویں رمضان کی خصوصی عبادات کے پیش نظر
اس روز ووٹ ڈالنا مشکل ہوتا۔پی پی کے بائیکاٹ پر الیکشن کمیشن کا کہنا تھا
کہ صدارتی انتخاب کے شیڈول میں تبدیلی عدالت عظمیٰ کے حکم پر کی گئی،پی پی
کو چاہیے تھا کہ وہ عدالت جاتی، بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔صدارتی انتخاب
جمہوری عمل کا حصہ ہے، پی پی کے شریک نہ ہونے سے افسوس ہوا ہے۔پی پی کے
بائیکاٹ کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلوں پر
ہمیں بھی تحفظات ہیں لیکن پی پی کا ردعمل سخت تریں ہے۔ پی پی کے فیصلوں سے
مایوسی ہوئی ہے۔جبکہ اس بائیکاٹ کے حوالے سے میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ
تحریک انصاف کا انتخاب میں حصہ لینا قابل تحسین ہے،جس سے جمہوریت مضبوط
ہوگی۔ پی پی کے بائیکاٹ سے مایوسی ہوئی ہے، یہ اقدام جمہوری روایات کے خلاف
ہے۔ واضح رہے کہسپریم کورٹ میں صدارتی انتخاب چھ اگست کی بجائے تیس جولائی
کو کرانے کی درخواست مسلم لیگ نون نے منگل کو سپریم کورٹ میں دی تھی۔بدھ کو
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس درخواست کی
سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو صدارتی انتخاب تیس جولائی کو کرانے کا حکم
دیا تھا۔درخواست میں حکمران جماعت نے موقف اختیار کیا تھا کہ صدارتی انتخاب
کی تاریخ چھ اگست رمضان کے آخری عشرے میں آ رہی ہے اور تیس کے لگ بھگ ارکان
پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب
جائیں گے جبکہ متعدد ارکان اعتکاف بھی بیٹھیں گے، اس لیے صدارتی انتخاب چھ
اگست کی بجائے تیس جولائی کو کرایا جائے۔
ذرائع کے مطابق پی پی کا خیال تھا کہ متحدہ صدارتی انتخاب میں ہمارا ساتھ
دے گی، اس صورت میں پی پی کا صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا ارادہ تھا۔لیکن
جب متحدہ کی طرف سے پی پی کا ساتھ دینے کی نفی کی گئی تو پی پی نے سمجھا کہ
ہم بائیکاٹ کردیتے ہیں ، متحدہ اور تحریک انصاف بھی ہمارے ساتھ بائیکاٹ
کریں گی۔ پی پی نے بائیکاٹ کا اعلان کرنے سے پہلے دوسری اپوزیشن جماعتوں کو
بھی ا نتخاب کا بائیکاٹ کرنے کا مشورہ تھا،لیکن اسے مایوسی کا سامنا کرنا
پڑا۔ پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں کی چودھری شجاعت سے ملاقات میں صدارتی انتخاب
میں حصہ لینے یا اس کے بائیکاٹ پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ چودھری شجاعت حسین
نے صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ کے معاملے پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان
سے مشاورت کی تجویز دی تھی۔ چودھری شجاعت حسین نے صدارتی انتخاب پر پیداشدہ
صورتحال کو جمہوری سسٹم کے حوالہ سے الارمنگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ن
لیگ کی من مانی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ ممنون صرف نوازشریف کے ممنون
رہیں اور آگے پیچھے نہ دیکھیں۔ اچھا ہوتا کہ عمران خان پیپلزپارٹی کے ذمہ
داران کی اپیل پر غور کرتے اور ان کی مان لیتے ، کیونکہ مجھے نظر آرہا ہے
کہ آنے والے وقت میں ایسی ہی اپیل لے کر عمران خان کو پیپلزپارٹی کی قیادت
کے پاس جانا پڑے گا۔ پیپلزپارٹی کے وفد نے قومی وطن پارٹی کے رہنما آفتاب
شیرپاﺅ سے بھی ملاقات کی تھی جس میں صدارتی انتخاب پر مشاورت کی گئی۔جبکہ
پیپلزپارٹی کے قائدین نے جب اے این پی کے سربراہ اسفند یارولی سے بھی
ملاقات کی تو اے این پی نے پیپلز پارٹی کا بھرپور ساتھ کا اعلان کردیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے سینٹرل سیکریٹریٹ میں جمعہ کی سہ پہر صدارتی
انتخاب کا بائیکاٹ کرنے یا حصہ لینے کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں عمران
خان اور پرویز خٹک صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کرنے کے شدید ترین حامی تھے۔
اس دوران بذریعہ فون پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، پارٹی کے صدر
جاوید ہاشمی اور سینئررہنما جہانگیر ترین سے بھی رائے لی گئی۔صدارتی انتخاب
میں حصہ لینے یا بائیکاٹ کرنے کے فیصلہ پرتحریک انصاف کے قائدین کی گھنٹوں
بحث بے نتیجہ رہی اور بالآخر عمران خان نے ذاتی اختیار استعمال کرکے نہ
چاہتے ہوئے بھی جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کی بزرگی اور احترام کے پیش
نظران کی بات مان لی اورصدارتی انتخاب سے بائیکاٹ نہ کرنے کا فیصلہ
کیا۔جہانگیر خان ترین نے تویہاں تک کہاکہ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد سے
درخواست کریں کہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی ضدکرکے پارٹی کیساتھ زیادتی
نہ کریں جبکہ جسٹس (ر) وجیہہ الدین کسی کی سننے کوتیارنہ تھے ۔ بحث جب حد
سے بڑھی اور عمران خان نے محسوس کیاکہ پارٹی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہی ،
توعمران خان نے جسٹس (ر) وجیہہ الدین کی بزرگی اوراحترام میں بطور چیئرمین
اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے حتمی فیصلہ صادرکیا اورکہا کہ ہم الیکشن
کا بائیکاٹ نہیں کریں گے۔
دوسری جانب جمعہ کے روز نوازلیگ کے وفد نے ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو کا
دورہ کیا، دونوں وفد کے ارکان میں بات چیت ہوئی جس کے بعد ایم کیوایم نے
غیر مشروط طور پر نوازلیگ کی حمایت کا اعلان کردیا۔ذرائع کے مطابق نوازلیگ
کے نائن زیرو جانے سے نوازلیگ(سندھ) میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔
متعدد لیگی رہنماﺅں نے ممنون حسین کے ساتھ مرکز نائن زیرو جانے سے بھی
انکار کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ نوازلیگ کو سیاسی طور پر متحدہ دوستی سے
ناقابل تلافی نقصان ہوگا اوریہ کہ نائن زیروجانے کے لیے ہمیں اعتماد میں
نہیں لیا گیا۔مسلم لیگ (ن) کے وفد کی نائن زیرو آمد پر پیر پگاڑا بھی ناراض
ہو گئے۔ جمعہ کو نائن زیرو آمد کے بعد اسحاق ڈار کی قیادت میں مسلم لیگ (ن)
کے وفد نے پیر پگاڑا کو ملاقات کا پیغام بھیجا اور ان سے ملاقات کی درخواست
کی تاہم پیر پگاڑا نے ملاقات سے معذرت کر لی اور ان کے سٹاف کی جانب سے
مسلم لیگ (ن) کو جواب دیا گیا کہ پیر پگاڑا ذاتی مصروفیت کی وجہ سے آج
ملاقات نہیں کر سکتے، ممنون حسین کامیاب ہو کر راجہ ہاﺅس آئے تو پیر پگاڑا
ملاقات کریں گے۔حالانکہ پہلے سے افطار عشایے کا پروگرام طے تھا۔ ذرائع کے
مطابق مسلم لیگ (ن) کے وفد نے ایم کیو کے مرکز جانے کے بارے میں پیر پگاڑا
کو اعتماد میں نہیں لیا جس پر پیر پگاڑا ناراض ہیں۔ |