پاکستان کے ساتھ بھارت کی چپقلش ایک عرصے سے جاری
ہے۔دونوں ملکوں کے باسیوں کے درمیان انتہا درجے کی دوریاں پائی جاتی
ہیں۔نواز شریف کی حکومت جب بھی اقتدار میں آئی تو اس نے آپس میں پینگیں
بڑھائی ہیں۔اب کی بار ایک بار پھر پاکستان کے وزیر اعظم میاں نوازشریف نے
پاکستانیوں کی تمام مخالفتوں کے باوجود بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا
اور ہر سطح پر بھارت کے ساتھ معاملات بہتر بنانے کی کوشش کی۔اس کے لیے میاں
صاحب کئی بار بھارتی حکومت کو مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں۔بھارت کی جانب سے
ہر بار سردمہری برتی گئی ہے لیکن اس بار بھارتی حکومت نے بھی پاکستان سے
مذاکرات کی حامی بھر لی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت نے پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کی بحالی پر
رضامندی ظاہر کردی ہے۔ اگست میں سیکرٹری آبپاشی کی سطح پر مذاکرات اسلام
آباد میں شروع ہوں گے۔ وولر بیراج کے مسئلے پر مذاکرات 27 اور 28 اگست کو
جبکہ سرکریک میری ٹائم سرحد تنازع پر 16 اور 17 ستمبر کو سروئیر جنرل کے
درمیان مذاکرات ہوں گے۔ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ وزیراعظم نوازشریف سے
ستمبر میں نیویارک میں ملاقات کریں گے۔روڈ میپ کے مطابق خارجہ سیکرٹریوں کے
درمیان کشمیر کے تنازع پرمذاکرات کے ساتھ ساتھ پاکستان پانی اور سرکریک پر
بات چیت کی میزبانی کرے گا جبکہ بھارت سیاچن گلیشیر پر مذاکرات کی میزبانی
کرے گا۔ پاکستان نے پانی اورسرکریک کے معاملوں پرسیکرٹریوں سطح کے مذاکرات
کے تیسرے دورکے لیے تاریخیں تجویز کیں جن پر بھارت سنجیدگی سے غور کررہا ہے۔
دونوں ملکوں کے مشترکہ کمیشن 8 ٹیکنیکل گروپوں کے مذاکرات کی تاریخوں پربھی
مشاورت جاری ہے۔ 4 اجلا س نئی دہلی اور 4 اسلام آباد میں ہوں گے۔ آبی
منصوبوں کے حوالے سے پاکستان بھارت حکام کے ملاقات اس سال جنوری میں طے تھی
جسے بھارت نے سیکرٹری پانی و بجلی کی ریٹائرمنٹ کا کہہ کر مارچ تک معطل
کردیا تھا۔رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان خارجہ سیکرٹری سطح
پر مسئلہ کشمیر، سیاچن، سرکریک، اقتصادی تجارتی تعاون، باہمی دوستانہ
تبادلے، دہشت گردی، منشیات کی سمگلنگ اور امن و سلامتی کے معاملات پر ستمبر
میں بات چیت ہونے کے روشن امکانات ہیں۔ خارجہ سیکرٹری کی سطح پر کشمیر کے
حوالے سے بات ہو گی۔ اس میں امن و سلامتی کے موضوع پر بات ہو گی۔ بھارت میں
داخلہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات ہوں گے۔ سیکرٹری دفاع کی سطح پر سیاچن
پر مذاکرات ہوں گے جبکہ خارجہ سیکرٹری دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات کی
پیشرفت کا جائزہ لیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان نے سینئر اہلکاروں کی سطح پر مذاکرات کے لیے بھارت کو
اگست اور ستمبر میں دو تاریخیں تجویز کی تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان
مذاکرات کا تیسرا دور ستمبر 2012ءمیں شروع ہوا تاہم سرحدوں پر پیدا ہونے
والی کشیدگی کے باعث یہ دور معطل ہو گیا تھا۔ پاکستان نے دونوں ممالک کے
درمیان پانی و بجلی کے سیکرٹریوں کی سطح پر وولر بیراج کے حوالے سے مذاکرات
کے لیے 28/27 اگست کی تاریخ دی تھی۔ سرکریک، میری ٹائم باﺅنڈری کے مذاکرات
کے لیے 16-17 ستمبر کی تاریخ دی گئی تھی۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے ان
تاریخوں کے بارے میں چند روز قبل بھارتی وزارت خارجہ کو اطلاع دی تھی اور
اس کے جواب کا بدستور انتظار تھا۔ایک سینئر پاکستانی اہلکار کا کہنا تھا کہ
اب گیند بھارت کے کورٹ میں ہے۔اب بھارت نے مذاکرات کے لیے مثبت جواب دیا ہے
۔ ذرائع کے مطابق تیسرے کمپوزٹ مذاکرات کا عمل اسلام آباد اور نئی دہلی میں
خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات سے دوبارہ شروع ہو گا۔ مذاکرات کی بحالی کا
فیصلہ اس مہینے کے آغاز میں برونائی میں وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز
اور بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کے درمیان آسیان کی سائیڈ لائن ملاقات
میں ہوا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف کے انتخاب کے بعد یہ پہلے مذاکرات ہوں گے۔
یہ بھی واضح رہے کہ فاسٹ ٹریک امن عمل اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے
وزیراعظم نواز شریف نے سابق خارجہ سیکرٹری شہر یار خان کو بھارت کے لیے
اپنا خصوصی ایلچی مقرر کیا تھا۔ جامع مذاکرات کا آغاز فروری 2004ءمیں شروع
ہوا تھا۔ بعد ازاں کئی بار ان میں رکاوٹیں آتی رہیں۔ جامع مذاکرات میں
سیاچن، وولر بیراج، تلبل نیوی گیشن پراجیکٹ، سرکریک، اقتصادی تجارتی تعاون،
دوستانہ تبادلے، دہشت گردی، منشیات کی سمگلنگ، امن و سلامتی، جموں و کشمیر
کے معاملات شامل ہیں۔
بھارت کے جانب سے مذاکرات کی رضامندی پر پاکستانی حکومت اور بہت سے افراد
نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت مذاکرات پر رضامند
ہوگیا ہے تو یہ ایک اچھی بات ہے، اس سے دونوں ملکوں میں پیدا دوریاں کسی حد
تک ختم ہوسکتی ہیں۔لیکن گزشتہ روز بھارت کی جانب سے پونچھ سیکٹر پر فائرنگ
کے نتیجے میں پاکستانی حدود کی خلاف ورزی اور پاکستانی سپاہی کی شہادت اور
بھارت کے حالیہ الزام جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نئی حکومت کے بننے
کے بعد مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کی کارروائیاں تیز ہوگئی ہیں۔وزیر اعظم
نوازشریف نے مسئلہ کشمیر پر ایک خفیہ منصوبہ تشکیل دیا ہے جس پر عمل ہورہا
ہے، اس پر مبصرین کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو بھارت مذاکرات کی بات کرتا ہے
اور دوسری جانب پاکستان کے خلاف جارحیت کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ
سراسر دھوکا ہے۔دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) سعیدالظفر نے کہا ہے کہ بھارت
ہمارا کھلا دشمن ہے۔ وہ ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ نہیں جانے
دیتا۔ جبکہ ہم بھارت سے دوستی کی خواہش لیے بھارت کے آگے پیچھے چکر لگا رہے
ہیں۔ بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر گولہ باری پرانہوں
نے کہا کہ بھارت سے اچھے تعلقات کی توقع رکھنا حماقت ہے۔ بھارت سے برابری
کی سطح پر بات کرنی چاہیے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیریوں پر مظالم بڑھتے جا
رہے ہیں اور ہم خاموش بیٹھے ہیں۔ ہم اپنے ملک اور دین کو نقصان پہنچانے
والے دہشت گردوں سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ کشمیری رہنماﺅں عبدالرشید ترابی،
نصیب گردیزی اور پیر عتیق الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے
مسلسل دوستی کی پینگیں بڑھانے کے بیانات نے بھارت کی حکومت کو شہ دی ہے کہ
وہ جب چاہے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرے اور افواج پاکستان کی طرف
قدم بڑھائے۔ حکومت پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے
بھارت سے برابری کی بنیاد پر اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہو گی۔
پاکستان کو کمزور نہ سمجھا جائے۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔وزیر اعظم
آزادکشمیر چودھری عبدالمجید نے کہا ہے کہ بھارت نے برصغیر کے امن کو داﺅ پر
لگا رکھا ہے اور اس ریجن کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے مستقبل کو داﺅ پر لگا رکھا
ہے۔ مہذب دنیا اس ریجن کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے
لیے کشمیر کا مسئلہ حل کروائے۔اس ریجن میں امن وخوشحالی مسئلہ کشمیرکے حل
سے ہی ممکن ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔ اس خطے
میں امن مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے۔ پاکستان بھارت آبی جنگ ایٹمی جنگ
سے زیادہ خطرناک ہوگی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان کے درمیان مسئلہ
کشمیر حل نہیں ہوتا اس وقت تک دونوں ملکوں میں دوریاں ختم نہیں ہوسکتیں،
بھارت نے مذاکرات کے لیے ہاں تو کردی ہے لیکناس قسم کے مذاکرات پہلے بھی
ہوچکے ہیں کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، اب دیکھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے
تعلقات کس سطح تک بہتر ہوتے ہیں اور اس سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ |