پاکستان نے ہمیشہ اس بات کا
اعادہ کیاہے کہ افغانستان میں امن کیلئے وہ اپنا مثبت وغیر جانبدار کردار
ادا کرتا رہے گا۔پاکستان میں اعلی سیاسی وفوجی قیادت سے مذاکرات ہوں یا پھر
بیک ڈور چینل پاکستان کی عسکری قوت کا ہمیشہ پیام پیغام دنیا عالم کو دیا
چکا ہے ۔ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے مشروط ہے اور افغانستان سے جب
بھی امریکہ افواج کا انخلا دیانت داری سے نہیں ہوتا اور افغان کٹھ پتلی
حکومت پاکستانی حدود کی خلاف ورزیوں سے ہاتھ نہیں اٹھاتی اور اپنی سرحدوں
کو بیرونی عسکریت پسندوں کیلئے کھلی چراگاہ استعمال کرنے سے نہیں روکتی اُس
وقت تک مستقل امن کی ضمانت کوئی فریق نہیں دے سکتا۔پاکستانی مملکت امریکہ ،
روس اور افغان جنگ میں معاشی بدحالی کی انتہاء کوپہنچ چکی ہے اسے کشکول میں
خیرات کی نہیں بلکہ پاکستان کو معاشی بد حالی سے نکالنے کیلئے مارشل پلان
کی ضرورت ہے۔پاکستانی اداروں کو امریکہ اورنیٹو افواج کے اسکریپ کئے
جانیوالے اسلحہ وسازوسامان سے زیادہ اداروں کی تعمیر نو کیلئے اربوں ڈالر
کی ضرورت ہے ،چونکہ یہ پاکستان کی جنگ نہیں تھی بلکہ بین الاقوامی قوتوں کی
بنا پر پاکستان اپنے ملکی مفاد پرست عناصروں کی وجہ سے دھنس چکا ہے اورایسے
اب شیدید مالیاتی بحران کا سامناہے۔روس کے بعد امریکہ و برطانیہ کی مہم
جوئیوں کی وجہ سے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں
بھاری اخراجات کا سامنا ہے اسلئے قانونی و اخلاقی مدد کرنا بین الاقوامی
قوتوں کافرض بنتا ہے۔لیکن ایسا محسوس ہورہاہے کہ امریکہ کو اس معاملے سے
کوئی دلچسپی نہیں ہے۔امریکی آٹے میں نمک کے برابر معمولی امداد دیکرڈو
مورکامطالبہ کرنے لگتا ہے جبکہ کوئی مالیاتی پیکیج دینے سے گریزاں نظر آتا
ہے۔انفرااسٹرکچرکی بحالی دہشت گردی کی وجہ سے تباہشدہ ومتاثرہ گھر اور
متاثرین کی بحالی کیلئے امریکہ کی جانب سے متاثرینکو پاکستان کے دوسرے
علاقوں سے واپسی کے معاملات میں شدیدمشکلات کا سامنا ہے اور ان کیلئے فوری
طورپر اپنے معمولات زندگی کو بحال کرنا ممکن نہیں ہوگا۔جس کا براہ راست
پاکستان کی معیشت اور ہونے والی دہشت گردی پر پڑتاہے کیونکہ ان متاثریں کی
آڑ میں ہی یہ دہشت گرد پناہ حاصل کئے ہوئے ہیں اور انھیں اپنے بلوں سے باہر
نکالنے کیلئے اپنے آبائی گھروں میں واپس جانے والوں کو باعزت طریقے سے واپس
مکمل اسکرینکنگ کرکے بھیجوانا ہوگا ۔ اس کے بعدہی قیام امن کا کوئی منصوبہ
کامیابی کا ایک زینہ بھی چڑھ سکے گا۔امریکہ کی جانب سے پاکستان کے لئے کسی
بڑی امدادکااعلان نہ کرنا اس بات کی غمازی کرتاہے کہ پاکستان اپنی معیشت
کوسود خور مالیاتی اداروں کے آگے گروی رکھ دیاورنواز حکومت کوباآلاخر یہی
کرناپڑااور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط قرضے حاصلکرنے کیلئے ٹیکسوں کا بھاری
بوجھ جی ایس ٹی کی صورت میں منتقل کردیا ۔بجلی کے نر خوں میں اضافے پر توجہ
مبذول کی جاتی ہے لیکن گیس وبجلی چوروں کی گرن پکڑنیکے بجائے ان قانون کے
کٹہرے میں کھڑا کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔پاکستان کی اس راگنی کا امریکہ پر
کوئی اثر نہیں ہوتا کہ امریکہ ڈرون ٹیکنالوجی پاکستان کو مہیاکرے اور یہ
حملے بند کرے۔ڈرون حملے بندکرانے ،نیٹو سپلائی بندکرانے اور یکساں تعلیمی
نظام نافذ کرنے والے وزیراعلی ہاوس کی عیش وعشرت اور مراعات چھوڑنے سے
گریزاں ہیں اورصر ف چند دن میں ہی قوم سے کئے جانے والے وعدے بھول گئے۔بھلا
پھرکیسے ممکن ہے کہ دہشت گردی کے منصوبوں کے ہیڈ کواٹر شمالی وزیرستان میں
کسی بھی قسم کے آپریشن کی امریکی مطالبات کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔شمال
ومغربی علاقوں میں کئے جانے والے فوجی آپریشن سے عوام میں منفی جذبات پیدا
ہوئے اور یہی امریکی خوائش تھی کہ فوج کامورال کم کرنے کیلئے ایسے اس کی
عوام کے سامنے ہی کھڑاکردیاجائے۔امریکہ کو پاکستان کی مالی ضروریات کو
پوراکرنے کیلئے ازخود اقدامات کرنے چاہیے،انخلا کے بعد افغانستان ایک زخمی
شیر کی طرح ہوگااور امریکہ کیلئے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ دوبارہ افغانستان
میں چڑھائی کرے اسلئے اس کی مسلسل کوشش ہے کہ افغانستان اورپاکستان کی
ثقافتی وتمدنی دوستانہ تعلقات کو اس قدر تلخ کرادیا جائے کہ بھارت سے زیادہ
پاکستان کو اپنے سرحدوں کی حفاظت کرنے کیلئے اپنی افواج کوحرکت میں لانا
پڑے۔اگرچہ پاکستان خودبھی دہشت گردی کا شکار ہے لیکن اس کے سامنے یہ امریکی
منصوبے پہلے بھی سامنے آچکے ہیں کہ مغربی ومشرقی پاکستان کوتوڑنے میں اس کا
اہم کردار رہا ہے۔ لیکن امریکہ کویہ بات یاد رکھناہوگی کہ پاکستان دہشت
گردی کے خلاف مہم میں چار و نا چار شامل تو ہو گیا لیکن عالمی برادری کو
بھی اس حوالے سے متحرک ہونا ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور یہ مہم صرف
پاکستان کی نہیں ہے بلکہ اس کی کامیابی میں عالمی امن کا مستقبل پوشیدہ
ہے۔لہذا دیگرممالک کو بھی دہشت گردی کے خلاف جاری اس مہم،جسمیں پاکستان
فرنٹ لائن سٹیٹ کا کرداراداکررہاہے۔،میں اپنے حصے کاکرداراداکرنا
چاہیے۔اوردیگر ممالک یہ کردار پاکستان کی مالی مدد اورتجارتی تعاونکی صورت
میں کرسکتاہے۔ پاکستان ہرسال اربوں ڈالراسجنگ میں جھونک رہا ہے تاکہ پوری
دنیامیں پائیدار امن کویقینی بنایا جاسکت لہذا دیگر ممالک کی ذمے داری بنتی
ہیکہ وہ پاکستان کا یہ نقصان پورا کرنے کے لئے خالی وعدے دعوے نہیں بلکہ
عمل اقدامات کریں۔پاک افغان سرحد پر طالبان کی بلا عوک آمد و رفت جاری ہے۔
پاکستان نے بیرونی عسکریت پسندوں سے نجات کے لئے عملی اقدامات کئے جس سے
انتہا پسندوں کازور ٹوٹ رہا ہے،لیکن پاکستان کیلئے یہ سب اکیلا کرنا ممکن
نہیں ہے۔پاکستان سے طالبان کا زور مستقل بنیادوں پر ختم نہیں ہوسکتا۔کیونکہ
ان کی جڑیں پاکستان بھر اسطرح امریکہ مخالف جذبات کے تحت پھیل چکی ہیں کہ
تمام تر جانی و مالی نقصانات کا مکمل ذمے دار،طالبان کے بجائے امریکہ کوہی
سمجھا جاتاہے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کیجائزیسے امریکی
عزائمکاعلم ہو جاتاہے کہ امریکہ اس افغان جنگ کو بلوچستان اورایران تک لے
جانا چاہتاہے۔پاکستانی حکام اوبامہ حکومت پرواضح کرچکے ہیں کہ جنوبی
افغانستان میں طالبانکے خلاف آپریشن سے طالبان جہاں ایکطرف پاکستان میں
داخل ہونگیتو دوسری جانب صوبہ بلوچستان میں شورش کومزید ہوا ملیگی۔امریکی
اوراسکے اتحادی ڈیورنڈ لائن پر سخت سیکورٹی کرنے سے تامل برت رہے ہیں یہی
وجہ ہے کہ پاکستان میں شورشوں کو ختم کرنے میں عسکری قوتوں کودقت
کاسامناہے۔اگر شدت پسندوں کوافغان باڈر پرہی روکے جانیکے اقدامات وقت پر
مکمل کر لئے جاتے پاکستان میں ان کا داخلہ آسان نہیں ہوتا اورانھیں مستقبل
میں اپنے فوجیوں اور سازوسامان کی حفاظت کیلئے درد سر نہیں اٹھانا پڑتا۔
اتحادی افواج طالبان کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں اوراب امریکہ کی گرد
انکاحصار تنگ وگھیرا ہوچکاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ ، کوئٹہ تاکراچی
تمام اسٹیک ہولڈر کواعتماد میں لینا ہوگا۔پاکستان کے مختلف شہروں میں
دہشتگردی کی کاروائیاں،بلیک واٹر سیکرو کر امریکہ اپنی اس خام خیالی سے
باہر نکل آئے کہ وہ چندہزار فوج افغانستان میں رکھ کر پورے خطے کو کنٹرول
کرلیگا۔یا پھراپنے من پسند لوگوں کو مختلف صوبوں میں حکومتیں دلاکر
پاکستانی اداروں کی مدد سے پاکستان سے با حفاظت نکل سکے۔ تحریک
انصاف،خیبرپختونخوا ، بلوچستان میپ ،سندھ میں پی پی پی اور پنجاب ووفاق میں
مسلم لیگ کوحکومتیں دلاکرامریکہ غلط فہمی کا شکار ہے ان کی پٹھو حکومتیں
انکی باحٖفاظت رہائی کیلئے کوئی قابل عمل کردار ادا کرسکیں گے۔افغانستان
میں دو محاذ سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی اوربھارتی جارحیت
کیلئے ان کوآشیر باددینا،امریکہ کی باقی ماندہ معیشت کو بھی تباہ کردے گا۔
امریکہ ،پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے تقاضوں کوسمجھے اور اسکے لئے
مثبت اور نیک نیتی سے اقدامات کرے- |