نیرہ کہانی

ظلم کی داستان سناتے ہوئے اسکی آواز بھراگئی۔سیاہ اور گہری آنکھوں سے آنسووں کی لکیر چمپئی رخساروں سے بہتی ہوئی لبوں کے کنارے کہیں گم ہوگئی۔ کچھ گھبراہٹ بھی تھی شائد، اور کیوں نہ ہوتی، دنیا کے سب سے طاقتور ایوان سے خطاب، اور وہ بھی صرف ١٥ یا ١٦ برس کی عمر میں۔ پروین شاکر نے کیا خوب کہا کہ
ماں سے کیا کہیں گی دکھ ہجر کا کہ خود پر بھی
اتنی کم عمروں میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

لیکن یہاں تو معاملہ ہی دوسرا تھا۔ آج تو وہ مہذب دنیا کے سامنے ظلم کے رازوں سے پردہ اٹھانے جارہی تھی۔ ایسے مظالم جنہیں دیکھ کر شیطان بھی شرمادے۔ ایک ایسی قوم جنکی عورتوں کو دیکھ کر پتھروں کا دور اور مردوں کو دیکھ کر فرعون یاد آجائے۔ آج اسے موقع ملا تھا کہ وہ ایک آزاد قوم جسکا قائد اسکی نظر میں علم، ترقی، مساوات اور آزادی کا علمبردار تھا کہ سامنے نہ صرف ظالموں کو بے نقاب کرے بلکہ انکے خلاف مدد کی التجا کرے-

ایوان پر سکتہ طاری تھا۔ لیکن اراکین کے چہروں پر پائی جانے والی بے چینی نمایاں تھی۔ کچھ یہی کیفیت وہاں پر موجود عالمی زرائع و ابلاغ، مبصرین ، سفارتکار اور دیگر شرکا کی تھی۔ اسکی آواز اس وقت دنیا بھر میں سنی جارہی تھی اور ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ کاش کوئی ایسی قووت ہاتھ میں آجائے جسکی مدد سے اس ظالم قوم کو نیست و نابود کیا جا سکے۔ وہ خاموش ہوئی تو ایوان کے ایک معزز اور بااثر رکن کھڑے ہوے اور پورے ایوان سے مخاطب ہوتے ہوے یوں گویا ہوے کہ وقت آگیا ہے کہ مہذب دنیا ان ظالموں کا راستہ بزور طاقت روکے۔

جی نہیں آپ غلط سمجھے ہیں۔ میں یہاں پر نیرہ سعود الصباح کا زکر کررہا ہوں

٩٩٠ میں نئرہ صرف ١٥ برس کی تھی جب عراق نے کویت پر حملہ کردیا۔ نئرہ عدن ہسپتال میں بطور رضا کار نرس کام کرتی تھی۔ حملے کے وقت نئرہ زچہ بچہ وارڈ میں تعینات تھی۔ امریکی کانگریس میں بیان دیتے ہوئے نئرہ نے بتایا کہ مجھ سمیت ١٢ خواتین رضا کار ڈیوٹی پر تھیں جن میں سب سے کم عمر میں تھی۔ اس دوران مسلح عراقی فوجی ہسپتال میں گھس آئے اور انتہائی بیدردی سے انہوں نے انکیوبیٹرز میں رکھے ہوئے نومولود بچوں کو ٹھنڈے فرش پر مرنے کیلئے پھینک دیا اور انکیوبیٹر اپنے ساتھ لے گئے۔ نئرہ کے اس بیان سے امریکہ سمیت دنیا بھر میں صدام حسین اور عراقی افواج کیخلاف غم و غسے کی لہر دوڑ گئی۔ اخبارات میں شہ سرخیاں لگائی گئیں۔ عراق کیخلاف فوجی کارروائی کے مطالبات کئے گئے۔ امریکی صدر بش جسے فوجی کارروائی کےلئے کانگریس اور سینٹ کی منظوری کی شدت سے ضرورت تھی، نے اسے بطور دلیل استعمال کیا۔ نتیجتہ امریکی سینیٹ نے ٤٧ کے مقابلے میں ٥٢ ووٹوں سے عراق کے خلاف فوجی کارروائی کی منظوری دیدی-

ان حالات میں یہ ایک قطعی فطری ردعمل تھا۔ نومولود بچوں کے ساتھ کئے جانے والا سلوک اور پھر پندرہ برس کی معصوم بچی کی زبانی اس واقعہ کی روداد، کسی بھی انسان کا خون کھولانے کیلئے کافی ہے۔ لیکن کیا چیزیں ایسی ہی ہوتی ہیں جیسی ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ کیا حکومتیں اور زرائع ابلاغ اتنے ہی ایماندار ہیں۔ کاش کہ ایسا ہوتا لیکن حقیقت میں ہر کہانی کے دو رخ ہوتے ہیں۔ نیرہ کی کہانی کا دوسرا رخ بھی کچھ اسی قسم کا ہے جسے سن کر انسان کا خود پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔

درحقیقت نیرہ امریکہ میں کویت کے سفیر سعود بن نصر الصباح کی بیٹی تھی۔ اسکا اصل نام نجیرہ الصباح تھا۔تاہم کانگریس اور عوام کو اس سے بے خبر رکھا گیا امریکی عوام عراق کے خلاف فوج کشی کے حق میں نہ تھی اور جارج بش اور اسکے حواریوں کو اپنے جنگی عزائم کی تکمیل کیلئے کانگریس اور سینیٹ کی حمایت کی شدت سے ضرورت تھی۔ اس مقصد کیلئے شیخ سعود کی ملی بھگت سے اسکی کمسن بیٹی کا انتخاب کیا گیا۔ ١٤ ملین ڈالر کی خطیر رقم کے عوض بین الاقوامی پبلک ریلیشن کمپنی ہل ناولٹن کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کمپنی نے نہ صرف مکمل سکرپٹ تیار کیا بلکہ نیرہ کو باقاعدہ تربیت دی گئی کہ کسطرح چہرے اور جذبات میں اتار چڑہاؤ کے زریعے ارکان کانگریس کو متاثر کیا جائےکمپنی نے ایک ملین ڈالر کی خطیر رقم محض اس تحقیق پر صرف کی کہ کس طرح مظالم کی داستانیں بلخصوص انکیوبیٹر جیسے واقعات گھڑ کے امریکی رائے عامہ کو جنگ کے حق میں ہموار کیا جا سکتا ہے۔

اس تمام تر ڈرامے کا نتیجہ عراقی عوام اور دنیا نے تو جو بھگتا سو بھگتا، نیرہ کے باپ کی البتہ چاندی ہوگئی۔ جنگ کے بعد وطن واپسی پر شاہی خاندان نے بطور ہیرو اسکا استقبال کیا۔ دولت کی کمی تو پہلے بھی نہ تھی تاہم معاوضے کے طور پر وزارت اطلاعات کا قلمدان اسے سونپ دیا گیا۔ اس پر بھی بس نہیں ہوا تو ١٩٩٨ میں کویت کی سب سے منفعت وزارت تیل اسکے حوالے کردی گئی۔ گزشتہ برس طویل عرصہ کینسر کے مرض میں مبتلا رہنے کے بعد اسکا انتقال ہوا تو اسکے جنازے میں امیر کویت سمیت تمام کابینہ نے شرکت کی۔

کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی چینل کے کرائم شو میں ایک باپ کو دیکھا جس نے چند لاکھ روپوں کے عوض اپنی جوان سال بیٹی جسم فروشی کا دھندہ کرنے والوں کو فروخت کردی تھی۔ بعدازاں انٹرویو دیتے ہوے اس نے بتایا کے وہ نہایت غریب اور قرضدار تھا اور اسکے پاس کوئی چارہ نہیں تھا سوائے اسک کہ اپنی بیٹی فروخت کردے۔ اسکی حالت دیکھ کر ایک نفرت انگیز ہمدردی محسوس ہورہی تھی، لیکن اس باپ کے پاس کم از کم ایک جواز تو تھا جسکے باعث وہ اس گھناونے فعل کا مرتکب ہوا لیکن سعود الصباح اور اسکے قبیل کے دوسرے باپوں کی کیا مجبوری تھی جو اپنی کمسن بچیاں عا لمی دہشتگردوں کے عزائم کی تکمیل کیلئے انکے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کے انکے اس اقدام کے نتیجے میں کتنے معصوم بچے ان عالمی دہشتگردوں کے اسلحہ وبارود کی نظر ہوجاتے ہیں، کتنے خاندان بے سہارا ہوجاتے ہیں اور نیرہ جیسی کتنی بچیاں روٹی کیلئے جسم فروشی پر مجبور ہوجاتی ہیں-

کاش کے ٢٠برس قبل کے مورخین، لکھاری اور دانشور ہمیں خبردار کرسکتے کہ نیرہ کی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ نیرہ اور اس جیسی بچیاں پیدا ہوتی رہیں گی جنکے باپ مالی اور دنیاوی حرص میں اپنی بچیاں فروخت کرتے رہیں گے۔ عالمی دہشتگردوں کے آلہ کار بننے کے عوض انہیں مال ودولت اور عہدوں سے نوازا جائے گا۔ انکی ستائش میں عالمی حسینائیں بے لباس ہوکر، اپنے جسموں کے نشیب و فراز سے تماش بینوں کے حیوانی جزبات کو برانگیختہ کرتی رہیں گی۔۔۔جی ہاں ایسا ہوتا رہیگا۔
Syed Mujtaba
About the Author: Syed Mujtaba Read More Articles by Syed Mujtaba: 2 Articles with 1855 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.