آ ج مادرِملت ،محسن پا کستان
محترمہ فا طمہ جناح ؒکا 121واں یو م ولادت ہے آج میں یہ با ت کہنے پر مجبو
ر ہوں کہ اگر ڈاکٹر مجید نظامی اور ان کے زیر سا یہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ
اپنا کردار ادا نہ کر رہا ہو تا تو شا ید آ ج محترمہ او ر تشکیل پا کستان
کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دینے والوں کی یادوں کاٹمٹماتا ہو ا چرا غ
بھی بجھ گیا ہو تاﷲ پاکستان کو ہمیشہ مجید نظامی جیسے محب وطن انسان کے زیر
سا یہ رکھے ۔محترمہ فا طمہ جناح کو قا ئد اعظم پاکستان بنا نے میں کلیدی کر
دار ادا کرنے کا کریڈٹ دیا کر تے تھے اور بلا شبہ محترمہ اس اعزاز کی حق
دار بھی تھیں اپنی زندگی کی تما م تر خواہشات سے دستبردار ہو کر تشکیل ِ پا
کستان میں لگ جا نا محترمہ کا عظیم کا رنا مہ ہے یقینا محترمہ کا قا ئداعظم
کے افکارونظریات سے والہانہ لگا ؤ وجود پا کستان کا سبب بنا اور آپ کے تمام
نظریا ت قا ئداعظم کے نقش ثانی تھے ،تشکیل پا کستان سے وہ لحظہ لحظہ واقف
تھیں،محترمہ فاطمہ جنا حؒ جب 1935ء میں قا ئداعظم کے ہمراہ انگلستان سے
واپس ہندوستان لوٹیں تو یہ وہ دور تھا جب مسلمان کانگرس کے تعصب کی وجہ سے
دل بر داشتہ ہو چکے تھے قا ئد اعظم کی دلچسپی اور سنجیدگی کو دیکھ کر مسلم
لیگ کی با گ ڈور قا ئد کو سو نپ دی گئی اس طرح قا ئد اعظم مسلم لیگ کے صدر
منتخب ہو کر مردوں کو تشکیلِ پاکستان کے لئے منظم کر نے میں مصروف ہو گئے
تو دوسری طرف محترمہ فاطمہ جناح بھی قا ئدؒ کے شا نہ بشانہ کھڑی تھیں اور
انہوں نے بھی تحریک آزادی کے لئے عورتوں میں شعور بیدار کر نا شروع
کردیااور محترمہ نے بھی تشکیل پاکستان کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا
لیا اور خواتین کو منظم کرنے میں لگ گئیں،محترمہ نے نہ صرف خواتین کو سیاسی
طور پر بیدار کیابلکہ آپ نے سماجی اور تعلیمی میدان میں بھی خواتین میں ایک
انقلابی شعو ر بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیاآپ نے خواتین کو زیورِ
تعلیم سے آ راستہ کرنے کے لئے خاطر خواہ اقداما ت کیے کیو نکہ وہ اس امر سے
بخو بی واقف تھیں کہ جب تک برصغیر کے مسلمانو ں میں تعلیمی شعور بیدار نہیں
ہو تا مسلمان تعلیم یا فتہ نہیں ہو تے، اس وقت تک آ زادی کی جنگ با لکل اسی
طرح ہے کہ جیسے ایک نہتا سپا ہی میدان جنگ میں۔اس لئے آ پ نے دن رات ایک کر
کے برصغیر کی خواتین کو زیور تعلیم سے آ راستہ کرنے کی خاطر گھر گھر جا کر
پیغاما ت دیے ۔
محترمہ برصغیر کی خواتین کے لئے امید کی رو شن کر ن ا ور روشنی کا مینا ر
تھیں آ پ نے برصغیر میں خواتین کی رہنمائی کے لئے کمیٹیاں تشکیل دے رکھی
تھیں،محتر مہ کے جلسے جلو سو ں میں خواتین کا ہجوم دیدنی ہو ا کر تا تھا
کیو نکہ وہ جا نتی تھیں کہ محترمہ کی تحریک آزادی کے لئے تما م تر جدوجہد
بے لوث ہے اس میں کسی قسم کا بھی ذاتی مفا د شا مل نہیں ہے خالص امت مسلمہ
کی بقا کے لئے ہے ۔
محتر مہ نے 1922ء میں ڈنٹیسٹ کی ڈگری حاصل کی ،جس پر قا ئد اعظم نے انہیں
غریبوں ،مسکینوں اور مستحق لو گوں کے مفت علاج کے لئے ایک کلینک کھو ل دیا
لیکن رتی جناح کے انتقال کے بعد محترمہ نے کلینک بند کر دیا اور تحریک
آزادی میں قا ئداعظم کے سا تھ لگ گئیں۔جب قائداعظم بستر مر گ پر تھے تب
محترمہ کی مصروفیا ت میں اضا فہ ہو گیا تھاقا ئد اعظم کی تیمار داری اور ان
کو سنبھالنے کے لئے ہمہ وقت ان کے پاس رہتیں،اور پھر قا ئد کی مفا رقت کا
داغ دل پر اثر گیا اور ایک برس تک سیاہ لبا س اوڑھے رکھا،اور پھر قا ئد
اعظم کے مشن کو جاری و سا ری رکھنے کی خا طر دن را ت محنت شرو ع کر دی،افکا
ر قا ئد کو لو گوں کے دلوں تک پہنچا نا ان کا مقصد تھا۔
چو نکہ آپ نے اپنی زندگی کا ایک عرصہ قا ئد اعظم کے سا تھ گزاراتھا اس لیے
تمام سیاسی تد بیروں سے بخوبی واقف تھیں،افسوس کہ ہم نے آشفتہ سروں کے ساتھ
ایک ہی سلوک روا رکھا ہوا ہے ،اور جب ایوب خان نے محترمہ فا طمہ جناح ؒکو
دھاندلی سے ہرایا ،پھر جمہوریت نے اپنا آپ دکھایااور عوام نے ایک پُر زور
تحریک چلا کر ایوب خا ن کو معزول کر ڈالااس وقت ایوب خان نے کہا کہ
پاکستانی عوام جمہو ریت کونہیں سمجھتے اس پر ما در ملت نے کہا:حیرت ہے اس
بات پر کہ ایک سپاہی جس نے کسی بھی سیا سی امور میں حصہ نہیں لیاآج لو گوں
کو سیاست سکھا نے کی کو شش کرر ہا ہے آپ کے اند ر اس قدر سیاسی بصیرت ہمہ
وقت قا ئد اعظم کے سا تھ رہنے سے ہی پیدا ہوئی تھی ،اگر اس وقت محترمہ کی
سیاسی مخالفت نہ کی جا تی تو ملک تقسیم نہ ہو تا۔کشمیری جو آج بھی پاکستانی
بننے کا دم بھر تے ہیں کشمیر کو پاکستان بنا نے کے خواہا ں ہیں آج ہم ان کے
سا تھ کیا تعا ون کرہے ہیں وہ ہم بخوبی جانتے ہیں محترمہ جہاں تک ممکن ہوتا
ا ن کی مدد کرتیں۔
مگر ا ٓ ج ہمارا ،المیہ یہ ہے کہ ہم نے ان کی تمام قر با نیوں کو بھلا دیا
ہے اگر آج کی سیا ستدان خواتین محترمہ کو رول ماڈل بنا تیں تو صورت حال
قدرے بہتر اور مختلف ہو تی،ا ن کے اصولوں کی پیر وی کرنا تو دور ہم تو ان
کے ورثے کی بھی حفاظت نہ کر پا ئے قا ئد کے آخری دنوں کی یاد کو بھی ہم
دہشت گردی کا نشا نہ بننے سے نہ بچا پا ئے ،یقینا محترمہ کی روح کو دکھ
پہنچا ہو گا جب زیارت ریذیڈنسی پر راکٹوں سے حملہ کیاگیا۔ |