جماعت ِ اہلِ سنّت کے ایک عظیم
عالمِ دین، امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کی علمی وراثت کے حقیقی امین،
شریعت و طریقت کے جامع البحرین اور اسلاف کے سچے وارث بھی اپنی رداے حیات
سمیٹ کر آخرت کی طرف کوچ کر گئے۔ یعنی صدرالعلما ء مظہرِ مفتیِ اعظم ہند
اور استاذالاساتذہ حضرت علامہ تحسین رضا خاں صاحب قبلہ اب علیہ الرحمہ
ہوگئے۔ جماعت اہلِ سنّت کا وجود ایک بار پھر کاری زخم کھا کر تڑپ اُٹھا ہے۔
اس کی تڑپ کم ہو تو کیسے، جماعت کے ایوان سے دھیرے دھیرے وہ حضرات رخصت
ہوتے جا رہے ہیں جو شمعِ محفل ہیں، جن کے وجود سے گوشے گوشے میں زندگی کی
حرارتیں دوڑ رہی ہیں، جن کی نورانی شعاعیں فکر و عمل کے زاویوں کی تشکیل
کررہی ہیں ۔ اگر یہ ساری رونقیں رفتہ رفتہ ختم ہونے لگیں ان کی شمعیں گُل
ہوجائیں تو ظاہر ہے ایسی صورت میں جماعت کی آنکھوں سے درد و اضطراب کے
آنسوؤں کا بہہ جانا فطری ہے۔ حضور تحسین میاں علیہ الرحمہ کی شمعِ حیات کا
بجھ جانا بھی افسوس ناک سلسلے سے جوڑا جا سکتاہے۔ اتنی متبرک جو شخصیتیں
بھی زندگی کی سراے کو خیر آباد کہہ رہی ہیں ان کا نعم البدل تو کیا بدل بھی
دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ یہ سوال بار بار ذہن کی اوٹ سے جھانک
رہا ہے کہ ان حضرات کی غیر موجودگی میں مسلمان اپنے فکر و اعمال کے علاج کے
لیے کس مسیحا کے در پر دستک دیں، کس قائد کی چوکھٹ پر اپنے فکر و عمل کی
جبینیں جھکائیں۔ قائدینِ ملّت ایک ایک کرکے قفسِ حیات سے آزاد ہوتے جا رہے
ہیں اور کُلُّ مَنْ عَلَیْھا فَانً الایۃ کی تصدیق برابر حاصل ہوتی جا رہی
ہے۔ اب صرف ان کی پاکیزہ یادوں کے سہارے ہی ان کی متبرک اور پاکیزہ زندگی
ہی کو قبلہ نما بناکر کاروانِ حیات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے ع
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
ٓٓ اس تمہید کا حرف حرف حضرت تحسین میاں علیہ الرحمہ کے آئینۂ حیات میں صاف
اور واضح نظر آتا ہے۔ آج اُن کی حیات و خدمات کی مصوری کرنے بیٹھا ہوں تو
موت العالِم موت العالَم کی کہاوت پوری توانائی کے ساتھ اپنی تعبیر کررہی
ہے۔
حضرت صدرالعلما کے والدِ ماجد اور جدِّ محترم: حضور صدرالعلما تحسین میاں
علیہ الرحمہ کے والد ماجدکا اسمِ گرامی مولانا حسنین رضا خان قادری ہے۔ آپ
کی ولادت ۱۳۱۵ھ میں بریلی شریف میں ہوئی۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا سے شرفِ
تلمذ حاصل کیا۔ دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
کچھ دنوں کے بعد’’حسنی پریس‘‘ قائم فرمایا۔ اس سے اعلیٰ حضرت کے بہت سے
رسائل شائع ہائے۔ آپ نے کئی کتابیں تصنیف فرمائیں۔
ٔ٭ دشتِ کربلا ٭ وصایا شریف ٭ نظامِ شریعت ٭ سیرتِ اعلیٰ حضرت اسباب
زوال………… وغیرہ وغیرہ
مولانا حسنین رضا خاں علیہ الرحمہ کے والد اور حضرت صدرالعلما کے دادا،
اُستاذِ زمن مولانا حسن رضا خاں علیہ الرحمہ تھے، جو جلیل القدر عالمِ دین
ہونے کے ساتھ ساتھ کہنہ مشق شاعر اور زبردست ادیب بھی تھے۔ اردو کے عظیم
شاعر اور مستند استاذِسخن حضرت داغ ؔہلوی کی شاعری میں شاگردی اختیار
فرمائی تھی۔ آپ کی شاعری اس درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی تھی کہ رئیس المتغزلین
مولانا حسرتؔ موہانی جیسے ادیب شاعر بھی آپ کی تعریف و توصیف میں رطب
اللسان رہتے تھے۔ علی گڑھ سے نکلنے والا’’اردوے معلی‘‘ جون ۱۹۱۲ء کے صفحات
اس پر شہادت دیتے نظر آتے ہیں۔ حضرت داغؔ دہلوی کی شاگردی اور رئیس
المتغزلین کی مدح سرائی آپ کی فکر و فن کی بلندی کا صاف پتہ دیتی ہے۔ اعلیٰ
حضرت علیہ الرحمہ کو آپ نے گھر کے اُمور سے بالکل بے نیاز کردیا تھا اور ان
کو ہمہ تن خدمتِ دین میں لگا دیا تھا۔ آپ نے آب دیدہ ہوکر فرمایا:
’’حسن میاں جو کچھ میں دین کی خدمت کر رہا ہوں اس کے اجر میں باذن اﷲ حصے
دار تم بھی ہو۔ اس واسطے کہ تمہیں نے مجھے دین کی خدمت کے لیے آزاد کیا
ہے۔‘‘
حضرت استاذِ زمن کا وصال ۱۳۲۹ھ میں ہوا۔ اعلیٰ حضرت کو ان کے وصال سے بڑا
صدمہ پہنچا۔ آپ کا ایک نعتیہ دیوان’’ذوقِ نعت‘‘ ہے۔ غزلیہ دیوان’’ثمرِ
فصاحت‘‘ ہے۔ آئینۂ قیامت اور ’’کتابِ دینِ حسن‘‘وغیرہ تصنیفی خدمات ہیں۔
صدرالعلما کی ولادت اور تعلیم: حضور تحسین میاں علیہ الرحمہ نے محلہ
سوداگران بریلی میں ۱۴؍شعبان المعظم ۱۳۴۸ھ ۱۹۳۰ء کو اپنی حیات کی آنکھیں
کھولیں۔ آپ کا پورا خاندان چوں کہ علم کا گہوارا تھا، امام احمد رضا جیسی
عظیم شخصیت آپ کے خاندان سے منسوب تھی۔ خاندان کی اس علمی اور روحانی فضا
میں آپ کی تربیت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مقامی مکتب سے حاصل کی۔ عربی و فارسی
تعلیم کے لیے دارالعلوم منظر اسلام اور دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف
میں داخلہ لیا۔ آپ کے اساتذہ میں محدثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد
صاحب علیہ الرحمہ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ محدثِ اعظم پاکستان کی
توجہات نے آپ کی تعلیمی زندگی کے خانے کو اتنا منور کردیا کہ دیر تک اور
دور تک اس روشنی کا عکس ہزاروں لوگوں تک پہنچا۔ تقسیمِ ہند کے بعد مولانا
سردار احمد صاحب نے پاکستان کے شہر فیصل آباد میں ایک عظیم درس گاہ جامعہ
رضویہ مظہر اسلام قائم فرمائی ۔ آپ وہاں تشریف لے گئے اور چھ ماہ تک قلیل
مدت میں دورۂ حدیث کی تکمیل فرمائی۔
اساتذۂ کرام: آپ نے اپنے وقت کے جلیل القدر اور اجلہ علما سے کسبِ فیض
فرمایا۔ حضرت صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی، مصنفِ بہار شریعت سے تفسیر
جلالین شریف پڑھی، سرکارِ مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے فتویٰ نویسی سیکھی
اور ان سے علمی و روحانی فیض حاصل فرمایا۔ مولانا سردار احمد محدث اعظم
پاکستان سیعلمِ حدیث کی تکمیل فرمائی۔ ان کے علاوہ مولانا غلام جیلانی رضوی
اعظمی، مولانا قاضی شمس الدین رضوی جعفری،مصنف قانونِ شریعت، مولانا غلام
یٰسین پورنوی، مولانا سردار علی خاں اور مفتی ِ اعظم پاکستان مفتی
وقارالدین صاحب علیہم الرحمۃ والرضوان جیسے اساطینِ امّت اور اصحابِ فضل و
کمال کے استفادے نے آپ کو علمی سطح پر خوب خوب نہال کیا۔
زمانۂ تدریس کی ابتدا: حضور صدرالعلما صاحب قبلہ نے حضور مفتیِ اعظم ہند
علیہ الرحمہ کے حکم سے، فراغت سے پہلے ہی دارالعلوم مظہرِ اسلام بریلی شریف
میں درس دینا شروع کردیا تھا۔ لیکن جب آپ کے اساذِ گرامی مولانا سردار احمد
صاحب علیہ الرحمہ پاکستان تشریف لے گئے اور وہاں ایک عظیم الشان دارالعلوم
قائم فرمایا تو آپ کے علمی ذوق و شوق نے آپ کو بریلی چھوڑ کر پاکستان جانے
پر مجبور کردیا اور وہاں صرف چھ مہینے میں دورۂ حدیث کو مکمل کیا۔ وہاں سے
واپسی پر پھر دارالعلوم مظہر اسلام چھوڑ کر دارالعلوم منظر اسلام میں
بحیثیت شیخ الحدیث اور صدرالمدرسین شریف لے آئے اور سات سال تک آپ ان عہدوں
کو بحسن و خوبی رنگ و روغن عطا کرتے رہے۔
۱۹۸۲ء میں بریلی شریف کے محلہ باقر گنج میں جب جامعہ رضویہ نوریہ کا قیام
عمل میں آیا تو آپ یہاں تشریف لے آئے اور ۲۳؍ سال تک شیخ الحدیث کی حیثیت
سے تعلیم دیتے رہے۔ عاجزی و انکساری کا یہ عالم ہوتا کہ اپنے گھر کانکر
تولہ(پراناشہر) سے جامعہ نوریہ رضویہ تک رکشہ پر بیٹھ کر تشریف لے جاتے۔
اگر پ چاہتے تو ادنیٰ اشارے پر گاڑی کا انتظام ہو جاتا۔ لیکن حضرت نے رکشے
میں آنا جانا پسند فرمایا۔ حضرت کے زمانۂ تدریس میں راقم سطور کا متعدد بار
جامعہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ حضرت کی زیارت اور شرفِ ملاقات بھی حاصل رہا۔
ایک مرتبہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ جو وہیں زیرِ تعلیم تھا اور حضرت کے پاس
اس کی گھنٹی بھی تھی، میں حضرت کی درس گاہ میں حاضر ہوا۔ اس وقت تک میرے
شعور کی کونپلیں نہیں پھوٹی تھیں اور نہ عمر بالغ ہو پائی تھی لیکن اندازہ
ہے کہ وہ شاید کوئی حدیث کی کتاب رہی ہوگی جس کا حضرت درس دے رہے تھے۔ مَیں
بھی وہیں بیٹھ گیا اور غور سے سن سن کر اپنی سماعتوں کے ظرفوں کو بھرنے کی
کوشش کرتا رہا۔ لیکن افسوس حضرت صدرالعلما کے وہ تدریسی فرمودات اب حافظے
کے چنگل سے نکل چکے ہیں۔ پھر بھی مجھے فخر ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت کی
درس گاہ میں بیٹھنے اور ان کے فرمودات کو سننے کی سعادت حاصل کی ہے۔
جانشینِ مفتی اعظم ہند حضرت تاج الشریعہ علامہ مفتی اختررضا خاں دامت
برکاتہم العالیہ نے جب بریلی شریف متھرا پور میں ایک عظیم الشان
ادارہ’’مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃالرضا‘‘ قائم فرمایا تو حضرت
صدرالعلما کو دعوت دی اور شیخ الحدیث اور صدرالمدرسین کا منصب ان کو سونپ
دیا۔ وصالِ پُر ملال سے قبل تک آپ یہیں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس
طریقے سے آپ نے بریلی شریف کے ہر بڑے ادارے کو تدریسی زینت بخشی اور آپ کے
علمی فیضان کا دریا وہاں سے بہتا رہا۔ ان چاروں علمی مراکز میں حضرت کے
طلبا کی تعداد ہزاروں میں ہوگی۔ صرف آپ کے مشہور تلامذہ کی اسم شماری کی
جائے تو ایک طویل فہرست تیار ہوجاتی ہے۔ جن کی خدمات قابلِ قدر ہیں اور جو
مختلف دعوتی فضاؤں میں اپنی صلاحیتوں کے ذرّے بکھیر رہے ہیں۔
بیعت وارادت: حضور تحسین میاں علیہ الرحمہ کے والد گرامی مولانا حسنین رضا
خاں علیہ الرحمہ نے آپ کو حضور مفتیِ اعظم سے بیعت کرایا۔ ۲۵؍ صفرالمظفر
۱۳۸۰ھ/۱۹۳۴ء میں عرس رضوی کے پُر بہار موقعے پر اجلۂ اکابر و مشائخ کی
موجودگی میں صرف ۱۳؍سال کی عمر میں سرکار مفتیِ اعظم ہند نے آپ کو بیعت
فرمایا۔ اسی وقت آپ کو خرقۂ اجازت و خلافت بھی عطا فرمایا۔ اور آپ کے سر پر
اپنا عمامہ شریف بھی اپنے دستِ مبارک سے باندھا۔ سیدالعلما حضرت سیّد آل
مصطفی مارہروی، مجاہدِ ملت حبیب الرحمن اڑیسوی، برہانِ ملت برہان الحق جبل
پوری، اور حافظِ ملت شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی ثم مبارک پوری، علیہم
الرحمۃ والرضوان جیسے برے بڑے مشائخ و علما نے آپ کی خرقہ پوشی فرمائی۔
صدرالعلما کے خلفا: آپ کے خلفا کی تعداد یوں تو کم ہے اور سب کے بارے میں
مجھے علم بھی نہیں کہ وہ کس حیثیت سے مذہب ولمت کو اپنی خدمات کا خون دے
رہے ہیں۔ لیکن میں اُن چند مشہور خلفا کا تذکرہ کررہا ہوں جن کی تبلیغی
حیثیت مُسلّم ہے اور جو بقدرِ ظرف مسلک و ملّت کے کارواں کو اپنی خدمات و
تحریکات کے ذریعے آگے بڑھا رہے ہیں۔
٭ عظیم محقق و مدرس مولانا حنیف خاں قادری رضوی ، صدرالمدرسین جامعہ نوریہ
رضویہ بریلی شریف
٭ معروف خطیب مولانا تطہیر احمد رضوی مصباحی، دھونرہ بریلی شریف
٭ معروف خطیب مولانا صغیر احمد جوکھن پوری، رچھا بریلی شریف
٭ معروف عالمِ دین مولانا سید شاہد علی رام پوری
٭ نبیرۂ اعلیٰ حضرت مرحوم محمد قمر رضا خاں (برادرِ تاج الشریعہ)
٭ ناشرِ مسلکِ اعلیٰ حضرت الحاج محمد سعید نوری، بانی رضا اکیڈمی ممبئی
ان کے علاوہ جامعہ نوریہ رضویہ کے کئی اساتذہ بھی شامل ہی……
٭ مولانا رفیق عالم مصباحی
٭ مولانا شکور احمد
٭ مولانا صغیر اختر مصباحی
٭ مولانا عبدالسلام
٭ مولانا شکیل مصباحی
عقدِ مسنون اور اولاد امجاد: جناب سعیداﷲ خاں بریلوی کی صاحب زادی سے ۱۵؍ذی
القعدہ ۱۳۶۸ھ/۲۶فروری ۱۹۶۷ء میں آپ کا عقدِ مسنون ہوا، جن سے ایک لڑکی پیدا
ہوئی اور تین ڑکے۔ تینوں لڑکے تعلیم یافتہ ہیں۔ ۱) جناب حسان رضا خاں……
۲)جناب رضوان رضا خاں…… ۳) جناب صہیب رضا خاں…… اور لڑکی کا نام عارفہ بیگم
ہے۔
تبلیغی اسفار: درس و تدریس، فتویٰ نویسی اور تعویذ نویسی کے علاوہ آپ نے
بیعت و ارشاد کا بھی سلسلۂ زرّیں جاری رکھا۔ آپ کے مریدین کی ایک کثیر
تعداد ہے جس میں علما بھی شامل ہیں۔ تبلیغ دین کے لیے آپ نے ملک و بیرون
ملک کے بھی دورے فرمائے۔ پاکستان، زمبابوے، مورابی وغیرہ بالخصوص ماریشیس
میں متعدد بار تشریف لے گئے۔ وہاں کے معتقدین کے اصرار پر سال میں دو مرتبہ
تشریف لے جاتے جلوس محمدی کی قیادت کرنے کے لیے اور مولانا خوشتر صدیقی کے
عرس میں شرکت کے لیے۔ تاوصال یہ تسلسل قائم رہا۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں
کے بھی تبلیغی دورے فرمائے۔ مقامی جلسوں میں آپ کی شرکت ناگزیر ہوتی اور ان
اجلاس کی صدارت فرماتے۔ جب سے بقیدِ ہوش و حواس ہوں مجھے یاد آتا ہے کہ
حضرت صرف ایک بار میرے وطن پورن پور (پیلی بھیت) تشریف لائے تھے۔ بریلی سے
پورن پور بذریعہ ٹرین آئے۔ میرے دوساتھی جو ٹرین میں حضرت کی معیت میں تھے
انہوں نے اپنی سادہ لوحی کی بنا پر پسنجر ٹرین سے سفر کیا۔ ایک تو پسنجر
ٹرین کی رفتار کم ہوتی ہے دوسرے اس دن اتفاق ایسا تھا کہ اپنی ٹرین متعینہ
رفتار سے بھی آہستہ چل رہی تھی۔ اور پھر مسافرین کا ازدحام بھی پریشانیوں
اجافے کا باعث تھا۔ ساتھیون کا بیان ہے کہ ٹرینمیں اس روز بڑی دقّت ہوئی۔
حضرت کے سامنے وہ عرقِ ندامت میں ڈوبے ہوئے تھے اور جلسے والے بھی اتنے
سیدھے سادھے واقع ہوئے تھے کہ انہوں نے اسپیشل گاڑی کا بھی انتظام نہ کیا۔
لیکن ان سب کے باوجود حضرت صدرالعلما نے شکایت کا ایک حرف بھی اپنی زبان سے
ادا نہ فرمایا اور نہ لہجے اور گفتگو کی جبین پر کوئی شکن نمو دار ہوئی۔
ذرا تصور کیجیے کہ آپ کے علاوہ اور کوئی پیر یا مقرر ہوتا تو جلسے والوں کو
کتنی کھری کھوٹی سناتا؟ یہ واقعہ حضرت موصوف کے جذبۂ دینی، ملّی درد، خلیق،
متواضع اور منکسرالمزاج ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔
صدرالعلما حضور مفتی اعظم کی نظر میں: آپ سے قریب رہنے والے بخوبی جانتے
ہیں کہ حضرت کی شخصیت کا شانۂ سرکار مفتی اعظم علیہ الرحمۃ والرضوان کی
حیاتِ طیبہ کی جمالیاتی کرنوں سے معمور تھی آپ کی شخصیت کا خمیر حضور مفتی
اعظم ہند کی حیات مبارک سے اُٹھا تھا۔ جس کی وجہ سے آپ کو ’’مظہرِ مفتیِ
اعظم ہند‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ میرے اس دعوے کہ صدرالعلما کی زندگی کی
چادر پر سرکارِ مفتیِ اعظم ہند کی مظہریت کے رنگ و عکس پرے تھے بلکہ ان کی
پوری زندگی مظہریت کے کول سے لپٹی ہوئی تھی۔ اسے مولانا سلطان اشرف صاحب کے
کواب سخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ایک جلسے میں تقریر کر
رہا تھا کہ حضرت صدرالعلما منبر پر تشریف لائے اور لوگوں نے اسی خطاب کا
نعرہ لگایا۔ میں تقریر کے بعد قیام گاہ پر آگیا اور سوگیا۔ قسمت بے دار
ہوئی سرکار مفتی اعظم ہند خواب میں تشریف لے آئے۔ وہ لوگوں کو مرید فرما
رہے تھے۔ فوراً میری آنکھ کھل گئی توجلسہ گاہ کے اسٹیج سے آواز آرہی اور
حضور تحسین میاں مرید کر رہے تھے اور زبان سے وہی کلمات ادا کر رہے تھے جو
میں نے سرکار مفتی اعظم ہند سے سُنے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دن سے مجھے
یقینِ کامل وگیا کہ صدرالعلما سرکار مفتیِ اعظم ہند کے مظہر ہیں۔
سرکار مفتی اعظم ہند آپ پر حد درجہ اعتماد فرمایا کرتے تھے اور کئی مواقعے
پر آپ نے صدرالعلماکی تعریف بھی فرمائی۔ ایک مرتبہ فرمایا: ’’دو لوگ ایسے
ہیں جن پر مجھے مکمل اعتماد اور بھروسہ ہے ہے۔ ایک تحسین میاں، دوسرے اختر
میاں(حضرت ازہری میاں صاحب قبلہ)۔‘‘ ایک یوں گویا ہوئے: ’’صاحب (مولانا
حسنین رضاخاں والد ماجد صدرالعلماکے جتنے بھی لڑکے ہیں سبھی خوب ہیں با
صلاحیت ہیں، بالیاقت ہیں مگر ان میں تحسین رضا کا جواب نہیں۔‘‘
ایک مرتبہ حضور مفتی اعظم ہند رکشے سے کہیں تشریف لے جا رہے تھے ساتھ میں
صدرالعلما کے بھائی مولانا حبیب رضا خاں بھی تھے۔ حضرت نے فرمایا: ’’تحسین
رضا گلِ سر سبد ہیں۔‘‘ پھر فرمایا جانتے ہو گل سرسبد کیا ہے؟ باغبان پھولوں
کی ٹوکری میں سے خوبصورت اور پسندیدہ پھول نمایاں طور پر اوپر رکھتا ہے، اس
پھول کو گل سرسبد کہتے ہیں۔‘‘
ان ارشادات کی آنکھوں سے پوچھیے کہ صدرالعلما کے متعلق سرکار مفتی اعظم ہند
کو کتنا زیادہ اعتماد تھا۔ یہ اعتماد اور بھروسہ ان سے صاف جھلکتا دکھائی
دیتا ہے۔
تبلیغی خدمات: درس و تدریس کی بے پناہ مصروفیات کی بنا پر آپ تصنیف و تالیف
پر بالفعل توجہ مرکوز نہ رکھ سکے۔ تقریر سے بھی کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا بس
تدریس ہی کے ذریعے مذہب و ملت کی تبلیغ فرماتے رہے۔ اور آپ نے ملاحظہ
فرمالیا کہ صدرالعلما نے تقریباً ۵۵؍ سال تک تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔ اس
کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی سب سے بڑی تبلیغ عوام کے لیے درسِ قرآن و
حدیث ہے۔ جو تدریسی دعوتی مساعی اور اصلاحی تحریکات پر بھاری ہے۔ چند حضرات
نے مل کر حضرت سے درسِ حدیث لینے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ درس حدیث نومبر
۱۹۸۲ء میں شروع کیا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد اس کے ساتھ ساتھ درس قرآن میں ایک
رکوع کا ترجمہ فرماتے پھر ا س کی تفسیر، تشریح اور توضیح فرماتے اور پھر
آدھے گھنٹے کے لیے درسِ حدیث ہوتا۔ اس مین مشکوٰۃ شریف سے سامعین کو احادیث
سنائی جاتیں او ان کی تشریح کی جاتی۔ کہتے ہیں کہ ۲۵؍ سال تک یہ مبارک
سلسلہ جاری رہا۔ ۱۴؍ سال میں درس قرآن مکمل ہوا۔ پہلے یہ دونوں درس آپ کی
بیٹھک میں ہوتے تھے لیکن جلد ہی جگہ تنگ پڑگئی اور قریب کی نورانی مسجد میں
درس کا انتظام کیا گیا۔ لیکن ازدحام کی وجہ سے وہ مسجد بھی تنگ دامنی کا
شکوہ کرنے لگی۔ لہٰذا دوسری مسجد میں درس منتقل کرنا نا گزیر ہوگیا۔ قریب
کی ایک چھ مینارہ مسجد کا انتخاب کیا گیا اور تاوصال آپ نے یہیں درس دیا۔
حضرت صدرالعلما ایک باکمال شاعر تھے اور آپ نے خوب شاعری فرمائی۔ اشعار کے
آب گینوں میں اپنے جذبۂ دینی، ملی دردمندی اور عشقِ نبوی کی شرابِ طہور
اُنڈیلی اور لفظوں کے جام بھر بھر عشقِ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مے
خواروں کو ہونٹوں لگانے کی دعوت دی۔ آپ کے بہت سارے اشعار موجود ہیں اور
زیادہ تر عشقیت کی زمین پر کہے گئے ہیں۔
وصال پُر ملال: عمر کی ۷۶؍ بہاریں دیکھنے کے بعد آخری منزل آہی گئی جہاں سے
ایک قدم بھی پیچھے مڑنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں سے ماضی میں
جھانکنے کے لیے آنکھوں کی روشنی باقی نہیں رہ پاتی اور ماضی کی زمین پر
چلنے کے لیے ذرّہ برابر سکت ختم کردی جاتی ہے۔ اس کے آگے صرف موت کی منزل
ہوتی ہت جہاں ہر ایک کو اترنا ہے۔ تو حضور تحسین میاں علیہ الرحمہ کو بھلا
کیوں کر مہلت دی جاتی۔ ۳؍اگست بروز جمعہ کو آسمانِ بریلی کا یہ روشن ستارہ
ٹوٹ گیا۔ جس کی روشنی میں گُم راہیت، الحادیت اور بے عملی کی تاریک پگ
ڈنڈیوں پر چلنے والے اپنے قافلۂ حیات کو صحیح و سالم گزار لے گئے۔ حضرت
صدرالعما مہاراشٹر کے تبلیغی دورے پر تھے ناگ پور سے قریب غالباً چندر پور
گاؤں میں آپ کی گاڑی پلٹ گئی اور موت کا شیریں جام آپ نے زندگی کے ہونٹوں
سے لگا لیا۔ اِنَّاللّٰہ واِنا اِلیہ رَاجعُونْ
لاشہ بذریعہ طیارہ بریلی لایا گیا۔ اتوار کے روز قریب دو بجے اسلامیہ انٹر
کالج کے میدان میں ازہری میاں صاحب قبلہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ پھر وہاں
سے لے کر آپ کے آبائی قبرستان محلہ کانکر ٹولہ میں قریب چار بجے تدفین عمل
میں آئی۔ نماز ِجنازہ میں تقریباً ۲؍لاکھ افراد نے شرکت کی۔ یہ بریلی شریف
کا دوسرا واقعہ تھا کہ عوام نے اتنی کثرت سے شرکت کی ہو۔ پہلا واقعہ حضور
مفتی اعظم ہند کی نمازِ جنازہ کا تھا۔ اسلامیہ انٹر کالج کا میدان بے پناہ
ازدحام کی وجہ سے بار بار گلہ مند ہورہا تھا۔ عوام کی یہ کثرت اس بات کا
کھلا ثبوت پیش کر رہی ہے کہ آپ مقبولِ انام تو ہیں ہی مقبولِ بارگاہِ خدا
بھی ہو چکے ہیں۔
بتلا یا جاتا ہے کہ آپ کے وصال پر بریلی کے غیر مسلموں نے بھی اظہارِ افسوس
کیا۔ اور خاص طور سے بریلی شریف کے مسلمانوں نے آپ کے جنازے میں شرکت کی۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقامی لوگوں کی نظر میں بھی آپ کی کتنی عزت و عظمت
تھی۔ حضرت صدرالعلما کی شخصیت اس حیثیت سے مجھے سب سے زیادہ من موہن نظر
آتی ہے کہ آپ آپسی نزاع کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیتے۔ معاصرتی رقابت
اور باہمی چُپ قلش حضرت کے فکر وعمل سے دور سے کوسوں دور تھی۔ علما و مشائخ
کی نظر میں بھی آپ اپنی اس خوبی کی بنیاد پر محبوب بن گئے تھے۔ آپ کی پوری
حیات اسلامی تعلیمات سے عبارت تھی۔ اس میں کسی طرح کا کوئی لوچ نظر نہیں
آتا خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔
اس طرح ایک بابرکت دور کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ آنکھوں سے لے کر دل تک سارا
پیرہن بھیگا ہوا ہے۔ تصورات کے سارے رنگ و روغن دامن پر آنسوؤں کے قطرات ٹپ
ٹپ گر رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک زخم کتنا سہہ پائیں گے ہم۔ درد کی شدت کو
کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ آہ بریلی کی عظمتوں کا امین جاتا رہا۔ دنیاے
اہلِ سنّت پر عجیب سوگ واری کا عالم ہے۔ آج اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے اس
شعر کو پھر نئی تصدیق حاصل ہو رہی ہے۔
عرش پر دھومیں مچیں وہ مومنِ صالح ملا
فرش سے ماتم اُٹھے وہ طیب و طاہر گیا |