اپنے اپنے حصے کی آگ

سوچتا ہوں کہ پانی اور بجلی کی وزارت کے لیے خواجہ آصف جیسا جذباتی آدمی کیا کم تھا کہ میاں نواز شریف نے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک انتہائی قریبی عزیز اورخواجہ صاحب سے بڑھ کر جذباتی عابد شیر علی کو وزیر مملکت بنا دیا۔ یک نہ شد دو شد۔ دونوں وزیر بڑے جذباتی ہیں۔ ذہنی طور پر پانی سے تعلق کم اور بجلی سے زیادہ اور مزید خوبی یہ کہ فقط جذباتی ہیں۔ اس کے علاوہ۔۔۔۔ پتہ نہیں پانی اور بجلی کی وزارتی میان میں یہ دو تلواریں کیسے سما پائیں گی۔ حکومت اس وقت لوگوں کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلانے کے لے توانائی کے شعبے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ شاید اسی لیے دو دو ویزروں کی ضرورت محسوس کی گئی کہ خواجہ آصف کے ناتواں کندھے کب تک اکیلے یہ بوجھ اٹھاتے۔ اس وزارت کے حصے میں عوام کی طرف سے گالیاں بھی بہت ہیں اُنہیں بھی مل بیٹھ کر کھانا بہت ضروری ہے۔ ویسے شہنشاہ جذبات جناب شہباز شریف جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈپٹی پرائم منسٹر بھی محسوس ہوتے ہیں ان دونوں کا بوجھ بانٹنے کی کوشش میں ہیں۔ اُن کی وزارت پانی و بجلی پر خاص نظرِ کرم ہے یوں لوڈ شیڈنگ کے مسئلے سے نمپٹنے کے لیے تین تین اشخاص برسر پیکار ہیں۔

ریاضی کے طالب علم کے طو رپر میں نے یہی پڑھا ہے کہ اگر ایک آدمی ایک کام کو دس دن میں کر سکتا ہے تو دو آدمی اُس کام کو پانچ دن میں کریں گے۔ خواجہ آصف وزیر بنے تو انہوں نے نوید دی کہ لوڈ شیڈنگ تین سال میں ختم کریں گے۔ اُس وقت وہ اکیلے تھے۔ اب اس کام کو تین آدمی کر رہے ہیں۔ ریاضی کے حوالے سے اب لوڈ شیڈنگ ایک سال میں ختم ہو جانی چاہیے مگر کیا کیا جائے لوڈ شیڈنگ ریاضی کا نہیں سیاسی سوال ہے اور سیاست کے اپنے حل ہیں۔ ماضی کے تجربات سیاسی حوالے سے ہی بتاتے ہیں کہ جب مسائل زیادہ ہوں تو منصوبے زیادہ ہوتے ہیں۔ منصوبے زیادہ ہوں تو فنڈ بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ فنڈز زیادہ ہوں تو ان پر نظریں بھی زیادہ ہوتی ہیں اور جب نظریں زیادہ ہوں تو فنڈ تو غائب ہو جاتے ہیں مگر منصوبے رہ جاتے ہیں یا پھر رینٹل راجے رہ جاتے ہیں اور اس سارے کھیل میں عوام کے مسائل اور مشکلات کے بحر بیکراں بھی اُسی طرح ہی رہ جاتے ہیں۔ عوام بس دیکھتے رہ جاتے ہیں کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ کچھ سمجھ نہیں آتا اور شاید سمجھ آبھی نہیں سکتا ۔

سیاستدانوں کا سچ بھی دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ سچ جو الیکشن مہم کے دوران ہوتا ہے اور دوسرا وہ سچ جو الیکشن کے بعد اقتدار میں آنے پر ہوتا ہے ۔ لیکن ہوتے دونوں سچ ہی ہیں۔ ایک لڑکی نے اپنے عاشق کو فون کیا۔ آجاؤ ۔ آج گھر پر کوئی نہیں ہے۔ بیچارہ عاشق بیس میل دور سے بھاگم بھاگ لڑکی کے گھر پہنچ گیا۔ لڑکی بھی سیاستدانوں کی طرح بہت سچی تھی۔ واقعی گھر میں کوئی نہیں تھا۔ دروازے پر تالا لگا تھا۔ عوام گذشتہ کئی سالوں سے بھاگ بھاگ کر پاگل ہو رہے ہیں اور انہیں سیاستدانوں کے ایسے ہی سچ کا سامنا ہے۔ مگر مایوس ہونا گناہ ہے۔ امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہ سیاستدان شاید ٹرانے والے مینڈک ہیں جو ٹرانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ ہمیں اُس وقت کا انتظار کرنا ہے جب عوام کی مایوسیاں حد کو چھو جائیں گی۔ ان کو حقیقت میں شعور آجائے گا اور وہ تنگ آکر خود باہر نکلیں گے۔ موجود سیاستدانوں میں سے کسی سے اُمید دلفریبی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ کسی مفکر نے کہا ہے ‘‘بسا اوقات مینڈکوں کی آوازیں بیلوں کی آوازوں سے زیادہ بلند ہوتی ہیں لیکن مینڈک نہ کھیت میں ہل چلا سکتے ہیں نہ کولہو میں جوتے جا سکتے ہیں اور نہ تم اُن کی کھال سے جوتیاں بنا سکتے ہو‘‘۔

لوڈ شیڈنگ کا کمال ہے کہ نئی نئی باتیں سننے میں آرہی ہیں۔ عجیب عجیب قصے سننے میں آرہے ہیں۔ ایک صاحب نے خواب دیکھا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں۔ حشر کا میدان ہے اور حساب جاری ہے۔ ہر قوم اور ہر نسل کے لوگ قطار اندر قطار کھڑے ہیں اور جزا اور سزا کے منتظر ہیں۔ ان کی باری آئی۔ پوچھا کہاں سے ہو۔ بولے پاکستان سے۔ بغیر حساب بخشش کا حکم ہو گیا۔ فرشتوں نے پوچھا یہ کیوں۔ جواب ملا دوزخ جیسا عذاب لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اک عمر جھیل آیا ہے۔ مزید کیا سزا دی جائے۔ جنریٹر اور یو پی ایس چلانے والوں کے لیے لمحہ فکر ہے۔ اُن کو پورا حساب دینا ہو گا۔ خصوصاً حکمرانوں کو کہ انہوں نے اپنی آسائش کے اتنے زبردست انتظامات کیے ہوتے ہیں کہ انہیں احساس ہی نہیں کہ بجلی آنے جانے کا گھنٹہ گھنٹہ کھیل میں عوام کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ حکمرانوں کی ناکامی کا اصل سبب ہی زمینی حقائق سے چشم پوشی ہوتا ہے۔

میری ایک عزیز ملنے آئیں ، بجلی غاب تھی۔ پسینے سے اُن کا برا حال تھا۔ کہنے لگیں کرتوتوں کے اعتبار سے ہم ایک جہنمی قوم ہیں۔ شاید رب العزت ان حکمرانوں کے توسط سے ہمیں دوزخ کی آگ برداشت کرنے کی مشق کرا رہا ہے۔ دوزخ اور آگ کی بات سنی تو مجھے ایک درویش کا واقعہ یا آگیا جو ہمیں ایک نئی سوچ دیتا ہے۔ مگر ہر آدمی کو نہیں صرف انہیں جو سوچ رکھتے ہیں اور غور کرتے ہیں۔

ایک درویش اپنی ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں عبادت میں مصروف تھا۔ رات کا وقت تھا اور شدید سردی تھی۔ سردی اور غربت جہاں اکٹھی ہو جائیں تو انسان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہیں اس کا اندازہ تو ہر ایک کو ہے۔ درویش کی ماں جھونپڑی کے ایک کونے میں بیٹھی سردی سے کانپ رہی تھی مگر بیٹا ہر چیز سے بے نیاز عبادت کر رہا تھا۔ اچانک کپکپاتی آواز میں ماں نے کہا۔ بیٹا تو اﷲ کی اس قدر عبادت کرتا ہے۔ مجھے اُمید ہے اﷲ سے کچھ مانگے تو وہ تجھے مایوس نہیں کرے گا۔ بیٹا ماں کی طرف دیکھ کر بولا۔ ماں مگر تجھے اس آدھی رات میں کس چیز کی ضرورت ہے جو میں اﷲ سے مانگوں۔ ماں نے کہا بیٹا تمہارے اﷲ کے پاس ایک دوزخ ہے۔ سنا ہے اُس دوزخ میں بہت زیادہ آگ ہے میں اس سردی میں مری جا رہی ہوں ۔ اﷲ کو کہہ کہ ہمیں آج کی رات گزارنے کے لیے دوزخ کی تھوڑی سی آگ دے دے۔ ماں کی بات سن کر بیٹا ہنسا۔ ماں تجھے کس نے کہا کہ دوز خ میں آگ ہے۔ دوزخ میں تو کوئی آگ نہیں ہوتی۔ تو نے غلط سنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں رہنے والا ہر شخص اپنے اپنے حصے کی آگ اکٹھی کرتا ہے اور وہی آگ لے کر دوزخ میں جاتا ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500274 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More