پاکستان اور بھارت کے درمیان
کبھی تعطل،کبھی بحال ہونے والے جامع مزاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو رہا
ہے اور دونوں ملکوں کی طرف سے اس کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔تیسرے دور کے
مزاکرات کی بحالی کایہ اتفاق پاکستان اور بھارت کے درمیان ’’بیک ڈور
ڈپلومیسی‘‘ میں ہونے والی خفیہ بات چیت سے سامنے آ یا۔پاکستان نے بھارت کو
’تل بل ولر بیراج پر واٹر اینڈ پاور سیکرٹریز کے مزاکرات 27-28اگست کو اور
سرکریک میری ٹائم باؤنڈری کے مسئلے پہ 16-17ستمبر کی تاریخیں تجویز کی ہیں
۔بھارتی حکام کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستمبر میں ہونے والے
اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نوازشریف کے ساتھ ان کے بھارتی ہم منصب من موہن
سنگھ کی ملاقات پر بھارت اتفاق کر چکا ہے اور پاکستان کی طرف سے جامع
مزاکرات کے تیسرے دور کے لئے گزشتہ ہفتے تاریخیں تجویز کی گئی ہیں۔بھارتی
روزنامہ ’’انڈین ایکسپریس‘‘نے بھارتی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ وزیر
اعظم نواز شریف کی طرف سے ممبئی حملے میں ملوث افراد کے خلاف مقدمے میں
تیزی لانے سے متعلق ٹھوس اقدامات ضروری ہیں اور یہ بات گزشتہ ماہ نئی دہلی
کا دورہ کرنے والے وزیر اعظم نواز شریف کے ایلچی شہریار خان سے بھی کی گئی
ہے لیکن اس سلسلے میں ان کی طرف سے بھارت کو کوئی خصوصی یقین دہانی نہیں
کرائی گئی ہے۔بھارتی حکام کے مطابق بھارت یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان کی
نئی حکومت سابق حکومت کے فیصلوں کو تسلیم کرے اور اس سال کے آخر تک بھارت
کو ’’موسٹ فیورڈ نیشن‘‘(MFN) کا درجہ دے دے اور اس معاملے میں بھارت کو پیش
رفت نظر آ رہی ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان تیسرے دور کے مزاکرات کا فیصلہ
گزشتہ سال ستمبر کو اسلام آباد میں کامرس سیکرٹریز کی ملاقات کے موقع پر
کیا گیا تھالیکن اس سال جنوری میں کشمیر کو غیر فطری طور پر تقسیم کر نے
والی کنٹرول لائین(سیز فائر لائین) پر دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان
جھڑپوں کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔ انڈین میڈیا کے مطابق انڈین پی
ایم آفس نے وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات سے اتفاق تو کیا ہے تاہم بھارتی
حکام کے مطابق اندرونی،داخلی صورتحال اس میٹنگ پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور
یہ بات بھارت کے لئے عالمی تاثر سے زیادہ اہم ہے۔ اپوزیشن بھارتیہ جنتا
پارٹی ابھی دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ مزاکرات کس طور شروع ہوتے ہیں
اور آیا اس معاملے کو الیکشن کا موضوع بنایا جائے یا نہیں۔کانگریسی حکومت
خارجہ امور میں دفاعی انداز اپنانے کے سخت خلاف ہے۔
’’میل آن لائن انڈیا‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق نئی دہلی کاساؤتھ بلاک(جہاں
انڈین سیکرٹریٹ ، پی ایم آفس،فارن و ڈیفنس آفس ہیں)پاکستان کی طرف سے مسئلہ
کشمیر کو دوبارہ’’ گرم‘‘ کرنے کے اقدامات کا جائزہ لے رہا ہے۔اس رپورٹ میں
دفاعی ذرائع کے حوالے سے کہاگیا ہے کہ انڈین پالیسی میکرز کو پاکستان کے
ساتھ مزاکرات بحال کرنے سے پہلے وزیر اعظم نواز شریف کے خفیہ ’’کشمیر پلان
‘‘کے ’فیکٹر‘ کو سامنے رکھنا ہو گا۔’’میل آن لائن انڈیا‘‘ نے دعوی کیا ہے
کہ انڈین ساؤتھ بلاک کے اندرونی نوٹس کے مطابق انڈین سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے
وزیر اعظم نواز شریف کی نئی کشمیر پالیسی کے حوالے سے اپنا جائزہ پیش کیا
ہے۔انڈین انٹیلی جنس کے حوالے سے رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم
نواز شریف نے اپنے آفس میں ایک خفیہ ’کشمیر سیل ‘ قائم کیاہے تا کہ اس
مسئلہ کشمیر کو نیا ’’ پش‘‘ دیا جائے جسے گزشتہ پیپلز پارٹی حکومت نے پس
پشت ڈال رکھا تھا، نواز شریف کی حکومت قائم ہوتے ہی وادی کشمیر میں حالات
خراب ہونے لگے ہیں۔اس رپورٹ میں یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم
نوازشریف نے اس نئے کشمیر پلان سے متعلق اپنے اہم ایڈ وائیزرز سے کہا ہے کہ
کشمیر کو ترجیح دی جائے لیکن وہ یا کابینہ کے ارکان یہ مسئلہ زیادہ اٹھاتے
نظر نہ آئیں اور بھارت مخالف عناصر سرکاری کام کرنے والوں کے ساتھ ہر گز
منسلک نہ ہوں۔رپورٹ کے مطابق بھارتی دفاعی حکام کو یقین ہے کہ وزیر اعظم
نواز شریف کے دفتر کا کشمیر سیل مسئلہ کشمیر کو گرم رکھنے کے لئے پروپیگنڈہ
کا کام کرے گا۔بھارتی دعوی ہے کہ’’ انٹر سروسز انٹیلی جنس‘‘(ISI)سے کہا گیا
ہے کہ وہ’ ملی ٹینٹس ‘سے کہیں کہ وہ اپنی سرگرمیاں محدود کر دیں اور ان کا
سرکاری افراد سے تعلق نظر نہیں آنا چاہئے۔بھارت اس کا مطلب یہ لے رہا ہے کہ
کشمیر سے متعلق ٹریننگ کیمپوں کی ’ری آرگنائیزیشن‘ اور کشمیر میں سرگرمیوں
کو محدود کی لیکن موثر کیاا جائے گا۔انڈین حکام کا کہنا ہے کہ حکومت
پاکستان کے یہ اقدامات اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہیں کہ مسئلہ کشمیر
ایک بار پھر ’’انٹر نیشل راڈار‘ ‘پہ آ جائے۔وزیر اعظم نواز شریف کی اس حکمت
عملی کے دوسرے حصے میں عالمی سطح پہ سفارتی مہم تیز کی جائے گی اور اس
حوالے سے برسلز،لندن،واشنگٹن ،نیو یارک اور ٹورنٹو میں قائم کشمیر سیلز کی
سرگرمیوں کو تیز کیا جائے گا۔رپورٹ کے مطابق حکمت عملی کے طورپر کشمیر میں
در اندازی کو کنٹرول کرتے ہوئے ملی ٹینسی کے حوالے سے کشمیر میں مقامی رنگ
کو فروغ دیا جائے گا اور مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پہ اٹھایا جائے گا۔
بھارتی حکام کے خیال میں وزیر اعظم نواز شریف کے ’کشمیرپلان‘ کے ذریعے دو
مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی ،ایک بھارت کے ساتھ مزاکرات میں مسئلہ
کشمیر کو دوبارہ پاکستان کا اہم معاملہ بنانا ،دوسرا مسئلہ کشمیر کے حوالے
سے بھارت پر عالمی دباؤ ڈلوانا ہے اور اس حوالے سے امریکہ ،یورپ وغیرہ میں
این جی اوز کی ذریعے متنازعہ زون کے طور پر مسئلہ کشمیر کا کیس پیش کیا
جائے گا۔بھارتی حکام کے مطابق اس تناظر میں کشمیر سے متعلق نئی سفارتی حکمت
عملی اپنائی جا رہی ہے تا کہ نیویارک اجلاس کی تیاری ہو سکے۔بھارتی حکام یہ
ذہن بھی رکھتے ہیں کہ ممبئی حملوں کے معاملے میں پیش رفت ہونے تک پاکستان
کے ساتھ مزاکرات کو ’’مومینٹم‘‘ نہ دیا جائے۔بھارتی حکام کے مطابق وادی
کشمیر میں ’ voilence‘ میں اضافہ ہو نے کی بری خبر ہے۔
بھارت میں مئی2014ء میں عام انتخابات ہوں گے اور اس کے بعد حکومت سازی کا
عمل اورابتدائی حکومتی کام وغیرہ،پھر جا کر دونوں ملک بات کرنے کی پوزیشن
میں ہوں گے۔بھارت کی یہ کوشش نظر آ رہی ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام
کے جذبہ آزادی ،تحریک کے علاوہ خصوصا مسلح جدوجہد کو دبانے کے لئے پاکستانی
عسکریت پسندگروپس کا معاملہ ا چھالا جائے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان
تعلقات کی بہتری میں امریکہ کا کلیدی کر دار ہے۔امریکہ مسئلہ کشمیر کے حل
کے حوالے سے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پہ اقداما ت کے پس پشت محرک کے طور
پہ موجود ہے ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان سنگین کشیدگی کا خاتمہ ہو یا
جامع مزاکرات،اس تمام ’’ رام کہانی‘‘ کے پس پردہ امریکی محرک ہی کار فرما
ہے۔اس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل،متنازعہ امور پر
سمجھوتے اور دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کے قیام کے لئے ’’امریکی
فیکٹر‘‘بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے دونوں
ملکوں کی ’’ اوریجنل‘‘ خواہش محدود و مقید نظر آتی ہے۔
بلاشبہ وزیر اعظم نواز شریف سابق حکمران پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی پر
توثیق کی مہر ثبت نہیں کر سکتے،کم از کم تاثر تو یہی ہے۔پہلے تقریبا ایک
ڈیڑھ عشرہ بعد پتہ چلا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں جنگ کی سی صورتحال کا مقصد
کشمیر کو آزاد کرانا نہیں بلکہ ’’ انڈیا کو بلیڈ‘‘ کرنا تھا، کہیں ایسا نہ
ہو اب پھر پاکستان کی کشمیر پالیسی اس طرح پوشیدہ طور بنائی و چلائی جائے
کہ کشمیریوں اور پاکستانی عوام کو ایک دو عشرے کے بعداندازہ ہو کہ نئی
کشمیر پالیسی کیا تھی۔ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ پاکستان آرمی کے اس نئے ’’
وار ڈاکٹرائن‘‘کے بارے میں وزیر اعظم نواز شریف نے کیا فیصلہ کیا ہے جس میں
بھارت سے ہٹ کر دوسرے دفاعی ،جنگی اہداف طے کئے گئے ہیں۔اس نئی کشمیر
پالیسی میں کس کو کیا ملنا ہے اور کس نے مزید کیا کھونا ہے،اس بارے میں
ہمیں آنکھیں بند کر کے ہی یقین رکھنے پر مجبور ہونا پڑے گا،البتہ اقدامات و
صورتحال سے پاکستان کی نئی کشمیر پالیسی واضح ہوتی جائے گی۔بات رہی انڈیا
کی کشمیر پالیسی،تو وہ کشمیر میں بھارت کی نہتے عوام کے خلا ف مسلسل فوج
کشی سے صاف ظاہر ہے۔ اب یہ دونوں ملکوں کے رہنماؤں،دونوں ملکوں کی
اسٹیبلشمنٹ پر منحصرہے کہ وہ اپنا عرصہ حکومت گزارنے یقین رکھتے ہیں یا اس
مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق عملی اقدامات بھی اٹھاتے ہیں جس نے متنازعہ
ریاست کشمیر کے لوگوں کی زندگی کو جہنم بنا یا ہوا ہے ،وادی کشمیر کاعلاقہ
گزشتہ پچیس سال سے بھارت کی ظالمانہ فوج کشی کا شکار ہے ،جنوبی ایشیا میں
ایٹمی جنگ کا مسلسل خطرہ اور اسی وجہ سے جنوبی ایشیا میں فطری ترقی و
خوشحالی کے راستے مسدود ہیں۔ |