میں قرآن میں کہاں ہوں - اے کاش

بسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ

مشہور محدث اور امام احمد بن حنبل کے شاگرد رشید شیخ الاسلام ابو عبداللہ محمد بن نصر مروزی بغدادی (202....294ھ) نے اپنی کتاب قیام اللیل میں ایک عبرت انگیز قصہ نقل کیا ہے جس سے اس آیت کے فہم میں مدد ملتی ہے، اور سلف کے فہم قرآن اور تدبر قرآن پر روشنی پڑتی ہے۔

جلیل القدر تابعی اور عرب سردار احنف بن قیس ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے یہ آیت پڑھی:

لَقَد اَنزَلنَآ اِلَیکُم کِتٰبًا فِیہِ ذِکرُکُم اَفَلاَ تَعقِلُونَ (سورہ الانبیاء۔ ع۔ ١)

ترجمہ) ”ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی جس میں تمہارا تذکرہ ہے، کیا تم نہیں سمجھتے ہو“۔

وہ چونک پڑے اور کہا کہ ذرا قرآن مجید تو لانا اس میں، میں اپنا تذکرہ تلاش کروں، اور دیکھوں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں، اور کن سے مجھے مشابہت ہے؟ انہوں نے قرآن مجید کھولا، کچھ لوگوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا، جن کی تعریف یہ کی گئی تھی:

کَانُوا قَلِیلاً مِّن اللَّیلِ مَا یَھجَعُونَ O وَبِالاَسحَارِھُم یَستَغفِرُونَ O وَفِی اَموَالِھِم حَقّ لِّلسَّائِلِ وَالمَحرُومِ (الذریٰت۔ ع۔ ١)

ترجمہ) ”رات کے تھوڑے حصے میں سوتے تھے، اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے، اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق ہوتا تھا“۔

کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:

تَتَجَافٰی جُنُوبُھُم عَنِ المَضَاجِعِ یَدعُونَ رَبَّھُم خَوفاً وَّطَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقنٰھُم یُنفِقُونَ (السجدہ۔ ع۔ ٢)

ترجمہ) ”ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور اُمید سے پکارتے ہیں۔ اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں“۔

کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال یہ تھا:

یَبِیتُونَ لِرَبِّھِم سُجَّدًا وَقِیَاماً (الفرقان۔ ع۔ ٦)

ترجمہ) ”اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کر کے اور (عجز و ادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں“۔

اور کچھ لوگ نظر آئے جن کا تذکرہ اِن الفاظ میں ہے:

اَلَّذِینَ یُنفِقُونَ فِی السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ وَالکٰظِمِینَ الغَیظِ وَالعَافِینَ عَنِ النَّاسِ وَاﷲُ یُحِبُّ المُحسِنِینَ (اٰل عمران۔ ع۔ ١٤)

ترجمہ) ”جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، اور غصہ کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں، اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے“۔

اور کچھ لوگ ملے جن کی حالت یہ تھی:

یُؤثِرُونَ عَلیٰ اَنفُسِھِم وَلَو کَانَ بِھِم خَصَاصَہ ط قف وَمَن یَّوقَ شُحَّ نَفسِہ فَاُولئِکَ ھُمُ المُفلِحُونَ (الحشر۔ ع۔ ١)

ترجمہ) ”(اور) دوسروں کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو، اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مُراد پانے والے ہوتے ہیں“۔

اور کچھ لوگوں کی زیارت ہوئی جن کے اخلاق یہ تھے:

وَالَّذِینَ یَجتَنِبُونَ کَبٰئِرَ الاِثمِ وَالفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوا ھُم یَغفِرُونَ (الشوریٰ۔ ع۔ ٤)

ترجمہ) ”اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں، اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں“۔

وَالَّذِینَ استَجَابُوا لِرَبِّھِم وَاَقَامُوا الصَّلوٰہَ ص وَاَمرُھُم شُورٰی بَینَھُم ص وَمِمَّا رَزَقنٰھُم یُنفِقُونَ (الشوریٰ۔ ع۔ ٤)

ترجمہ) ”اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں، اور اپنے کام آپس کے مشورہ سے کرتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں“۔

وہ یہاں پہنچ کر ٹھٹک کر رہ گئے اور کہا اے اللہ میں اپنے حال سے واقف ہوں، میں تو ان لوگوں میں نظر نہیں آتا!

پھر انہوں نے ایک دوسرا راستہ لیا، اب ان کو کچھ لوگ نظر آئے، جن کا حال یہ تھا:

اِنَّھُم کَانُوا اِذَا قِیلَ لَھُم لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ یَستَکبِرُونَ Oلا وَیَقُولُونَ ئَ اِنَّا لَتَارِکُوا اٰلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجنُونٍ (سورہ صافات۔ ع۔ ٢)

ترجمہ) ”ان کا یہ حال تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں تو غرور کرتے تھے، اور کہتے تھے، کہ بھلا ہم ایک دیوانہ شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں؟

پھر اُن لوگوں کا سامنا ہوا جن کی حالت یہ تھی:

وَاِذَا ذُکِرَ اﷲُ وَحدَہُ اشمَاَرَّتُ قُلُوبُ الَّذِینَ لاَ یُؤمِنُونَ بِالاٰخِرَہِ ج وَاِذَا ذُکِرَ الَّذِینَ مِن دُونِہ اِذَا ھُم یَستَبشِرُونَ (الزمر۔ ع۔ ٥)

ترجمہ) ”اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انکے دل منقبض ہو جاتے ہیں، اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُن کے چہرے کھل اُٹھتے ہیں“۔

کچھ اور لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جن سے جب پوچھا گیا:

مَا سَلَکَکُم فِی سَقَرَ O قَالُوا لَم نَکَ مِنَ المُصَلِّینَ O وَلَم نَکُ نُطعِمُ المِسکِینَ O وَکُنَّا نَخُوضُ مَعَ الخَآئِضِینَ O وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَومِ الدِّینِ O حَتّٰی اَتٰنَا الیَقِینَ (المدثر۔ ع۔ ٢)

ترجمہ) ”کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم جھوٹ سچ باتیں بنانے والوں کے ساتھ باتیں بنایا کرتے اور روز جزا کو جھوٹ قرار دیتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا“۔

یہاں بھی پہنچ کر وہ تھوڑی دیر کے لئے دم بخود کھڑے رہے پھر کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا، اے اللہ! ان لوگوں سے تیری پناہ! میں ان لوگوںسے بری ہوں۔

اب وہ قرآن مجید کے ورقوں کوا ُلٹ رہے تھے، اور اپنا تذکرہ تلاش کر رہے تھے، یہاں تک کہ اس آیت پر جا کر ٹھہرے:

وَاٰخِرُونَ اعتَرَفُوا بِذُنُوبِھِم خَلَطُوا عَمَلاً صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا عَسَی اﷲُ اَن یَّتُوبَ عَلَیھِم ط اِنَّ اﷲُ غَفُور رَّحِیم (التوبہ۔ ع۔ ١٣)

ترجمہ) ”اور کچھ اور لوگ ہیں جن کو اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار ہے، انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے، بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے“۔

اس موقع پر اُن کی زبان سے بے ساختہ نکلا، ہاں ہاں! یہ بے شک میرا حال ہے۔

کاش اے کاش ہم بھی ایسے مسلم بن جائیں کہ ہم بھی یہ کہہ سکیں کہ ہاں ہمارا زکر بھی قرآن میں ہے اور کاش ہمارا حال بھی ایسا ہو جیسا قرآن عباد الرحمٰن کی خصوصیات بتاتے ہوئے سورہ الفرقان میں فرماتے ہیں۔

اے رب ہمارے ہم گناہ گار، سیاہ کار اور بدکار ہیں ہمیں اگر تو نے معاف نا کیا اور ہمارے حال پر رحم نا کیا تو ہم تو بڑے گھاٹے میں پڑ گئے۔ اب رب ہمارے ہمارے ساتھ درگزر و رحمت و شفقت کا معاملہ فرما آمین۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532846 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.