وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس طاہر نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر کے گزشتہ الیکشن میں
وفاقی حکومت اوروزارت امور کشمیرکے گھناؤننے کردار کو سب جانتے ہیں۔میری کرسی راجہ
فاروق حیدر خان کی کرسی ہے ،انتخابات کے ذریعے آزاد کشمیر میں عوامی حکومت بنائیں
گے۔آزاد کشمیر کے حکومتی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرتے لیکن ہم بیڈ گورنینس
اور مالیاتی ان ڈسپلن کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کر سکتے۔یہ حکومت پاکستان کی ذمہ
داری ہے کہ آزاد خطے میں لوگوں کا حق رائے دہی بحال کرے۔آزاد کشمیر حکومت کی
کارکردگی سے مطمئن نہیں،دو ماہ میں معاملات درست کئے جائیں،کشمیر کونسل،لبریشن سیل
و دیگر اداروں میں کرپشن کی تحقیقات ہو رہی ہیں،چیف سیکرٹری اور جائنٹ سیکرٹری کو
پندرہ دن کے اندر رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے ۔وزیر امور کشمیر نے یہ بھی کہا کہ آزاد
کشمیر کا81فیصد بجٹ تنخواہوں و مراعات کی مد میں اور صرف 19فیصد ترقیاتی منصوبوں کے
لئے ہو تو عوامی خدمت کیسے ممکن ہے۔
پاکستان میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے قیام سے آزاد کشمیر میں اصلاح احوال کی ایک
جائز توقع وابستہ ہوئی۔یہ امید کی گئی کہ اب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی
حکومتوں کو پاکستان کی 18ویں،19ویں اور 20ویں آئینی ترامیم اورآزاد کشمیر و گلگت
بلتستان کی جداگانہ حیثیت کی روشنی میں حقیقی طور پر بااختیار بنایا جائے گااور
مالیاتی طور پر آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کو اس کا اتفاق شدہ حصہ باقاعدگی سے ادا
کیا جائے گا۔آزاد کشمیر کی انتخابی عذر داریوں کی سماعت کے ساتھ اسمبلی کی لاہور کی
سیٹ پر الیکشن کو یقینی بنایا جائے گا لیکن اس کے بجائے آزاد کشمیر میں کچھ ایسا
کیا گیا کہ یہ تمام اہم باتیں پس پشت ڈالتے ہوئے ایسی سیاسی سرگرمیوں کو ہوا دی گئی
کہ جس کے نتیجے میں آزاد کشمیر کی سیاست کے انتشارمیں مزید اضافہ ہوا اوروزارت امور
کشمیر و کشمیر کونسل کی کرپشن،آزاد کشمیر پر حاکمیت کے انداز کے تدارک کے مطالبات
پس پشت رہ گئے۔
پاکستان میں پیپلز پارٹی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کا
انتشار کھل کر سامنے آ گیا۔بیرسٹر سلطان محمود چودہری گزشتہ الیکشن سے پہلے مسلم
لیگ(ن) میں شامل ہوتے ہوتے پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے لیکن اپنے ہی ضلع اور اپنی
ہی برادری کے وزیر اعظم نے انہیں ’کارنر‘ کئے رکھا۔بیرسٹر کے فاروڈ بلاک نے اپنی
عددی برتری واضح کی تو آزاد کشمیر مسلم لیگ(ن) کے سامنے عدم اعتماد کی تحریک کی
حمایت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔مسلم لیگ(ن) نے وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس طاہر ،وزیر
اطلاعات پرویز رشیدکے علاوہ راجہ ظفر الحق کو بھی اس صورتحال اور اپنے فیصلے سے
آگاہ کیا اور ان سب نے اپنی حمایت کا اظہار کیا لیکن پھر وزیر اعظم نواز شریف کے
حکم پر انہوں نے اپنی حمایت ترک کر دی ۔آزاد کشمیر مسلم لیگ(ن) کو زیادہ سیاسی
نقصان عدم اعتماد کی حمایت نہ کرنے کے فیصلے کے انداز سے ہوا۔اگر یہی فیصلہ وزیر
اعظم نوازشریف آزاد کشمیر میں اپنی جماعت کے عہدیداران کو ’’ آن بورڈ ‘‘ کرتے ہوئے
کرتے تو آزاد کشمیر مسلم لیگ (ن) عوامی ساکھ کے حوالے سے ایک بڑے سیاسی نقصان سے بچ
جاتی ۔یوں فرد واحد کی مرضی اور جماعتی مشاورت سے عاری فیصلے نے نہ صرف آزاد کشمیر
میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو یقینی عدم اعتماد سے بچا لیا بلکہ آزادکشمیر میں پیپلز
پارٹی کو بھی مسلم کانفرنس کے حال تک پہنچنے سے بھی بال بال بچا یا۔کئی دن یونہی
گزرے کہ آزاد کشمیر حکومت عددی برتری سے محروم رہی،پھر باغی گروپ کے کئی افراد کو
معافی دیکر گنتی پوری کی گئی۔
وفاقی وزیر امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر نے شروع سے ہی اپنی وزارت اور کونسل میں
کرپشن وغیرہ کے خلاف سخت اقدامات کرنے کے اعلانات کئے،اجلاس کئے،رپورٹس طلب کیں
لیکن معاملات ہنوز ’’پائپ لائین‘‘ میں ہی ہیں اور نہ ہی یہ معاملات نتیجہ خیز ہوتے
نظر آتے ہیں۔نظر تو یہ آ رہا ہے کہ امور کشمیر اور کونسل کی آزاد کشمیر پر حاکمیت
کو نئے رنگ اور نئے انداز دیئے جا رہے ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ اب آزاد کشمیر کے
ترقیاتی منصوبوں پر بھی امور کشمیر و کونسل کی بعد از وقت بلاجواز چیکنگ کا طریقہ
نافذ کیا جا رہا ہے،ترقیاتی منصوبوں کی جگہ کی موزونیت کے لئے بھی چیکنگ کے احکامات
آ چکے ہیں۔بلاشبہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اچھا نظم و نسق دینا حکومت
پاکستان کی ذمہ داری ہے لیکن اس حوالے سے آزاد کشمیر حکومت پر وزارت امور کشمیر اور
کشمیر کونسل کی غیر آئینی ،غیر منصفانہ حاکمیت کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے
اور نہ ہی اس عمل سے کشمیر کاز کی کوئی خدمت ہو رہی ہے۔وفاقی وزیر امور کشمیر اگر
یہ بتا سکیں کہ کون کونسی کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کس کس شخصیت کو کتنی قیمت پر فروخت کی
گئی تو کشمیری ان کے ذاتی طور پر مشکور رہیں گے ۔مہاورہ مشہور ہے کہ ’’ بعض اوقات
ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں‘‘۔وزیر امور کشمیر نے کہا ہے
کہ میری کرسی راجہ فاروق حیدر خان کی کرسی ہے ،اگر حقیقتا ایسا ہی ہے تو چوہدری
برجیس طاہر آزاد کشمیر مسلم لیگ(ن) کو وزیر اعظم نواز شریف کے فیصلے سے عوامی ساکھ
کو پہنچنے والے نقصان کا تدارک بخوبی کر سکتے ہیں۔اگر وزیر امور کشمیر و گلگت
بلتستان آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کو پاکستانی آئین کی نئی ترامیم کی
روشنی میں با اختیار ،ذمہ دار بنانے کے لئے آئینی ترامیم کراتے ہیں اور ان دونوں
متنازعہ خطوں کے مالیاتی و دیگر امور کو انصاف اور حق سمجھتے ہوئے یقینی بنا دیتے
ہیں تو ان اقدامات سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نہ صرف مسلم لیگ (ن) بلکہ
مملکت پاکستان کو بھی بے پناہ فوائد حاصل ہو ں گے اور ان مثبت اقدامات سے کشمیر کاز
کو فائدے کے علاوہ متنازعہ ریاست کشمیر میں پاکستان پر اعتماد کو بہتر بنانے میں
بھی بڑی مدد ملے گی۔لیکن اگر پہلے کی طرح اب بھی ’’ آپریشن آزاد کشمیر‘‘ کی طرح
متنازعہ علاقوں کو ڈیل کیا جاتا رہا تو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں روز بروز
بڑہتا سیاسی انتشار ناقابل تلافی نقصانات پر منتج ہو سکتا ہے۔ |