پی پی پی اور ایم کیو ایم کی تلخیاں

سندھ بالخصوص سندھ کے حوالے سے موجودہ سیاسی صورتحال ، ماضی کے موجب غیر سنجیدگی کی عکاس نظر آتی ہے۔جس طرح آج وفاق اور سندھ کی جانب سے کراچی کی موجودہ سیاسی صورتحال، امن و امان اور دہشت گردی کے واقعات تشویش ناک ہوچکے ہیں ، یہی صورتحال ماضی میں بھی تھی اور بر سر اقتدار حکمران جماعت پیپلز پارٹی اپنے ماضی کی روایتی سابقہ روئیے کی غمازی کرتا نظر آتا ہے۔ تاریخ ہمیشہ نصیحت اور اپنی غلطیوں کو نہ دوُہرانے کیلئے لکھی جاتی ہے تاکہ آنے والی نئی نسلیں جان سکیں کہ قوم کے مستقبل کے ساتھ کس کس طور ، کس نے مجرمانہ غفلت اختیار کی۔ تاریخ کے جھروکوں میں جانے کے بعد انکشاف یہی ہوتا ہے کہ ہم نے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اب بھی"سب ٹھیک ہے"کی گھسٹی پٹی روایات پر گامزن نظر آتے ہیں۔31اکتوبر 1993ء کو پروفیسر غفور احمد نے اپنے ایک بیان میں واضح کہا تھاکہ "صوبے؍کراچی میں بد امنی کا واحد سبب شہری و دیہی طبقات کے درمیان تفریق ہے۔وزیر اعلی سندھ عبداﷲ شاہ کو چاہیے کہ شہری علاقوں سے متعلق ترقیاتی اسکیموں اور فنڈز کی فراہمی کیلئے حکومت ایم کیو ایم کو اعتماد میں لے تاکہ کراچی میں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مہاجر، سندھیوں سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں ، اس سلسلے میں حکومت اپنی کوششیں تیز کرے۔"معروف و زیرک سیاست دان اجمل خٹک مرحوم نے یکم جنوری1994کو جنگ پینل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ"سندھ بالخصوص کراچی میں پائیدار امن کیلئے ضروری ہے کہ یہاں کے شہریوں بالخصوص مہاجروں میں پائے جانے والے احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے دور ر س نتائج کے حامل اقتصادی ، سماجی ، معاشی اور سیاسی اقدامات کئے جائیں۔ انھوں نے ایم کیو ایم کی سیاسی قوت کو تسلیم کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔" انیس جولائی1994ء کو اے این پی کی صوبائی صدر اور اُس وقت کی صوبہ سرحد کی قا ئد حزب اختلاف بیگم نسیم ولی خان نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ"کراچی کا مسئلہ سیاسی ہے۔اور سیاسی معاملات مذاکرات سے حل کئے جاتے ہیں۔لیکن ایک جانب حکومت (پی پی پی) ایم کیو ایم سے مذاکرات کر رہی ہے تو دوسری جانب ان کو دہشت گرد قرار دیکر اُن کے خلاف آپریشن کیا جارہا ہے۔انھوں نے جنگ پینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ "الطاف خود چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے علیحدہ صوبے کا مطالبہ نہیں کیا ، لیکن ایک شخص پر اقتصادی اور جسمانی اور ذہنی طور پر تشدد کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ خود ایسے انتہا تک لے جانے پر مجبور کر رہے ہیں۔انھوں نے مستقبل کیلئے ایک پیش گوئی کرتے ہوئے اپنے سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا کہ"ایف سی کے جوانوں کو کراچی بھیجنا کراچی میں میں مقیم لاکھوں پختون کے خلاف سازش ہوگی اور اس سے مہاجروں اور پختونوں کے درمیان نفرت پیدا ہوگی۔"اور ان سیاسی رہنماؤں کی سیاسی بصیرت ہی تھی جس نے کراچی میں لسانی نفرت کے بیج بونے والے عناصر کے عزائم کو بھانپ لیا تھا ۔28اپریل1994ء کو مقتول رہنما بے نظیر بھٹو صاحبہ نے راولپنڈی میں زیر تربیت فوجی افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہـ"جب تک سندھ میں ایم کیو ایم کا ووٹ بنک تقسیم نہیں کیا جائے گا ، سندھ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔"جبکہ اس مرحلے پر پختون رہنماؤں کی سیاسی بصیرت اپنے عروج پر تھی۔ 28نومبر1995کو پختون اسٹوڈینس فیڈریشن کے زیر اہتمام کراچی میں باچا خان امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اجمل خٹک بابا نے کہا کہ"حکمران ،الطاف حسین کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں اور پھر ان ہی سے منت سماجت کیلئے لندن اور کبھی عزیز آباد جاتے ہیں۔یہ واضح رہے کہ ریاستی جبر اور طاقت کے ذریعے ایم کیو ایم کو ختم نہیں کیا جاسکتا، الطاف حسین کو یہ لوگ غدار کہہ رہے ہیں ، لیکن ہمیں ان (الطاف حسین) پر فخر ہے ، وہ ہمارا بھائی ہے"۔1972 میں ایک لسانی معائدے کیا گیا تھا کہ سندھ کا گورنر مہاجر ہوگا۔قابل ذکر اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی میں موجودہ وزیر اعلی قائم علی شاہ کا رویہ اپنے سابقہ پی پی پی کے وزیر اعلی عبداﷲ شاہ سے مطابقت رکھتا ہے۔سابقہ وزیر اعلی سندھ عبداﷲ شاہ نے ایم کیو ایم مخالفت میں پی پی آئی اورمہاجر قومی موومنٹ( حقیقی) کو مکمل سرکاری سر پرستی فراہم کی تو اب موجودہ وزیر اعلی قائم علی شاہ پر بھی یہی الزام ہے کہ لیاری گینگ وار کو کراچی میں بے نظیر بھٹو کے وژن کو مکمل کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ماضی میں بھی ایم کیو ایم اپنے کارکنان کے اغوا ، تشدد ، جھوٹے مقدمات اور شہر میں ریاستی آپریشن پر احتجاج کرتی رہی ہے۔02جنوری 1994ء کو ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے کنوینر سنیٹیر اشتیاق اظہر نے صدر مملکت کو بھیجے گئے خطوط میں الزام عائد کیا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے اور انھیں ایم کیو ایم پر تشدد کرنے اور شہر میں خوف و ہراس پھیلانے کی اجازت دے رکھی ہے ـ" تو اب بھی انیس سال بعد بھی ایم کیو ایم اپنی لاتعداد پریس کانفرنسوں میں اپنے کارکنان کے اغوا ، گرفتاریوں ، جھوٹے مقدمات اور غیر اعلانیہ آپریشن کی دہائی دیتے نظر آتی ہے ماضی میں بھی دیہی و شہری تفریق کے سبب پی پی پی دیہی علاقوں تک محدود ہوگئی تھی اور اس بار بھی پی پی پی شہری علاقوں میں نمائندگی سے محروم ہے۔سندھ کی تقسیم کے حوالے سے مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے چیئرمین آفاق احمد کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ جو انھوں نے یکم فروری1994ء کو دیا تھا کہ"اگر ملیر ضلع قائم رہا تو سندھ کی تقسیم اور علیحدہ اسمبلی کی جدوجہد کوئی نہیں روک سکتا"اسی طرح18فروری 1994ء مہاجر رابطہ کونسل کے کنونشن میں مرکزی مجلس عاملہ کے رکن سید مسعود نقوی ایڈوکیٹ نے قرارداد میں پیپلز پارٹی کی جانب سے امتیازی سلوک ، جانبدارنہ اقدامات اور لسانی بنیادوں پر سندھ کی جغرافیائی تقسیم کی شدید مذمت کی گئی اور مردم شماری کے مطالبے کے ساتھ مہاجر گورنر کیلئے 1972ء کے معائدے کے تحت عمل درآمد کے مطالبات کئے گئے۔سندھ میں ایک بار پھر بلدیاتی نظام کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایم کیو ایم اور پی پی پی کے درمیان تنازعہ دوبارہ اپنے عروج پر پہنچ رہا ہے ۔ ماضی میں پی پی پی نے شہری علاقوں کو نظر انداز کیا اور اپنی پالیسوں کی بنا ء پر کراچی میں رہنے والی مختلف قومیتوں کے درمیاں غلط فہمیاں پیدا کرکے لسانی فسادات کو ہوا دی۔سندھ میں صرف کراچی متاثر رہا ۔ لیکن پختون سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والی قیادتوں نے اپنے واضح بیانات میں پی پی پی کی سازشوں کو آشکارہ کیا ۔ سندھ میں رہنے والے جن کا جینا و مرنا سندھ کی دھرتی کے ساتھ ہے اور ان کے مفادات ، سندھ کے وسائل سے حاصل و خرچ ہوتے ہیں ان کے درمیاں نفرتیں پیدا کرنے والے ناعاقبت اندیش اور ملک سے مخلص نہیں ہیں۔پی پی پی شہری و دیہی تفریق کے خاتمے کے لئے ماضی کی روش ختم کرے اور مخلصانہ طور پر ہر سیاسی جماعت کا مینڈیٹ تسلیم کرے ، لیکن اپنی مخالفت میں کسی بھی جماعت کو دیوار سے لگانے کے بجائے سینے سے لگائے تو بہتر ہوگا۔ریاستی جبر ، سازشیں اور سیاسی متشدد دشمنیاں ملک کو کھوکھلا اور ملک دشمن عناصر کو مضبوط بنانے کا سبب بنتی ہے۔ہمیں ماضی سے سبق حاصل کرکے کسی کو کمزور کرنے کیلئے سیاسی حکمت عملی کے بجائے ریاستی طاقت کے استعمال سے گریز کرنا ہوگااور یہی واحد حل ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744544 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.