کھٹن راستوں کے مسافر

پاکستان کو درپیش مسائل میں سرفہرست دھشت گردی،بدحال معیشت،امن و امان کی خرابی،مہنگائی اور بجلی و گیس کی عدم دستیابی ہے سچائی کی آنکھ سے دیکھا جائے تو یہ سب مسائل ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے پیدا کردہ ہیں مگر پاکستانی عوام انھیں حکمرانوں اور سیاستدانوں سے خیر کی آس لگائے انھیں بار بار مسند اقتدار پر بٹھاتے ہیں۔دھشت گردی،معیشت کی تباہی،امن و امان کی خراب حالت اور مہنگائی کا نہ رکنے والا طوفان درحقیقت ایک ہی دریا کی ندیاں ہیں جنکا رخ موڑنے اور اہل پاکستان کو ان کی حشر سامانیوں سے بچانے والا کوئی نہیں۔اس بات پرتو سبھی متفق ہیں کہ موجودہ دہشت گردی کا مرکز قبائلی علاقے ہیں جہاں پاکستانی طالبان بیٹھے پورے ملک کا نظام تہہ و لا کیے ہوئے ہیں۔ طالبان، طالبانائیزیشن اور ان کے مقاصد پر مغربی اور پاکستانی صحافیوں سے بہت کچھ لکھا اور ہر ایک نے اپنی اپنی سوچ و سمجھ کے مطابق طالبان کے کردار و عمل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا مگر کسی بھی لکھنے والے نے افغان مہاجرین افغان حکومت بھارت اور امریکہ سمیت مقربی ممالک کے کردار پر کچھ نہیں کہا۔
ظاہر ہے کہ مغربی ممالک سمیت دنیا بھر میں امریکہ کے اتحادی اور باگزار ممالک کے صحافی اور دانشور کسی نہ کسی طریقے اور بہانے سے امریکہ، بھارت اور ان کے اتحادیوں کے وظیفہ خوار ہیں۔ہمارے بہت سے سینئر صحافی اتنے سینئر تو نہیں مگر دولت مند ضرور ہیں۔یہ دولت کہاں سے آئی ہے اسپر نہ تو ازخود نوٹس ہے نہ آڈٹ،احتساب اور نہ ہی کوئی دوسری طرح کا حساب و کتاب ان صحافیوں کے پاس دولت کے اتنے انبار ہیں کہ اسکے لئے ایک کتاب نہیں بلکہ کتاب لکتاب درکار ہے۔شائد میں غلطی پر ہوں مگر میرے نزدیک یہ لوگ نہ تو سینئر صحافی ہیں اور نہی ہی قلمکار۔قلم پکڑنے والے ہاتھ کو زیب نہیں دیتا کہ وہ رشوت کا لفافہ،پرمٹ یا پھر پلاٹ کا آلاٹ نامہ پکڑے اس طرح سینئر صحافی کہلوانے کیلئے ایک طویل تجربے ،تحقیق اور مشائدے کا ہونا ضروری ہے۔ہمارے ہاں سینئر صحافی کہلوانے کے حقدار صحافت کے سپہ سالار جناب ڈاکٹر مجید نظامی ہیں دیگر سینئر صحافیوں میں جناب اشر چوہان،جناب اجمل نیازی،جناب اسداﷲ غالب،جناب ضیا شاہد،جناب مجیب الرحمٰن شامی،جناب عارف نظامی،جناب عبدالقادر حسین اور ان صاحبان قلم و علم کے ہمنوا ،ہم عمر،ہم تجربہ اور ہم رتبہ وہ دانشور ہیں جنھوں نے اپنے قلم کی عزت عظمت کی بھر پور حفاظت کی اور عزت و احترام کی دولت سے مالا مال ہوئے۔اس برادری کے بہت سے قلمکار کے خیالات سے تو اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کے کردار و عمل پر نقطہ اٹھانا مجال ہے۔آزاد میڈیا نے جسطرح بہت سے پردہ نشینوں کو بے پرد کہا اور ان کے اصل شکل و صورت سے عام لوگوں کو بھی متعارف کروایا وہیں صحافت بھی بے نقاب ہوئی اور ڈالروں کے عوض قلم کا سودا کرنیوالوں کے چہرے بھی سامنے آگئے۔آج کے دور میں جو بھی شخص ٹیلی ویژن دیکھتا ہے موبائل فون استعمال کرتا ہے انٹرنیٹ تک رسائی رکھتا ہے یا پھر اخبار پڑھتا ہے اسے پت اسے پتہ ہے کہ کونسا صحافی،اینکر،تجزیہ نگار اور مبصر کس سیاسی جماعت،سرکاری ادارے،این جی او،کمرشل ادارے،سیٹھ،نودولیئے سیاستدانوں اور مافیا کا تنخواہ دار اور وظیفہ خوار ہے۔
صحافت کے نام پر کاروبار کرنیوالے اس قبیلے کے ہوس و حرس کی کوئی حد نہیں یہ لوگ غیر ملکی جاسوس اداروں اور حکومتوں کیلئے بھی کام کرتے ہیں اور ان کے نظریات و خیالات کا نہ صرف پرچار کرتے ہیں بلکہ ان کے گھناؤنے منصوبوں کو پائیہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں ان کی بھر پور مدد بھی کرتے ہیں۔ان لوگوں کے بیرون ملک اکاؤنٹ ،ذاتی محلات،کاروبار اور طویل چھٹیوں کے دوران شاہانہ لائف سٹائل کا پرچار ان کے کردار و عمل کا گواہ ہے مگر اس کاروبار سے منسلک احباب کو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر قانونی ،معاشی اور کاروباری تحفظ حاصل ہے۔کوئی صحافی یا صحافتی ادارہ ان پر تنقید کی جرأت نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی آواز ان کے گھناؤنے کاروبار کے خلاف اٹھ سکتی ہے۔سھبی جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے مافیا،دہشت گردی،لوٹ مار اور کرپشن کی سیاست کے خلاف آواز اٹھائی وہ صفحہ حستی سے ہی مٹ گئے۔ستم ظریفی یہ کہ کٹھن راہوں کے ان مسافروں کا خون با آسانی طالبان کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے اور ان کی یاد میں چند موم بتیاں جلا کر حقیقت کو فریب میں بدل دیا جاتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ صحافت کی عظمت کو دوام بخشنے والے ان جانشاروں کو طالبان نے قتل نہیں کیا اور نہی ہی یہ قلمکار طالبان کے خلاف لکھتے تھے۔البتہ یہ لوگ دھشت گردی میں ملوث مافیا اور طالبان کی آڑ میں سیاسی اور معاشی دہشت گردی پھیلانے والوں کا کھوج لگانے کی کوشش میں ضرور رہتے تھے۔یہ لوگ واٹر مافیا،لینڈ مافیا،بجلی گیس مافیا اور آئل مافیا کے سرغنوں اور کارندوں کی کارستانیوں کا کھوج لگاتے لگاتے اپنی زندگی کی بازی ہار گئے مگر حکومت اور عدلیہ نے انھیں طالبان کے کھاتے میں ڈالکر فائلیں بند کردیں۔
آپ کسی بھی اخبار کا مطالعہ کریں یاکوئی بھی ٹیلیویژن چینل دیکھیں آپ کو چار قسم کے موضوع پڑھنے ،دیکھنے اور سننے کو ملینگے،اول فوج،عدلیہ اور آئی ایس آئی کے خلاف چٹکلے،دبی زبان اور ذومعنی الفاظ میں طعنے اور گالیاں۔دوئم مہنگائی،بجلی ،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور عدم دستیابی۔سوئم بھارت نوازی اور کھلی تجارت کے حق میں دلائل اور چہارم دہشت گردی اور امن و امان کا مسئلہ کوئی بھی لکھنے اور بولنے والا تقریباً ایک کروڑ رجسٹرڈ اور آن رجسٹرڈ افغانیوں کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرتا اور نہ ہی حکومتیں ان کی واپسی میں دلچسپی لیتی ہیں۔اگر افغان مہاجر واپس چلے جائیں تو پاکستان میں سمگلنگ،ٹیکس چوری،دہشت گردی اور مہنگائی کے پچاس فیصدمسائل حل ہوسکتے ہیں اگر لینڈ مافیا اور آئل مافیا پر قانون کی گرفت ہو تو بجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتیں نہ صرف کم ہو جائیں گی بلکہ ہر جگہ پٹرول دستیاب بھی ہوگا۔اسی طرح اگر حکومت عدلیہ،فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف ہزرہ رسائی کرنیوالوں کو لگام دے تو یہ ادارے کھل کر اپنا کام کرینگے اور حالات میں بہتری کے بھی امکانات ہونگے مگر حکومت فی الحال جوہڑ میں مچھلیاں پکڑنے اور من موھن کا من بہلانے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کرتی۔حضرت امیر خشروؒ کاشعر ہے
سلیتے میں میخ نہ رکھیو
لشکر میں شیخ نہ رکھیو

اگر بوری میں میخ رکھ دی جائے تو وہ آہستہ آہستہ نیچے جاکر ایک بڑا سوراخ کر دیتی ہے اور بوری(سلیتے)میں رکھا اناج ضائع ہوجاتا ہے اسطرح لشکر(فوج)اور حکومت میں کاروباری لوگوں کے اثرورسوغ سے فوج اور حکومت کمزور اور آخر کار نا کام ہوجاتی ہے کہ فوج ملک سے زیادہ ڈی ایچ اے کو بچانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔اسطرح فوج کو پانی ساکھ سے زیادہ ڈی ایچ اے کی ساکھ پیاری ہے خدا جانے یہ کالم نگاروں،ٹیلی ویژن اینکروں اور فرمائیشی مہمانوں کا ذاتی مشغلہ ہے یا انھیں فوج کی جانب سے پیش قدمی کا کوئی اشارہ ملا ہے چونکہ فوج نے نہ تو اسکی تردید کی ہے اور نہ ہی تائید کی ہے۔فی الحال خاموشی نیم رضامندی کا سماں ہے جو کسی طور پر اچھا شگون نہیں۔جناب فیصل رضا عابدی کا فرمان ہے کہ ڈی ایچ اے غریب فوجیوں کی ویلفیئر کا ادارہ ہے۔پتہ نہیں عابدی صاحب کو کس نے یہ خبر دی ہے۔ڈی ایچ اے غریب فوجیوں کا نہیں امیر کبیر جرنیلوں،ارب پتی پراپرڈی ڈیلروں اور کاروباری لوگوں کا ادارہ ہے۔ڈی ایچ اے میں غریب فوجی صرف سیکیورٹی گارڈ اور کروڑ پتی رہائشیوں کے ذاتی ملازم ہیں۔غریب فوجیوں کا ادارہ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ تھا جہاں غریب اور سفید پوش ریٹائرڈ فوجی اپنی بچت رکھتے تھے اور انھیں ماہانہ کچھ رقم ملک جاتی تھی جس سے انکی دال روٹی چل جاتی تھی۔حال ہی میں یہ ادارہ بھی بند کر دیا گیا ہے اور جن فوجی جوانوں اور ریٹائرڈ افسروں کے کچھ پیسے تا حال جمع ہیں اسپر منافع انتہائی کم کر دیا گیا ہے تاکہ یہ لوگ مایوس ہوکر اپنی بچت نکلوالیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جو دانشور اور قانون دان کل تک فوج اور عدلیہ کو برابر حرف تنقید بنائے ہوئے تھے وہ آج ڈی ایچ اے کے غم میں عدلیہ کے خلاف بولتے نہیں تھکتے۔ایک معزز اور سینئر صحافی نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ہم مسلسل بھونک رہے ہیں مگر اس پر کسی دوسرے صحافی یا کالم نگار نے کچھ نہیں لکھا حالانکہ یہ توہین صحافت ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ آج ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں سچ کی سزا موت اور عدل وانصاف اب قصہ ماضی ہے۔ ملک کی حفاظت کرنے والے اداروں کے خلاف اندرونی اور بیرونی حملہ آور صف آراء ہیں اور عدلیہ کو مسلسل دباؤ میں رکھنے کے نت نئے منصوبے بن رہے ہیں ہر طرف دہشت گردوں اور قسم قسم کے مافیاجات کی حکمرانی ہے اور ہر عزت دار سفید پوش اوررزق حلال کمانے والا مشکل اور کٹھن راہوں کا مسافر ہے۔ صحافت کی کتابوں میں پڑھا تھا اور استادوں نے پڑھایا تھا کہ صحافی غریب اور مظلوم کی آواز اور بے کس وبے بس کی فریاد ہیں۔ صحافی کا قلم ظلم وجبر کے خلاف تلوار جیسا اثر رکھتا ہے اور وہ ظالم وجابر حکمرانوں کے دلوں پرنشتر کی طرح زخم لگاتا ہے صحافی کٹھن راہوں کامسافر ہوتا ہے جسے قدم قدم پر مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے آزاد میڈیا اور بیباک اینکروں کی خوش گفتاری اور صحافت کے علمبرداروں کی سیاسی وفاداری نے پہلی بار صحافت میں نئی اصطلاع متعارف کروائی ہے کہ صحافی بھونکتا بھی ہے۔ امید ہے کہ اس اصطلاع پر سینئر صحافی اور سینئراینکر ضرور لکھیں گے اور بولیں گے اب تو محاورے بھی الٹ گئے ہیں جو گرجتے ہیں وہ برستے بھی ہیں اور جوبھونکتے ہیں وہ کاٹتے بھی ہیں۔اپنا خیال رکھیئے گا ۔ اگر کسی گھر کے گیٹ پر لکھا ہوں کہ کتوں سے ہوشیار رہیں تو مطلب سمجھ جائیں کہ یہاں کتا نہیں کاٹنے والا بندہ رہتا ہے۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100653 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.