سیاست، صحافت اور طوائفیت

روزانہ اخبارات اور ٹی وی دیکھتے ہوئے کوفت ہوتی ہے کہ کس طرح جہالت کا پرچار کیا جا رہا ہے،عوام کو بے خبر، گمراہ رکھا جا رہا ہے،مخصوص معاملات کو مخصوص انداز میں اچھالا جا رہا ہے،عوام کی توجہ مطلوب امور پر ہی مرکوز کئے رکھنے ،بعض امور کو اچھالنے،اکثر اہم امور کو سرسری انداز میں رکھنے کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ عوامی رائے اور عوامی مفاد کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔صرف ایک عشرے میں ہی نجی ٹی وی چینلز ہماری سماجی اقدار کو گراوٹ کے منفی انداز میں تبدیل کرنے کا ’’ہدف ‘‘ حاصل کر چکے ہیں۔فوری نتیجے کے حوالے سے نجی ٹی وی چینلزکی دھوم ہوئی لیکن سوشل میڈیا نے ٹی وی چینلز کو بھی مات دینا شروع کر دی ہے۔سوشل میڈٖیا نجی ٹی وی سے بھی تیز اور نتائج کے اعتبار سے موثر تر ہے۔جیسا کہ ہمارے معاشرے میں جہالت کا چلن ہے اور جہالت کی ہی حکمرانی ہے اور شاید اسی تناظر میں چند ہی سال پہلے سے ہمیں جاہل ملک کہا جانے لگا۔گزشتہ روز خیال آیا کہ ہمارے ملک میں سیاست اور صحافت برائے فروغ جہالت ہے۔ملک کے دونوں اہم آرگن جہالت کی ترویج جہالت کے تحفظ اور جہالت کی ہی حکمرانی کو قائم و ائم رکھنے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتے ہیں۔اسی حوالے فیس بک پہ ’’سیاست، صحافت اور طوائفیت میں فرق کے سوال پر اچھا تبادلہ خیال ہوا ۔ موضوع دیتے ہوئے پہلا اظہار بھی مناسب ہوتا ہے۔

سیاست۔ہمارایک ا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم ان حقیقی سیاسی جماعتوں سے محروم ہیں جو ملک و عوام کو سوچ و عمل کا راستہ دیتی ہیں۔اس کے بجائے خاندانی، شخصی،علاقائی اور فرقہ واریت کی بنیاد پرمختلف گروپ موجود ہیں اور اس انداز سیاست میں حصول مفادات بنیادی شرط ہے۔جس طرح ٹارگٹ حاصل کرلینا ہی کامیابی تصور ہوتی ہے،صحیح یا غلط کو اہمیت نہیں دی جاتی،اسی طرح ہماری سیاست میں مادی مفادات کا حصول ہی متمع نظر ہے۔اس کے لئے سیاست دانوں کی بد کرداری کے ایسے ایسے نظارے دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر ’’طوائفیت‘‘ بھی شرما جائے۔ایک ضروری بات کہ پاکستان کے اس انداز سیاست کے بانی معمار مرحوم جنرل ایوب خان ہیں اور وہی تسلسل چلا آ رہا ہے۔ یہی بات اگر آزاد کشمیر کے تناظر میں دیکھی جائے تو ہم اکثر آزاد کشمیر کے حقوق کے لئے واویلا کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو آزاد کشمیر حکومت کی گراوٹ،مسلسل انحطاط پزیری کی بڑی اور نمایاں ذمہ داری بحیثیت مجموعی آزاد کشمیر کے ارکان اسمبلی ،لیڈروں پر عائید ہوتی ہے جو اقتدار کی ناجائز مٹھاس چوسنے کے لئے ’’طوائفیت‘‘ کا کوئی بھی انداز اپنانے پر ’’مجبور‘‘ ہو جا تے ہیں۔

صحافت۔ صحافی کی اہلیت،قابلیت اور کردار کے حوالے سے میں صحافت کو ’’ پیغمبری‘‘ پیشہ کہتا اور سمجھتا ہوں۔میری نظر میں کردار کا تبھی پتہ چلتا ہے جب کسی بھی پیشے سے وابستہ اصول پر مادیت کی قربانی دینے کو تیار ہو،ورنہ وجوہات اچھے جواز پیدا کر ہی دیتی ہیں۔جی ہاں جو چند درست جملے لکھ نہیں سکتا وہ اب صحافی ہے۔ہماری صحافت میں کمیشن ایجنٹ قسم کے افراد بہت کامیاب ہیں۔سرمایہ داروں کی اجارہ داری قائم ہوجانے کے بعدہماری صحافت مکمل طور پر عوام کو بے خبر،گمراہ رکھنے، ان کے توجہ مخصوص مطلوب امور پر مرکوز رکھنے،مفادات کے حصول کے انسٹرومنٹ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ہماری صحافت اپنے ماضی سے بے خبر ،لاتعلق نظر آتی ہے۔ناقابل افراد کی تو بات ہی کیا ،ہماری صحافت کے قابل افراد بھی اپنے ہنر کو مفادات کے نکتہ نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔ہماری صحافت کی مجموعی صورتحال دیکھتے ہوئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں فروغ جہالت میں ہمارا میڈیا نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔مفادات کے لئے ہماری صحافت ’’ طوائفیت‘‘ کا کوئی بھی روپ دھارنے کو’’ ہمہ تن تیار‘‘ رہتی ہے۔انہی خرابیوں،برائیوں کے علاوہ مختلف بنیادوں پر پایا جانا والا تعصب بھی ہماری صحافت کا ایک خاصہ ہے۔ہماری صحافت کا مجموعی عمل اور تاثر یہی ہے ۔

صحافی کا مطلب ہی باخبرہونا ہوتا ہے لیکن حکومتی ،سرکاری،فوجی،انٹیلی جینس و دیگر امور کی سوچ و اپروچ سے صحافی اکثر نابلد ہوتے ہیں،جانتے ہیں تو مخصوص و محدود انداز میں۔مطالعہ اور حصول علم ایک اچھے صحافی کا خاصہ ہوتا ہے ۔ انسان کو سیکھنے کا موقع اچھے ،بڑے انسانوں سے کتابوں وغیرہ کی نسبت کہیں زیادہ ملتا ہے لیکن افسوس اب ایسے افراد نظر بھی نہیں آتے جو اپنی نہیں دوسروں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے تھے،اجتماعی سوچ و انداز رکھتے تھے اور نہ ہی اب ہمارے معاشرے کے صحافیوں میں حصول علم کی تڑپ اور کوشش نظر آتی ہے۔ایک صحافی،قلم کار کو ہمیشہ سوالات کے جواب کے لئے تیار رہنا چاہئے،لیکن سوال کرنے والے کو جج /کوتوال کی طرح انداز حاکمیت نہیں اپنانا چاہئے،ایک صحافی،قلم کار کو کچھ بھی لکھتے ہوئے اس بات کا پورا احساس و خیال رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی اس بات کے لئے جوابدہ ہے۔آخر میں ’’ سیاست ، صحافت اور طوائفیت‘‘ کی مماثلت بھی بیان کر دوں کہ سیاست ملک و عوام کے لئے اپنی بہترین صلاحیتوں کو اس طرح برائے کار لانا ہے کہ اس سے خود یا رشتہ داروں کے لئے مادی مفادات حاصل نہ کئے جائیں۔صحافت بھی یہی معیار اپنائے ہوئے ہے۔لیکن اگر حصول مفادات ہی متمع نظر ہو تو ایسی سیاست ،صحافت اور طوائفیت میں کوئی فرق نہیں۔فرق ہے تو وہ یہ کہ طوائفیت کے کچھ اصول ہوتے ہیں جن پر کار بند رہا جاتا ہے لیکن سیاست و صحافت کار اپنے اصول بھول کر ایسے اصول اپنا چکے ہیں جس میں کوئی اصول نہیں ہوتا۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698992 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More