انتخابی جائزوں کا معروضی جائزہ

ہندوستان کو ویسے تو دنیا کی سب وسیع ترین جمہوریت کہلانے کا اعزاز حاصل ہے اور جمہوریت میں بظاہر اکثریت یا اس کے نمائندے حکومت کرتے ہیں مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ پچیس سالوں میں ہونےوالے یکے بعد دیگرےسات عدد انتخابات کسی ایک جماعت کو اکثریت سے نہیں نواز سکے۔اس طرح ہر مرتبہ کوئی ایک اقلیت کسی دوسری اقلیت کی مدد سے اقتدار پر قابض ہو گئی۔ قومی ترقی پسند محاذ کی اس میقات کا یہ آخری سال ہے یہی وجہ ہے کہ دن بدن سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام الناس پر بھی انتخابی بخار چڑھنے لگا ہے۔

قومی ترقی پسند محاذ کوگزشتہ انتخاب میں غیر متوقع شاندار کامیابی حاصل ہوئی تھی اور اڈوانی جی کےوزیر اعظم بننے کا خواب چکنا چور ہوگیا تھا ۔ اس کا فائدہ اٹھا کر آرایس ایس نے اپنے وفادار نتن گڈکری کو بی جے پی کاصدر بنا دیا۔ یہ ہندوستان کی حزب اختلاف کا تاریک ترین دور تھا جس نےبی جے پی کوسیاسی حاشیے پر پہنچا دیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب یوپی اے میں شامل ترنمل کا نگریس کاشور شرابہ بی جے پی سے زیادہ تھا اور یہ دائیں بازو کی جماعتیں حکومت کی مخالفت میں پیش پیش تھیں اور بی جے پی ان کا بغل بچہ نظر آرہی تھی۔ اناہزارے اور اروند کیجریوال ذرائع ابلاغ پر چھا ئے ہوئے تھے ایسے میں نتن گڈکری کی بدعنوانیوں کا پردہ فاش کرکے کانگریس نےنریندر مودی کی راہ ہموار کردی۔

کانگریس پارٹی ؁۲۰۱۴ کی ابتداء میں حسبِ روایت زوروشور کے ساتھ بدعنوانیوں میں غرق تھی کہ ماہِ جنوری کے اندر انڈیا ٹوڈے نے اپنا انتخابی جائزہ شائع کردیا ۔اس جائزے کے مطابق اگر اس وقت انتخابات منعقد ہوتے تو کانگریسی محاذ کو ۲۵۹ کے مقابلے صرف ۱۵۷ حلقۂ انتخاب پر کامیابی حاصل ہوتی اس لئے کہ اس کے تناسب ِ ووٹ میں ۷ء۷ فیصد کی کمی واقع ہوچکی تھی۔ نتن گڈکری کے سبب بی جے پی چونکہ بحران سے گزررہی تھی اس لئے اسےصرف ۶ء۱ کا فائدہ ہوا تھا اور اس وقت تک قومی جمہوری محاذ کے ووٹ کا تناسب یو پی اے سے ۷ء۰فیصد کم تھالیکن اس کے باوجوداس توقع کا اظہار کیا گیا کہ وہ ۲۰۳ نشستوں پر کامیاب ہو جائے گا۔ دیگر جماعتوں کے بھی ۱۲۵ سے ۱۸۳ تک پہنچ جانے کاامکان ظاہر کیا گیا تھا جبکہ ان کو حاصل ہونے والی ووٹ کا اندازہ ان دونوں سے کہیں زیادہ یعنی ۷ء۴۴ فیصد تھا ۔

کانگریس کو چاہئے تھا کہ وہ اس سروے کو سنجیدگی سے لیتی اور اسے اپنے لئے خطرے کی گھنٹی سمجھتی اس لئے کہ اس میں پہلی بار وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کےحق میں ۳۶ فیصد لوگوں کی رائے سامنے آئی تھی جو اگست ؁۲۰۱۲کی بنسبت ۱۵ فیصد زیادہ تھی جبکہ راہل گاندھی کے حق میں ۲۲ فیصد رائے تھی جس میں پہلے کے مقابلے۱۲ فیصدکا اضافہ تھا۔ جب رائے دہندگان سے دیگر امیدواروں کو ہٹا کر صرف مودی اورراہل کے درمیان انتخاب کرنے کو کہا گیا تو ۵۷ فیصد نے مودی کو پسند کیا اور۴۱فیصد رائے راہل کے حق میں آئی ۔واضح رہے کہ اس سروے کے بعد ہی کانگریس نے راہل گاندھی کو نائب صدر بنا کر بلاواسطہ اپنا وزیراعظم کا امیدوار بنایا اور بی جے پی نےمودی کو انتخابی مہم کا سربراہ بنا کر کانگریس کی پیروی کی ۔

ان اعدادو شمارسے عبرت پکڑنے کے بجائےکانگریس بدستور بدعنوانی کی راہ پر گامزن رہی اوراپنی نااہلی کا مظاہرہ کرتی رہی۔ اس دوران نریندرمودی کی مخالفت کرکرکے اسے ہیرو بنا نے کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر کام اس نے نہیں کیا جبکہ بی جے پی نے راہل گاندھی سے صرفِ نظر کرکے اسے زیرو بنا دیا ۔ نریندر مودی کی مقبولیت اضافے میں سب سے مؤثر کردارکانگریس کے ترجمان دگوجئے سنگھ نےاپنے اوٹ پٹانگ بیانات سے ادا کیااور اسے خبروں میں بنائے رکھا۔ اس سروے کے دوران جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ ان کے معیار زندگی پر حکومت کس طرح اثر انداز ہوئی تو عوام کا ردعمل چونکا دینے والا تھا ۵۵فیصد کے مطابق کوئی خاص بہتری نہیں آئی ۲۳ فیصد نے بہتری کا اعتراف کیا لیکن ۲۲ فیصد نے ابتری کی شکایت بھی کی ۔ معاشی اصلاح کے علمبردار ترقی پسند محاذ نے اس انکشاف کو بھی نظر انداز کردیا ۔ اس جائزے میں کرناٹک سے متعلق جو پیش گوئی کی گئی تھی وہ تقریباً درست ثابت ہوئی اس لئےاسےباآسانی مسترد نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔

اس سال ماہِ اپریل کے اندر ٹائمز چینل نے سی ووٹر کی مدد سے ایک اور انتخابی جائزہ لیا اور اس کے اعدادوشمار نے بھی ترقی پسند محاذ کے زوال پذیر ہونے کا مژدہ سنایا اور اس کا فائدہ بی جے پی کے بجائے دیگر علاقائی جماعتوں کی جھولی میں ڈالا ۔ اس جائزے کے مطابق کانگریس کے پہلے کی بنسبت۲۰۶ نشستوں کے مقابلے صرف ۱۱۳ پر سمٹ جانے کا اشارہ کیا گیااور اس کے حامیوں کو مزید ۱۵ یعنی کانگریسی محاذ محض ۱۲۸ نشستوں پر کامیابی کا امکان ظاہر کیا گیاجبکہ بی جے پی کے محاذ کو صرف ۱۶۰ سیٹوں پر کامیاب قراردیا گیا۔ اس طرح یہ دونوں محاذتو ۲۷۲ کے نشان سے کوسوں دور تھے مگر بی جے پی کی نشستیں کانگریس کے ۱۱۳کی مقابلے۱۴۱ تھیں گویا اسے کانگریس پر۲۸ سیٹوں کی سبقت حاصل ہو گئی۔

بی جے پی کا بڑا فائدہ دہلی و راجستھا ن میں دکھلایا گیا تھا جہاں پر کانگریس نے پچھلی بار زبردست کامیابی درج کرائی تھی۔ کانگریس کا بڑا نقصان اترپردیش اور آندھرا پردیش میں ہورہا تھا ۔بی جے پی بہار اور کرناٹک میں خسارے میں تھی لیکن اس جائزے کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ دیگر جماعتوں کا تیسرامحاذ جس میں سماجوادی پارٹی(۳۵)،ترنمل اور اےآئی ڈی ایم کے(۲۷)،دایاں بازو اور بی ایس پی(۲۶)،جنتادل یو(۱۹)، بی جے ڈی(۱۳)،وائی ایس آر کانگریس(۱۲) کے سب سے زیادہ ۱۶۰ مقامات پر کامیابی کے روشن امکانات سامنے آئے تھے گوکہ یہ تعداد جنوری کے مقابلے قدرے کم تھی لیکن پھر بھی اس کی مقبولیت کی توثیق ضرورہوئی تھی۔

ٹائمز کے مندرجہ بالا سروے کے ایک ماہ بعد جنوبی ہندوستان کے ایک معتبر جریدے ’’دی ویک‘‘ نے ایک انتخابی جائزہ لیا اور بتایا کہ آئندہ انتخاب میں قومی جمہوری محاذ کو ۱۹۷ جبکہ متحدہ ترقی پسند محاذ کو ۱۸۴ نشستیں ملیں گی ۔ تیسرے محاذ کو ۱۶۲ نشستوں پر قناعت کرنا ہوگا ۔اس سروے کے مطابق گوکہ متحدہ محاذ کےووٹ کا تناسب جمہوری محاذ سے ۵ فیصد زیادہ تھا اس کے باوجود انہیں کم نشستوں پر کامیابی کا امکان ظاہر کیا گیا تھا ۔ ہندوستانی انتخاب میں یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے اس لئے کہ اس سے قبل کئی مرتبہ اس طرح کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے ۔ تیسرے محاذ کیلئے ان دونوں سے زیادہ ۴۱ فیصدووٹ مگر سب سے کم نشستوں پر کامیابی کی قیاس آرائی کی گئی تھی ایسا پہلےبھی ہوچکا تھا ۔

اول الذکر سروے کی طرح اس بار بھی نریندر مودی کو سب سے زیادہ مقبول (۳۲%) قرار دیا گیا جبکہ کانگریسی خیمے میں رائے کو منقسم بتایا گیا یعنی منموہن سنگھ کے حق میں ۱۵%تو راہل کے حق میں ۱۳%۔لیکن جب لوگوں سے یہ سوال کیا گیا کہ بی جے پی کے اندر سب سے زیادہ مقبول کون ہے تو ۵۶%کی رائے مودی کے حق میں تھی جبکہ کانگریسیوں کے درمیان انتخاب کے سوال پرراہل گاندھی کو ۲۵%لوگوں نے ترجیح دی تھی۔تیسرے محاذ کے امیدواروں میں نتیش کمار ۱۸%رائے کے ساتھ سرِ فہرست تھے جبکہ ممتا اور مایا کےنام کی ۱۵%لوگوں نے توثیق کی تھی۔ اس جائزے میں عوام سے یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ کن مسائل کو اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں ؟ اس کے جواب میں سب سے زیادہ ۲۱%لوگوں کااحساس تھا کہ غربت کا خاتمہ اہم ترین مسئلہ ہے جبکہ ۱۷%نے بجلی ،پانی اور سڑک کی فراہمی کو اہم قرار دیا۔ ۱۳%کے نزدیک مہنگائی میں اضافہ سب سے اہم مسئلہ تھا ۔ اس جائزے یہ ظاہر ہوگیا کہ ملک کی عوام نے بدعنوانی اور فرقہ پرستی کے مسائل پر سپر ڈال دی ہے اور وہ اس بابت مایوسی کا شکار ہوگئے ہیں اس لئے کی ساری سیاسی جماعتیں اس حمام میں یکساں طور پر برہنگی کا شکار نظر آتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی سے ان کے خاتمے کی توقع نہیں کرتے۔

ماہِ جولائی کے اواخر میں دی ہندواور سی این این آئی بی این چینل کا ایک مشترکہ سروے سیڈی ایس سی کے تعاون سے منظر عام پر آیا ۔ اس تفصیلی جائزے میں کانگریس رائے دہندگان کی تعداد میں ایک فیصد کی کمی اور بی جے پی کے ووٹرس میں آٹھ فیصد کا اضافہ دکھلایا گیا تھا ۔ یوپی اے اور این ڈی اے کے ووٹ کا تناسب تو یکساں طور پر ۲۹ فیصد تھا مگر سیٹوں کی تعداد میں ۲۳ کا فرق این ڈی اے کے حق میں تھا ۔ اس سروے کے مطابق یو پی اے کو حکومت سازی کیلئے نہ صرف ڈی ایم کے، ایس پی ،جے ڈی یو،بی جے ڈی ،ٹی آر ایس اور جے ڈی ایس بلکہ وائی ایس آر کانگریس و بی ایس پی کو بھی ساتھ لینے کی ضرورت تھی جبکہ این ڈی اے کیلئے اے آئی ڈی ایم کے کے علاوہ بی جے ڈی،ٹی ایم سی،ٹی ڈی پی ا ور اے جی پی کا ساتھ لینا ناگزیر بتایا گیاتھا ۔

انفرادی سطح پر اس سروے میں منموہن سنگھ کو سب سے زیادہ پسندیدہ اور سب سے کم ناپسندیدہ سیاستداں قراردیا گیا تھا جبکہ راہل کی مقبولیت مودی سے۲% زیادہ بتلائی گئی تھی لیکن مودی کو ناپسند کرنے والے راہل سے۲% کم تھے اس طرح حساب برابر ہوجاتا تھا ۔صرف راہل کا مودی سے تقابل کرنے پر مودی کو راہل پر۲%برتری حاصل ہوجاتی تھی نیز جنوبی ہندوستان میں راہل تو شمال میں مودی آگے نظر آتا تھا جبکہ ممتا اور نتیش کی مقبولیت تقریباً یکساں تھی ۔ ان کے بعد مایاوتی اور سب سے کم ملائم سنگھ کو مقبول بتلایا گیا تھا ۔اس طرح گویا تیسرے محاذ کے رہنما کے کے طور نتیش کمار کو دیگررہنماؤں پر فوقیت دلائی گئی تھی۔

ٹائمزچینل نے سی ووٹر کی مدد سے اسی اثناء میں ایک سروے کیا اور اس کے نتائج بھی مندرجہ بالا جائزے سے مشابہ نکلے۔ اس کے مطابق کانگریسی محاذ کو۹۲ نشستوں سے ہاتھ دھونا ہوگا مگر ان میں سے صرف ۲۴ بی جے پی محاذ کے ہتھے چڑھیں گی اس طرح ان کی تعداد ۱۵۶ سے آگے نہیں بڑھ سکے گی لیکن ۱۳۱ سیٹوں پر اپنی کامیابی درج کراکے بی جے پی کانگریس سے ۱۵ سیٹیں زیادہ حاصل کرلے گی۔ جے للیتا ،جگن ریڈی اور تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ سب سے زیادہ فائدے میں رہیں گے۔ اس معاملے میں ملائم اور مایا بھی پیچھے نہیں ہوں گے۔ بی جے پی اور جے ڈی یو کی لڑائی کا فائدہ لالو کو ہوگا۔ممتا اور نوین اپنا قلعہکی مدافعت میں کامیاب ہوجائیں گے۔

اس سلسلے کا آخری سروے پھر ایک بار انڈیا ٹوڈے اور سی ووٹر کی جانب سے ۱۵ اگست کو شائع ہوا جس نے اس سال انتخابی جائزوں کی ابتداء کی تھی ۔ اس جائزے میں کوئی نئی بات نہیں تھی بلکہ ہوا اسی رخ پر بہہ رہی تھی جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔یو پی اے اور این ڈی اے دونوں کو بالترتیب ۱۲۲ اور ۴ نشستوں کا خسارہ نیز تیسرا محاذ ۱۲۶ کے فائدے کے ساتھ اکثریت سے بالکل قریب ۲۵۱ پر پہنچ گیا تھا گویا اب اسے کانگریس یا بی جے پی کسی کی حمایت کی مطلق ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ اس چمتکار کیلئے تیسرے محاذ کے رائے دہندگان میں صرف ۲ فیصد کا اضافہ ہوتا تھا لیکن ان کی کل تعداد ۴۰ فیصد پر پہنچ جاتی تھی جبکہ یوپی اے ۸فیصد نقصان کے ساتھ ۲۸ فیصد پر اور این ڈی ۶ فیصد فائدے کے باوجود ۳۲ فیصدتک محدود تھی ۔

اس میں شک نہیں کہ ہر سروے ہمارے سامنے مختلف اعداد پیش کرتا ہے جس کی دو بنیادی وجوہات ہیں اول تو وقت کا فرق اور دوسرے ووٹ کے تناسب کو سیٹوں کی تعداد میں بدلنے کیلئے استعمال کئے جانے والے ا عدد کا فرق جو یکساں نہیں ہوسکتا لیکن اس کے باوجود جو رحجان صاف نظر آتا ہے اس میں ایک خاص یکسانیت ہے۔ سبھی نے تیسرے محاذ کو سب سے زیادہ بلکہ ۴۰ فیصدکے قریب ووٹ کا حقدار قرار دیا ۔سبھی میں بی جے پی کو کانگریس سے زیادہ نشستوں پر کامیابی کی بشارت دی گئی۔ ایک کے علاوہ سبھی نےمعلق پارلیمان کا مژدہ سنایا۔واضح اکثریت سے کسی جماعت تو کجا محاذکو بھی نہیں نوازہ گیا۔یہ حقائق قابلِ توجہ ہیں اور انہیں بی جےپی یا سنگھ پریوار کی سازش قرار دے کر مسترد نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ جنوبی ہندوستان کا اخبار ہندو اور جریدہ ویک ہمیشہ ہی فسطائیت کے خلاف رہے ہیں اور آئی بی این،انڈیا ٹوڈے اور ٹائمز نے اپنے اعتدال کا خیال رکھا ہے۔ اس لئے کانگریس اور اس کے محاذ کے لئے اس میں جوخطرہ ظاہر کیا گیا ہے وہ سنجیدہ توجہ کا محتاج ہے۔ ممکن ہے یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم کی مایوس کن تقریراس سے متاثر ہوئی ہو۔

نریندر مودی کی مقبولیت بھی ان تمام سروے کا ایک مشترک جز ہے۔چونکہ ہندوستان میں صدارتی نہیں بلکہ پارلیمانی نظام رائج ہے اس لئے کسی فرد کی مقبولیت حکومت سازی میں کوئی نتیجہ خیز کردار ادا نہیں کرتی۔کسی شخص کااس کی جماعت کے اندر یا باہر مقبول ہونا یا نہ ہونا اپنے آپ غیر اہم ہوجاتا ہے۔مثلاًجب بی جے پی کو حکومت سازی کا موقع ملا تو پارٹی کے اندر اٹل جی کے مقابلے اڈوانی جی زیادہ مقبول تھے لیکن دیگر حامی جماعتوں کے سبب اٹل جی کواقتدار سونپا گیا۔ اس وقت جو مسئلہ اڈوانی جی کا تھا وہی اب مودی کا ہے۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ دیگر حامی جماعتوں کی اسے حمایت حاصل ہو جائے ایسے میں اقتدار کی خاطرجس بی جے پی اڈوانی کو کچرے کی ٹوکری میں ڈال دیا وہ مودی کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے گی۔غیر مقبول افراد کا اقتدار کی زمام کار سنبھال لینا بھی ایک عام سی بات ہے مثلاً دیوے گوڑا اور اندرا کمار گجرال کو وزیر اعظم بننے سے قبل کون جانتا تھا ؟ کم و بیش یہی حالت نرسمھا راؤ اور منموہن سنگھ کی بھی تھی۔ مودی کی مقبولیت میں ۱۸ سے ۲۰ فیصد مسلمان بتلائے گئے ہیں ۔جائزہ لینے والوں کو یہ مودی کے حامی مسلمان کہاں اور کیسے میسر آگئے؟ یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔

قومی انتخابات میں ابھی ۹ ماہ کا عرصہ باقی ہے اور سیاسی بساط پر مزیدکئی چالیں چلی جانی ہیں۔ ہندوستانی رائے دہندگان چونکہ عقل سے زیادہ جذبات سے کام لیتے ہیں اس لئے ان کو اپنے قابو میں کرنے کیلئے بنیادی مسائل مثلاًمہنگائی، بے روزگاری،استحصال،بدعنوانی یا انسانی حقوق کی پامالی (جس میں مسلم نوجوانوں کے ساتھ کیا جانے والا ظالمانہ سلوک شامل ہے)کے بجائے ہنگامی مسائل میں الجھا دینا سہل تر ہوتا ہے۔ چونکہ تمام ہی قومی یا علاقائی جماعتوں کی کسی نہ کسی ریاست میں حکومت ہے نیزکانگریس کو مرکز میں بھی اقتدار حاصل ہےاوریہ جماعتیں ان امور میں مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہیں۔ مودی نے اگر عشرت جہاں کے انکاؤنٹر کا سیاسی فائدہ اٹھایا تومہاراشٹرکی کانگریسی حکومت بھی جیل کے اندر قتیل صدیقی کے قتل کی مرتکب ہوئی اور سماجوادی پارٹی نے خالد مجاہد کو شہید کروادیا۔

اس بات کا قوی امکان ہے کہ عوام کو رجھانے کی خاطر انتخاب سے قبل ممکن ہے کانگریس گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی یا دہلی کے فسادات جیسا کوئی ہنگا مہ کھڑا کردے۔ اس کا بھی امکان ہے کہ بی جے پی رام مندرکی تحریک یاگودھرا جیسی آگ لگا کر اس پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کی سعی کرے۔یہ بھی ہوسکتا ہے پوکھرن جیسا کوئی دھماکہ یا کارگل جیسی کوئی نورا جنگ چھیڑ دی جائے۔کسی اسیماآنند یا ٹنڈا کو گرفتار کرکے اس کے ذریعہ نت نئی کہانیاں نشر کرائی جائیں۔ پارلیمان یاممبئی کے تاج ہوٹل پر حملہ جیسا کوئی ڈرامہ کھیلا جائے اور رائے عامہ کا رخ یکسر موڑ دیا جائے۔ گاندھی جی کےدور میں ہندوستانی سیاست سبزی خوربکری کی مانند تھی جو گھاس کے ساتھ بادام پستہ بھی کھاتی تھی لیکن اندرا گاندھی کے زمانے تک وہ آدم خور چیتے میں تبدیل ہو گئی اور انسانی لہو اس کے منھ لگ گیا۔ اب یہ ایک خطرناک کھیل ہے جس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اقتدارکی اس جنگ میں سب کچھ جائزاور مباح ہے۔

قرآن مجید میں جا بجا ”وقت“ کی قدر و اہمیت کے روشن حوالے ملتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورة الفجر میں وقتِ فجر اور عشرہ ذوالحجہ کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”فجر کے وقت کی قسم اور دس راتوں کی قسم۔“ سورة الضحیٰ میں وقت چاشت کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا: ”قسم ہے وقتِ چاشت کی اور قسم ہے رات کے وقت کی جب وہ چھا جائے۔“ سورة العصر میں عصر کے وقت کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:”قسم ہے زمانے کی، انسان خسارے میں ہے۔“ یہ حقیقت ہے کہ گزرا ”وقت“ واپس نہیں آتا مگر آنے والا ہر لمحہ اور ہر صبح، طلوع ہونے والے سورج کی کرنوں سے پھوٹنے والی روشنی ”امید“ کا پیغام ضرور دیتی ہے۔انسان کے پاس سب سے نفیس ترین اور سب سے قیمتی چیز وقت ہی ہے۔ ہم اپنے عمل اور کوشش سے جو بھی حاصل کرنا چاہیں اس کی کامیابی کا راز وقت کے درست استعمال میں ہی پوشیدہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بالکل بجا ہے کہ وقت گزرتے ہوئے واقعات کا ایک دریا ہے، اس کا بہاﺅ تیز اور زبردست ہے، جونہی کوئی چیز اس کی زد میں آتی ہے اس کی لہریں اسے اپنے ساتھ بہالے جاتی ہیں۔ پھر اور کوئی شے اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ لیکن وہ بھی اسی طرح بہہ جاتی ہے، صدیاں ریت کے ذروں کی طرح گرتی جاتی ہیں۔

عربی کی مثال ہے”الوقت سیف قاطع“ وقت کاٹنے والی تلوار ہے۔ حکماءفرماتے ہیں کہ وقت سیال ہے، اسے کسی آن سکون نہیں۔ وقت ہمارے پاس اسی طرح آتا ہے جیسے کوئی دوست چپ چاپ بیش قیمت تحفہ جات اپنے ساتھ لاتا ہے لیکن اگر ہم ان سے فائدہ نہ اٹھائیں تو وہ اپنے تحائف سمیت چپکے سے واپس چلا جاتا ہے اور پھر کبھی واپس نہیں آتا۔ کھوئی ہوئی دولت محنت اور کفایت شعاری سے حاصل ہوسکتی ہے۔ کھویا ہوا علم مطالعہ کے ذریعے پاسکتے ہیں۔ کھوئی ہوئی تندرستی دوا سے مل سکتی ہے لیکن کھویا ہوا وقت لاکھ کوششوں کے باوجود بھی دوبارہ حاصل نہیں ہوسکتا، بعد میں انسان کو یہ سبق حاصل ہوتا ہے”پن چکی“ اس پانی سے نہیں چل سکتی جو بہہ گیا ہو۔ وقت گزر جانے پر افسوس بے نتیجہ ہے، پھر پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں جُگ گئیں کھیت، وقت کے فوت ہونے پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد ایک جگہ رقمطراز ہیں: ”عرب کے فلسفی ابوالعلاءمعری نے زمانہ کا پورا پھیلاﺅ تین دنوں کے اندر سمیٹ دیا ہے۔ کل جو گزچکا ہے، آج جو گزر رہا ہے، کل جو آنے والا ہے۔ لیکن تین زمانوں کی تقسیم میں نقص یہ تھا کہ جسے ہم ”حال“ کہتے ہیں وہ فی الحقیقت ہے ہی کہاں؟ یہاں وقت کا جو احساس بھی ہمیں میسر ہے، وہ یا تو ”ماضی“کی نوعیت رکھتا ہے یا ”مستقبل“ کی اور انہی دونوں زمانوں کا ایک اضافی تسلسل ہے جسے ہم ”حال“ کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ماضی اور مستقبل کے علاوہ وقت کی ایک تیسری نوعیت بھی ہمارے سامنے آتی رہتی ہے۔ لیکن وہ اس تیزی کے ساتھ آتی اور نکل جاتی ہے کہ ہم اسے پکڑ نہیں سکتے، ہم اس کا پیچھا کرتے ہیں، لیکن ادھر ہم نے پیچھا کرنے کا خیال کیا اور ادھر اس نے اپنی نوعیت بدل ڈالی، اب تو ہمارے سامنے ”ماضی“ ہے جو جاچکا، یا ”مستقبل“ ہے جو ابھی آیا ہی نہیں، لیکن خود ”حال“ کا کوئی نام و نشان دکھائی نہیں دیتا، جس وقت ہم نے پیچھا کرنا چاہا تھا وہ ”حال“ تھا اور جو ہماری پکڑ میں آیا ہے، وہ ”ماضی“ ہے اور اگر حقیقت حال کو اور زیادہ نزدیک ہوکر دیکھیں تو واقعہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کی پوری مدت ایک صبح شام سے زیادہ نہیں، صبح آنکھیں کھلیں، دوپہر امیدوبیم میں گزری، رات آئی تو پھر آنکھیں بند۔

ہر طلوع ہونے والا دن پکار پکار کر کہتا ہے: ”اے انسان! میں ایک نوپید مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہے تو کرلے، میں تو اب قیامت تک لوٹ کر نہیں آﺅں گا۔“ حدیث میں ہے:”مومن کے لیے دو خوف ہیں، ایک عاجل ، جو گزر چکا ہے، معلوم نہیں خدا اس کا کیا کرے گا اور ایک آجل جو ابھی باقی ہے، معلوم نہیں اللہ اس میں کیا فیصلہ صادر فرمائے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی طاقت سے اپنے نفس کے لیے دنیا سے آخرت کے لیے جوانی سے بڑھاپے کے لیے اور زندگی سے قبل از موت کچھ نفع حاصل کرلے۔“ وقت سے کام لینے والے اس تھوڑی سی زندگی میں کیا سے کیا بن گئے، اس کے بر خلاف جنہوں نے اپنا وقت ضائع کیا وہ ساری زندگی پچھتاتے رہے۔

الغرض وقت ایک ایسی دولت ہے جو ہر شخص کو یکساں عطا ہوئی ہے۔ جو لوگ اس سرمائے کو معقول طور سے اور مناسب موقع پر کام میں لاتے ہیں،جسمانی راحت اور روحانی مسرت انہیں کو نصیب ہوتی ہے۔ وقت ہی کے صحیح استعمال سے ایک وحشی مہذب بن جاتا ہے، جاہل عالم بنتا ہے، مفلس تونگر بنتا ہے، ناداں دانا بنتا ہے۔ وقت ضائع کرنا ایک طرح کی خودکشی ہے، فرق اتنا ہے کہ خودکشی ہمیشہ کے لیے زندگی سے محروم کردیتی ہے اور اوقات کا ضیاع ایک محدود زمانے تک زندہ کو مردہ بنادیتا ہے۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1239183 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.