سب نے دیکھا تو کیا دیکھا

 ملک بھر کے عوام نے اسلام آباد میں پانچ گھنٹے سے زیادہ جو منظر دیکھا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ صرف شہر اقتدار ہی نہیں پورا ملک اﷲ پاک کے سہارے چل رہا ہے۔ ایک مسلح شخص نے انتظامیہ کی ناک میں دم کیے رکھا۔ ریڈ میں جہاں پرندہ نہیں گزر سکتا وہاں پر یہ شخص آگیا۔ یہ اس کی چالاکی ہے یا سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں کی غفلت اس کا پردہ تو تحقیقات کے بعد ہی چاک ہوگا۔ وہ پولیس کے گھیرے میں گھنٹوں ہوائی فائرنگ کرتا رہا۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا دہشت گرد تھا جس نے کسی انسان پر نہیں ہوائی فائرنگ کی۔ وہ چاہتا تو دونوں گنوں سے اندھا دھند فائرنگ کرکے بہت سے افراد کو موت کے گھاٹ اتار سکتا تھا اور پھر خود بھی مارا جاتا۔ اس نے پولیس کے جسموں پر تو کوئی فائر نہیں کیا تاہم اس نے اس کے ہوش وحواس پر ضرور فائر کیے۔ جس کی وجہ سے وہ پانچ گھنٹوں تک اس سے ہتھیار ڈلوانے یا اس کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔ ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان اور دو سیاستدانوں نے بھی اس سے مذاکرات کیے مگر کسی کو بھی کامیابی نہ مل سکی۔ دیکھا جائے تو اس واقعہ میں سو فیصد پولیس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ وزیر داخلہ نے اس شخص کو زندہ گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔ پولیس اس کو زبردستی گرفتار کرنے کی کوشش کرتی تو وہ فائر کھول دیتا اور گرفتار کرنے کی کوشش کرنے والے اس کی فائرنگ کی زد میں آسکتے تھے۔ اس کے ساتھ اس کے بچے بھی تھے۔ بچوں کے سامنے باپ پر فائر کھولنا کسی بھی طرح مناسب نہیں تھا۔ یہی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے اس کو گرفتار کرنے میں تاخیر ہوئی۔ اس کی ذمہ داری وزیرداخلہ چوہدری نثار علی نے قبول کر لی ہے۔ یہ بھی ایک اچھی بات ہے کہ انہوں نے یہ ذمہ داری کسی اور پر ڈالنے کی بجائے اپنے اوپر ڈال لی۔سابق چیئر مین بیت المال زمرد خان نے بچوں سے ملنے کے بہانے جھپٹ کر اس کو پکڑنے کی کوشش کی تاہم وہ بچ نکلا ۔ زمرد خان نے پھر اس کو ٹانگوں سے پکڑنے کی کوشش کی اس نے پھرتی سے ٹانگ بھی چھڑا لی اور ہوائی فائرنگ شرع کر دی۔ اس دوران اس پر فائرنگ کر دی گئی۔ جس سے زخمی ہو کر وہ گر پڑا۔ پھر اس کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔ جو کام زمرد خان نے کیا وہی کام ایک تربیت یافتہ کمانڈو بڑی آسانی سے کر سکتا تھا۔ اسلام آباد واقعہ پر ملک بھر میں بحث چھڑ گئی ہے۔ وزیر داخلہ کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ یہ شخص یہاں پہنچا کیسے۔اس کو روکا کیوں نہیں گیا۔ انہوں نے اس کے تمام ذمہ داروں کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ ایک شخص انتہائی سخت سیکیورٹی زون میں آسکتا ہے تو ایک سے زیادہ جرائم پیشہ افراد بھی آسکتے ہیں۔ یہ تو ایک شخص تھا اس کے پاس صرف دو گنیں تھیں۔ اس کے علاوہ بارود وغیرہ نہیں تھا۔ جس طرح یہ بلیو ایریا میں پہنچنے میں کامیاب رہا ۔ کوئی خود کش بمبار ہوتا ۔ ایک ہوتا یا ایک سے زیادہ ہوتے۔ اور وہ خود کو بم سے اڑا دیتے تو پھر یہ سیکیورٹی کیا کر سکتی تھی۔ یہ خود کش بمبار پارلیمنٹ ہاؤس پر حملہ کر دیتے تو اس کا نقصان پوری قوم کا نقصان ہوتا ہم پھر وہی مذمتیں کرتے رہ جاتے۔ بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ بات ہورہی تھی کہ اس شخص کے یہاں پہنچنے میں سیکیورٹی اہلکاروں کی ناکامی اپنی جگہ اس بات کو بھی کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی اکیلا شخص یہ سب کچھ نہیں کر سکتا۔ سکرین پر تو یہی ایک شخص دکھائی دیا تاہم سکرین کے پیچھے کون ہے اس کا سراغ لگایا جانا ضروری ہے۔ اگرچہ اس کا کہنا ہے اس کارروائی میں وہ اکیلا ہے۔ تاہم وہ اکیلا نہیں ہو سکتا۔ ہمارا قیاس یہی کہتا ہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے اس کو زندہ گرفتار کرنے کا حکم بھی اس لیے دیا تاکہ اس سے تفتیش کرکے یہ پوچھا جا سکے کہ سکرین پر تو آپ دکھائی دیے ۔ اس سکرین کے پیچھے کون کون ہے۔ ان کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ یہ شخص اکیلا نہیں اس کے ساتھ اور کوئی نہ کوئی ضرور ہے۔ اس کی گاڑی سے متعدد پاسپورٹ بھی برآمد ہوئے ہیں۔ ان پاسپورٹوں کی مدد سے معاملہ سمجھا جا سکتاہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس کاذہنی توازن درست نہیں ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ منشیات کا عادی ہے۔ جس طرح اس نے پانچ گھنٹے اسلام آباد کی پولیس کو الجھائے رکھا۔ اس سے تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ شخص نہ تو پاگل ہے اور نہ ہی یہ منشیات کا عادی ہے۔ اس نے ایس ایس پی اور دو سیاستدانوں کے ساتھ مذاکرات ناکام بنا دیے۔ اس نے ان تینوں میں سے کسی کی بات نہیں مانی۔یا یوں کہہ لیں کہ وہ ان تینوں کی باتوں میں نہیں آ یا ۔ تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔ ایسا ہوتا تو وہ کسی نہ کسی کی باتوں میں آ جاتا۔ یہ ایک تربیت یافتہ شخص تھا۔ وہ اطمینان کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہا۔ اس کے بچے بھی سکون کے ساتھ گھوم پھر رہے تھے۔ ان سب کو کسی قسم کا خوف ہی نہیں تھا۔ اس نے گرفتاری دینے اور ہتھیار ڈالنے سے بھی انکار کردیا۔حالانکہ اس کو چاروں طرف سے پولیس نے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ جب کوئی تنہا ہو اور پولیس کے گھیرے میں ہو اور وہ کوئی بات ماننے ، ہتھیار ڈالنے اور گرفتاری دینے سے انکار کردے ۔ اس سے کیا اخذ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ تحقیقات کرنے والوں کا کام ہے۔ کیا اس کو الہام ہوا تھا کہ وہ جو کچھ کرتا رہے اس کو جان سے نہیں ما را جائے گا۔ یا اس کو اس بات کی یقین دہانی کسی اور نے کرائی تھی کہ وہ اطمینان کے ساتھ اپنا کام کرے ۔ اس کو جان سے نہیں مارا جائے گا۔ سیکیورٹی اہلکاروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اپنی جگہ ایسی کوئی بات نہیں کہ وہ کسی کو چیک ہی نہیں کرتے ۔ یہ کوئی عام شخص ہوتا تو ضرور کسی نہ کسی چیک پوسٹ پر روک لیا جاتا۔ اس کا بلیو ایریا میں پہنچ جانا اور پولیس کو کسی خاطر میں لانا اس بات کی گواہی ہے کہ وہ کوئی عام شخص نہیں تھا۔ عام شخص نہ تو ایسے سخت حفاظتی علاقہ میں جا سکتا ہے وہ تو اس طرف جانے کا سوچتا بھی نہیں۔ کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ اس کو اس طرف جانے بھی نہیں دیا جائے گا۔ یہ کسی خاص شخص کا خاص آ دمی تھا۔ اس کی بیوی نے بھی اس کا بھر پور ساتھ دیا۔ رپورٹوں کے مطابق کئی ایسے مواقع بھی آ ئے کہ اس کو آسانی سے گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ اسے گرفتار نہیں کیا گیا۔ پولیس تو اس کو نہ پکڑ سکی ایک سیاستدان نے چند منٹ میں اسے پکڑوادیا۔ یہ بھی محض اتفاق تھا زمرد خان کے حصے میں نیک نامی آ گئی یا یہ بھی کوئی طے شدہ پلاننگ تھی۔ وہ یہاں ازخود آئے تھے یا اس کو کسی نے بھیجا تھا۔ اس راز سے بھی پردہ اٹھایا جانا چاہیے۔زمرد خان ایسے شخص کے پاس خالی ہاتھ چلے گئے جس کے پاس دو گنیں تھیں۔ وہ اپنے نزدیک آنے دینے سے پہلے ہی فائر کھول سکتا تھا۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں تجزیہ نگاروں نے ایک اہم بات کی ہے کہ یہ پتہ چلانے کی ضرورت ہے کہ گذشتہ تین چار دنوں میں اس کی ملاقاتیں کس کس سے ہوئیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ یہ پتہ بھی چلایا جائے کہ وہ بار بار کس سے فون پر بات کرتے رہے۔ اگر وہ از خود آ ئے تھے ان کو کسی نے نہیں بھیجا تھا تو موبائل فون پر وہ کس کے ساتھ بات کررہے تھے۔ اس کے سسر کے مطابق وہ مذہبی رجحان رکھنے والا ہے۔ نماز روزے کا پابند ہے۔ تو کیا اس کی اس کارروائی کو مذہب کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے۔مذہب تو ایسی کارروائیوں کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر وہ مولوی بھی نہیں تھا۔ جو اس کی اس کارکردگی کو مذہب کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔ نماز روزے کے پابند ہونے سے کوئی مذہبی تو نہیں ہوجاتا۔ جس طرح مسلمان اﷲ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق عبادات کرتے ہیں ۔ اسی طرح دیگر مذاہب کے پیروکاربھی اپنے اپنے مذہب کے مطابق پرستش کرتے ہیں۔ توان کو مذہبی اور جنونی کیوں نہیں کہا جاتا۔ اس لیے مسلح شخص سکندر کی نماز روزے کی پابندی کو اس کی اسلام آباد کے بلیو ایریا میں کارروائی کے ساتھ منسلک نہیں کیاجاسکتا۔اس کا سسر اس کو ہتھیار ڈالنے اور قانون ہاتھ میں نہ لینے کا مشورہ دیتا رہا۔ اس نے سسر کی بھی نہیں مانی۔ اس کے سسر کے مطابق وہ مری سیر کرنے کیلئے گیا تھا۔ ایسا ہی ہے تو وہ بلیو ایریا میں کیسے آگیا۔ ویسے بھی پڑھی لکھی فیملی کا فرد ازخود ایسی کارروائی نہیں کرسکتا۔ اس نے اسلامی نظام نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ۔ یہ بھی اس نے اصل کہانی کو چھپانے کیلئے جواز بنایا ہے ورنہ ایسے مطالبات ایسے نہیں کیے جاتے۔یہ باریش ہوتا تو اس کو طالبان کا نام دے دیا جاتا۔ کیونکہ یہ کلین شیو تھا اس لیے اس کی کارکردگی کو طالبان کے کھاتے میں بھی نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس کو گرفتار کرنے میں تاخیر کی ذمہ داری وفاقی وزیرداخلہ نے قبول کرلی ہے ۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ کس کے کہنے پر ہوا اس کی ذمہ داری یہ الفاظ لکھنے تک کسی نے قبول نہیں کی۔ وہ ایوان صدر کی طرف جارہا تھا۔اسے اس طرف نہ جانے دیا تو یہاں آگیا اور ہوائی فائرنگ شروع کردی۔ اس نے ایوان صدر کی طرف رخ کیوں کیا۔ کیا اس کی منصوبہ بندی میں اس کے علاوہ اور کچھ بھی شامل تھا۔ جو وہ نہ کرسکا یا اس نے یہ سب کچھ اس کے متبادل کے طور پر کیا۔ اس نے جو مطالبات کیے وہ بھی ہنگامہ کھڑا کرنے کا وقتی جواز ہی تھے۔ اس کا یہ کہنا کہ یہ پولیس اس کے سٹینڈرڈ کی نہیں ہے کیا ثابت کرتا ہے۔ اس نے بریگڈیئر بشارت علی شاہ کی گارنٹی کیوں مانگی۔ اس کو پولیس کے کسی بھی آفیسر پر اعتماد نہیں تھا۔ جیسی شرائط اس نے بتائی اس لحاظ سے وہ خود اس معیار کا نہ ہوا تاہم وہ جس کو اس نے بھیجا ہے وہ جو کوئی بھی ہے وہ اس معیار کا ضرور ہے کہ پولیس کی بات مانتے ہوئے یا اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی سبکی ہوتی ہے۔ اس بات کو یوں سمجھنے کی کوشش کریں کہ کسی مزدور کا ضلع کے ڈی سی او سے کام ہے اور وہ کسی صوبائی وزیر کا رقعہ لے کر اس کے پاس جاتا ہے ۔ تو وہ اس کا کام کردے گا یا اس کی مناسب رہنمائی کردے گا۔ وہ ایسا رقعہ لے کر آنے والے کو دیکھ کر نہیں کرے گا بلکہ وہ اس صوبائی وزیر کو دیکھے گا جس نے رقعہ بھیجا۔ اس کو گرفتار کرنے میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے دھمکی دی تھی کہ اس نے خود کش جیکٹ پہن رکھی ہے۔ اگر اس پر فائرنگ کی گئی تو وہ پھٹ جائے گی۔ جس کی نقصان کی ذمہ داری پولیس پر عائد ہوگی۔ اس سے ایک سوال ابھرتا ہے کہ زمرد خان اس کو پکڑنے کیلئے جارہا تھا تو کیا اس کو نہیں بتایا گیا کہ اس نے خودکش جیکٹ کی دھمکی دی ہے۔ اگر اس کو ایسا بتایا گیا تو وہ اس کو پکڑنے کیلئے کیوں گئے۔ اس میں بھی کوئی بات ہے۔ اس کے اس دعویٰ کی تصدیق بھی معاملہ سمجھنے میں مدد دے گی کہ وہ دبئی میں صدر آصف زرداری کی بیٹیوں کا سیکیورٹی گارڈ رہا ہے۔ اس کی یہ بات جھوٹ ثابت ہو جائے تو اس کے خلاف فراڈ کا مقدمہ بھی درج ہونا چاہیے۔ رپوٹوں کے مطابق وہ چند سال دبئی میں مقیم رہا ہے۔ وہاں سے وہ پاکستان آیا تو اس نے پارلیمنٹ ہاؤس کا رخ کیوں کیا۔ اس کا رخ پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف نہیں ایوان صدر کی طرف تھا۔ اس طرف سے ناکامی کے بعد اس نے ادھر کا رخ کیا۔ وہاں پاکستان کے دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں سرگرم ہیں۔ یہ کسی ایجنسی کا ایجنٹ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہییں اس کا تعلق کسی بھی پاکستان دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی سے ثابت ہوجائے تو اس کے خلاف غداری کا مقدہہ قائم ہونا ضروری ہے۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا اس وقت تو سکندر کی بیوی اس کا پورا پورا ساتھ دے رہی تھی۔ اس نے کمانڈو کی طرح گن بھی تھامی اور اس کی نگاہیں بھی چاروں طرف تھی ۔ یوں وہ چوکنا ہوکر کھڑی رہی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس کے بچے مجاہد ہیں۔ اجمل نیازی درست ہی لکھتے ہیں ’’کہ اس کا مطلب ہے کہ میاں بیوی ایک ہی ارادے سے آئے تھے۔ ‘‘اس نے ایم کیو ایم کے فاروق ستار اور نبیل گبول سے بات کرنے کی بات کیوں کی۔ یہ محض ایمم کیو ایم کو اس معاملہ میں مشکوک کرنے کا حربہ تھا یا کوئی اور بات اس سے بھی پردہ اٹھا یا جانا چاہیے۔ نبیل گبول نے مسلح شخص سے مذاکرات کیے وہ ناکام رہے۔ انہوں نے نبیل گبیل کی چوائس خود کی تھی پھر اس کی بات کیوں نہیں مانی۔ یا ان کے مطالبات ایسے تھے جن کی گارنٹی دینے کی وہ پوزیشن میں نہیں تھے۔ اس کی بیوی مذاکرات کرنے آنے والی تمام شخصیات اور سکندر کے درمیان قاصد کا کردار بھی ادا کرتی رہی۔ جب سکندر گرفتار ہوگیا تو اس کی بیوی بدل گئی۔ اس نے بیان دیا کہ یہ گھر میں تشدد کرتا ہے ۔ اس کے ارادوں کا پیشگی علم نہیں تھا۔ ہنگامہ کے وقت وہ اپنے شوہر کا ساتھ مجبور ہوکر دے رہی تھی یا اس کی اس میں رضا مندی شامل تھی۔ اس کی مجبوری بھی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ شوہر ایسے ہوتے ہیں وہ اپنی بیویوں کو آرڈر جاری کرتے ہیں کہ ہم جو کہیں تم نے اس پر عمل کرنا ہے یہ نہیں پوچھنا کہ ہم نے کیوں کہا اور تم نے یہ کام کیوں کرنا ہے۔ اس کی بیوی کو واقعی سکندر کے ارادوں کا پیشگی علم نہیں تھا تواس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس نے اپنے ایجنڈے کو خفیہ رکھا تھا۔ کہیں اس میں رکاوٹ نہ آجائے۔ یا اس کی منصوبہ بندی کا راز فاش نہ ہو جائے۔ وہ گھر سے سیر کے بہانے سے نکلا تھا۔ یہ طے شدہ پروگرام کے تحت ہی آیا تھا۔ اگر وہ پولیس کے آپریشن میں مارا جاتا تو بہت سے راز اس کے ساتھ ہی دفن ہوجاتے۔ اب وہ زندہ گرفتار ہے تو بہت سے رازوں کا پردہ فاش کرایاجاسکتا ہے۔ معاملہ کی تہہ تک جانے کیلئے کمیٹیاں بھی بنادی گئی ہیں۔ یہ کمیٹیاں اور تفتیش کرنے والے معاملہ کی تہہ تک پہچنے کی کوشش ضرور کریں گی۔ چند سیاستدانوں کے سوا سب زمرد خان کے کردار کی بھی تعریف کر رہے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں کا زمرد خان کو خراج تحسین پیش کرنے کو اہمیت نہ بھی دی جائے کہ یہ ان کی پارٹی کے تھے اس لیے یہ تعریفیں کررہے ہیں۔ ان کے اس اقدام کو عوام نے بھی قابل تعریف کہا ہے اور سب سے بڑی بات کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ان کے اس اقدام کو سراہا ہے۔ اور چیف جسٹس کسی غلط کام کو نہیں سراہتے۔ ان کے اس اقدام سے پیپلز پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا ملا ہے۔ وہ مسلح شخص کو پکڑنے میں تو کامیاب نہ ہو سکے تاہم پیپلز پارٹی کی ساکھ کو تھامنے میں ضرور کامیاب ہوگئے ہیں۔ان اک یہ اقدام پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی نظروں میں کیسا تھا اس بارے یہ ادارے ہی بتا سکتے ہیں۔ تاہم پولیس افسروں نے تحقیقاتی کمیٹی کو بیان دیا ہے کہ سکند میڈیا سے دور بات چیت کیلئے تیار تھا زمرد خان نے حکمت عملی ناکام بنا دی۔ آخر میں ہم میڈیا کی تعریف ضرور کریں گے ۔ وہ اس لیے کہ ہم نے اس موضوع پر جس نے بھی لکھا ہے اس نے میڈیا پر تنقید ہی کی ہے۔ کہ ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ویسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میڈیا اس کو اہمیت نہ دیتا اس کی لائیو کوریج نہ کرتا تو یہ ہو سکتا تھا وہ ہو سکتا تھا۔ اس آزاد میڈیا کا کیا فائدہ جو قوم اندھیرے میں رہتی۔ وہ گرفتار بھی ہو جاتا اور کوئی بات ثابت نہ ہونے یا اس کی ذہنی کیفیت کو بنیاد بنا کر پولیس اس کو چھوڑ دیتی تو کوئی کہتا کہ اس کو شک کی وجہ سے گرفتار کیا تھا۔ اب معاملہ کلیئر ہونے پر چھوڑ دیا ہے تو کوئی اس کو مک مکا کا نام دیتا۔ میڈیا نے اس کی لائیو کوریج کرکے پولیس کو اس شرمساری سے بچا لیا ہے تو کیا اس نے غلط کیا۔ میڈیا سکندر کو کوریج نہیں دے رہا تھا وہ تو واقعہ کو کوریج دے رہا تھا۔ میڈیا کے ان نمائندوں کو تو ایف آئی اے میں تعینات ہونا چاہیے جنہوں نے چند گھنٹوں میں اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرلیں ۔ اس کے خاندان اور رشتہ داریوں کا ریکارڈ بھی نکال لیا اور یہ بھی پتہ کرالیا کہ وہ کہاں کہاں رہ چکا ہے اس کے رشتہ داروں کے تاثرات بھی لے لیے۔ جس کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس کی ماں نے کہا ہے کہ سکندر نے ملک کو بدنام کیا ہے اس کو سزا ملنی چاہیے۔ یہ سطور ارسال کرنے تک اہم انکشافات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ان سطور کی اشاعت اس سلسلہ میں اہم انکشافات سامنے آجائیں گے۔ اس ہنگامہ کو سب نے براہ راست دیکھا تو کیا دیکھا اصل کہانی تو اب سامنے آرہی ہے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 302896 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.