اگر آپ شطرنج کے کھیل سے واقف ہیں اور آپ شطرنج کے اچھے
کھلاڑی ہیں تو آپ سیاست میں بھی اچھی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ۔ شطرنج کے کھیل
کا اصول یہ ہے کہ جب آپ کوئی چال چلتے ہیں تو اگلی چالوں کا حساب لگاتے ہیں
کہ میں اگر یہ چال چلونگا تو میرا مخالف کیا کرئے گااور پھر میں کیا کرونگا،
اور اسطرح سولہ اگلی چالوں کا سوچ کرآپ ایک چال چلتے ہیں۔ اس ایک چال کا
مقصد ہوتا ہے مخالف کھلاڑی کو مات دینا۔ شطرنج کے کھلاڑی یہ بات ا چھی طرح
سے جانتے ہیں کہ شطرنج "بادشاہ کی بقاء" کی جنگ ہے۔ شطرنج کی بساط پر ہر
مہرے کی "قیمت" ہے۔اس کے چھ مہرے بادشاہ، وزیر، فیل،گھوڑا، ہاتھی اورپیادہ
ہیں۔ ہر مہرہ اپنی چال میں بے مثال ہے، اوریہ چھوٹے بڑے منفرد قدم اٹھائے
اپنے بادشاہ کی حفاظت پہ معمور ہوتے ہیں۔ شطرنج اور سیاست دونوں کھیلوں میں
کوئی خاص فرق نہیں۔شطرنج کی بازی سیاست اورسیاست کی بازی شطرنج کے اصولوں
پر کھیلی جاتی ہے۔
ضمنی انتخابات ہوچکے ہیں اور ان انتخابات سے مرکزی یا صوبائی حکومتوں پر
کوئی اثر نہیں پڑئے گامگر سیاسی طور پر بہت کچھ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف
عمران خان کی جیتی ہوئی دو قومی اسمبلی کی نشستوں پشاور اورمیانوالی سے
شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن شہباز شریف کی جیتی ہوئی راجن پور کی
نشست سے محروم ہوگی ہے۔ کےپی کے میں مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا
عطاالرحمن لکی مروت سے ہار گئے ہیں اورسندھ میں سانگھڑ سے پیرصدرالدین شاہ
کی خالی کردہ نشست پر پیپلزپارٹی کی شازیہ مری جیت گئی ہیں۔پگارہ خاندان کی
اس نشست پر پہلی بار ہار اور ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آج تک پیپلزپارٹی
کی پہلی کامیابی ہے۔ یہ ضمنی انتخابات پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑئے ضمنی
انتخابات تھے۔ ضمنی انتخابات میں تقریبا تمام ہی قومی جماعتوں نے حصہ لیا
تھا، مسلم لیگ ن ان انتخابات کے نتیجے میں سب سے زیادہ فاہدئے میں رہی ،
دوسرئے نمبر پر پیپلز پارٹی رہی جو 11 مئی کو اپنی خراب کارکردگی کی وجہ سے
صرف سندھ تک محدود ہوگی تھی۔ ضمنی انتخابات میں اگر سب سے زیادہ کسی سیاسی
جماعت کو سیاسی نقصان اٹھانا پڑا تو وہ ہے عمران خان کی پاکستان تحریک
انصاف۔ قومی اسمبلی کی نشست این اے ون پشاورون میں سب سے بڑااپ سیٹ ہواجہاں
پرعمران خان کی چھوڑی ہوئی نشست پراے این پی کے غلام احمدبلورنے تحریک
انصاف کے گل بادشاہ کوشکست دی، جبکہ عمران خان کی چھوڑی گئی نشست این اے
71میانوالی پرمسلم لیگ ن کے عبیداللہ شادی خیل نےکامیابی حاصل کرلی۔ضمنی
انتخابات سے صرف ایک دن پہلے تحریک انصاف نے 2500 صفحات پر مشتمل ایک وائٹ
پیپر بھی جاری کیا جس میں گیارہ مئی کے انتخابات والے دن بقول تحریک انصاف
جوانتخابی دھاندلیاں ہوئی تھی اُن کو اجاگرکیا گیا ہے۔ لیکن ضمنی انتخابات
کے نتیجے میں اُس وائٹ پیپرکی اب کوئی اہمیت نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ سو دن کسی بھی نئی آنے والی حکومت کا ہنی مون پیریڈ ہوتا
ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ سودن میں وہ حکومت نہ صرف کاروبار حکومت کو سمجھ
لے بلکہ اپنی آئینی مدت کی منصوبہ بندی بھی کرتی ہے کہ وہ کسطرح عوام سے
کیئے گے وعدئے اور عوام کی بھلائی کےلیے کام کرئے گی۔ ان سودن میں وہ ایسے
اقدامات بھی کرتی ہے جس سے عوام کو اُس حکومت کی موجودگی کا احساس بھی
ہوتاہےاور عوام کچھ کچھ تبدیلی بھی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن افسوس گیارہ مئی
سے پہلے ملک کے جوخراب حالات تھے گذشتہ سو دن میں ان حالات میں اور زیادہ
خرابیاں ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں مرکزی اور چاروں صوبائی حکومتیں ناکام نظر
آتی ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں تو حکومتوں کی تجدید ہوئی ہے ، بلوچستان میں
ایک نئے انداز میں مسلم لیگ ن کے اشتراک سے حکومت بنی ہے، اس حکومت کا حال
یہ ہے کہ صرف وزیراعلی ہے باقی کابینہ کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا
ہے۔ عام انتخابات کے نتیجے میں خیبر پختونخواہ یا کےپی کے میں پاکستان
تحریک انصاف کی حکومت بنی جس کے سربراہ عمران خان نے عام انتخابات میں ایک
نئے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا اور اُن کی جماعت پاکستان کی تیسری بڑی
سیاسی پارٹی بن کر ابھری، مگر افسوس کہ گذشتہ سو دن میں کےپی کے کی حکومت
نے بہت مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جس میں ڈیرہ اسمٰعیل خان جیل
پر حملہ صوبائی حکومت کی سب سے بڑی ناکامیابی ہے۔ امن وامان کی اصل ذمیدار
صوبائی حکومت ہوتی ہے جس میں صوبائی حکومت بری طرح ناکام رہی ہے۔ غرضیکہ
عمران خان کی ٹیم ابھی تک ناکام رہی ہے۔ اور آخری کام جو اس ٹیم نے کیا وہ
ہے عمران خان کی خود کی جیتی ہوئی دو قومی اسمبلی کی سیٹوں پر ہار جس کا
اثر یہ بھی پڑئے گا کہ خواتین کی مخصوص نشستوں میں کم از کم ایک سیٹ
کاتحریک انصاف کو نقصان اٹھانا پڑئے گا۔
کیا وجہ ہے کہ صرف سو دن بعد عمران خان ضمنی انتخابات میں اپنی جیتی ہوئی
قومی اسمبلی کی دو نشستیں کھوبیٹھیے۔ وجہ یہ ہے کہ عمران خان لیڈر تو بن گے
ہیں مگر اُن کو لوگوں کی پہچان نہیں ہے، اور اسکا ذکر وہ عام انتخابات کے
وقت یہ کہہ کر قبول کرچکے ہیں کہ انہوں نے کافی غلط لوگوں کو ٹکٹ دیئے ہیں،
اور شاید ان میں سے ایک خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی تھے۔ رہی
سہی کسر جب پوری ہوئی جب انہوں نے ضمنی انتخابات میں ایسے فیصلے کیے جو اُن
کےلیے سیاسی نقصان کا باعث بنے۔ میانوالی این اے 71 ان کی آبائی نشست تھی۔
2002 کے الیکشن میں یہ واحد نشست تھی جو عمران خان یا تحریک انصاف نے جیتی
تھی۔ اب عام انتخابات میں اہل میانوالی سے عمران خان کا وعدہ تھاکہ اُن کا
جینا مرنامیانوالی کے لوگوں کے ساتھ ہو گا۔ میانوالی کا بیٹا میانوالی سے
بیوفائی نہیں کرے گا لیکن انتخابات کے بعد انہوں نے راولپنڈی کی نشست این
اے 56 رکھی کہ یہاں ضمنی الیکشن میں حنیف عباسی کو ہرانا بہت مشکل ہوتا۔
عمران خان جو موروثی سیاست کے بے انتہا خلاف ہیں اُن کے اس موقف کی اس وقت
دھجیاں اڑ گیں جب عائلہ ملک نے اپنے بہنوئی اور سمدھی ملک وحید خان کو ٹکٹ
دلا دیا اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اپنی خالی کردہ نشست پر اپنے داماد کو
اور اسپیکر نے اپنی نشست پر اپنے بھائی کو ٹکٹ دلوادیا تھا۔ اور یہ فیصلے
اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ عمران خان مردم شناسی کے جوہرسے مکمل محروم
ہیں۔ پشاور کا نتیجہ تحریک انصاف کےلیے ایک بہت بڑا اپ سیٹ ہے۔ عام
انتخابات میں عمران خان نے غلام احمد بلورکو ایک بڑئے مارجن سے ہرایا تھا۔
اب صرف سو دن بعد پشاور سے غلام احمدبلور کا دوبارہ جیت جانا عمران خان کے
غلط فیصلے اورتحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی سو دن کی"ناکام کارکردگی" کا
ردعمل ہے۔
عمران خان جو کرکٹ کی دنیا کے ایک نامور کھلاڑی رہے ہیں انکو چاہیے کہ اب
وہ کرکٹ سے ریٹائر ہوجایں تو اچھا ہے کیونکہ کرکٹ کے بارئے میں کہا جاتا ہے
کہ کرکٹ "بائی چانس" کا کھیل ہے، کرکٹ ڈپلومیسی ہر وقت کامیاب بھی نہیں
ہوتی ۔کرکٹ اور سیاست کا کوئی جوڑ بھی نہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے شطرنج اور
سیاست کا جوڑ ہے لہذا عمران خان اگر شطرنج کے اصول کو سامنے رکھ کر اپنی
سیاست کو آگے بڑھایں تو کامیابی کے چانس ہیں۔ کیونکہ شطرنج کے کھیل کا اصول
یہ ہے کہ ایک چال چلنے سے پہلے اگلی سولہ چالوں کا حساب لگانا ہوتا ہے۔ اس
سلسلےمیں عمران خان کو اپنے مہروں پر خاص طور پر دھیان دینا ہوگا، اگر
پرویز خٹک، عائلہ ملک اور ہارون رشید جیسے مہرئے اُن کی بساط پر موجود رہے
تو بہت جلدوہ شہہ اور مات کا شکار ہوجاینگے۔ آخر میں عمران خان کو ایک
مشورہ ہے کہ راولپنڈی کی نشست این اے 56 جو اُن کے پاس باقی رہ گی ہے کم از
کم اُس حلقے کا ایک چکر ضرور لگالیں، سنا ہے وہ ابتک اُس حلقے میں نہیں گے
ہیں۔ |